Take a fresh look at your lifestyle.

مضامین قرآن (86) شریعت کے مطالبات ۔ ابویحییٰ

قرآن مجید اور شخصی رویے
مضامین قرآن کے پچھلے مباحث میں ہم وہ شخصی رویے زیر بحث لارہے تھے جو فرد کو ایمان و اخلاق کی دعوت کے رد و قبول اور اس کے تقاضوں کو نبھانے میں معاون یا مزاحم ہوتے ہیں۔ ان میں سے اہم ترین رویوں کو ان کی جزئی تفصیلات سمیت ہم زیربحث لاچکے ہیں۔ قرآن مجید میں بیان کردہ ان شخصی رویوں کا پس منظر یہ ہے کہ قرآن مجید ایک صحیفہ رسالت ہے۔ اس میں نہ صرف ایمان و اخلاق کی وہ دعوت اور اس کے دلائل تفصیل کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو دی بلکہ منکرین کا ردعمل اور اس ردعمل پر اللہ تعالیٰ کے تبصرے بھی بیان کیے گئے ہیں۔ اس ردعمل اور ان تبصروں میں جابجا وہ شخصی کمزوریاں صراحتاً اور بین السطور بیان ہوئی ہیں جو ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے کفر و ایمان کا سبب بن رہی تھیں۔ ان شخصی رویوں میں سے جو تفصیلاً اور صراحتاً بیان ہوئے ان کا احاطہ ہم نے کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم ان کے علاوہ بھی بہت سے شخصی رویوں کو قرآن مجید میں بالاجمال اور بین السطور بیان کیا گیا ہے۔

لیکن ان رویوں کا تفصیلی احاطہ کرنے سے زیادہ اہم بات اس حقیقت کو سمجھنا ہے کہ ہر انسان کو قرآن مجید کا مطالعہ کرتے وقت اس پہلو سے ضرور غور و فکر کرنا چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ قرآن مجید کسی منفی رویے کو بیان کر رہا ہو اور وہ اس میں پایا جاتا ہو یا کسی اہم اور ضروری شخصی خوبی کا بیان ہوا ہے اور اس نے اپنی شخصیت میں اس کو پیدا نہ کیا ہو۔ یہ سوچ اگر پیدا ہوجاتی ہے تو پھر قرآن مجید کا مطالعہ انسان کے لیے خود احتسابی کا ایک موثر ذریعہ بن جائے گا۔

یہ شخصی رویے اپنی ذات میں محمود یا مذموم نہیں لیکن یہ ایمان و اخلاق کے تقاضوں کو نبھانے یا برعکس رویہ اختیار کرنے کے انسانی فیصلے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس پس منظر میں ان کی اہمیت اور ان میں سے اہم ترین کا تفصیلی مطالعہ ضروری تھا جو ہم نے کرلیا ہے۔ اب مطالبات کے ضمن میں آخری چیز شریعت کے مطالبات کی ہے جو قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں۔

شرعی مطالبات کی نوعیت کیا ہے؟
شرعی مطالبات کے متعلق بھی یہ اصولی بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ یہ اصلاً ایمان و اخلاق کے تقاضوں کی حدبندی کا نام ہیں جو طریقہ کار کے بیان، حدود و قیود کی نشاندہی اور وقت و تعداد کی تعین کے ساتھ طے کر دی جاتی ہے اور پھر ایک قانون بن جاتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کی گئی وہ اضافی رہنمائی ہے جو اپنی ذات میں ایک بڑی نعمت ہے۔ اسی لیے اس کو قرآن مجید میں اتمام نعمت (المائدہ3:5) اور وہ عہد کہا گیا ہے جس کی پابندی مطلوب ہے(المائدہ1:5)۔ سمع و طاعت کا قرآنی مطالبہ اصلاً انھی شرعی احکام کے لیے ہے کہ ایمان و اخلاق کی دعوت کے برعکس جس میں سے پہلی چیز یعنی ایمان کے تفصیلی دلائل قرآن مجید نے پیش کیے اور دوسرے یعنی اخلاق خود انسانی فطرت کے لیے معلوم و معروف چیز ہے، شرعی احکام اکثر بطور حکم بیان ہوتے ہیں اور ان کی علت بارہا بیان نہیں کی جاتی۔ گرچہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے پیچھے کارفرما حکمت دریافت نہیں کی جاسکتی۔ دین میں گہری بصیرت رکھنے والے اہل علم ان حکمتوں کو دریافت کرتے رہتے ہیں لیکن یہ سمجھ میں نہ بھی آئیں تب بھی شرعی حکم کی پیروی ایک لازمی دینی مطالبہ ہے۔

