Take a fresh look at your lifestyle.

مضامین قرآن (84) شخصی رویے : حِلم ۔ ابویحییٰ

حِلم ایک جامع وصف
انسان کی زندگی میں سارے رنگ جذبات سے آتے ہیں۔ مگر یہ جذبات انسان پر غالب آجائیں اور انسان اپنی لگام جذبات کے حوالے کر دے تو وہ شرف انسانی سے محروم ہوکر جانور بن جاتا ہے یا پھر شیطان بن جاتا ہے۔ حلم وہ وصف ہے جو انسان کو اس کے جذبات پر غلبہ عطا کرتا ہے۔عربی زبان میں ”جہل“ کا لفظ کبھی علم کے بالمقابل استعمال ہوکر لاعلمی کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی حلم کے بالمقابل جذباتیت کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ اس مفہوم میں حلیم کا مطلب جذبات پر قابو رکھنے والا بردبار انسان ہوتا ہے۔

حلم انسانی شخصیت کی ایک بہت جامع خصوصیت ہے۔ حلم کی مدد سے انسان اپنی عقل کو جذبات پر غالب رکھتا ہے۔ اس پہلو سے حلیم انسان عقلمند ہوتا ہے۔ حضرت شعیب نے جب اپنی قوم کو ناپ تول میں ڈنڈی مارنے سے روکا تو ان کی قوم نے ان کو طنزیہ طور پر یہ جواب دیا تھا کہ تم تو بہت حلیم (عقلمند) ہو جو ہمیں یہ بتا رہے ہو کہ ہمیں اپنے مال میں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ حلم کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ انسان کو اس کی شہوات اور خواہشات پر قابو رکھنا سکھاتا ہے۔ چنانچہ ایک حلیم انسان خدا کی نافرمانی اور معصیت سے خود کو روکنے کی قدرت رکھتا ہے۔ حلم کا تیسرا اور بہت اہم پہلو یہ ہے کہ یہ انسان کے غیظ و غضب اور غصے کے جذبات پر اسے قابو دیتا ہے۔ اس پہلو سے حلیم انسان معاف کرنے والا اور درگزر کرنے والا ہوتا ہے۔ وہ کسی وقت بدلہ بھی لیتا ہے تو ظلم اور زیادتی نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ کے لیے اسی مفہوم میں حلیم کی صفت کئی مقامات پر استعمال ہوئی ہے کہ وہ بندوں کے جرائم اور خطاؤں کے باوجود بہت تحمل سے کام لیتا ہے، سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا ہے بلکہ معاف کر دیتا ہے۔ یہی وصف اسی پہلو سے حضرات انبیا کے لیے بھی آیا ہے۔

حلم کے بالمقابل رویے
حلم انسان کو ایک اعلیٰ انسان بناتا ہے۔ ایسا انسان غصے، جذبات اور خواہشات سے خالی تو نہیں ہوتا، مگر اپنے جذبات پر قابو پاکر لوگوں کو معاف کرتا اور غصے کو پی جاتا ہے۔ بدلہ لینے میں حد سے گزرنے کے بجائے عدل پر قائم رہتا ہے۔ ناگواری کے باوجود اور مفادات کے بغیر یکطرفہ طور پر لوگوں سے حسن سلوک کرتا ہے۔ لیکن جو انسان اپنی لگام اپنے جذبات کے ہاتھ میں دے ڈالے، وہ رفتہ رفتہ ایک بدترین انسان میں بدلتا چلا جاتا ہے۔ وہ اپنے جذبات سے مغلوب ہوکر، خواہشات کا شکار ہوکر، غَیظ و غَضَب کی آگ میں جھلس کر زمین کو ظلم و فساد سے بھر دیتا ہے۔ دوسروں کی جان مال آبرو کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس کے جذبات اس پر اس طرح حاوی ہوتے ہیں کہ وہ شیطان کا ایجنٹ بن جاتا ہے۔ اس کے برے اعمال اس کی نگاہ میں اچھے ہوجاتے ہیں۔ اس کا دل سختی کا شکار ہوجاتا ہے۔ دل پر مہر لگ جاتی ہے۔ انسان سنگ دل بن جاتا ہے۔ ہدایت کی کوئی بات انسان پر اثر نہیں کرتی اور آخرکار انسان پر خدا کی لعنت ہوجاتی ہے۔

