Take a fresh look at your lifestyle.

مضامین قرآن (44) دعوت کے ردوقبول کے نتائج : آخرت کی دنیا ۔ ابو یحییٰ

دعوت کے ردوقبول کے نتائج:آخرت کی دنیا
نفخ ثانی اور نئی دنیا کا آغاز
ہم پیچھے بیان کرچکے ہیں کہ پہلے صور کے ساتھ ہی موجودہ دنیا ایک مکمل تباہی کا شکار ہوجائے گی۔اس کے بعد دوسرا صور پھونکا جائے گا جس کے ساتھ زندگی کا دوبارہ آغازہوگا۔ تاہم ان دوصوروں کے درمیان ایک طویل عرصہ گزرے گاجس کی مدت صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں۔ قرآن مجید کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عرصے میں موجودہ زمین و آسمان کی ہئیت بدل کر کچھ سے کچھ کردی جائے گی۔اس کو ایک مثال سے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ موجودہ زمین پانچ ارب سال قبل تک موجود ہی نہیں تھی۔ پھر اس کے بعد خلا میں بکھرے ہوئے ملبے سے موجودہ زمین وجود میں آئی اور رفتہ رفتہ اس انتہائی خوبصورت، تر وتازہ، سرسبز و شاداب اور زندگی کے لیے مکمل موزوں کرہ ارض میں تبدیل ہوگئی جسے آج ہم اپنے سامنے دیکھتے ہیں۔جدید سائنس کے مطابق یہ پورا عمل کم و بیش ساڑھے چارا رب سال میں جاکر پورا ہوا ہے۔
محسوس یہ ہوتا ہے کہ اس وقفے کے درمیانی عرصے میں موجودہ زمین کو بدل کر اسے ایک بہتر شکل میں لایا جائے گا۔ جبکہ باقی کائنات میں بھی یہی معاملہ کیا جائے گا اور اس کائنات کو بھی اس قابل بنایا جائے گا کہ یہ سزا جزا کا وہ مقام بن سکے جس کا کچھ ذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔جب یہ عمل پورا ہوجائے گا تو دوسرا صور پھونک دیا جائے گا۔ پچھلے صور کے برعکس جو موت کا اعلان عام تھا، یہ صور مردوں میں زندگی کی روح پھونک دے گا اور لوگ اپنی قبروں سے نکل نکل کر خداوند قدوس کے حضور پیش ہونا شروع ہوجائیں گے۔ مردوں کے قبر سے جی اٹھنے کا یہی وہ عمل ہے جس کی بنا پر اس دن کو یوم القیامۃ کہا گیا ہے۔ گرچہ اس کے دیگر بہت سے نام بھی قرآن مجید میں بیان کیے گئے ہیں۔ جیسے ےوم الحشر ،ےوم الحساب ، ےوم الدےن اور یوم النشور وغیرہ۔
ابدی سزا وجزا کا دن
یہ وہ دن ہے جس کی جزا کا وعدہ اور جس کی سزا کی وعید ہر دور میں انبیا علیھم السلام کرتے چلے آرہے تھے۔ یہ وہ دن ہے جب انسانیت انبیا علےھم السلام کی پیش کردہ دعوت کو قبول کرنے کی بہترین جزا اور اسے رد کرنے کی سزا کا سامنا کرے گی۔یہ وہ دن ہے جب حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسان اپنے پروردگار کے حضور سزاوجزا کے لیے پیش کیے جائیں گے۔اس دن کی جو خصوصیات قرآن مجید میں بیان ہوئی ہیں وہ اس طرح ہیں۔
اس دن کے آغا زپر صور پھونکا جائے گا اور مردے قبروں سے زندہ ہوکر نکل آئیں گے، اس طرح کہ انسانوں کی پور پور درست کی جاچکی ہوگی۔برزخ کے برعکس اس زندگی میں موجودہ دنیا کی طرح انسان روح اور جسم دونوں کے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔ پھرایک پکارنے والا منادی کرے گا اور لوگ بغیر کسی مزاحمت کے اس کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے خدا کی حمد وثنا کے ساتھ اس کے حضور حساب کتاب کے لیے جاپہنچیں گے۔
اس روز زمین وآسمان مکمل طور پر بدلے ہوئے ہوں گے۔زمین کو ایک ہموار میدان بنادیا جائے گا۔ پہاڑ اور ٹیلے ختم ہوچکے ہوں گے اور زمین صفا چٹ ہوچکی ہوگی۔چاند گہناچکا ہوگا اور سورج اور چاند اکٹھے کردیے جائیں گے۔ آسمان سرخ ہوچکا ہوگا۔
