یہ نعمت مصیبت کیوں بن گئی ہے ۔ ابویحییٰ
نکاح کا رشتہ انسانی معاشرت کا نقطہ آغاز ہے جس میں ایک مرد و عورت مل کر معاشرے کا بنیادی یونٹ یعنی خاندان بناتے ہیں۔ یہ رشتہ اپنے اندر فرد اور معاشرے کی اتنی ضرورتوں کا جواب لیے ہوئے ہے کہ بلاشبہ اسے اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک قرار دیا جاسکتا ہے۔ مگر نوجوانوں بالخصوص لڑکیوں کے لیے موزوں رشتوں کا نہ ملنا آج ہر گھر کا مسئلہ بن چکا ہے۔ نتیجتاً ایک ایسا اضطراب وجود میں آیا ہے جس نے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ضروری ہے کہ اس مسئلے کا حقیقت پسندانہ انداز میں جائزہ لیا جائے تاکہ اصلاحِ احوال کی صورت سامنے آسکے۔ ذیل میں ہم اس مسئلے کو پیدا کرنے والے عوامل، ان کے نتائج اور آخر میں اس مسئلے کے حل لیے کچھ تجاویز پیش کریں گے۔
نکاح کا فطری ضرورت کے مقام سے ہٹنا:۔
ہمارے نزدیک اس مسئلے کی بنیاد یہ ہے کہ ہم نے اپنے معاشرے میں نکاح کو اس کے فطری مقام سے ہٹا دیا ہے۔ خدا نے غذا، پانی اور لباس کی طرح نکاح کو بھی انسان کی بنیادی ضرورت بنایا ہے۔ ہر دور میں لوگوں نے اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے دوسری بنیادی ضرورتوں کی طرح بلوغ کو پہنچنے پر نوجوانوں کے نکاح کا نہ صرف انتظام کیا بلکہ اسے ہر دوسری شے پر مقدم رکھا ہے۔ مگر بدقسمتی سے آج کی مادی دنیا میں غیرضروری تعیشات اور ثانوی درجہ کی سہولیات، زندگی میں غیرمعمولی اہمیت اختیار کر گئی ہیں۔ اب لوگ نکاح کی بنیادی ضرورت کو نظرانداز کرکے ذاتی گھر، گاڑی، اعلیٰ جاب، بینک بیلنس اور دیگر اشیاے تعیشات کے حصول کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں تاکہ مادی اعتبار سے کامیاب زندگی گذاری جاسکے۔ نتیجتاً بلوغ کی عمر پر ۵۱ سے ۰۲ سال گزر جانے کے باوجود بھی ایک نوجوان اس قابل نہیں ہوپاتا کہ اس ”کامیاب“ زندگی کاآغاز کرسکے۔ اس مصنوعی عیش کے پیچھے ایک طرف تو وہ نوجوان ایک پاکیزہ، مستحکم اور پرلطف زندگی سے محروم ہوجاتا ہے جو وقت پر شادی کی صورت میں اسے ملتی، دوسری طرف شادی کی عمر میں اضافے اور لڑکیوں کے لیے رشتوں کے نہ ملنے کا وہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے جو اگر بڑھے گا تو سوسائٹی کے تار و پود بکھیر کر رکھ دے گا۔
لڑکیوں کی وجہ سے لڑکوں کی شادی میں تاخیر:۔
اکثر گھروں میں ہر اعتبار سے شادی کے قابل لڑکوں کی موجودگی کے باوجود ان کی شادی میں تاخیر صرف اس وجہ سے کی جاتی ہے کہ گھر میں ابھی بہنیں موجود ہیں۔ بہنیں چاہے چھوٹی ہی کیوں نہ ہوں ان کی عمر نکل جانے کے خوف سے بڑے بھائیوں کی شادی اکثر غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی جاتی ہے۔ بظاہر یہ سوچ کچھ ایسی غلط نہیں کیوں کہ ہمارے معاشرے میں لڑکوں کے برعکس لڑکیوں کی شادی کا معاملہ اپنے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔ مگر جب معاشرے کی اکثریت یہی روش اختیار کر لیتی ہے تو لڑکیوں کے لیے دستیاب رشتوں کی تعداد خود بخود کم ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ ہر شخص اپنی بہن، بیٹی کی شادی کے لیے تو تیار ہے مگر دوسروں کی بیٹیوں کو اپنے گھر لانے کے لیے آمادہ نہیں۔ آخرکار وہی مشکل سامنے آجاتی ہے جس سے لوگ بچنا چاہتے ہیں یعنی لڑکیوں کی عمر کا نکل جانا۔
طرفین کے مطالبات:۔
