Take a fresh look at your lifestyle.

قوم لوط اور ان کی عدالتیں ۔ ابویحییٰ

عام طور پر قوم لوط اپنی ہم جنس پرستی کی وجہ سے مشہور ہے۔ تاہم قرآن مجید بتاتا ہے کہ وہ مجموعی طور پر ایک انتہائی مفسد قوم تھی،(العنکبوت29:30)۔ اس فساد کی انتہا یہ تھی کہ وہ اپنے مہمانوں کی جان، مال، آبرو کو بھی نہیں بخشتے تھے۔ اس حوالے سے ایک بہت دلچسپ واقعہ ہمارے مفسرین نقل کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے خادم کو بھتیجے لوط علیہ السلام کی خیریت معلوم کرنے ان کے شہر سدوم بھیجا۔ خادم سدوم پہنچا تو ایک سدومی نے پتھر سے اس کا سر پھاڑ دیا اور پھر اسے کھینچ کر عدالت لے گیا۔

عدالت میں اس نے مقدمہ کیا کہ میں نے اس اجنبی کا سر سرخ کیا ہے، چنانچہ مجھے بال رنگنے کا معاوضہ دلایا جائے۔ عدالت نے یہ دلیل سن کر سدومی کے حق میں فیصلہ کیا اور خادم کو حکم دیا کہ وہ سدومی کو سر رنگنے کا معاوضہ دے۔ یہ سن کر خادم کو غصہ آگیا، اس نے ایک پتھر اٹھا کر جج کا سر پھاڑا اور کہا کہ میری جو اجرت بنتی ہو، وہ اس کو دے دینا۔ یہ کہہ کر وہ بھاگ آیا۔

یہ واقعہ صحیح ہے یا غلط، یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ جس معاشرے میں عدالتیں اس طرح فیصلے کرنے لگیں، وہاں ایک وقت وہ آتا ہے جب لوگ ہاتھوں میں پتھر اٹھا لیتے ہیں۔ اس کے بعد معزز جج صاحبان کے سر پھٹنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔

حضرت علی کی طرف اس قول کی نسبت درست ہو یا غلط لیکن یہ قول قوموں کی سیاسی اور عدالتی تاریخ کے بارے میں حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے کہ سلطنتیں کفر کے ساتھ چل سکتی ہیں، ظلم کے ساتھ نہیں۔ سنا ہے کہ کسی ملک میں عدالتوں کے باہر قرآن کی کوئی آیت لگی ہوتی ہے۔ لوگ خدا کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے، اس لیے بہتر ہوگا کہ حضرت علی کا یہ قول وہاں لگا دینا چاہیے، ہوسکتا ہے کہ مکمل تباہی سے پہلے شاید کسی کو ہوش آجائے۔