خدا کے نافرمانوں اور مجرموں کے لیے یہ دن بڑی پریشانی کا ہوگا۔کلیجے منہ کو آرہے ہوں گے۔ اس دن کا ہول بچوں کو بوڑھا کردے گااور اس کا شر ہرچیز کا احاطہ کرلے گا۔ مجرم خدا کے غضب اور اس کی جہنم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔جس کے بعد ہرہر شخص کو اپنی اپنی پڑی ہوگی۔ دوست دوست کو نہیں پوچھے گا۔ انسان اپنے قریب ترین رشتوں والدین، اولاد، بیوی اور کنبے قبیلے سب کو بھول جائے گا۔اس روز ساری دنیا کی دولت، دوستی، سفارش، فدیہ اور تاوان کچھ بھی انسان کے کام نہیں آسکے گا۔
لیکن دوسری طرف دنیا کے امتحان کی بازی کو ایمان و عمل صالح کی مدد سے جیتنے والے اس دن کے شراور مصیبت سے بچالیے جائیں گے۔وہ اٹھیں گے تو فرشتے ان کا خیر مقدم کریں گے اور وہ اس دن پیش آنے والی ہر گھبراہٹ اور پریشانی سے مامون رکھے جائیں گے۔وہ جہنم سے نہ صرف دور رکھے جائیں گے بلکہ اس کی آہٹ تک نہ سنیں گے بلکہ ان کا بدلہ یعنی جنت ان کے قریب لے آئی جائے گی تاکہ اسے دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں۔
اس کے بعد خدا کی عدالت لگے گی۔ زمین خدا کے نور سے روشن ہوجائے گی۔ نامہ اعمال پیش ہوں گے۔ انبیا اور شہدا گواہی دیں گے۔ہر شخص کو فرشتوں کی ہمراہی میں اس کے نامہ اعمال کے ساتھ خدا کے حضور پیش کردیا جائے گا۔ رائی کے دانے برابر بھی کوئی نیکی یا برائی کسی نے نہ کی ہوگی مگر وہ اسے دیکھ لے گا۔زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ اور ہر چھوٹا بڑا عمل انسان اپنے نامہ اعمال میں لکھا ہوا پائے گا۔کوئی شخص اگر اپنے جرائم کا منکر ہوا تو اس کا منہ بندکرکے اس کے ہاتھ پاؤں اور جلد سے اس کے خلاف گواہی دلوائی جائے گی۔ پھر خدائی انصاف کے پیمانے میں اعمال کی تول ہوگی۔ مجرموں کی تول ہلکی ہی نکلے گی جس کے بعد ان کا نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں پکڑاکر فرشتوں کے حوالے کردیا جائے گا کہ انھیں جہنم رسید کردیا جائے۔
جبکہ کامیاب لوگوں کے اعمال نیکیوں کے پلڑے میں بھاری ثابت ہوں گے۔ ان کا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ اسی مناسبت سے انہیں اصحاب الیمین کہا جاتاہے۔جنت کی ابدی بادشاہی ان کا مقدر ہوگی۔ان کامیاب لوگوں میں سے کچھ لوگ وہ ہوں گے جو نیکیوں میں سبقت لے جانے والے تھے۔ ایسے لوگ اعلیٰ ترین درجات کے مستحق ہوں گے اور خدا کی قربت کے حقدار ہوں گے۔
انسانیت کو انہی تین گروہوں میں یعنی اصحاب الیمین، اصحاب الشمال اور سابقون میں تقسیم کردیا جائے گا۔اس موقع پر کامیاب اہل ایمان نہال ہورہے ہوںگے اور نامراد مجرم ایک دوسرے پر لعنت ملامت اور تبرا بازی کررہے ہوں گے۔ایک دوسرے پر لعنت اور پھٹکار کا یہ سلسلہ جہنم میں پھینکے جانے کے بعد بھی جاری رہے گا اور یہ بجائے خود ایک عذاب ہوگا۔
حساب کتاب کے بعد اہل جنت اور اہل جہنم کو گروہ در گروہ ان کی ابدی منزل کی طرف لے جایا جائے گا۔ اہل جہنم کو وہاں پر متعین فرشتے ان کی غفلت پر طعنے دے کر ان کا پچھتاوہ اور ان کا غم اور بڑھائیں گے۔ جبکہ اہل جنت کو وہاں متعین فرشتے سلام ومبارک کہہ کر ان کا استقبال کریں گے اور جنت میں ابدی قیام کی خوشخبری کے ساتھ انہیں جنت میں داخلے کی خوشخبری سنائیں گے۔
