Take a fresh look at your lifestyle.

روم و ایران کے خلاف صحابہ کا جہاد ۔ ابویحییٰ

۱ ۔ اسلام اور خلافت
اس آرٹیکل کا پہلا حصہ جہاں سے بات کا آغاز ہوا تھا اوپر دیئے گئے لنک پر دستیاب ہے

روم اور ایران کے خلاف صحابہ کرام نے جو جہاد کیا اس کی نوعیت کو درست طور پر نہ سمجھنے کی بنا پر بعض غلط فہمیاں پھیل گئی ہیں۔ ہمارے نزدیک اس جہاد کو اگر قرآن مجید اور تاریخ کی مکمل روشنی میں دیکھا جائے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ یہ دراصل اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کا ظہور تھا جو اس نے سورہ نور میں صحابہ کرام کے ساتھ کیا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے عملِ صالح کیے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا جو ان سے پہلے گزرے اور ان کے اس دین کو متمکن کرے گا جس کو ان کے لیے پسندیدہ ٹھہرایا اور ان کی اس خوف کی حالت کے بعد اس کو امن سے بدل دے گا۔ وہ میری ہی عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اس کے بعد کفر کریں گے تو درحقیقت وہی لوگ نافرمان ہیں۔” (نور24: 55)

یہی وہ بات ہے جس کی طرف (سورہ آل عمران 3: 27-26) میں اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اب دنیا کا اقتدار اپنے اِن وفادار بندوں کو دینے کا فیصلہ کرچکا ہے۔ تاہم عالم اسباب میں ایسا ہونا بہت مشکل تھا کیونکہ اس وقت دنیا میں دو عظیم ترین سپر پاورز موجود تھیں۔ کم و بیش پوری مہذب دنیا یا اس کا اکثر حصہ ان کے زیر تسلط تھا۔ ان کے وسائل لامحدود تھے اور طاقت بے انتہا۔ مگر اللہ کی حکمت کے تحت یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے مرحلہ دعوت میں ان دونوں میں زبردست جنگ شروع ہوگئی۔ پہلے ایرانی حکمران خسرو پرویز نے رومی سلطنت پر حملہ کر دیا۔ ایرانیوں نے رومیوں کو بدترین شکستیں دیں اور ان کی قوت کو بڑی حد تک ختم کر دیا۔ مگر عین اسی وقت یہ معجزہ ہوا کہ رومیوں کے تن مردہ میں جان پڑی اور ہرقل کی قیادت میں انھوں نے چند برسوں میں ایرانیوں کو پے درپے شکستیں دے کر اپنے سارے علاقے واپس لے لیے۔

قرآن کریم کی سورہ روم میں اسی واقعے کا بطور ایک پیش گوئی ذکر ہے۔ یہ پیش گوئی مکہ میں کی گئی اور عین جس وقت مسلمانوں کو کفار کے خلاف بدر میں فتح ملی رومی بھی ایرانیوں پر غالب آگئے۔ بالآخر ان میں صلح ہوگئی۔ اس کی وجہ یہ تھی دونوں لڑتے لڑتے تنگ آگئے تھے اور باہمی جنگوں کی بنا پر روم و ایران دونوں کی فوجی قوت بری طرح کمزور ہوچکی تھی۔

دوسری طرف کفار سے کئی جنگوں کے بعد عرب میں بھی صلح حدیبیہ ہوگئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور آپ کا پیغام چونکہ تمام دنیا کے لیے تھا اس لیے صلح حدیبیہ کے بعد آپ نے عرب کے ارد گرد موجود ریاستوں کے حکمرانوں کو اسلام کی دعوت کے خطوط لکھے۔ ساتھ میں کسری ایران خسرو پرویز اور قیصر روم ہرقل کو بھی خط بھیجے گئے۔ مگر ایرانی سلطنت کے حکمران کسریٰ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے نامہ مبارک کو چاک کر کے یمن میں موجود اپنے گورنر کو آپ کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔ جبکہ رومی حکومت کے گورنر شرجیل نے آپ کے سفیر کو قتل کر دیا۔ یہ گویا دونوں سپر پاورز کی طرف سے اعلان جنگ تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سپر پاور کی یہ نفسیات ہوتی ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کسی طاقت ور ریاست کو برداشت نہیں کرسکتیں۔ اور اسے شکست دینے کی بھرپور کوشش کرتی ہیں۔ تاہم جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ایران و روم کی باہمی جنگوں کی بنا پر ان کی فوجی قوت ماضی کے مقابلے میں بہت کمزور ہوچکی تھی۔

مسلمان مورخ عام طور پر اس تاریخی حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ تاہم درحقیقت خلافت راشدہ میں اگر ایرانی سلطنت کے پرخچے اڑ گئے اور رومی سلطنت کے دست و بازو کاٹ دیے گئے تو یہ دراصل اللہ کی خصوصی اسکیم کی بنا پر ہوا جس میں مسلمانوں کے ساتھ جنگ سے قبل ہی ان کی قوت بڑی حد تک ختم کی جاچکی تھی۔ اور گویا کہ یہ طے کر دیا گیا تھا کہ اب ان کے علاقے مسلمانوں کو انعام میں دے دیے جائیں گے۔