شادی کے مسئلے کو مشکل بنا دینے والی ایک اور چیز طرفین کے وہ مطالبات ہیں جن کا پورا کرنا اکثر لوگوں کے لیے بہت مشکل یا ناممکن ہوتا ہے۔ لڑکے والوں کی طرف سے عموماً دو چیزوں کا مطالبہ سامنے آتا ہے۔ ایک جہیز اور دوسرا لڑکی کا خوبصورت ہونا۔ لڑکیوں کے لیے جہیز ک بندوبست یوں تو والدین کے لیے کبھی بھی کوئی بہت زیادہ خوشگوار کام نہیں رہا لیکن معاشی بحران کے اس دور میں یہ جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ یہاں تک کہ جہیز کی وہ کم از کم مقدار جو سوسائٹی میں بلامطالبہ معیار بن چکی ہے وہ بھی غریب و متوسط طبقے کی پہنچ سے باہر ہے۔ جہاں تک خوبصورتی کا سوال ہے تو ہمارے معاشرے کی زیادہ تر لڑکیاں مناسب شکل و صورت کی حامل تو ضرور ہوتی ہیں مگر خوبصورتی کی ان شرائط کو پورا نہیں کر پاتیں جو میڈیا پر آنے والی اداکاراؤں اور ماڈلوں کے زیرِ اثر لوگوں کے لیے معیار بن گئی ہیں۔ حالانکہ ان اداکاراؤں کا یہ رنگ و روپ، جس کی بہار نے لوگوں کو یہ راہ دکھائی ہے، حسن خداداد کم ہی ہوتا ہے۔ زیادہ تر یہ کیمرہ، روشنی، میک اپ اور نسوانی رنگ و روپ اور دلکشی کو بڑھانے والی ادویات اور سرجری وغیرہ کا کمال ہوتا ہے۔
دوسری طرف لڑکی والوں کی ڈیمانڈ لڑکے کا مالی استحکام ہوتا ہے۔ وہی لڑکے اب معاشرے میں قابلِ ترجیح ہیں جو ایک اچھی جاب یا کسی چلتے ہوئے کاروبار کے مالک ہوں۔ نوجوانی میں یہ شرائط صرف متمول خاندانوں کے چشم و چراغ پوری کرسکتے ہیں۔ ایک عام شخص اس مقام تک پہنچتے پہنچتے نوجوانی کی عمر سے گزر چکا ہوتا ہے۔
فریقین کے ان مطالبات پر ایک نگاہ ڈالیے اور ایک نظر زندگی کے حقائق اور اپنے معاشرتی اور معاشی حالات پر بھی ڈال لیجئے۔ فساد کی جڑ تک پہنچنے میں آپ کو زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ پھر ان مادی بنیادوں پر استوار ہونے والے رشتوں کے نتائج نکلتے ہیں، ہم آگے چل کر ان کا بھی تجزیہ کرکے بتائیں گے کہ یہ کیسا معاشرتی بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔
لسانی اور علاقائی تعصبات:۔
دستیاب رشتوں کا محدود دائرہ مزید تنگ کر دینے والی ایک اہم چیز لوگوں کے وہ جاہلی تعصبات ہیں جنہیں لوگ اپنی روشن خیالی اور اسلام پسندی کے تمام تر دعووں کے باوجود چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ ذات پات، برادری، قومیت اور زبان وغیرہ آج بھی بہت سے لوگوں کے لیے اصل معیار ہیں۔ ان دائروں سے باہر کتنے ہی اچھے رشتے مل سکتے ہیں مگر ان کا تعصب اور ہٹ دھرمی انہیں اس مصنوعی خول سے باہر نکلنے نہیں دیتا، چاہے شادی کی عمر نکل جائے یا بے جوڑ شادیاں کرنی پڑیں۔ سماجی مسائل کے ساتھ اس رویے کے طویل المدتی جسمانی نقصانات بھی ہوتے ہیں۔ جدید سائنسی تحقیق نے مخصوص خاندانوں اور برادریوں تک محدود رہنے کے مضر نتائج کو بہت واضح کر دیا ہے۔ جس کے مطابق ایسی شادیوں کے نتیجے میں جنم لینے والے انسان بتدریج کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ والدین اولاد اور خاص طور پر لڑکیوں کا رشتہ کرتے وقت اس چیز کا لحاظ ضرور کرتے ہیں کہ آیا ان کے لیے دوسرے خاندان کے عمومی رہن سہن سے ہم آہنگ ہونا ممکن ہوگا یا نہیں۔ اس میں دوسرے پہلوؤں کے علاوہ ذات برادری وغیرہ بھی دیکھی جاتی ہے۔ یہ کوئی قابلِ مذمت بات نہیں۔ کیونکہ مستقبل کی ذہنی ہم آہنگی کے لیے اس کی رعایت ضروری ہے۔ مگر یہ چیزیں رشتے ناطوں کا اصل معیار قرار پاجائیں تو پھر مسائل پیدا کرتی ہیں۔ دوسری ہر بات پر اطمینان ہونے کے باوجود صرف ذات، برادری اور قومیت وغیرہ کی بنیاد پر کسی رشتہ سے انکار کرنا ایک نامناسب فعل ہے جس سے اجتماعی اور انفرادی مسائل بڑھتے ہیں۔
