Take a fresh look at your lifestyle.

مضامین قرآن (78) شخصی رویے: جلد بازی ۔ ابویحییٰ

اس دنیا میں انسان جو جسمانی ساخت لے کر آتا ہے، وہ دوسرے حیوانات کے مقابلے میں بہت کمزور ہے۔ وہ پرندوں کی طرح اڑ سکتا ہے، نہ مچھلیوں کی طرح تیر سکتا ہے نہ درندوں کی طرح دوڑ سکتا ہے۔ جسمانی ساخت میں ہر پہلو سے کوئی نہ کوئی مخلوق انسان سے آگے رہتی ہے۔ انسان کا اصلی شرف اور طاقت اس کی عقل ہے جو اس کی تمام تر جسمانی کمزوری کے باوجود اسے دیگر مخلوقات پر برتری عطا کرتی ہے۔

انسان کے جسمانی وجود کا یہ ضعف انسانی نفسیات میں بھی تھڑدلاپن، عجلت اور جلد بازی پیدا کرتا ہے۔ یہ عجلت نفسیات انسانی کی کمزوری نہیں اس کے عجز کا تقاضا ہے۔ یہ اس دنیا میں جاری زندگی اور بقا کی جنگ میں اس کو اپنا وجود برقرار رکھنے میں مدد کرتی ہے۔ انسانوں کی یہی نفسیات انھیں ابھارتی ہے کہ وہ مشکل میں اپنے تحفظ کا فوری بندوبست کریں اور ضرورت کے موقع پر اپنی خوراک اور وسائل کی بروقت فراہمی کو یقینی بنائیں۔ اسی چیز نے انسان کو ایک کامیاب شکاری، ایک کاشتکار اور ایک ہنرمند بننے میں بہت مدد کی ہے۔ اسی نفسیات نے فرد کے لیے خاندان، خاندان کے لیے قبیلہ اور قبیلے کے لیے قوم بننے کی راہ ہموار کی ہے۔

جلد بازی کی نفسیات جب تک ضرورت کے حدود اور عقل کے دائرے میں رہتی ہے، انسان کی مددگار و معاون ہوتی ہے۔ لیکن جب یہ ان حدود اور دائرے سے نکل کر عادت ثانیہ بن جائے تو دنیا میں بھی باعث نقصان ہے۔ اس کی ایک نمایاں مثال اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے گاڑی چلانے میں جلدی کرنا ہے۔ اکثر و بیشتر حادثات کے پیچھے کارفرما عامل جلد بازی ہی ہوا کرتا ہے۔ حادثات کے علاوہ جلد بازی کی عادت روزمرہ زندگی میں اسٹریس پیدا کرتی اور انسان کو دباؤ کا شکار کر دیتی ہے۔ یہ ایک دو مثالیں بتاتی ہیں کہ جلد بازی یا عجلت، اپنے دائرے سے نکل کر انسانی شخصیت پر غالب ہوجائے تو پھر باعث نقصان ہوتی ہے۔ یہ وہ بات ہے جو دنیا کی حد تک ہر معقول انسان سمجھتا ہے اور اپنی جلد باز طبیعت کو عقل کی حدود کے تحت رکھتا ہے۔

جلد بازی اور دین کی دعوت
انسانوں کی بدقسمتی ہے کہ دنیا کی حد تک جلد بازی کی خرابی کو سمجھ جانے والے لوگ بھی دین کے لحاظ سے عجلت پسندی کے تباہ کن نتائج کو نہیں سمجھتے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ دین کا بنیادی مقدمہ خدا کی ہستی اور آخرت کی زندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا معاملہ یہ ہے کہ کائنات کا نظام وہ تدریج کے اصول پر چلا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تکوینی اسکیم میں کچھ بھی ایک دم نہیں ہوتا، گرچہ وہ ایسا کرنے کی پوری قدرت رکھتے ہیں۔ مگر غیب کا پردہ باقی رکھنے کے لیے عام طور پر وہ تعجیل کے بجائے تاخیر کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وقت کے جو پیمانے ان کے ہاں مقرر ہیں وہ انسانوں کے مقرر کردہ پیمانے سے بہت زیادہ مختلف ہیں۔ ان کے پیمانوں میں ایک دن ہمارے ہزار برس کے برابر ہوتا ہے۔ فرشتے ان کے حضور پچاس ہزار برس میں پیش ہوتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ گرچہ وہ سریع الحساب اور سریع العقاب ہیں، مگر ان کے لحاظ سے لمحوں میں ہوجانے والے کام بھی ہمارے اعتبار سے برسوں بعد ظہور پذیر ہوتے ہیں۔