بہرحال روم و ایران نے جب مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کیا تو اس کے جواب میں مسلمانوں نے بھی جنگی اقدامات کیے۔ اس کی وجہ بالکل واضح تھی کہ سفیروں کو قتل کرنے والوں سے اگر شام کے محاذ پر جنگ نہیں کی گئی تو پھر وہ مدینہ پر حملہ کر دیں گے۔ چنانچہ پہلے جنگ موتہ ہوئی پھر جنگ تبوک۔ جنگ تبوک کے موقع پر قرآن کریم کا جو حصہ نازل ہوا اور جو اب سورہ توبہ کا حصہ ہے اسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ واضح طور پر یہ چاہتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کی پوری قوت اب اسی خارجی محاذ پر صرف ہونی چاہیے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی اسی منشا کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حین حیات ہی میں آپ نے ایک تیسرا لشکر بھی محاذ جنگ کی طرف روانگی کے لیے تیار کر لیا تھا۔ تاہم آپ کے انتقال کی بنا پر یہ لشکر سیدنا ابوبکر کے عہد میں روانہ ہوا۔

روم کے محاذ پر فوری کاروائی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ شام جو رومی سلطنت کا صوبہ تھا مدینہ سے بہت قریب تھا۔ چنانچہ اس خطرے کا فوری سدباب کرنا بہت ضروری تھا۔ جبکہ ایرانی سلطنت کا صوبہ عراق مسلمانوں کے مرکز یعنی مدینہ سے کافی دور تھا۔ تاہم ایرانیوں کا خطرہ بھی اتنا ہی شدید تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ایرانی بادشاہ خسرو پرویز نے اپنے تکبر کی بنا پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو معاذ اللہ گرفتار کرنے کا گستاخانہ اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کا صاف مطلب یہ تھا کہ جلد یا بدیر انھوں نے مسلمانوں پر حملہ کرنا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ خسرو پرویز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے عین مطابق مارا گیا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ یمن جو ایرانی سلطنت کے ماتحت تھا، اس کا گورنر باذان آپ کی پیش گوئی کی سچائی سے متاثر ہوکر ایمان لے آیا اور پھر پورا یمن مسلمان ہوگیا۔ یوں ایرانی سلطنت کے ہاتھ سے ایک انتہائی زرخیز صوبہ نکل گیا۔ یہ یقینی امر تھا کہ ایرانی اسے واپس لینے کے لیے جنگ کریں گے۔

تاہم خسرو پرویز کی موت کے بعد ایرانی سلطنت پے در پے اندرونی خلفشار میں گھر گئی۔ یہ ایک دفعہ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کی مدد تھی کہ وہ ایرانیوں کے حملے سے قبل ہی ان تمام بغاوتوں سے نمٹ لیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے فوراً بعد رونما ہوئیں۔ ان میں فتنہ ارتداد، جھوٹے نبیوں کا اٹھنا اور منکرین زکوٰۃ سب کی بغاوتیں شامل تھیں۔ چنانچہ سیدنا ابوبکر کی قیادت میں مسلمانوں نے جلد ہی ان تمام فتنوں کا سر کچل دیا۔ مگر سیدنا ابوبکر کی دور رس نگاہیں یہ دیکھ چکی تھیں کہ جنگ عربوں کی خصلت میں شامل ہے۔ عام عرب کسان نہیں تھے بلکہ ان کا پیشہ ہی جنگی کاروائی کر کے لوٹ مار کرنا تھا۔عرب میں کوئی فوج نہ تھی۔ عرب کا ہر آدمی سپاہی تھا۔