یہ تمام فیصلے انتہائی درجے کے عدل و انصاف اور رحمت و کرم کے فیصلے ہوں گے۔اُس روز انسانوں کو اپنے ہر سوال کا جواب مل جائے گا۔ ہر معاملے کی حقیقت کھول دی جائے گی۔ ہر مصلحت سے پردہ اٹھادیا جائے گا۔ عرش الٰہی کے گرد فرشتے ہر فیصلے پر خدا کی حمد کے نغمے گائیں گے اور پکار کر کہہ دیا جائے گا کہ ساری حمد اور سارا شکر اللہ رب العزت کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔
قرآنی بیانات
”جس دن صور پھونکا جائے گا اور مجرموں کو اس دن ہم اس حال میں اکٹھا کریں گے کہ خوف کے مارے ان کی آنکھیں نیلی پڑی ہوں گی۔ وہ آپس میں چپکے چپکے کہتے ہوں گے کہ بس تم دس دن رہے ہو گے! ہم خوب جانتے ہیں جو کچھ وہ کہیں گے جب کہ ان میں جو سب سے بڑا لال بجھکڑ ہوگا کہے گا کہ بس زیادہ سے زیادہ ایک دن تم ٹھہرے ہوگے۔ اور وہ تم سے پہاڑوں کی بابت سوال کرتے ہیں ۔ کہہ دو کہ میرا رب ان کو گردو غبار کی طرح اڑا دے گا اور زمین کو بالکل صفا چٹ چھوڑ دے گا۔ نہ تم اس میں کوئی کجی دیکھو گے اور نہ کوئی بلندہ۔ اس دن سب پکارنے والے کے پیچھے چل پڑیں گے ۔ مجال نہیں کہ ذرا اس سے کج ہو سکیں اور ساری آوازیں خدائے رحمان کے آگے پست ہو جائیں گی، بس تم صرف کانا پھوسی ہی سنو گے۔ اس دن شفاعت نفع نہ دے گی الا آنکہ خدائے رحمان جس کو اجازت دے اور جس کے لیے کوئی بات کہنے کو پسند کرے۔ وہ ان کے آگے اور ان کے پیچھے جو کچھ ہے سب سے باضبر ہے اور ان کا علم اس کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ سب کے چہرے خدائے حی و قیوم کے حضور جھکے ہوئے ہوں گے اور جو کسی شرک کا مرتکب ہوا وہ نامراد ہوا۔ اور جو نیک اعمال کرے گا اور وہ مومن بھی ہے تو اس کو نہ کسی حق تلفی کا اندیشہ ہوگا اور نہ کسی زیادتی کا۔ ” (طہ 102-112: 20)
”اور صور پھونکا جائے گا تو وہ دفعتہ قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف چل پڑیں گے۔” (یٰس51: 36)
”کیا انسان نے گمان کر رکھا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کر پاویں گے! ہاں ، ہم جمع کریں گے اس طرح کہ اس کے پور پور کو ٹھیک کر دیں گے۔ بلکہ انسان اپنے (ضمیر کے )آگے شرارت کرنا چاہتا ہے۔ پوچھتا ہے قیامت کب ہوگی؟ پس جب نگاہیں خیرہ ہو جائیں گی اور چاند گہنا جائے گااورسورج اور چاند اکٹھے کر دیے جائیں گے تو اس وقت انسان کہے گا کہ کہاں بھاگوں!۔۔۔۔۔۔ ہرگز نہیں، کہیں پناہ نہیں! اس دن تیرے رب ہی کی طرف ٹھکانا ہوگا۔ اس دن انسان کو بتایا جائے گا کہ اس نے کیا آگے بھیجا اور کیا پیچھے چھوڑا۔ ”
(القیامہ3-13: 75)
”یہ (نیک اور صالح بندے) اپنی نذریںپوری کرتے اور اس دن سے ڈرتے رہے ہیں جس کا ہول ہمہ گیر ہوگا۔” (الدھر7: 76)
”جو نیکی کے ساتھ حاضر ہوں گے تو ان کے لیے اس سے بہتر صلہ ہے اور وہ اس دن ہر گھبراہٹ سے مامون رہیں گے۔” (النمل89: 27)
”البتہ جن کے لیے اچھے انجام کا ہماری جانب سے وعدہ ہو چکا ہے وہ اس سے دور رکھے جائیں گے ۔ وہ اس کی آہٹ بھی نہیں سنیں گے۔ اور وہ اپنے من بھاتے عیش میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان کو اس دن کی بڑی گھبراہٹ کا غم لاحق نہ ہوگا اور فرشتے ان کا خیر مقدم کریں گے، کہیں گے ، یہ ہے آپ لوگوں کا وہ دن جس کا آپ لوگوں سے وعدہ کیا جا رہا تھا۔”
(الانبیا101-103)
”اور جنت خدا ترسوں کے لیے قریب لائی جائے گی اور دوزخ گمراہوں کے لیے بے نقاب کی جائے گی۔” (الشعر ائ90-91: 26)