ان شرعی احکام کی مجموعی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو افراط و تفریط سے بچاتے ہیں اور ان امور میں انسانوں کی رہنمائی کرتے ہیں جہاں عقل انسانی کے ٹھوکر کھا جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔چنانچہ وحی الٰہی انسانی عقل کی رہنمائی کرکے اسے راہِ اعتدال تک پہنچاتی ہے۔ اس بات کو مثالوں سے اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ جھوٹ سے بچنا ایک اخلاقی تقاضا ہے، لیکن کسی پر زنا کا جھوٹ منسوب کرنا فرد و اجتماع کے لیے جو خرابی پیدا کرسکتا ہے، اس کے پس منظر میں قرآن مجید میں قذف کا وہ قانون بیان کیا گیا جس کی رو سے جھوٹا الزام لگانے والوں کو اسی کوڑے کی سزا سنائی گئی ہے۔ ایک مثال عدل کی ہے جو بنیادی اخلاقی مطالبہ ہے۔ قرآن مجید نے ورثا میں ترکہ تقسیم کرنے کا ایک قانون خود دے کر انسانوں کو اس افراط و تفریط سے محفوظ رکھا ہے جو ذاتی رجحانات کی بنا پر لوگ اختیار کرلیتے ہیں۔ خدا کی یاد کھڑے، بیٹھے اور کروٹوں پر ہر حال خدا پرستوں کا شیوہ (آل عمران3:190) اور ذکر کثیر (الاحزاب41:33) یعنی خدا کو بہت یاد کرنا ایک مطلوب ایمانی وصف ہے۔ نماز کا قانون دے کر اس کی کم از کم حد، وقت اور طریقہ کار کی تعین کے ساتھ بیان کر دی گئی ہے۔ فواحش کے قریب نہ جانے (الانعام6:151) کا جب حکم دیا گیا تو مرد و زن کے اختلاط کے موقع پر کچھ احکام دے کر اس کی عملی شکل کھول کر بیان کر دی گئی۔

شریعت کے احکام اور اہل علم کی ذمہ داری
احکام شریعت کا معاملہ ایک انتہائی نازک معاملہ ہے۔ اہل علم کو اس باب میں کچھ چیزوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے ورنہ جس مقصد کے پیش نظر شریعت کے قوانین دیے گئے ہیں، وہ مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ ہم ان میں سے اہم ترین کو بالاجمال بیان کر دیتے ہیں۔

پہلی یہ کہ شریعت کے قوانین اپنی ذات میں مطلوب ہیں۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہان کے پیچھے کارفرما مقصد ایمان و اخلاق کے تقاضوں کو لوگوں کے لیے نبھانے کا عمل عملی سطح پر ممکن بنانا ہوتا ہے، لیکن جہاں یہ احکام دے دیے جاتے ہیں، وہاں ان احکام کا کوئی متبادل پیش نہیں کیا جاسکتا نہ ان میں تغیر کیا جاسکتا ہے۔ فجر کی نماز کا وقت وہی ہے جو مقرر کر دیا گیا ہے، تمدن کے تغیر کی بنا پر اس میں تبدیلی ممکن نہیں۔ قرآن مجید میں بیان کردہ سزائیں تمام تر سماجی اور قانونی ارتقا کے باوجود ویسے ہی دی جائیں گی جیسے وہ دین میں بیان کی گئی ہیں۔ ہاں یہ بات اہل علم ضرور ملحوظ رکھیں کہ قانون کو بیان کرتے ہوئے جو کچھ گنجائش اور وسعت قرآنی الفاظ اور سیاق و سباق میں اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے، اس کو ہمیشہ سامنے رکھا جائے۔