یہ سب کچھ اسی بات کا نتیجہ ہوتا ہے کہ انسان نے اپنے اندر حلم کے وصف کو پروان نہیں چڑھایا ہوتا اور اپنی لگام اپنے جذبات کے ہاتھ میں تھما دی ہوتی ہے۔ یہ جذبات اسے کبھی غضب کی وادیوں میں لے جاتے ہیں اور کبھی شہوانیت کا اسیر بناتے ہیں۔ کبھی ظلم و ناانصافی کا ارتکاب کراتے ہیں اور کبھی زمین پر فساد برپا کراتے ہیں۔ لیکن جو انسان حلم کے اس وصف کو خود میں پیدا کرلے وہ ایک نرم دل، رحمدل، باوقار، باشعور اور با اصول انسان بن جاتا ہے۔ یہی وہ رویہ ہے جو انسان کو خدا کا محبوب بناتا ہے۔

قرآنی بیانات
”تم میں سے جو لوگ دونوں گروہوں کی مڈبھیڑ کے دن پیٹھ پھیر گئے تھے، اُن کی اِس لغزش کا سبب یہ تھا کہ اُن کے بعض کرتوتوں کی شامت سے شیطان نے اُن کے قدم ڈگمگا دیے تھے۔ تاہم اللہ نے اُنھیں معاف کر دیا۔ بے شک، اللہ بخشنے والا ہے، وہ بڑا بردبار ہے۔“،(ال عمران155:3)

”اللہ تمھاری اُن قسموں پر تو تمھیں نہیں پکڑے گا جو تم بے ارادہ کھا لیتے ہو، لیکن وہ قسمیں جو اپنے دل کے ارادے سے کھاتے ہو، اُن پر لازماً تمھارا مواخذہ کرے گا اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ بخشنے والا ہے، وہ بڑا بردبار ہے۔“،(البقرہ225:2)

”حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم بڑا بردبار، بڑا دردمند اور اپنے پروردگار کی طرف بڑا دھیان رکھنے والا تھا۔“، (ہود75:11)

”اُنھوں نے جواب دیا: اے شعیب، کیا تمھاری نماز تمھیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم اُن چیزوں کو چھوڑ دیں جنھیں ہمارے باپ دادا پوجتے رہے یا اپنے مال میں ہم اپنی مرضی کے مطابق تصرف نہ کریں؟ (تمھاری نگاہ میں سب اگلے پچھلے بے وقوف اور گمراہ تھے اور ہمارے اندر) بس تمھی ایک دانش مند اور راست باز آدمی رہ گئے ہو!“،(ہود87:11)

”ابراہیم نے تو اپنے باپ کے لیے صرف اُس وعدے کے سبب سے مغفرت مانگی تھی جو اُس نے اپنے باپ سے کر لیا تھا۔ مگرجب اُس پر واضح ہوگیا کہ وہ خدا کا دشمن ہے تو وہ اُس سے بے تعلق ہوگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم بڑا نرم دل اور بردبار تھا۔“،(التوبہ114:9)

”اور وہ کہ جو بدلہ اُس وقت لیتے ہیں، جب اُن پر زیادتی کی جائے۔ اِس لیے کہ برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے۔ پھر جس نے معاف کیا اور معاملے کی اصلاح کر لی تو اُس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ بے شک، اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ اور ہاں جن پر ظلم ہوا اور اُس کے بعد اُنھوں نے بدلہ لیا تو یہی ہیں جن پر کوئی الزام نہیں ہے۔ الزام تو اُنھی پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے اور زمین میں بغیر کسی حق کے سرکشی کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہے۔“،(الشوری39-43:42)

”اور وہ کہ جو بڑے گناہوں اور کھلی ہوئی بے حیائیوں سے بچتے ہیں اور جب کبھی غصہ آجائے تو ایسے لوگ ہیں کہ درگذر کر جاتے ہیں۔“،(الشوری37:42)

