Take a fresh look at your lifestyle.

زنا، مغرب اور مسلم معاشرے ۔ ابویحییٰ

انسانی تاریخ میں مرد و عورت کے درمیان نکاح کا رشتہ قائم کرنا کبھی بھی مشکل نہیں رہا تھا۔ دورِ جدید سے قبل مرد و عورت کے بالغ ہونے کے بعد زیادہ عرصہ نہیں گزرتا تھا کہ ان کا نکاح ہوجاتا تھا۔ یہ صورتحال ہزاروں برس سے ایسے ہی قائم تھی یہاں تک کہ اٹھارہویں صدی میں صنعتی انقلاب آیا اور اس نے انسانوں کے سماجی رویے اور معاشی مسائل کی نوعیت کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔ جس کے بعد یہ مرد و عورت کے لیے بہت مشکل ہوگیا کہ وہ بلوغت کے بعد نکاح کا رشتہ جلد قائم کریں۔ یوں وہ اپنی ایک فطری ضرورت پوری کرنے سے طویل عرصے کے لیے محروم رہنے لگے۔

مغربی معاشرے کے اہل فکر جیسے برٹنڈ رسل وغیرہ نے اس صورتحال کی سنگینی کو محسوس کیا اور اس پر لوگوں کو متوجہ کیا۔ جس کے بعد مغرب نے اس صورتحال کا ایک عملی حل تلاش کرلیا جو اس اصول پر مشتمل ہے کہ انسان کی صنفی ضرورت بلوغت کے ساتھ پیدا ہوجاتی ہے جبکہ صنعتی معاشروں میں تعلیم اور روزگار کے حصول اور خاندان کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے جو معاشی استحکام درکار ہے اس تک پہنچنے کے لیے مزید پندرہ بیس سال درکار ہوتے ہیں۔ چنانچہ نکاح کو خاندان کے ادارے کے ساتھ متعلق کرکے موخر کر دیا جائے اور صنفی تسکین کو نکاح سے مقید نہ کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ دو غیر شادی شدہ افراد کے درمیان بغیر نکاح جنسی تعلق کو کوئی اخلاقی، سماجی اور قانونی برائی سمجھا جائے اور نہ عفت ہی کو نکاح سے قبل کسی مطالبے کے طور پر پیش کیا جائے۔

بیسویں صدی میں مغرب نے مکمل طور پر اس حل کو اختیار کرلیا۔ یہ حل ہرگز قابل عمل نہ تھا، مگر بہت سے دیگر عوامل جیسے مذہب کا زندگی کے مرکزی مقام سے ہٹ جانا، میڈیکل سائنس کی ترقی اور ضبط تولید، ریاست کا معاشی استحکام، مرد و خواتین کی مساوات کا تصور، خواتین کا ورکنگ وومن بننا، فرائڈ اور دیگر اہل دانش کا نفسیات پر کام، خاندان کا نیوکلس فیملی تک محدود رہ جانا وغیرہ کی بنا پر یہ حل مکمل طور پر رائج ہوگیا۔ گرچہ اس حل کے سنگین نتائج بھی نکلے جیسے خاندانی نظام کی کمزوری، طلاقوں، سنگل پیرنٹ اور ہم جنس پرستی کا فروغ وغیرہ لیکن سردست دنیا میں کوئی دوسرا تصور نہیں جو موجودہ دور میں اس حل کی جگہ لے سکے۔ مشرقی تہذیبیں بھی جیسے جیسے صنعتی معاشروں میں تبدیل ہورہی ہیں، وہ بھی اسی حل کو اختیار کرتی جارہی ہیں۔

مسلم معاشرے جو بتدریج صنعتی دورمیں داخل ہورہے ہیں انھیں بھی اسی مسئلے کا سامنا ہے جسے اہل مغرب نے مذکورہ بالا طریقے پر حل کرلیا۔ مسلم معاشرے کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ مذہب کو اپنی زندگی سے نہیں نکال سکتے جو نکاح سے باہر مرد و زن کے کسی صنفی تعلق کو قبول نہیں کرتا اوراس طرح دین اسلام مغربی حل کی راہ میں مکمل طور پر ایک رکاوٹ ہے۔

تاہم یہ حقیقت ہے کہ اس مسئلے کا حل نکالنا بہت ضروری ہے۔ اس مسئلے سے زیادہ عرصے تک آنکھیں بند کرکے معاملات چلائے نہیں جاسکتے۔ یہ ایک غیرفطری رویہ ہے جس کے خلاف شدید بغاوت ہوگی اور لوگ باقی دنیا کی طرح مغرب کے حل کی طرف چلے جائیں گے۔ اس کے لیے انھیں مذہب کو بھی چھوڑنا پڑا تو وہ اس سے دریغ نہیں کریں گے۔

