Take a fresh look at your lifestyle.

اچانک کھائی ۔ ابویحییٰ

”زندگی ایک سفر ہے۔ لیکن یہ سفر ہموار راستے کا نہیں بلکہ ایک پہاڑی سلسلے کا سفر ہے جہاں انسان ایک کے بعد دوسری چوٹی عبور کرتا چلا جاتا ہے۔“
عارف آج اپنی مجلس میں زندگی اور موت کو سمجھا رہے تھے۔ لوگوں کو لگ رہا تھا کہ نگاہوں پر پڑے پردے اٹھ رہے ہیں۔ بہت سی مثالوں کے بعد یہ ایک اور تمثیل تھی جس کے ذریعے سے وہ لوگوں پر موت کی حقیقت واضح کر رہے تھے۔

”چوٹیاں سر کرنے کا عمل بچپن ہی سے شروع ہوجاتا ہے۔ انسان جب چلنا سیکھتا ہے، جب بولنا شروع کرتا ہے، جب کھیل کود کے میدان میں اترتا ہے، جب وہ اپنے حریفوں کو میدان میں شکست دیتا ہے، تعلیمی میدان میں کامیابیاں حاصل کرتا ہے تو ان میں سے ہر موقع چوٹی فتح کرنے کا مزہ دیتا ہے۔

پھر جوانی کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ انسان دل دیتا ہے۔ دل لیتا ہے۔ پھر اسی جوانی میں انسان جاب، کیرئیر اور حصول ملازمت کی چوٹیاں چڑھ کر آخرکار گھر آباد کرنے کی مہم سر کرتا ہے۔ پھر مکان، دکان، گاڑی، بینک بیلنس کے ساتھ اولاد کی پیدائش، ان کی خوشیاں وہ چوٹیاں ہیں جو انسان پے در پے عبور کرتا جاتا ہے۔“

”اور غم کی اس سفر میں کیا حقیقت ہے؟“، ایک صاحب نے سوال کیا۔
”غم، ناکامی، دکھ اور محرومی بھی اس راہ کی چٹانیں ہیں۔ انسان زندگی کے سفر میں انھیں بھی عبور کرتا چلا جاتا ہے۔ مگر زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ اس سفر میں منزلِ سفر اور اس سامان سفر کو بھولا رہتا ہے جس کی ضرورت منزل پر پہنچنے کے بعد پڑے گی۔“

”اور یہ منزل موت ہے۔“، ایک پرانے رفیق نے عارف کے مدعا کو پالیا۔
”ہاں یہ منزل موت ہے۔ مگر انسان اس منزل کو بھولا رہتا ہے، اس کے سامان کو بھولا رہتا ہے۔ یہ سامان بھی زندگی کے پہاڑی سلسلے پر کچھ اخلاقی چوٹیوں پر پڑا ہوتا ہے۔ مگر بیشتر انسان ان چوٹیوں پر چڑھنا وقت، پیسے، توانائی اور صلاحیت کا زیاں سمجھتے ہیں۔ کچھ ان کا رخ کرتے بھی ہیں تو بس رسمی سا سامان اٹھاتے ہیں۔ وہاں جو خزانہ دفن ہے، اسے کھود کر ساتھ لے جانے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ یوں کچھ مکمل طور پر اور کچھ جزوی طور پر اس خزانے سے محروم رہ جاتے ہیں جسے اٹھانا ہی اس سفر کا اصل مقصود تھا۔

چنانچہ چوٹیاں فتح کرنے کا ان کا سفر جاری رہتا ہے۔ اولاد کی شادیاں، ان کو زندگی میں سیٹ کرنا، معاشرے میں مقام اور پھر اسٹیٹس کو بلند سے بلند تر کرنے کی وہ چوٹیاں جو ادھیڑ عمر کے بعد بڑھاپے کو بھی نچوڑ لیتی ہیں اور اس کے بعد ایک روز اچانک کھائی آجاتی ہے۔