غلط تصورات کا فروغ:۔
شادی سے متعلق بہت سے غلط تصورات معاشرے میں اس طرح جڑ پکڑ چکے ہیں کہ ان کی اصلاح بظاہر بہت مشکل ہے۔ ان کی بنیاد پر لوگوں نے اپنے آپ پر بہت سی خود ساختہ پابندیاں عائد کرلی ہیں چنانچہ ایک مشکل مسئلہ مشکل تر ہوگیا ہے۔ مثلاً شادی کی عمر کو لے لیجئے ۳۲،۴۲ سال کا کوئی نوجوان شادی شدہ نظر آجائے تو لوگوں کا پہلا تبصرہ یہ ہوتا ہے کہ بہت چھوٹی عمر میں شادی ہوگئی ہے۔ اسی طرح لڑکیوں کی تعلیم کا مسئلہ ہے۔ جب تک لڑکی پڑھ رہی ہے اس کی شادی نہیں ہوسکتی اور اگر شادی ہوگی تو تعلیم چھوڑنی ہوگی اس لیے دوران تعلیم اکثر والدین کو لڑکیوں کی شادی کا خیال بھی نہیں آتا۔ یوں شادی کی بہترین عمر کا ایک بڑا حصہ بلاوجہ ضائع ہوجاتا ہے۔ حالانکہ خود ہمارے معاشرے میں خواتین کی ایک بڑی تعداد ہے جو شادی شدہ اور کئی بچوں کی ماں ہونے کے باوجود تعلیم سے زیادہ مشکل اور وقت طلب کام یعنی ملازمت کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔
ہندو کلچر کے زیر اثر ایک اور غلط تصور پیدا ہوگیا ہے کہ شادی زندگی کا اہم ترین واقعہ ہے۔ لہٰذا جب یہ ہوگی تو بہت دھوم دھام سے ہوگی۔ اس ”دھوم دھام“ پر ہونے والا خرچہ اب لاکھوں سے بڑھ کر دسیوں لاکھ روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اس چیز نے شادی کے عمل کو بہت مشکل بنا دیا ہے۔ اسی طرح ایک تصور یہ ہے کہ شادی اور خاص کر کسی خاتون کی شادی کسی سبب سے ٹوٹ گئی تو دوبارہ نہیں ہوسکتی۔ اس تصور کے پیچھے یہ عملی مشکل ہے کہ جس معاشرے میں ایک کنواری نوجوان لڑکی کا نکاح ایک مسئلہ بن چکا ہو وہاں کسی بیوہ یا مطلقہ کو کون غیرشادی شدہ نوجوان سہارا دے گا۔ ہم اپنے معاشرے کی بیوہ اور مطلقہ خواتین کو ستی تو نہیں کرتے لیکن اس کی زندگی جہنم بنانے میں کوئی کسر بھی نہیں چھوڑتے۔ اس طرح کے مسائل صرف اس تصور کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ عورت کی ایک شادی اگر ٹوٹ گئی ہے تو اسے دوسری شادی کا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ کیونکہ کنوارا مرد اس سے شادی کرے گا نہیں اور شادی شدہ کو کرنے نہیں دی جائے گی۔
اسی طرح ایک اور نامعقول تصور یہ رائج ہے کہ لڑکی والوں کا کسی گھرانے میں اپنی لڑکی کے رشتہ کی تجویز دینا ایک معیوب بات سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں لوگوں کا اپنی لڑکیوں کے لیے کہیں رشتہ دینا کوئی معیوب نہ تھا۔ اور ہونا بھی نہیں چاہیے کیونکہ جس طرح شادی لڑکی کا مسئلہ ہے اس سے کہیں زیادہ لڑکے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر بعض اوقات کسی لڑکی کی طرف لڑکے والوں کا خود دھیان نہیں جاتا یا پھر کسی وجہ مثلاََ لڑکی کی بلند مالی حیثیت کی بنا پر وہ جھجک میں رشتہ نہیں بھیجتے۔ اگر لڑکی والوں کی پہل کو معیوب نہ سمجھا جائے تو اس طرح کے مسائل سے بچا جاسکتا ہے۔
نتائج و اثرات:۔
ہم شروع میں لکھ چکے ہیں کہ شادی کا بندھن انسانی معاشرت کا نقطہ آغاز ہے لہٰذا نکاح کے معاملات میں رکاوٹ و مشکلات کا اثر پوری معاشرتی زندگی پر پڑے گا، ان مہلک اثرات کے کچھ نمایاں پہلو درج ذیل ہیں۔ اخلاقی اقدار کا زوال:۔