سیدنا ابوبکر نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ان کی جنگی صلاحیت کو کسی درست سمت میں نہیں موڑا گیا تو اس کا رخ دوبارہ مدینے کی طرف ہوجائے گا۔ چنانچہ انھوں نے اپنے اہم ترین فوجی کمانڈروں حضرت خالد بن ولید، مثنی بن حارثہ شیبانی اور قعقاع بن عمرو وغیرہ کو عراق پر حملے کا حکم دے دیا۔ یہی وہ پس منظر تھا جس میں مسلمان بیک وقت دنیا کی دو سپر پاورز سے ٹکرا گئے اور ہزاروں میل پر پھیلے شام و عراق کے محاذ پر بیک وقت جنگ شروع کر دی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب مسلمان جذبہ جہاد سے سرشار تھے۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ عرب زبردست جنگجو تھے۔ وہ تاریخ میں پہلی دفعہ ایک باقاعدہ ریاست کی شکل میں منظم تھے۔ عرب کے بہترین جرنل ان کے سپہ سالار تھے۔ پھر عرب جنگوں میں بہت ہلکے ہتھیار استعمال کرتے تھے۔ وہ وسیع میدانوں کو زیر رفتار گھوڑوں اور ناقابل عبور صحراؤں کو اونٹوں کی مدد سے باآسانی عبور کر لیتے تھے۔ اس صلاحیت کی بنا پر ان کے لیے یہ ممکن تھا کہ وہ سیکڑوں میل پر پھیلے شام و عراق کے محاذ پر بیک وقت آسانی سے جنگ کرسکتے تھے اور کم تعداد کے باوجود دوسرے محاذوں سے فوری مدد حاصل کرسکتے تھے۔ ان کے مقابلے میں جو دو سلطنتیں تھیں وہ گرچہ تعداد اور وسائل میں ابھی بھی زیادہ تھیں، مگر وہ جنگیں لڑ لڑ کر نڈھال ہوچکی تھیں۔ ان کے ہتھیار بہت بھاری تھے۔ بھاری بھرکم خود اور زرہ بکتر وغیرہ عام حالات میں سپاہی کا دفاع کرتے ہیں، مگر اس کے حملہ کرنے اور نقل و حرکت کی صلاحیت کو بہت کم کر دیتے ہیں۔ اور اگر سامنا عرب جیسے بہترین تلوار باز، تیر انداز اور نیزہ بازوں سے ہو تو پھر یہ دفاعی لباس اپنی اہمیت کھو دیتا تھا کیونکہ جنگ و جدال میں انتہائی مہارت رکھنے والے عربوں کے تیر، تلوار اور نیزے معمولی کھلی جگہ کو بھی نشانہ بنا کر مقابل کو زخمی یا ہلاک کر دیتے تھے۔

یہ دراصل اللہ تعالیٰ کے وعدے کے ظہور کے لیے وہ سارے اسباب تھے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی عنایت سے صحابہ کرام کے لیے اکٹھے کر دیے تھے۔ چنانچہ جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر انسانی تاریخ کا ایک معجزہ رونما ہوا۔ چند برسوں میں ایرانی سلطنت مکمل طور پر ختم ہوگئی اور رومی سلطنت کو اپنے اہم ترین ایشیائی اور افریقی مقبوضات سے نکلنا پڑا اور یہاں مسلمانوں کا اقتدار قائم ہوگیا۔ مسلمانوں نے ان تمام جنگوں میں اعلیٰ ترین کردار کا مظاہرہ کیا۔ وہ مجاہد بھی تھے اور عابد و زاہد بھی۔ وہ فاتحین بھی تھے اور دین کے داعی بھی۔ چنانچہ ہر جگہ انھوں نے دین کی دعوت دی اور ان کے کردار اور دعوت کی بنا پر ان تمام علاقوں کے لوگ مسلمان ہوگئے۔

تاریخ صاف بتاتی ہے کہ مسلمانوں کا مقصد ہر جگہ جنگ چھیڑنا نہیں تھا بلکہ اُس دور کی سپر پاورز کی جارحیت کو ختم کرنا تھا۔ رومیوں نے جب حضرت عمر کے دور میں دوستانہ مراسم قائم کرنا چاہے تو مسلمانوں نے ان سے مزید جنگ نہ کی اور رومی سلطنت مزید کئی صدیوں تک قائم رہی۔ البتہ ایرانی آخری دم تک لڑتے رہے اور جواب میں مسلمانوں کو بھی جنگ کرنا پڑ ی اور آخر کار ایرانی سلطنت کا مکمل خاتمہ ہوگیا۔ اس کے برعکس حبشہ کے خلاف کوئی فوجی کاروائی نہیں کی گئی۔ کیونکہ ان کے مسلمانوں کے خلاف کوئی عزائم نہ تھے بلکہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ یوں حبشہ آج تک ایک مسیحی اکثریت کا ملک ہے۔

یہی وہ تاریخی پس منظر ہے جس کی بنا پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ روم و ایران کے خلاف صحابہ کرام کی فتوحات دراصل اُس وعدہ الٰہی کا ظہور تھا جو سورہ نور میں صحابہ کرام سے کیا گیا تھا۔ اس میں جو کردار صحابہ کرام سے مطلوب تھا وہ بلاشبہ انھوں نے پوری طرح ادا کیا لیکن اس کے پیچھے اصل عامل اللہ تعالیٰ کی عنایت تھی جس کی وجہ سے یہ معجزہ رونما ہوا۔ اس میں مسلمانوں کے لیے آج کوئی رہنمائی ہے تو یہ نہیں کہ وہ ایمان و اخلاق میں اپنی پستی اور ہر طرح کی مادی کمزوری کے باوجود پوری دنیا سے جنگ چھیڑ دیں۔ وہ یہ کریں گے تو بری طرح پٹیں گے۔ اصل سبق یہ ہے کہ مسلمان اپنے اندر ایمان و اخلاق کی شمع روشن کریں۔ اس کے بعد اللہ نے چاہا تو ان کے لیے بھی نصرت الٰہی کا ظہور ہوگا۔ وہ بھی وقت کی سپر پاور کا مقام پالیں گے۔ آج اگر کرنے کا کام ہے تو یہی ہے اور مسلمانوں کو کچھ بتانے کا کام ہے تو یہی ہے۔