Take a fresh look at your lifestyle.

مضامین قرآن (68) اخلاقی طور پر مطلوب و غیر مطلوب رویے : معروف و منکر ۔ ابویحییٰ

مخلوق کے حوالے سے بیان کردہ مطلوب اور غیرمطلوب اخلاقی رویوں میں ہم ان جامع اصولوں پر بات کر رہے ہیں جن کی نوعیت، مفہوم اور اطلاقات بہت ہمہ گیر ہیں۔ اس حوالے سے ظلم و عدل کا جائزہ لیا جاچکا ہے اور اب قرآن مجید کی ایک اور بہت اہم اصطلاح جو دراصل ایک بہت جامع اصول ہے یعنی معروف و منکر پر گفتگو کی جائے گی۔

معروف و منکر کا مفہوم
لفظ منکر اخلاقی حوالے سے قرآن مجید کی ایک بنیادی اصطلاح ہے۔ یہ ان رویوں کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے جن کی برائی تمام لوگوں کے نزدیک مسلمہ ہوتی ہے اور جو شرفا و صالحین کے دستورِ حیات میں بالکل اجنبی نوعیت کی چیز ہوتی ہے۔ جھوٹ، دھوکا، فریب، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، حسد، تکبر، شیخی خورہ پن، بخل، بدگوئی وغیرہ جیسی وہ تمام صفات جن کی برائی کو عام لوگ بلادلیل و بحث سمجھتے اور مانتے ہیں اور شرفا و صالحین کی زندگیاں ان رویوں سے عام طور پر خالی ہوتی ہیں، ان پر منکر کا اطلاق ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے اصولی گناہوں کی فہرست میں ایک جگہ (النحل90:16) میں منکر کا لفظ استعمال کیا ہے اور دوسرے مقام (اعراف33:7) میں اس کی جگہ ”اثم“ کا لفظ لا کر اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ یہ وہ گناہ ہیں جن میں دوسروں کی حق تلفی کا پہلو نمایاں ہوتا ہے جو لفظ اثم کا لغوی مفہوم ہے۔ عام طور پر فواحش اور ظلم و بغی کی نوعیت کے گناہ منکر سے الگ سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم قرآن مجید نے ایک مقام العنکبوت 29:29 پر اس حقیقت کو واضح کیا ہے فواحش کا ارتکاب علانیہ کرنا ان کو فحش ہونے کے ساتھ منکر بھی بنا دیتا ہے۔

معروف اسی منکر کا متضاد ہے اور ان اخلاقی خوبیوں کو بیان کرتا ہے جن کی بھلائی ایک مسلمہ حقیقت ہوتی ہے اور جو شرفا و صالحین کی عمومی روایت کا حصہ ہوتی ہیں۔ یہ وہ اعلیٰ اخلاقی رویے ہوتے ہیں جن کے خیر ہونے پر کوئی دورائے نہیں ہوتیں۔ یہ رویے چاہے عملی نوعیت کے ہوں یا گفتگو سے ان کا اظہار کیا جائے۔ یہی معاملہ منکرات کا ہے کہ وہ فعل کے ساتھ قول کا احاطہ بھی کرتا ہے۔ تاہم منکر کے برعکس معروف کا لفظ قرآن مجید میں مسلمہ اخلاقی بھلائیوں کے علاوہ دستور اور رسم و رواج کے طریقوں کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ مگر لفظ کا یہ استعمال زیادہ تر قانونی حقوق، ذمہ داریوں اور مالی ادائیگیوں کے پس منظر میں استعمال کیا گیا ہے۔

امر و نھی کا مفہوم اور دائرہ کار
قرآن مجید میں معروف و منکر کے ساتھ امر و نھی کے الفاظ بھی استعمال کیے گئے ہیں۔ یعنی امر بالمعروف و نھی عن المنکر قرآن مجید میں اہل ایمان کے ایک مستقل وصف کے طور پر بیان ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان صرف اپنی ذات کی اصلاح تک محدود نہیں رہتے اور نہ معاشرے کے خیر و شر سے بے نیاز ہوکر زندگی گزارتے ہیں بلکہ دوسروں کو ان مسلمہ اخلاقی بھلائیوں کو اختیار کرنے اور مسلمہ اخلاقی برائیوں سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اسی بات کو سورۃ العصر میں ”تواصوا بالحق“ یعنی حق کی تلقین کے الفاظ سے بیان کیا گیا ہے۔

یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ عربی زبان میں امر کا لفظ عام طور پر حکم دینے اور نھی کا لفظ روک دینے کے مفہوم میں آتا ہے، اس سے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہو جاتی ہے کہ قرآن مجید یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ اہل ایمان جہاں کہیں کسی برائی کو ہوتا ہوا دیکھیں اسے پوری طاقت سے روک دیں یا روکنے کی کوشش کریں اور اسی طرح بھلائی کو بالجبر نافذ کر دیں ۔یہ بات درست نہیں ہے۔ قرآن مجید نے بعض مقامات پر ان الفاظ کو اس طرح استعمال کیا ہے کہ قرآن کا اصل مدعا بالکل واضح ہوگیا کہ عمومی طور پر قرآن مجید کی مراد اس حکم سے نیکی کی تلقین اور برائی سے متنبہ کرنے کا عمل ہے نہ کہ کسی قسم کا جبر اور زبردستی جو دین کے اس مرکزی تصور کے خلاف ہے کہ اس دنیا میں انسان کا امتحان ہی یہی ہے کہ اپنی مرضی سے نیکی کرے اور اپنی خوشی سے برائی سے بچے۔ جنت اسی اختیاری نیکی و بدی کا بدلہ ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ نھی (العنکبوت45:29) اور شیطان کے ساتھ امر(النور21:24) کے الفاظ بطور فاعل اور فحش اور منکر کو بطور مفعول استعمال کرکے یہ واضح کر دیا کہ یہ الفاظ تلقین کے مفہوم میں استعمال کیے گئے ہیں کیونکہ نہ شیطان کسی سے جبراً برائی کراسکتا ہے اور نہ نماز کسی کو برائی سے عملاً روک سکتی ہے۔

ان الفاظ میں جبر کا مفہوم تب ہی داخل ہوگا جب کسی ایسے شخص کو حکم دیا جارہا ہو جس کا کام ہی برائی کو قوت نافذہ سے روکنا ہو اور برائی کا ارتکاب اس کے دائرہ اقتدار اور دائرہ اختیار میں کیا جارہا ہے۔ جیسے صحابہ کرام کے بارے میں جب یہ بیان کیا گیا کہ ان کو زمین میں اگر اقتدار دیا گیا تو یہ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے (الحج41:22) تو ایسی صورت میں بالکل واضح ہے کہ اقتدار کے ساتھ تلقین کے علاوہ جہاں موقع ہو ان کو اپنا اختیار بھی استعمال کرنا ہوگا۔ چنانچہ اپنے دائرہ اقتداراور دائرہ اختیار میں ہر صاحب اقتدار اور صاحب اختیار کے لیے ضروری ہے کہ وہ تلقین کے ساتھ عملی اقدامات بھی اٹھائے۔ مگر مطلقاً یہ مفہوم مراد لینا درست نہیں ہے۔ عام لوگوں کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ سامنے نظر آنے والی ہر برائی کو زبردستی روکنا شروع کر دیں۔ یہ رویہ نہ صرف دین کی بنیادی فکر کے خلاف ہے بلکہ عملی طور پر اصلاح کے بجائے فساد پیدا کرنے کا سبب بنے گا جو ظاہر ہے قرآن کے پیش نظر نہیں۔

قرآنی بیانات
”(اِس کے برخلاف) اللہ اُن کو جو پوری سچائی کے ساتھ ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے، یقیناً ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی۔ بے شک، اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔“،(الحج41:22)

”(اپنے والدین) کے ساتھ نیک برتاؤ رکھنا…… نماز کا اہتمام رکھو، بھلائی کی تلقین کرو اور برائی سے روکو۔“، (لقمان15-17:31)

”بے شک، اللہ (اِس میں) عدل اور احسان اور قرابت مندوں کو دیتے رہنے کی ہدایت کرتا ہے اور بے حیائی، برائی اور سرکشی سے روکتا ہے۔ وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاددہانی حاصل کرو۔“، (النحل90:16)

”ایمان والو، شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو اور (یاد رکھو کہ) جو شیطان کے نقش قدم پر چلے گا، وہ اپنے ہی کو برباد کرے گا، اِس لیے کہ وہ تو بے حیائی اور برائی ہی کا راستہ سجھاتا ہے۔“،(النور21:24)

”کیا تم مردوں کے پاس جاتے ہو اور فطرت کی راہ مارتے ہو اور اپنی مجلسوں میں (علانیہ) اِس برائی کا ارتکاب کرتے ہو؟ اِس پر اُس کی قوم کا جواب اِس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اُنھوں نے کہا: اگر تم سچے ہو تو ہم پر اللہ کا عذاب لے آؤ۔“،(العنکبوت29:29)

”کچھ شک نہیں کہ نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔ (یہ اللہ کی یاد ہے) اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی یاد بڑی چیز ہے۔“(العنکبوت45:29)

”(اُن لوگوں کے حق میں) جو (آج) اِس نبی امی رسول کی پیروی کریں گے جس کا ذکر وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا دیکھتے ہیں۔ وہ اُنھیں بھلائی کا حکم دیتا ہے، برائی سے روکتا ہے“،(اعراف157:7)

”درگذر کرو، (اے پیغمبر)، نیکی کی تلقین کرتے رہو اور اِن جاہلوں سے اعراض کرو۔“،(اعراف199:7)