یہ وہ پس منظر ہے جس میں ربع صدی قبل ہم نے ایک مضمون بعنوان ’’یہ نعمت مصیبت کیوں بن گئی ہے‘‘ لکھا تھا جو روزنامہ جنگ میں شائع ہوا تھا۔ اس میں صورتحال کے تفصیلی تجزیے کے ساتھ حل کے ضمن میں یہ تجویز دی گئی تھی کہ شادی کو کوئی سماجی ایونٹ بنانے کے بجائے ایک بنیادی انسانی ضرورت سمجھتے ہوئے کم عمری(یعنی اٹھارہ سے بائیس سال) میں نوجوانوں کی شادی بہت سادگی سے کر دی جائے۔ اسی طرح جن بہنوں کی عمر نکل گئی ہے ان کو تنہا چھوڑنے کے بجائے اسلام میں دوسری شادی کی اجازت کے تصور کی بنیاد پر اس مسئلے کو حل کیا جائے۔ چنانچہ پختہ عمر کے وہ مرد جو معاشی طور پر مستحکم ہیں وہ ایسی خواتین کو سہارا دیں۔ اسی طرح جو خواتین خود معاشی طور پر مستحکم ہیں وہ مردوں کو اپنے معاشی حقوق سے آزاد کرتے ہوئے خود کو شادی کے لیے پیش کریں۔ یوں بہت سے مرد جو معاشی طور پر پیچھے ہیں وہ ان سے نکاح کے لیے خود کو باآسانی آمادہ پائیں گے۔

ہمیں بہت خوشی ہے کہ حال ہی میں برادرم عمار خان ناصر صاحب نے اس مسئلے پر قلم اٹھایا ہے اور بہت سی اہم تجاویز پیش کی ہیں۔ مضمون کی باقی سطور میں ہم ان کی ان تجاویز پر گفتگو کریں گے۔ تاہم اس حوالے سے ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے جو بھی عملی راستہ تجویز کیا جائے، اس میں نکاح کے رشتے کی یہ حقیقت ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہیے کہ یہ تعلق چوری چھپے آشنائی کا نام ہے نہ صنفی جذبات کی وقتی تسکین کا۔ چوری چھپے آشنائی سے کوئی خاندان وجود میں نہیں آسکتا جبکہ وقتی تسکین کے لیے ملنے والے لوگ وہ ذمہ داریاں نہیں اٹھا سکتے جو خاندان کی بقا و استحکام کے لیے مرد و زن سے مطلوب ہیں۔ چنانچہ نکاح اسلام کے نزدیک صنفی تعلق کا نام نہیں بلکہ تشکیل خاندان کا عمل ہے۔ یہ تشکیل خاندان ہے جس کی ذمہ داری اٹھانے کے صلے میں دین یہ اجازت دیتا ہے کہ لوگ صنف مخالف سے اپنے جنسی جذبات کی تسکین کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ صنف مخالف سے تعلق کا کوئی راستہ اسلام میں قابل قبول نہیں۔

ایک دوسری بات جو اس ضمن میں پیش نظر رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ اسلام کا ہر قانون بشمول قانون شریعت اصلاح کی بنیاد ایمان و اخلاق کی اصل دینی دعوت کو بناتا ہے۔ وہ فرد میں خدا کے حضور جوابدہی، اخروی نجات اور نجات کے بنیادی پیمانے یعنی اخلاقی پاکیزگی کو اصلاح کا بنیادی ذریعہ بناتا ہے۔ قانون کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے جو ایمان و اخلاق کی اس دعوت کو قبول کیے بغیر موثر نہیں ہوتا۔

ان دو بنیادی گزارشات کے بعد ہم ان تجاویز پر اپنی رائے دیں گے۔
1) عمار صاحب کی پہلی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ والدین کا کردار اور خاندانی نظام کی قدغنیں شادی کو مشکل بنانے والی چیزیں ہیں۔ چنانچہ والدین کا کردار اسٹیک ہولڈر کے بجائے سہولت کار کا ہونا چاہیے۔ ان کے نزدیک سادگی کی تلقین سے شادی کو مشکل بنا دینے والے اخراجات کا ختم ہونا ممکن نہیں ہے۔

یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ والدین کا کردار بدلنے کے لیے بھی سوائے تلقین کے کوئی راستہ موجود نہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ شادی کو سادہ بنانے کے لیے تو کسی درجہ میں کوئی قانون سازی ہوسکتی ہے، مگر والدین کا کردار تو کسی قسم کی قانون سازی سے کم نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ تلقین کے سوا کوئی راستہ موجود ہی نہیں۔

اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مغرب کے تجربے سے ہم جانتے ہیں کہ والدین کا کردار اس پہلو سے اسی وقت کم ہوتا ہے جب وہ ہر پہلو سے اولاد کی زندگی میں کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ مسلم معاشروں میں بھی دور جدید نے ولی کا کردار والدین سے پہلے ہی لے لیا ہے۔ والدین یہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ انھیں لڑکے لڑکی کے معاملات میں پہلے زمانے کی طرح مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ ان کا کردار اس سے کم کرنا فائدے سے زیادہ نقصان کا سبب ہوگا۔

اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ شادی کو مشکل اور مہنگا بنا دینے میں والدین کا جتنا کردار ہوتا ہے اتنا ہی لڑکے اور لڑکی کا ہوتا ہے جن کے زندگی بھر کے ارمان شادی کی رسموں اور تقریبات سے وابستہ ہوتے ہیں۔ والدین اکثر اوقات تو ان ارمانوں تسکین کے لیے قرضوں تلے دب جاتے ہیں۔

چنانچہ ہمارے نزدیک مسئلہ کا اصل حل یہی ہے کہ شادی کو زندگی کا اہم ترین واقعہ اور سب سے بڑا سماجی ایونٹ بنانے کا رویہ ہی غلط بلکہ درحقیقت گناہ عظیم ہے۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں جو اسراف جنم لیتا ہے اس کے بارے میں قرآن کا اعلان عام ہے کہ اس کے مرتکبین شیاطین کے بھائی ہیں۔ چنانچہ ہر شخص کو یہ بتانا چاہیے کہ شادی میں اسراف کر کے اسے سنت رسول کے بجائے سنت شیطان بنانے کا گناہ کرنا پہلے ہی گناہ عظیم ہے اور اس کے نتیجے میں شادی کو مشکل بنانے کے جرم میں شریک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جتنے لوگ اس کی بنا پر زنا کریں گے، ان کے زنا کا ایک حصہ اس شادی شدہ جوڑے پر ڈالا جائے گا اور جتنے لوگوں کی شادی نہیں ہوگی، ان کا صبر بھی اسی شادی شدہ جوڑے پر پڑے گا۔

مختصر یہ کہ اصل حل والدین کا کردار کم کرنا نہیں بلکہ اسے درست جگہ پر لانا ہے کہ ان کی اولاد اگر اپنے ارمان نکالنا بھی چاہے تو وہ اس موقع پر ان کو اس چیز سے باز رکھیں اور خود بھی اس گناہ عظیم میں حصہ نہ ڈالیں۔

3،2)دوسری تجویز باقاعدہ خاندانی ذمہ داری اٹھانے سے قبل ہائیر ایجوکیشن کے مرحلے میں نکاح کے ذریعے سے جنسی تعلقات کی اجازت دینے سے متعلق ہے۔ یہ اجازت وہ لڑکی کی رخصتی کے بغیر بھی دینے کے حامی ہیں۔ اس تجویز میں بغیر رخصتی کے تعلقات کا حصہ ممکنہ طور پر بہت سی قباحتوں کو جنم دینے کا باعث بنے گا۔ خاص طور پر لڑکی اور اس کے گھر والوں کے لیے یہ موجودہ سماجی تناظر میں باعث عار ہوگا کہ لڑکی صرف اپنے شوہر کی جنسی تسکین کے لیے اس سے ملاقات کرے۔

یہ بھی خیال رہے کہ چند مستثنیات کے علاوہ جنسی تسکین، مردوں کی طرح عورتوں کا بنیادی مسئلہ نہیں ہوتا نہ اس شدت سے عورتوں میں موجود ہوتا ہے جس طرح مردوں میں ہوتا ہے۔ عورت کا بنیادی مسئلہ گھر اور خاندان ہوتا ہے۔ وہ نکاح کی ساری ذمہ داریاں اور پابندیاں اسی کے حصول کے لیے قبول کرتی ہے۔ جب اسے اس کی مطلوبہ شے نہیں مل رہی تو وہ مرد کو اس کی مطلوبہ شے کیوں دے گی۔ مغرب میں بھی یہ اسی وقت ممکن ہوا ہے جب عورت معاشی طور پر مکمل خودمختار اور سماجی طور پر اپنے پارٹنر کے برابر مانی گئی ہے۔ ہمارے ہاں پہلی چیز معاشی حالات اور دوسری چیز مذہبی وجوہات کی بنا پر ممکن نہیں ہے۔

