رسول اور ان کی اقوام ۔ ابویحییٰ
۱ ۔ اسلام اور خلافت
اس آرٹیکل کا پہلا حصہ جہاں سے بات کا آغاز ہوا تھا اوپر دیئے گئے لنک پر دستیاب ہے
قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام فرشتوں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں۔ فرشتوں نے اپنے رب کے حکم کی پیروی کی مگر ایک جن ابلیس نے اللہ کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ ابلیس اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے سرکشی پر اڑ گیا اور اللہ تعالیٰ سے اس بات کی مہلت مانگی کہ وہ انسانوں کو گمراہ کرسکے۔ چنانچہ اس کو یہ مہلت دے دی گئی۔ مگر یہ بات واضح کر دی گئی کہ اس کو انسانوں پر کسی قسم کا اختیا رنہیں کہ وہ ان کو زبردستی برائی کی طرف لے کر جائے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر یہ بات بیان ہوئی ہے۔ مثلاً (ابراہیم: 22، اسراء:65، الحجر:42) وغیرہ۔
چنانچہ شیاطین انسانوں کو گمراہ کرنے کے لیے جو راستہ اختیار کرتے ہیں وہ وسوسہ انگیزی کرنے کا ہے۔ چنانچہ یہی وہ ذریعہ ہے جس کو استعمال کر کے شیاطین ہر دور میں انسانوں کو گمراہ کرتے رہے ہیں۔ البتہ قرآن مجید کے ایک مقام سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کو ان لوگوں پر اختیار حاصل ہوجاتا ہے جو شیطان کو اپنا دوست بنالیں اور جو مشرک ہوجائیں، (النحل100)۔ چنانچہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے انھی مشرکین کو استعمال کر کے اللہ تعالیٰ کی اس اسکیم پر زد لگانے کی کوشش کی جس میں اس نے ہر انسان کو یہ آزادی دی تھی کہ حق آنے کے بعد جو چاہے مومن ہوجائے اور جو چاہے وہ کافربن جائے۔ (الکہف 29)۔
تاریخ میں اس کی عملی شکل یہ ہوئی کہ پوری کی پوری اقوام دین شرک کی پیروکار بن گئیں۔ وہ کسی انسان کو یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں تھیں کہ وہ ایک اللہ کی عبادت کرے۔ کوئی یہ کوشش کرتا تو اس کو قتل کر دیا جاتا یا دیگر عذابوں سے گزارا جاتا۔ یہ صورتحال اللہ تعالیٰ کے لیے ناقابل قبول تھی۔ چنانچہ اس نے مختلف اقوام میں اپنے پیغمبروں کو حق کے ساتھ بھیجا۔ ان پیغمبروں کا یہ مشن تھا کہ وہ قوم کو حق کی دعوت دیں۔ قوم کے کفر پر اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کا فیصلہ کر لیا جاتا۔ جب کہ ماننے والوں کو زمین پر غلبہ و اختیار دے دیا جاتا۔ گویا پیغمبر کے یہ ساتھی جو عذاب سے بچا لیے جاتے، انسانی تاریخ کا نئے سرے سے آغاز کرتے جہاں کسی قسم کا مذہبی جبر نہ ہوتا۔ چنانچہ قوم نوح، عاد، ثمود، قوم ابراہیم، قوم لوط اور قوم شعیب علیھم السلام کو اسی اصول پر ہلاک کیا گیا اور ان کے ماننے والوں کو زمین پر بسا دیا گیا۔
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول تھے۔ آپ کو اپنی قوم یعنی عرب کے بنی اسماعیل میں اِسی مشن کے ساتھ بھیجا گیا۔ یہ وہ قوم تھی جس نے شرک کو بطور دین اختیار کر لیا تھا۔ قرآن کریم میں اس مشن کا اظہار ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ تمام ادیان پر اس کو غالب کر دے۔ چاہے مشرکین اسے کتنا ہی ناپسند کریں، (الصف9:61)
چنانچہ آپ کی جدوجہد کے مختلف مراحل کے بعد آخرکار سورہ توبہ میں یہ اعلان کر دیا گیا کہ عرب کے لوگوں کو ایمان لانا ہوگا ورنہ ان کو قتل کر دیا جائے گا۔ پچھلے کفار طوفان، آندھی، زلزلے وغیرہ سے ہلاک کیے گئے اور اس دفعہ عذاب کا فیصلہ اہل ایمان کی تلواروں سے کیا گیا۔ تاہم لوگ ایمان لے آئے اور کسی کے قتل کی نوبت نہیں آئی۔
تاہم یہ بات واضح رہے کہ اس بات کا کوئی تعلق عام لوگوں کے ساتھ نہیں۔ عام لوگوں کو دنیا میں مکمل اختیار ہوتا ہے۔ ان کا فیصلہ موت کے بعد ہوتا ہے۔ جبکہ رسولوں کی امت کا فیصلہ اسی دنیا میں کیا جاتا ہے۔ ان کو اختیار اس وقت تک ہوتا ہے جب تک رسول دعوت کے مرحلے میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد اللہ کا فیصلہ آجاتا ہے۔ پھر نہ ماننے کی سزا میں ان کو قتل کر کے جہنم رسید کر دیا جاتا ہے۔
قرآن مجید اس معاملے میں آخری درجے میں واضح ہے کہ عرب کی سر زمین میں جو ہوا وہ خاص اللہ کا فیصلہ اور اس کا خصوصی حکم تھا۔ ہم نے جو آیت اوپر نقل کی ہے اسے دوبارہ پڑھ لیجیے۔ یہ صراحت کے ساتھ ایک پیش گوئی اور اللہ کے فیصلے کا اعلان ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک فعل اور اس کے فیصلے کا بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے کسی دینی مطالبے یا عام مسلمانوں کے کرنے کے کام کے طور پر پیش نہیں کر رہے۔ اس سے کسی طور کوئی فرد نہ عام دینی ضابطہ نکال سکتا ہے نہ اپنے لیے کسی قسم کی دینی جدوجہد کا ماخذ قرار دے سکتا ہے۔ نہ اس کی بنیاد پر آج کسی غیر مسلم کو قتل کیا جاسکتا ہے کہ وہ چونکہ ایمان نہیں لایا اس لیے اسے قتل کر دیا جائے گا نہ کسی غیر مسلم ملک پر حملہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ چار مہینے آزادی کے مزے لے لیں اور اس کے بعد ان پر حملہ کر کے ان کو مغلوب کر دیا جائے گا۔ اللہ کا یہ قانون پیغمبروں اور ان کی اقوام کے بارے ہی میں خاص ہے۔ عام لوگوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