”(اِن کے ماننے والوں کو اب اور کیا سمجھایا جائے؟ اِس لیے) درگذر کرو، (اے پیغمبر)، نیکی کی تلقین کرتے رہو اور اِن جاہلوں سے اعراض کرو۔“،(اعراف 199:7)

”پھر جب موسیٰ کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو اُس نے وہ تختیاں اٹھا لیں۔ اُن سے جو کچھ منقول ہے، اُس میں اُن لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت تھی جو اپنے پروردگار سے ڈرنے والے ہوں۔“، (اعراف 154:7)

”جو ہر حال میں خرچ کرتے ہیں، خواہ تنگی ہو یا کشادگی، اور (جن پر خرچ کرتے ہیں، اُن کی طرف سے زیادتی بھی ہو تو) غصے کو دبا لیتے اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں (یہی خوبی سے عمل کرنے والے ہیں) اور اللہ اُن لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو خوبی سے عمل کرنے والے ہوں۔“،(ال عمران134:3)

”(تم یہی کرتے رہے، یہاں تک کہ) اِس کے بعد پھر تمھارے دل سخت ہوگئے، اِس طرح کہ گویا وہ پتھر ہیں یا اُن سے بھی زیادہ سخت۔ اور پتھروں میں تو ایسے بھی ہیں جن سے نہریں پھوٹتی ہیں اور اُن میں ایسے بھی ہیں جو پھٹ جاتے ہیں اور اُن سے پانی بہ نکلتا ہے اور اُن میں ایسے بھی ہیں کہ اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں۔ (یہ حقیقت ہے کہ تم یہی کرتے رہے ہو)، اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُس سے بے خبر نہیں ہے۔“،(البقرہ74:2)

”(اِن پر افسوس، اِن کے دل سخت ہوگئے)۔ پھر کیا وہ جن کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہے اور وہ اپنے رب کی طرف سے روشنی پر ہیں، اُن لوگوں کے برابر ہو جائیں گے جن کے دل سخت ہوچکے ہیں؟ سو خرابی ہے اُن کے لیے جن کے دل اللہ کی یاددہانی کے معاملے میں سخت ہوگئے۔ یہی کھلی گمراہی میں ہیں۔“،(الزمر22:39)

”اور زمین کی اصلاح کے بعد اُس میں فساد برپا نہ کرو اور اُسی کو پکارو، بیم و رجا، دونوں حالتوں میں۔ یہی خوبی کا راستہ ہے، تم اِسی پر چلو، اِس لیے کہ اللہ کی رحمت اُن لوگوں سے قریب ہے جو خوبی اختیار کرنے والے ہیں۔“،(اعراف 56:7)

”جو اللہ کے عہد کو اُس کے باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور اللہ نے جس چیز کے جوڑنے کا حکم دیا ہے، اُسے کاٹتے ہیں، اور اِس طرح زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ یہی ہیں جو (دنیا اور آخرت، دونوں میں) نامراد ہیں۔“،(البقرہ27:2)

”(انسان کی) یہی (سرکشی) ہے جس کی وجہ سے ہم نے (موسیٰ کو شریعت دی تو اُس میں) بنی اسرائیل پر بھی اپنا یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ جس نے کسی ایک انسان کو قتل کیا، اِس کے بغیر کہ اُس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں کوئی فساد برپا کیا ہو تو اُس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی ایک انسان کو زندگی بخشی، اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔ (پھر یہی نہیں، اِس کے ساتھ) یہ بھی حقیقت ہے کہ (اِن پر اتمام حجت کے لیے) ہمارے پیغمبر اِن کے پاس نہایت واضح نشانیاں لے کر آئے، لیکن اِس کے باوجود اِن میں سے بہت سے ہیں جو زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں۔“،(المائدہ32:5)

”حق مارتا ہے، پتھر دل ہے، اور اِس پر مزید یہ کہ بے اصل بھی ہے۔“،(القلم13:68)