ہماری تہذیبی اور اخلاقی اقدار کے روز افزوں زوال کے پیچھے کام کرنے والا سب سے مؤثر عامل نوجوانوں کی شادی میں تاخیر ہے۔ نکاح کی فطری ضرورت کو نظر انداز کرنے سے یہ جبلی تقاضا معدوم نہیں ہوجاتا۔ جس معاشرے میں بلوغ کی عمر پر ۵۱ سے ۰۲ سال بغیر نکاح کے گذارنا ایک معمول ہو وہاں بے راہ روی کا پھیلنا زیادہ بڑی بات نہیں ہے۔ اس سیلاب کے آگے اگر بندھ نہ باندھا گیا تو یہ سیل بے پناہ ہماری بچی ہوئی اخلاقی اقدار کو اپنے ساتھ بہا کر بہت جلد ہمیں اس مقام پر پہنچا دے گا جس کا اظہار برطانیہ میں کئے گئے ایک حالیہ سروے سے ہوتا ہے۔ اس سروے کے مطابق ۰۰۱ میں سے ۹۹ برطانوی لڑکیاں شادی کے وقت کنواری نہیں ہوتیں۔ شادی میں تاخیر بے راہروی کے اس سیلاب کے پھیلاؤ کا سب سے اہم محرک ہے۔
اہل مغرب کا ذکر آگیا ہے تو ہم قارئین پر یہ واضح کرتے چلیں کہ اس معاملے میں ان کا طرزِ عمل کیا ہے۔ جب انہیں شادی میں تاخیر کے مسئلے کا سامنا ہوا تو وہ ہماری طرح آنکھیں میچ کر نہیں بیٹھ گئے بلکہ انہوں نے شادی کو تو تیس چالیس سال کی عمر تک موخر کر دیا لیکن جنس کے جبلی جذبے کی رعایت کرتے ہوئے شادی کے بغیر مرد و عورت کے ساتھ رہنے کو ایک معاشرتی قدر کے طور پر قبول کرلیا اور اسے باقاعدہ قانونی حیثیت دے دی۔ اس کے جو منفی نتائج بعض دوسرے حوالوں سے نکلے، ان سے قطع نظر، انہوں نے اپنے اس مسئلے کو ”خوش اسلوبی“ سے حل کرلیا۔ لیکن ظاہر ہے کہ ہمارے لیے یہ حل قابل قبول نہیں ہوسکتا۔
نفسیاتی مسائل:۔
اہلِ عرب مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل کر دیتے تھے۔ خدا نے ان کے اس فعلِ قبیح پر شدید نکیر کی ہے۔ بدقسمتی سے آج، مفلسی کے خوف سے ہم بھی اپنی اولاد کا قتل کر رہے ہیں…… ان کے نکاح میں تاخیر کرکے۔ یہ قتل، تاہم ان کے جسمانی وجود کا نہیں بلکہ ان کے نفسیاتی وجود کا ہوتا ہے۔ ہمارا معاشرہ ایک بند معاشرہ ہے جہاں جنس پر بات کرنے کا تصور بھی انتہائی معیوب ہے۔ لیکن ہر واقف حال شخص بخوبی اس بات سے آگاہ ہے کہ صنفی معاملات انسانی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ نوجوانی میں تو انسان اسی دریچے سے دنیا کو دیکھتا ہے۔ جب یہ دریچہ بند ہوگیا تو گویا اس پر روشنی اور تازہ ہوا کے دروازے بند ہوگئے۔ پھر ایک نفسیاتی گھٹن پیدا ہوتی ہے جو آخرکار بہت سے نفسیاتی امراض کا باعث بن جاتی ہے۔ یہ صورتحال لڑکیوں کے معاملے میں اور زیادہ شدید ہوجاتی ہے۔ پھر بار بار کا رد کیا جانا اور طویل عرصے تک بے یقینی کی صلیب پر لٹکے رہنا شخصیت کا نفسیاتی توازن اس طرح بگاڑ دیتا ہے جس کے اثرات تازیست پیچھا نہیں چھوڑتے۔
معاشی اور سماجی مسائل:۔
جن گھروں میں تین چار جوان لڑکیاں شادی کے لیے بیٹھی ہوں ان کے سرپرستوں کی قلبی کیفیت کا بیان قلم کی گرفت میں نہیں آسکتا۔ پہلے رشتوں کی فکر، رشتے ہوجائیں تو شادی کے حد سے بڑھے ہوئے اخراجات کی فکر والدین کو گھلا ڈالتی ہے، اکثر قرض لیے بغیر چارہ نہیں ہوتا جس کی ادائیگی برسوں تک وبالِ جان بنی رہتی ہے۔
شادی کے نتیجے میں بھی جو خاندان وجود میں آتا ہے اس کی بنا اکثر ناپائیدار ہوتی ہے۔ مادی بنیادوں پر استوار ہونے والے رشتوں کی بنیاد اتنی مضبوط نہیں ہوتی کہ ان سے زندگی کا تانا بانا بنا جاسکے۔ جن لڑکیوں کی وجہئ انتخاب محض خوبصورتی ہو، ضروری نہیں کہ وہ حسنِ سیرت سے بھی آراستہ ہوں۔ مالی استحکام کے متلاشی مردوں کو اخلاقی تربیت کا وقت اور مواقع کم ہی مل پاتے ہیں۔ اور مل بھی کیسے سکتے ہیں؟ جب زندگی کا نصب العین ہی مادیت کے کنکر چننا قرار پاجائے تو اعلیٰ اخلاقی قدروں کے جواہر سے کون خود کو آراستہ کرے گا۔ ایسی سوچ، ایسے ماحول اور ایسے والدین کی گودوں میں پرورش پانے والے نونہالوں سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ نری مادیت کے تخم سے پروان چڑھنے والے خدا خوفی اور انسان دوستی کے جذبات سے تہی دامن ثابت ہوں گے اور ہورہے ہیں۔
عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم کی کثرت:۔
صنفی عدم تسکین شخصیت کا توازن بگاڑ کر مجرمانہ ذہنیت پیدا کرنے کا بھی ایک اہم سبب ہے، بالخصوص عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم کا تو بنیادی سبب یہی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ صنفی ہر اس (Sexual Harassment) کے لفظ سے ہماری سوسائٹی ناآشنا تھی مگر اب صورتحال بالکل مختلف ہے۔ گھر سے باہر نکلنے والی خواتین کو انتہائی تکلیف دہ حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ راہ چلتی عورت کو گھور کر دیکھنے سے لے کر گینگ ریپ جیسے گھناؤنے جرائم تک جو کچھ ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں وہ سب صنفی عدم تسکین کے بیج سے پیدا ہونے والے شجر ِخبیث کے برگ و بار ہیں۔ ایسے واقعات پر کئے گئے متعدد سروے ہماری بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ آغاز شباب میں ہی گھر گرہستی کی ذمہ داریوں میں بندھنے والے نوجوان سے ایسے معاملات میں پڑنے کی توقع نسبتاً کم کی جاسکتی ہے۔
مصنوعی طرزِ زندگی کا فروغ:۔
شادی کے مسئلے نے زندگی میں بڑا تصنع پیدا کر دیا ہے۔ والدین؛ خصوصاً لڑکیوں کے والدین کو اچھے رشتوں کے حصول کے لیے مصنوعی طور پر اپنا معیار زندگی بلند کرنا پڑتا ہے۔ اچھی جگہ رہائش، آراستہ گھر، عمدہ ملبوسات وغیرہ اچھے رشتوں کے لیے ٹوٹکے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یوں بدقسمتی سے معیارِ زندگی بلند کرنے کی جو ریس پہلے ہی جاری تھی اس میں اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ لڑکیوں میں خود کو جاذب نظر بنانے کا احساس فطری طور پر ہوتا ہے۔ مگر جب یہ شادی کی شرط ِواحد قرار پاجائے تو پھر یہی چیز مرکز ِنگاہ بن جاتی ہے اور دیگر اعلیٰ انسانی اور اخلاقی اوصاف قابل اعتنا نہیں رہتے۔ جس کے بعد ممکن ہے کہ ان کا ظاہر خوشنما نظر آنے لگے مگر ان کا دامن ان اعلیٰ انسانی خصائل سے خالی رہ جاتاہے جو عظیم انسانوں کو پروان چڑھاتے ہیں۔
اصلاح احوال کے لیے ضروری اقدامات:۔
ذیل میں ہم کچھ تجاویز پیش کر رہے ہیں جو مندرجہ بالا تجزیہ کی روشنی میں ہم اس مسئلے کے حل کے لیے ضروری خیال کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ مسئلہ اتنا اہم ہے کہ اگر اصلاح احوال کے لیے ضروری اقدامات فوراً نہ اٹھائے گئے تو پوری سوسائٹی کو اس کے نتائج بھگتنے ہوں گے اور یہ فتنہ قرآن کے الفاظ میں وہ فتنہ ہوگا جو قصوروار اور بے قصور دونوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیگا(الانفال۸:۵۲)۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ تمام معاشرتی مسائل کی طرح یہ مسئلہ ایک دن میں پیدا ہوا اور نہ ایک دن میں ختم ہوسکتا ہے۔ تاہم معاشرے کی ذہن سازی کرنے والے تمام طبقات اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں تو صورتحال میں بہتری کی بہت کچھ امید کی جاسکتی ہے۔
شادی سے متعلق غلط تصورات کی تصحیح:۔