”ان عورتوں کے لیے بھی اسی طرح حقوق ہیں، جس طرح دستور کے مطابق(ان پر) شوہروں کے حقوق ہیں“،(البقرہ228:2)

”اور چاہیے کہ تمھارے اندر سے کچھ لوگ مقرر ہوں جو نیکی کی دعوت دیں، بھلائی کی تلقین کریں اور برائی سے روکتے رہیں۔ (تم یہ اہتمام کرو) اور (یاد رکھو کہ) جو یہ کریں گے، وہی فلاح پائیں گے۔“،(آل عمران3:104)

”(ایمان والو، اِس وقت تو اللہ کی عنایت سے) تم ایک بہترین جماعت ہو جو لوگوں پر حق کی شہادت کے لیے برپا کی گئی ہے۔ تم بھلائی کی تلقین کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر سچا ایمان رکھتے ہو۔“،(آل عمران3:110)

”اللہ پر اور قیامت کے دن پر سچا ایمان رکھتے ہیں، نیکی کی تلقین کرتے اور برائی سے روکتے ہیں، بھلائی کے کاموں میں سبقت کرتے ہیں اور وہ خدا کے نیک بندوں میں سے ہیں۔“،(آل عمران114:3)

”لیکن تقسیم کے موقع پر جب قریبی اعزہ اور یتیم اور مسکین وہاں آجائیں تو اُس میں سے اُن کو بھی کچھ دے دو اور اُن سے بھلائی کی بات کرو۔“،(النساء8:4)

”ایمان والو، تمھارے لیے جائز نہیں ہے کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ اور نہ یہ جائز ہے کہ (نکاح کر لینے کے بعد) جو کچھ تم نے اُن کو دیا ہے، اُس کا کچھ حصہ واپس لینے کے لیے اُنھیں تنگ کرو۔ ہاں، اِس صورت میں کہ وہ کسی کھلی ہوئی بدکاری کا ارتکاب کریں۔ اور اُن سے اچھا برتاؤ کرو۔“،(النساء19:4)

”اِن کی زیادہ ترسرگوشیوں میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی۔ ہاں، اُن لوگوں کی سرگوشی میں یقینا بھلائی ہے جو صدقہ و خیرات کی تلقین کریں یا نیکی کی راہ سجھائیں یا لوگوں کے معاملات کی اصلاح کے لیے کہیں۔ اور جو اللہ کی رضا جوئی کے لیے ایسا کریں گے، اُنھیں عنقریب ہم اجرعظیم عطا فرمائیں گے۔“،(النساء114:4)

”منافق مرد اور منافق عورتیں، سب ایک ہی طرح کے لوگ ہیں۔ یہ برائی کی تلقین کرتے، بھلائی سے روکتے اور اپنے ہاتھ (ہر خیر کے لیے) بند رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے بھی اِنھیں بھلا دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی منافق ہیں جو بڑے بدعہد ہیں۔“، (التوبہ67:9)

”مومن مرد اور مومن عورتیں، وہ بھی ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ (اِن منافقوں کے برخلاف) وہ بھلائی کی تلقین کرتے اور برائی سے روکتے ہیں، نماز کا اہتمام کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جنھیں اللہ عنقریب اپنی رحمت سے نوازے گا۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اللہ زبردست ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے۔“، (التوبہ71:9)

”وہ توبہ کرنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں، شکر کرنے والے ہیں، (خدا کی راہ میں) سیاحت کرنے والے ہیں، (اُس کے آگے) رکوع اور سجدہ کرنے والے ہیں، بھلائی کی تلقین کرنے والے ہیں، برائی سے روکنے والے ہیں اور حدود الٰہی کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ وہی سچے مومن ہیں، (اے پیغمبر)، اور اِن مومنوں کو خوش خبری دے دو۔“، (التوبہ112:9)

”اِن کے لیے صحیح رویہ تھا کہ حکم ماننا ہے اور بھلی بات کہنی ہے۔ پھر جب معاملے کا قطعی فیصلہ ہوجائے تو اُس وقت اگر یہ اللہ سے سچے ثابت ہوتے تو اِن کے لیے بہت بہتر ہوتا۔“، (محمد21:47)

”اِسی طرح، اے پیغمبر، جب مسلمان عورتیں بیعت کے لیے تمھارے پاس آئیں (اور عہد کریں) کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی اور چوری نہ کریں گی اور زنا نہ کریں گی اور اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی اور اپنے ہاتھ اور پاؤں کے درمیان کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی اور بھلائی کے کسی معاملے میں تمھاری نافرمانی نہ کریں گی تو اُن سے بیعت لے لو اور اُن کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کرو۔ بے شک، اللہ غفور و رحیم ہے۔“،(الممتحنہ12:60)