یہ خدا کا معاملہ ہے۔ رہی آخرت تو اس کا تو سارا نفع و نقصان ہی ادھار ہے۔ دنیا مٹی ہو اور جنت سونا تب بھی جنت کو فوری طور پر نہیں ملنا۔ دوسری طرف لذت دنیا وقتی و لمحاتی ہو اور عذاب جہنم ابدی تب بھی دنیا کی لذت فوری طور پر ملتی ہے اور عذاب آخرت بمصداق آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل، اگلی دنیا میں ملنے والی چیز ہے۔ خدا اور آخرت سے متعلق یہ وہ حقائق ہیں جنھوں نے ہر دور میں انسانوں کی جلد باز فطرت کو دعوت حق قبول کرنے، اسے اختیار کرنے اور اس پر ثابت قدم رہنے سے روکا ہے۔ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ جلد باز طبیعت جب اپنی سرکشی، غفلت، خواہش پرستی اور حب دنیا کے نتائج فوری طور پر نہیں دیکھتی تو انسان دین کے معاملے میں ہر انحراف پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ وہ سرکشی، ظلم اور معصیت کا ارتکاب کرتا ہے اور ساتھ میں خدا کو چیلنج کرتا ہے کہ میں غلط ہوں تو فوری طور پر عذاب دے کر مجھے ہلاک کر۔ فوری نشانیاں مانگتا ہے اور انفس و آفاق میں پھیلی نشانیوں کو دیکھنے کے لیے اندھا بن جاتا ہے۔ وہ جلد ملنے والی دنیا کی محبت میں مبتلا ہوکر آخرت کی ابدی بادشاہی کو ٹھوکر مارتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس نے بڑے نفع کا سودا کیا ہے۔ اس کی عقل چاہے اس کو یہ بتائے کہ خداسریع الحساب ہے، وہ تدریج کے راستے ایک خاص وقت پر اپنا قطعی فیصلہ اتارے گا، مگر وہ غافل بنا رہتا ہے۔ اس کا خمیر اس کو لاکھ سمجھائے کہ دنیا کا ہر مزہ عارضی اور فانی ہے اور آخرت کی ہر نعمت ابدی اور مستقل ہے، مگر مجال ہے کہ وہ اپنے ضمیر کی پکار پر توجہ دے۔

جلد بازی کے بارے میں قرآن مجید کی تعلیم
خدا اور آخرت کے معاملے میں عقل اور ضمیر کی پکار کو کونے میں رکھ کر حب عاجلہ کا شکار ہوجانا ہی وہ چیز ہے جسے قرآن مجید نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اس کی خرابی پر متنبہ کیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس نے یہ بھی بتایا ہے کہ جلد باز طبیعت کس طرح خدا کے عذاب کو دعوت دیتی ہے۔ اسی طرح اس حقیقت پر بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ حق کی طرف بلانے والوں کو بھی جلدی نتائج کے حصول کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ انھیں خدا کی اسکیم میں خود کو ڈھالنا چاہیے جو تعجیل کے بجائے تدریج اور تاخیر کے اصول پر کام کرتی ہے۔ قوم کی تربیت ہو، دعوت حق کا ابلاغ ہو یا خدا کے فیصلے کا ظہور، ہر چیز اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ داعی جلد بازی کے بجائے صبر و تحمل سے خدا کے حکم کے مطابق چلے اور اس کے فیصلے کا انتظار کرے۔ حضرت موسیٰ کو اسی پس منظر میں اپنی قوم کو چھوڑ کر کوہ طور پر جلد چلے آنے پر متنبہ کیا گیا اور حضور نبی کریم کو اسی بنیاد پر قرآن مجید کے جلد از جلد حصول کی خواہش اور کفار کی طرف سے عذاب و معجزات کے ظہور کے بے ہودہ مطالبات پر پریشان ہونے سے روکا گیا تھا۔ ان جگہوں پر گرچہ جذبہ انتہائی پاکیزہ اور جانب حق پر مبنی تھا، مگر خدا کی اسکیم کے تحت ایک داعی کو خود کو ڈھالنا ہوتا ہے اور تدریج و تاخیر کے خدائی انداز کے مطابق اپنا لائحہ عمل اختیار کرنا ہوتا ہے۔

قرآنی بیانات
”اور حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی کمزور پیدا کیا گیا ہے۔“،(النسا28:4)

”بہت جلدی مچائی ہے ایک جلدی مچانے والے نے، اُس عذاب کے لیے، جو اِن منکروں پر آکر رہے گا، اُسے کوئی ہٹا نہ سکے گا۔ وہ اللہ کی طرف سے آئے گا جو عروج کے زینوں والا ہے۔ (یہ ہر چیز کو اپنے پیمانوں سے ناپتے اور پھر جلدی مچا دیتے ہیں۔ اِنھیں بتاؤ کہ) فرشتے اور روح الامین (تمھارے حساب سے) پچاس ہزار سال کے برابر ایک دن میں اُس کے حضور چڑھ کر پہنچتے ہیں۔ اِس لیے، (اے پیغمبر)، تم (اِن کی باتوں پر) پورے حسن و وقار کے ساتھ صبر کرو۔ یہ اُس کو دور سمجھتے ہیں۔ اور ہم اُسے بہت قریب دیکھ رہے ہیں۔“، (معارج 1-7:70)

