خدا اور ہماری کہانی ۔ ابویحییٰ
سورہ فاتحہ قرآن مجید کی پہلی سورہ ہے۔ اس سورت کا مرکزی مضمون اس کی چوتھی آیت میں اس طرح بیان ہوا ہے۔ ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔‘‘
یہ دو جملے انسان اور خدا کی اس کہانی کا انتہائی مختصر مگر انتہائی جامع بیان ہے جو وقت کی کسی گھڑی میں شروع تو ضرور ہوئی تھی، مگر اس کہانی کا کوئی اختتام نہیں۔ یہ کہانی کیا ہے، ایک کامل ترین ہستی کے احسانات کی داستان ہے۔ یہ ہستی قادر مطلق اور کریم مطلق ہے۔ اس کا کرم یوں تو آسمان سے لے کر زمین تک ہر مخلوق کو اپنی عطا سے سرشار کیے ہوئے ہے مگر انسان کا معاملہ یہ ہے کہ اس کا تخیل لامحدود اور نعمتوں سے حظ اٹھانے کی خواہش لامتناہی ہے۔
یہ انسان اگر دل کا اندھا نہ ہو، تو ہر طرف اسی کریم کی عنایات کی برسات دیکھتا ہے۔ اسے دیکھ کر اس کی زبان پر بے اختیار نغمہ حمد و تمجید جاری ہوجاتا ہے۔ مگر جب جب اس انسان کی نگاہ اپنی طرف لوٹی ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ اس کا وجود جنم جنم کا ایسا پیاسا ہے کہ ہر برسات کے بعد وہ ایک اور برسات کا طلبگار رہتا ہے۔ پہلا مشاہدہ اسے عزم عبادت پر ابھارتا ہے اور دوسرا اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنا دستِ سوال مالک دو جہاں کے دست عطا کے سامنے دراز کرے۔
مگر اس کی معرفت اسے بتاتی ہے کہ خدا کی ختم نہ ہونے والی عطا صرف ان لوگوں کا مقدر ہے جو خدا کی مطلوب سیدھی راہ پر چلیں گے اور اس کا پہلا سوال یہی بن جاتا ہے کہ اسے سیدھا راستہ دکھایا اور اس پر چلایا جائے۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر چلنے والوں پر خدا کا انعام ہوا۔ نہ کہ ان لوگوں کا راستہ جن پر خدا کا غضب ہوا اور جو گمراہ ہیں۔ کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو بہت جلد نعمتوں کی جدائی کا صدمہ دیکھیں گے اور ہمیشہ کے لیے محرومی کی آگ میں جھونک دیے جائیں گے۔ یہی سورہ فاتحہ کا مفہوم ہے۔ یہی انسان اور خدا کی کہانی کا خلاصہ ہے۔