اسی طرح رخصتی کے بغیر اصلاً خاندان وجود میں نہیں آتا۔ کم عمری میں مزاجوں میں بھی تلاطم ہوتا ہے۔ ایسے میں صرف نکاح کا کاغذی رشتہ کسی وقت بھی کاغذ کی طرح پھاڑا جاسکتا ہے جس کے نتیجے میں لڑکے اور اس سے کہیں زیادہ لڑکی کو سماجی طور پر نقصان ہوگا۔

ان تمام وجوہات کی بنا پر ہمارے نزدیک اس تجویز میں یہ ترمیم ہونی چاہیے کہ اول تو لڑکے کے والدین اس ذمہ داری کو اپنے سر لیں اور لڑکی کو باقاعدہ بیاہ کر اپنے گھر لائیں۔ یہ اگر ممکن نہ ہو تو موجودہ شادی کے تمام اخراجات کو ختم کیا جائے۔ یہ رقم آج کل مڈل کلاس میں تقریباً پچاس لاکھ کے قریب ہوتی ہے۔ اس رقم سے کئی برس کے لیے لڑکے لڑکی کو کرائے کا گھر اور ضروری سامان زندگی فراہم کیا جاسکتا ہے۔ معاشرے کی دیگر کلاسز بھی اپنے لحاظ سے شادی پر خرچ کی جانے والی رقم سے اپنے بچوں کو یہ بنیادی ضروریات فراہم کرسکتے ہیں۔

اس عرصے میں بچوں کی پیدائش کو موجودہ میڈیکل سائنس کی بنیاد پر موخر کیا جاسکتا ہے۔ مزید یہ کہ میڈیکل سائنس کی ترقی کی بنا پر یہ ممکن ہے کہ خواتین تیس بلکہ چالیس کی دہائی میں بھی باآسانی ماں بن سکتی ہیں۔ چنانچہ بچے اسی وقت پیدا کیے جائیں جب میاں بیوی اس ذمہ داری کو پوری طرح سنبھالنے کے قابل ہوں۔ لیکن ضروری ہے کہ ان کی شادی مناسب عمر میں جو لڑکوں کے لیے بیس بائیس اور لڑکیوں کے لیے اٹھارہ انیس برس ہے، کر دی جائے۔

اس ضمن میں حکومت جس کی ترجیحات میں سرفہرست عوامی فلاح ہونی چاہیے، اگر سستی رہائشی اسکیم جیسے سو گز کا گھر یا اسٹوڈیو فلیٹ بنا دے تو والدین کے لیے مزید آسانی ہوجائے گی۔ یہی بات عمار صاحب نے تیسری تجویز میں بیان کی ہے جو بالکل درست ہے۔ تاہم آئیڈئل صورتحال یہی ہے کہ لڑکے کے والدین اپنے ساتھ بچی کو رکھیں۔ گھر میں صرف ایک لڑکی کے آجانے سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا اور آج کل مڈل اور اپر کلاس میں ویسے بھی زیادہ بچے نہیں ہوتے اور آئندہ نسل میں لوئر کلاس میں بھی نہیں ہوں گے۔ چنانچہ گھر سے ایک بیٹی جائے گی تو دوسری آجائے گی۔ کسی پر زیادہ بوجھ نہیں پڑے گا۔

4) عمار صاحب کی چوتھی تجویز ایسے رشتوں کی حوصلہ شکنی ہے جس میں میاں بیوی جغرافیائی طور پر الگ رہیں۔ یہ بالکل درست ہے البتہ ان کی دوسری بات کہ نکاح بہ نیت فرقت کی فقہی اجازت سے فائدہ اٹھایا جائے، ہمارے نزدیک نکاح کی اس حقیقت اور روح کے خلاف ہے جو ہم نے شروع میں بیان کی ہے۔ نکاح کوئی ابدی رشتہ نہیں اور اسی لیے طلاق کا قانون دین میں موجود ہے، لیکن نکاح کرکے وقت فرقت کی نیت اس رشتے کو انتہائی ناپائیدار بنا دیتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ نکاح جنسی تسکین کا نام نہیں، یہ اصلا تشکیل خاندان کا عمل ہے جس کا صلہ جنسی تسکین ہے۔ لیکن جب ارادہ ہی وقتی جنسی تسکین اور کچھ عرصے بعد خاندان توڑنے کا ہو تو تعلق میں کبھی پائیداری نہیں آسکتی۔