”(یہ اِسی طرح جلدی مچاتے رہیں گے، تم اِن کی پروا نہ کرو)۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بہت بے صبرا پیدا ہوا ہے۔“،(معارج 19:70)

”(وہی رحمٰن ہے) اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں“، (الفرقان63:25)

”(پھر ہوا یہ کہ موسیٰ اُس وعدے کے لیے وقت سے پہلے ہی پہنچ گیا، فرمایا:) یہ اپنی قوم کو چھوڑ کر تم جلدی کیوں چلے آئے ہو، موسیٰ؟ اُس نے عرض کیا: وہ لوگ بھی یہ میرے پیچھے ہی ہیں اور پروردگار، میں تیری خوشنودی کے لیے تیرے حضور جلدی چلا آیا ہوں۔“، (طہٰ84-83:20)

”سو برتر ہے اللہ، بادشاہ حقیقی۔ (وہ اپنی حکمت کے مطابق اِس کو اُسی تدریج سے اتارے گا جو اُس نے مقرر کر دی ہے)۔ اور دیکھو تم اپنی طرف اِس کی وحی کے پورا ہو جانے سے پہلے اِس قرآن کو پانے کی جلدی نہ کرو، اور دعا کرتے رہو کہ پروردگار، میرا علم زیادہ کر دے۔“، (طہٰ114:20)

”سو اِن کے خلاف فیصلے کے لیے جلدی نہ کرو۔ ہم تو بس اِن کی گنتی پوری کر رہے ہیں۔“، (مریم84:19)

”یہ تو کہہ چکے کہ ہمارے پروردگار، ہمارا حساب تو روز حساب سے پہلے ہی ہم کو چکا دے۔“،(ص16:38)

”سو، (اے پیغمبر)، ثابت قدم رہو، جس طرح اولوالعزم پیغمبر ثابت قدم رہے اور اِن کے لیے (عذاب کی) جلدی نہ کرو۔ جس دن یہ لوگ اُس چیز کو دیکھیں گے جس کی اِنھیں وعید سنائی جا رہی ہے تو محسوس کریں گے کہ گویا دن کی ایک گھڑی سے زیادہ (دنیا میں) نہیں رہے۔ تمھارا کام پہنچا دینا ہے۔ اب ہلاک تو وہی لوگ ہوں گے جو نافرمان ہیں۔“، (الاحقاف35:46)

”اِن سے کہو کہ جس (قیامت) کے لیے جلدی مچائے ہوئے ہو، بہت ممکن ہے کہ اُس میں سے کچھ تمھارے پیچھے ہی لگا ہوا ہو۔“،(النمل72:27)

”(یہ اِس لیے نہیں مان رہے کہ) یہ صرف جلد ملنے والی سے محبت کرتے ہیں اور اپنے آگے ایک بھاری دن کو پس پشت ڈال رہے ہیں۔“،(الانسان27:76)

”(یہ عذاب کے لیے جلدی مچائے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ) انسان عجلت کے خمیر سے پیدا ہوا ہے۔ میں عنقریب اپنی نشانیاں تمھیں دکھاؤں گا، اِس لیے مجھ سے جلدی نہ مچاؤ۔“، (الانبیا37:21)

”پھر کیا یہ ہمارے عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں؟“،(الصافات176:37)

”یہ تم سے عذاب کے لیے جلدی مچائے ہوئے ہیں۔ اِن پر عذاب آجاتا، اگر اُس کے لیے ایک وقت مقرر نہ ہوتا۔ (اِن کا رویہ یہی رہا تو) یقیناً (ایک دن) وہ اچانک اِن پر آجائے گا اور اِنھیں خبر بھی نہیں ہوگی۔

(اِن پر افسوس)، یہ تم سے عذاب کے لیے جلدی مچائے ہوئے ہیں، دراں حالیکہ جہنم اِن منکروں کو گھیرے میں لے چکی ہے۔“،(العنکبوت53-54:29)

”(یہ اُس کی نشانی مانگتے ہیں)۔ انسان (پر افسوس، وہ اپنے لیے) جس طرح بھلائی مانگتا ہے، اُسی طرح برائی مانگنے لگتا ہے۔ انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے۔“،(الاسرا11:17)

”یہی ہیں جو اپنی کمائی کا حصہ پا لیں گے، اور اللہ کو حساب چکاتے کبھی دیر نہیں لگتی۔“،(البقرہ202:2)

”(یاد رکھو کہ) وہی ہے جس نے تمھیں زمین کا اقتدار بخشا اور ایک کو دوسرے سے بلند درجے دیے تاکہ جو کچھ اُس نے تمھیں عطا فرمایا ہے، اُس میں تمھارا امتحان کرے۔ (تم مطمئن رہو، اے پیغمبر)، تمھارا پروردگار سزا دینے میں بھی بہت تیز ہے اور بڑا بخشنے والا اور رحم فرمانے والا بھی ہے۔“،(الانعام165:6)