دوسری یہ کہ آیات قرآنی سے حکم اخذ کرتے ہوئے حکم کا خاص یا عام ہونا، اس کی علت اور موقع محل، اس کی نوعیت کہ مخاطب اول سے متعلق ہے یا عمومی حکم ہے، عرف ہے یا رواج ہے ان سب کو دیکھا جائے گا۔ اسی طرح دین میں مجموعی طور پر تکلیف مایطاق (البقرہ286:2) کا جو اصول دیا گیا ہے اور کسی بھی قانون سازی میں عقل و فطرت کے مضمرات و مقدرات جس طرح پوشیدہ ہوتے ہیں، ان کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔

تیسری یہ کہ قرآن مجید گرچہ ہر جگہ حکم کی حقیقت اور مقصد بیان نہیں کرتا لیکن خدائے حکیم کا ہر حکم اپنا ایک پس منظر، مقصد، علت اور حقیقت رکھتا ہے۔ اس کو سمجھنا اور عوام کو سمجھانا اہل علم کی ذمہ داری ہے۔ یہ چیز نہ صرف اضافہ ایمان کا سبب بنتی ہے بلکہ حکم کے ساتھ اس کی روح کو بھی لوگوں کے دل ودماغ میں جاگزیں کرتی ہے جو اصلاً مطلوب ہے۔ صرف حکم کے قانون کو بیان کرنا ظاہر پرستی کی وہ سوچ پیدا کرتا ہے جو پھر بہت سی خرابیوں کو جنم دیتی ہے۔

چوتھی چیز اس حقیقت کا جاننا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت کم معاملات میں احکام دیے ہیں۔ زیادہ تر معاملات میں انھوں نے انسانوں کو آزاد چھوڑا ہے کہ وہ خود قانون سازی کرلیں۔

پانچویں چیز یہ ہے کہ شریعت کے بیان کردہ دائرے سے باہر قانون سازی کے لیے ایک تو مذکورہ بالا تمام چیزیں اہل علم کو سامنے رکھنی چاہئیں اور دوسرا احکام الٰہی کے بنیادی دائرے اور ان میں دیے گئے احکام کی اساسات بھی پیش نظر رہنی چاہئیں۔ مثلاً یہ کہ اخلاقی احکام کی اساس معروف و منکر ہے۔ جسمانی طہارت کے احکام کی اساس نجاست و طہارت ہے۔ خور و نوش کی اساس چیزوں کا خبیث اور طیب ہونا ہے اور اللہ تعالیٰ سے متعلق احکام کی اساس شکر و کفر ہے۔

چھٹی چیز یہ ہے کہ شریعت کے بیان کردہ دائرے سے باہر کی گئی قانون سازی بہرحال انسانی عمل ہے۔ اس سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے، ایک دوسری رائے بھی قائم کی جاسکتی ہے، رائے بدلی بھی جاسکتی ہے اور بعد کے زمانوں میں کسی پچھلی رائے کے برعکس قانون سازی بھی کی جاسکتی ہے۔ ہمارے ہاں کی فقہی روایات کا اصل دائرہ یہی ہے، مگر جب اس کو مقدس اورناقابل تغیر شرعی قانون سمجھا جاتا ہے تو وہ ساری قباحتیں سامنے آجاتی ہیں جن کا سامنا اس وقت تقلیدکو بطور اصول ماننے والے لوگوں کو پیش آرہا ہے۔

آخری اور سب سے اہم چیز یہ ہے کہ دینی مطالبات میں خود جو ترتیب و ترجیح پائی جاتی ہے وہ سامنے رہے۔ ایمان بنیاد ہے۔ اخلاقیات ایمان کے بطن سے پھوٹتی ہے۔ شریعت ان دونوں کے تقاضوں کو قابل عمل شکل میں پیش کرتی ہے۔ یہ تینوں اسی ترتیب کے لحاظ سے اہم ہیں۔ اس کے آگے انسانی فہم کی بنیاد پر کی گئی قانون سازی ہے جو بلاشبہ انسانوں کو خدا کی ہدایت سے قریب رکھنے کا سبب بنتی ہے، مگر انسانی کام ہونے کی بنا پر خطا و نسیان سے خالی نہیں۔ اس سے دلیل کی بنیاد پر اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ اس سے دین میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