اصلاح احوال کی سمت پہلا قدم شادی سے متعلق لوگوں کے افکار کی درستی ہے۔ سب سے پہلے یہ بات لوگوں کے ذہن میں راسخ ہونی چاہئے کہ شادی ہر نوجوان لڑکے اور لڑکی کی ایک بنیادی ضرورت ہے جس پر کسی دوسری شے کو ترجیح نہیں دی جانی چاہئے۔ بلوغ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان کا نفسیاتی وجود جنم لے رہا ہے۔ بالکل اس نومولود کی طرح جو نو مہینے ماں کے پیٹ میں ارتقاء کے مراحل طے کرنے کے بعد اس دنیا میں آتا ہے۔ جس طرح ایک نومولود کی کچھ بنیادی ضروریات ہوتی ہیں اسی طرح نکاح کسی نوجوان کی ایک نفسیاتی ضرورت ہے۔ جس میں غیر ضروری تاخیر تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔
دوسری چیز جس کی اصلاح کی اشد ضرورت ہے وہ شادی کو اجتماعی زندگی میں غیرمعمولی اہمیت دینا ہے۔ ہم نے فرد کی زندگی میں تو شادی کو بہت پیچھے ڈال دیا مگر معاشرے میں اسے حد سے زیادہ اہمیت دے دی ہے۔ اس کے لوازمات بے حساب ہیں اور اس کا اہتمام جوئے شیر لانا ہے۔ شادی پر ہندوانہ رسموں کی کثرت اور ہر جانے انجانے کو اکٹھا کرنا اس کی بڑی نمایاں مثالیں ہیں۔ ہمارے مذہب نے نکاح کو زندگی کی ایک عام ضرورت سمجھا اور اس عمل کو بے حد آسان کر دیا۔ ایک مرد اور ایک عورت علانیہ ایجاب و قبول کرکے جب زندگی بھر ساتھ رہنے کا عہد کرلیں تو وہ میاں بیوی بن جاتے ہیں۔ اس طرح لوگ جان لیتے ہیں کہ معاشرے میں ایک نیا خاندان وجود میں آگیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سماجی پہلو سے یہ تلقین کی ہے کہ مرد جس کے ذمے خاندان کی کفالت ہے اپنے قریبی اعزاء کو اپنی خوشی میں شریک کرنے کے لیے حسب استعداد ایک دعوت کا اہتمام کر دے۔ اس کے بالمقابل آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم نے خدا کی دی ہوئی اس آسانی کو ایک شدید تنگی سے بدل لیا ہے۔ خصوصاََ جو اسراف اس موقع پر ہمارے یہاں عام ہے اس کے مرتکبین کو خدا شیطان کے بھائی قرار دیتا ہے (بنی اسرائیل ۷۱:۷۲)۔ شیطان سے رشتہ داری قائم کرکے خدا کی رحمت کیسے حاصل کی جاسکتی ہے۔
تیسری چیز یہ ہے کہ جب طے پاگیا کہ شادی زندگی کی لازمی مگر ایک عام ضرورت ہے تو پھر معاشرے کی یہ ذمے داری ہے کہ کوئی شخص معاشرے میں غیر شادی شدہ نہ رہے۔ خصوصاً کوئی بیوہ اور مطلقہ تنہا نہیں چھوڑی جائے۔ یہ قرآن کا ایک صریح حکم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
”اور تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صلاحیت رکھتے ہوں، ان کے نکاح کر دو۔ اگر وہ غریب ہوں گے تو اللہ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے گااور اللہ بڑی وسعت اور بڑے علم والا ہے۔ اور جو نکاح کا موقع نہ پائیں، انہیں چاہیے کہ عفت اختیار کریں، یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے۔“(النور۴۲:۲۳-۳۳)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس معاشرے میں کنواری لڑکیوں کے لیے رشتوں کا حصول ایک مسئلہ ہے وہاں کسی بیوہ یا مطلقہ کے مسئلے کو کیسے حل کیا جائے۔ ہمارے نزدیک اسی قسم کی صورتحال کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے مردوں کی دوسری شادی کو روا رکھا ہے۔
یہ مسئلہ اس دور میں غیر ضروری طور پر بحث و نزاع کا موضوع بن گیا ہے۔ بعض لوگ قرآن میں تعدد ازواج کے تذکرے کو(معاذ اللہ) اللہ تعالیٰ کی ایک غلطی خیال کرتے ہیں اور طرح طرح سے اس کی تاویلیں کرتے ہیں۔ جبکہ بعض کے نزدیک اس طرح اللہ تعالیٰ نے مردوں کو ایک کھلا لائسنس دے دیا ہے کہ وہ دوسری تیسری اور چوتھی شادی کرکے جب چاہیں اپنا حرم بڑھا سکیں۔ اس لیے ہم چاہیں گے کہ مختصراََ اس بارے میں بھی کچھ عرض کر دیں۔ نکاح کے بارے میں خدا کی مرضی یہی ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت اس رشتے میں بندھ جائیں اور ساری زندگی وہ دونوں ایک ساتھ گزاریں۔ اس نے آدم علیہ السلام کے لیے صرف ایک حوا بنائی اور روز وہ یہی کرتا ہے۔ اس دنیا میں روزانہ اوسطاً جتنے بچے پیدا ہوتے ہیں اتنی ہی بچیاں پیدا ہوتی ہیں مگر بہت سے اسباب مثلاً عورتوں کی اوسط عمر کا زیادہ ہونا، جنگ و جرائم و حادثات میں مردوں کا زیادہ مرنا اور دیگر اسباب کے نتیجے میں کسی بھی معاشرے میں شادی کے قابل عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں ہمیشہ زیادہ ہی رہتی ہے۔ یہ اور اس جیسی بعض دیگر سماجی، سیاسی اور تمدنی ضروریات کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے یہ اجازت دی ہے کہ مرد ایک وقت میں چار تک نکاح کرسکتے ہیں بشرطیکہ وہ بیویوں میں عدل کرسکیں۔ واضح بات ہے کہ یہ عام حالات کا ضابطہ نہیں ہے۔ عام حالات میں ایک مرد و عورت ہی مل کر خاندان بناتے ہیں۔ تاہم حالات کا تقاضا ہو تو مرد کی ایک سے زیادہ شادی خود ایک سماجی ضرورت بن جاتی ہے۔ اس پس منظر میں دین میں اسے گوارا کیا گیا ہے۔ چنانچہ ہمیں نفس پرستوں کو اس رعایت کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی اجازت دینا چاہیے اور نہ اسے اپنے لیے باعث شرم سمجھ کر اس سے اعلانِ برأت کرنا چاہیے۔ بلکہ اس رعایت سے فائدہ اٹھا کر اس کے ذریعے اپنے اجتماعی مسائل حل کرنے چاہئیں۔
صحیح عمر میں نوجوانوں کی شادی:۔
صحیح عمر میں نوجوانوں کی شادی ان میں سے اکثر مفسدات کی جڑ کاٹ دیتی ہے جن کا تذکرہ نتائج کے ضمن میں ہم اوپر کر آئے ہیں۔ یہ ایک پاکدامن معاشرے کو وجود میں لاتی ہے جہاں نفسیاتی طور پر مضبوط شخصیتیں پروان چڑھتی ہیں۔ صحیح عمر میں شادی چونکہ فطرت کی پکار کا جواب ہے۔ اس لیے بالخصوص یہ خوبصورتی کی اس مصنوعی طلب کا بھی خاتمہ کر دیتی ہے جس نے نوجوان لڑکیوں کو ہر سمت سے کاٹ کر آئینے کے سامنے لا بٹھایا ہے۔ ۷۱ سے۲۲ سال کی عمر کے ایک نوجوان میں ہارمونز پورے طور پر متحرک ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بیوی کی حیثیت سے جو لڑکی بھی اس کی زندگی میں آئے گی وہ اس کے لیے قابل قبول ہوگی چاہے وہ عام شکل و صورت کی ہی لڑکی کیوں نہ ہو۔ اس کے بر خلاف اگر اس عمر میں شادی نہ ہو تو جسم کے اندر کام کرنے والے ہارمونز کے زیر اثر پیدا ہونے والے احساسات اس کے ذہن میں صنف مخالف کا ایک رومانوی خاکہ ترتیب دیں گے جو حقیقت سے بہت زیادہ دلکش ہوگا۔ ایسے نوجوان سے کون یہ توقع رکھنے میں حق بجانب ہوگا کہ وہ تیس سال کی عمر میں معمولی شکل کی حامل کسی لڑکی کے ساتھ برضا و رغبت شادی کرنے پر آمادہ ہوجائے۔
نوجوانوں کی جلدی شادی پر بہت سے اعتراضات کئے جاتے ہیں۔ مگر یہ تمام اعتراضات لغو ہیں جو سطحی اندازِ فکر کی بنا پر پیدا ہوتے ہیں۔ اس معاملے میں خدا فطرت کی زبان میں اپنی مرضی کا اظہار کرتا ہے…… جب پہلے وہ ایک نوجوان میں بلوغت کے آثار پیدا کرتا ہے اور اس کے چند سال بعد ذہنی طور پر اس میں صنف مخالف کی شدید طلب پیدا کر دیتا ہے۔ فطرت کے ساتھ وہ اپنی کتاب میں بھی اپنی اسی مرضی کو بیان کرتا ہے۔ سورہ نور کی اُس آیت کو، جو ہم نے اوپر نقل کی ہے، ایک دفعہ پھر ملاحظہ فرمایے۔ اس میں نہ صرف نکاح پر ابھارا گیا ہے بلکہ اس واحد معقول اعتراض کا بھی جواب دیا گیا ہے جو اس پر وارد ہوتا ہے۔ یعنی نکاح کے بعد پیدا ہونے والا معاشی مسئلہ۔ اس آیت کی تفسیر میں جلیل القدر مفسر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں۔