اس کے بجائے ہماری تجویز یہ ہے کہ بیوی کو ہر حال میں شوہر کے ساتھ بھیجا جائے۔ اس ضمن میں تجویز نمبر دو میں بیان کردہ چیزیں جیسے شادی کے اخراجات سے گھر کا بندوبست، بچوں کی پیدائش کو موخر کرنا یا کم سے کم کرنا اور حکومت کی چھوٹے گھروں کی اسکیموں سے مدد لی جانی چاہیے۔ جہاں یہ ممکن نہ ہو وہاں مرد مقامی خاتون سے شادی کرے یا عفت کا راستہ اختیار کرے۔ دور حاضر کے کمیونیکیشن اور سفر کے ذرائع اس کے لیے صبر آسان بنا دیں گے۔ ورنہ اس دنیا میں جہاں دیگر امتحان ہوتے ہیں کچھ لوگوں کا یہ امتحان بھی سہی۔ لیکن فرقت کی نیت سے تعلق، نکاح سے زیادہ متعہ سے قریب ہے اور اسی لیے ہمارے نزدیک درست نہیں۔

5) پانچویں تجویز سے مکمل طور پر اتفاق ہے کہ خود کفیل خواتین کے لیے رخصتی، نفقہ و سکنیٰ کی شرائط کو باہمی رضا مندی سے ختم کرکے نکاح کو قابل قبول بنایا جائے۔ تعدد ازواج کی رخصت سے بھی فائدہ اٹھایا جائے۔ صرف اس شرط کے ساتھ کہ پہلی بیوی یہ قربانی اللہ کی رضا کے لیے دینے پر تیار ہوجائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ برصغیر کے معاشرے میں جہاں مسلم خواتین آج بھی سماجی طور پر اس پہلو سے ہندو ہیں، ان کے لیے دوسری شادی کا مطلب پہلی شادی، ازواجی زندگی، خاندان اور اس کے ذہنی سکون کا خاتمہ ہے۔ ظاہر ہے کہ دوسری عورت کا گھر بسانے کے لیے پہلی عورت کا گھر برباد کرنا کوئی دینی مصلحت نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ پہلی بیوی کی مرضی کے بغیر یہ حل غیرمطلوب ثابت ہوگا۔

اس ضمن میں مردوں کی یہ تربیت ضروری ہے کہ انھیں ہر حال میں عدل کرنا ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ نیا رشتہ قائم کرنے سے قبل پہلی بیوی جس نے قربانی دی ہے اس کے اور اس کے بچوں کے مفادات اور حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ اس کے لیے ہر تحریری اور قانونی ضمانت دی جائے۔ جو شوہر یہ نہ کرے اسے دوسری شادی کی اجازت نہ دی جائے اور جو شخص شادی کے بعد عدل نہ کرے اسے عدالت اور قانون کے ذریعے سے سزا دلوائی جائے۔

امید ہے کہ ربع صدی قبل شائع ہونے والے ہمارے مضمون ’’یہ نعمت مصیبت کیوں بن گئی ہے‘‘ کے ساتھ ہماری اور عمار صاحب کی یہ تجاویز معاشرے کو آنے والے اخلاقی بحران اور اس کے حل کی طرف متوجہ کرنے میں ضرور کامیاب ہوں گی۔ ورنہ اتنی امید ضرور ہے کہ یہ دیگر اہل علم اور ماہرین سماجیات کو اس مسئلے کی طرف متوجہ کرکے زیادہ بہتر تجاویز سامنے آنے کا ذریعہ بن جائیں گی۔ یہ نہ ہوا تو مغرب کی طرح ہمیں بھی زنا پر مبنی تہذیب کا شکار ہونے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

نوٹ: جن تحریروں کا اس مضمون میں حوالہ دیا گیا ہے یعنی عمار خان ناصر صاحب کی تحریر اور ابویحییٰ صاحب کا مضمون ’’یہ نعمت مصیبت کیون بن گئی ہے‘‘، یہ دونوں انذار کے فروری 2023 کے شمارے میں شائع کی جارہی ہیں تاکہ قارئین ان سے بھی استفادہ کرسکیں۔