”اچانک کھائی…… دلچسپ تعبیر ہے۔“ ایک صاحب نے تبصرہ کیا تو عارف نے انھیں دیکھتے ہوئے قدرے افسردہ لہجے میں کہا۔
”ہاں اچانک کھائی…… موت کی کھائی اچانک ہی آتی ہے۔ زندگی کے پہاڑی سلسلے کی یہ خصوصیت ہے کہ انسان اس کے پار موجود موت کی وادی کو کبھی نہیں دیکھ پاتا۔ اس کے سامنے تو ہر چوٹی کے بعد ایک دوسری چوٹی آجاتی ہے۔ مگر پھر اچانک ایک روز زندگی کے اس پہاڑی سلسلے کی آخری حد آجاتی ہے۔ جس کے آگے ایک گہری اور مہیب کھائی ہوتی ہے۔ یہ موت کی کھائی ہے جس کا اندازہ تو ہر شخص کو اس طرح ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے سے پہلے جانے والوں کو پے در پے نظر سے غائب ہوتا ہوا دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ مگر وہ اس اچانک کھائی میں ایک دم سے گرنے کو اپنا مسئلہ نہیں بناتے۔“

”مگر ہم علم کے باوجود اسے مسئلہ کیوں نہیں بناتے؟“، ایک صاحب نے سوال کیا۔
”اس لیے کہ ہم نفسیاتی طور پر مرنا نہیں چاہتے۔ ہم چوٹی پر چوٹی فتح کرنا چاہتے ہیں۔ بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ کر بھی ہم زندگی کا سفر جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ یہی ہماری نفسیات ہے جو ہمیں موت کی کھائی کی سنگینی کو سمجھنے سے روک دیتی ہے۔ مگر پھر ایک روز جب بظاہر ہم کوئی چوٹی فتح کر رہے ہوتے ہیں تو ہمارے سامنے موت کی اچانک کھائی آجاتی ہے۔ سامنے کا منظر دیکھ کر ہم اپنا سارا مال خرچ کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ زندگی خدا کی نظر کرنے کے لیے راضی ہوجاتے ہیں۔ مگر اب نہ مال بچا نہ زندگی بچی۔ بس جو پہلے اخلاقی چٹانوں سے کمایا تھا وہی نئے سفر کا زاد ِراہ ہے جو اکثر بہت تھوڑا ہوتا ہے۔“
”ہم اس زادِراہ کو کیسے بڑھائیں؟“

”یہ ایک اصل سوال……“، عارف نے سائل کی تحسین کرتے ہوئے کہا۔
”نئے سفر کا سامان وہی شخص اکٹھا کرسکتا ہے جو سفر کی ابتدا ہی سے خود کو ہر روز اور ہر رات چشم تصور سے اچانک کھائی کے کنارے دیکھتا رہے۔ یہی وہ شخص ہے جو مادی چوٹیوں کی فتح میں کبھی اخلاقی چوٹی میں دفن خزانے کو جمع کرنا نہیں بھولے گا۔ وہ بلاتعصب ایمان کا خزانہ ہر فرقہ وارانہ اور نظریاتی تعصب سے بلند ہوکر اٹھائے گا۔ وہ عدل، احسان، انفاق کی گھاٹیوں کو بخوبی عبور کرے گا اور فواحش، منکر اور ظلم و زیادتی کی جھاڑیوں کو کاٹ کر ان کے نیچے دفن خزانے کو صبر کی کدال سے باہر نکالتا رہے گا۔“، اتنا کہہ کہ عارف لمحے بھر کو رکے اور پھر گویا ہوئے۔
”ہر شخص کو ہر رات سونے سے قبل خود کو اچانک کھائی کے کنارے ضرور دیکھنا چاہیے۔ اس کے بعد موت آپ کے لیے زندگی کے سفر کا خوشگوار انجام بنے گی۔ آپ کے پاس وادی موت میں واقع جنت کے بازار سے ہر چیز خریدنا سہل ہوجائے گا۔ اور اگر یہ نہیں کیا تو……“۔

عارف بات مکمل کیے بغیر خاموش ہوگئے کیونکہ اگلی بات ہر شخص پر واضح تھی۔