”آدمی جب تک بیوی سے محروم رہتا ہے وہ کچھ خانہ بدوش سا بنا رہتا ہے۔ اور اس کی بہت سی صلاحیتیں سکڑی اور دبی ہوئی رہتی ہیں۔ اسی طرح عورت جب تک شوہر سے محروم رہتی ہے اس کی حیثیت بھی اس بیل کی ہوتی ہے جو سہارا نہ ملنے کے باعث پھیلنے اور پھولنے پھلنے سے محروم ہو۔ لیکن جب عورت کو شوہر مل جاتا ہے اور مرد کو بیوی کی رفاقت حاصل ہوجا تی ہے تو دونوں کی صلاحیتیں ابھرتی ہیں اور زندگی کے میدان میں جب وہ دونوں مل کر جدوجہد کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی جدوجہد میں برکت دیتا ہے اور ان کے حالات بالکل بدل جاتے ہیں۔“(تدبر قرآن۵/۰۰۴)
جو لوگ خدا کے اس اعلان کے بعد بھی اس بات پر معترض ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ ہمارے نزدیک جس معاملے میں خدا اپنا فیصلہ سنا دے وہاں کبھی کوئی دوسری رائے درست نہیں ہوسکتی۔ اگر کبھی اس کے نتیجے میں کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی ذمہ داری صرف غلط انسانی رویوں پر عائد ہوتی ہے مثلاً شادی کو ایک بوجھ اور اس کے بعد آنے والی ذمہ داریوں کو ایک مشکل خدا نے نہیں بنایا یہ عذاب ہمارا اپنا انتخاب ہے۔ جہاں تک اولاد کی ذمہ داریوں کا تعلق ہے تو کثرتِ اولاد کوئی دینی مطالبہ نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ میاں بیوی اپنے حالات کے اعتبار سے کرسکتے ہیں۔
خیال رہے کہ اس بحث سے شادی کی کوئی خاص عمر طے کرنا ہمارا مقصود نہیں۔ سماجی معاملات میں اس طرح کی کوئی حتمی بات کہنا ممکن نہیں ہوتا۔ ہر فرد اور خاندان کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ چنانچہ لوگ اپنے حالات دیکھ کر ہی اس طرح کا کوئی قدم اٹھاتے ہیں۔ ہمارا زور صرف اس پر ہے کہ نوجوانوں کی شادی اس وقت ہوجانی چاہیے جب وہ واقعی نوجوان ہوں۔ بیس بائیس سال کی عمر کے بعد شادی میں جتنی تاخیر ہو اسے تاخیر ہی سمجھنا چاہیے۔
آخرت کی کامیابی: مقصدِ زندگی:۔
نکاح انسانی زندگی کا ایک حصہ ہے۔ بگاڑ جب زندگی کے ہر شعبے میں پھیل جائے تو یہ کیسے اس کی پہنچ سے باہر رہ سکتا ہے۔ یہ بگاڑ مادیت کے اس نظریہ کی پیداوار ہے جس کے نزدیک بس اس دنیا کی زندگی ہی اصل زندگی ہے۔ فائدہ وہی ہے جو اس دنیا کا فائدہ ہے اور نقصان وہی ہے جو اس دنیا کا ہے۔ ہمارے معاشرے کی اکثریت غیرشعوری طور پر اسی نصب العین کے تحت زندگی گزارتی ہے۔ معیار زندگی بلند کرنے کی کبھی نہ ختم ہونے والی دوڑ اسی کا لازمی نتیجہ ہے۔ اخلاق، کردار حیاء، شرافت اور حسن سیرت کے اوصاف اسی وجہ سے بے وقعت ہیں۔ لیکن انسانوں کے لیے یہ رویہ یقینا غلط ہے اور اسے تبدیل ہونا چاہیے۔
رویوں میں یہ تبدیلی محض زبانی تلقین سے نہیں آئے گی اور نہ ہی ظاہری اقدامات کوئی واقعی تبدیلی پیدا کریں گے۔ تبدیلی صرف اس یقین سے آئے گی کہ ایک روز ہر شخص کو مر کر خدا کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے۔ اس روز اہمیت صرف اخلاقی اصولوں پر کئے گئے عمل کو حاصل ہوگی۔ مادیت تو اتنی بے قیمت ہوگی کہ زمین بھر سونا بھی کسی کو خدا کی پکڑ سے نہ بچا سکے گا۔ اگر لوگوں کو اس بات کا یقین ہو جائے تو پھر لوگ شادی کے وقت صرف یہ دیکھا کریں گے کہ اس رفاقت کے نتائج آخرت میں کیا نکلیں گے۔ یہ عورت یا مرد ہمیں جنت کی راہ پر لے جائے گا یا جہنم میں پہنچا دے گا۔ جب لوگ یہ رویہ اختیار کریں گے تو سارے مسائل ختم ہوجائیں گے۔ جن کا آج ہمیں سامنا ہے ورنہ چاہے جہیز پر پابندی لگے یا شادی کے اخراجات پر کوئی مستقل اور حقیقی تبدیلی اس طرح نہیں آئے گی۔