”اور کوئی دوست بھی کسی دوست کو نہ پوچھے گا۔ وہ ان کو دکھائے جائیں گے ۔ مجرم تمنا کرے گا کہ کاش! اس دن کے عذاب سے چھوٹنے کے لیے اپنے بیٹوں، اپنی بیوی، اپنے بھائی اور اپنے اس کنبہ کو جو اس کی پناہ رہا ہے اور تمام اہلِ زمین کو فدیہ میں دے کر اپنے کو بچا لے۔”
(المعار ج 10-14: 70)
” اے ایمان والو، جو کچھ ہم نے تم کو بخشا ہے اس میں سے خرچ کرو اس دن کے آنے سے پہلے جس میں نہ تو خریدو فروخت ہوگی، نہ دوستی کام آئے گی اور نہ کسی کی سفارش نفع پہنچائے گی اور جو لوگ انکار کرنے والے ہیں اپنے اوپر اصلی ظلم ڈھانے والے وہی ہیں۔”
(البقرہ254: 2)
”اور صور پھونکا جائے تو آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں سب بے ہوش ہو کے گر پڑیں گے مگر جن کو اللہ چاہے۔ پھر دوبارہ اس میں پھونکا جائے گا تو دفعتہ وہ کھڑے ہو کر تاکنے لگیں گے۔ اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی اور رجسٹر رکھا جائے گا اور انبیا ء اور گواہ حاضر کیے جائیں گے اور لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ اور ہر جان کو جو کچھ اس نے کیا ہوگا پوراکیا جائے گا۔ اور وہ خوب جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں۔” (الزمر68-70: 39)
”اس دن لوگ الگ الگ نکلیں گے کہ ان کو ان کے اعمال دکھائے جائیں۔ پس جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہوگی وہ بھی اس کو دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ بھی اسے دیکھے گا۔” (الزلزال 6-8: 99)
”جس دن وہ تم کو پکارے گا تو تم اس کی حمد کرتے ہوئے اس کے حکم کی تعمیل کرو گے اور تم یہ گمان کرو گے کہ تم بس تھوڑی ہی مدت رہے۔” (بنی اسرائیل52: 17)
” اور قیامت کے دن ہم میزانِ عدل قائم کریں گے تو کسی جان پر ذرا بھی ظلم نہیں کیا جائے گا اور اگر کسی کا رائی کے دانہ کے برابر بھی کوئی عمل ہوگا تو ہم اس کو موجود کر دیں گے اور ہم حساب لینے کے لیے کافی ہیں۔” (الانبیا47: 21)
”کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود نہ ہو، پھر دیکھو، وہ موت کی جاں کنی حق لے کر آپہنچی، یہ وہی چیز ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔ اور پھر صور پھونکا گیا، یہ ہے وہ دن جس کا تجھے خوف دلایا جاتا تھا۔ہر شخص اس حال میں آ گیا کہ اس کے ساتھ ایک ہانک کر لانے والا ہے اور ایک گواہی دینے والا۔” (ق18-21)
”تو جس کے پلے بھاری ہوں گے وہ تو دل پسند عیش میں ہوگا۔ اور جن کے پلے ہلکے ہوئے تو اس کا ٹھکانا کھڈ ہوگا۔ اور تم کیا سمجھے کہ وہ کیا ہے! دہکتی آگ!” (القارعہ6-11: 101)
”اور تم تین گروہوں میں تقسیم ہو جاؤ گے۔
ایک گروہ داہنے والوں کا ہوگا، تو کیا کہنے ہیں داہنے والوں کے! دوسرا گروہ بائیں والوں کا ہوگا، تو کیا حال ہو گابائیں والوں کا! رہے سابقون، تو وہ تو سبقت کرنے والے ہی ہیں! وہی لوگ مقرب ہوں گے۔” (الواقعہ7-11: 56)
”آج ہم ان کے مونہوں پر مہر کر دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم کو بتائیں گے اور ان کے پاؤں شہادت دیں گے جو کشھ وہ کرتے رہے ہیں۔” (یٰس65: 36)
”اس دن جس دن ان کی زبانیں ، ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے سامنے ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔” (النور24: 24)
”اور جب وہ لوگ، جنہوں نے شرک کیا ہے، اپنے شریکوں کو دیکھیں گے ، پکاریں گے کہ اے ہمارے رب یہی ہمارے وہ شرکاء ہیں جن کو ہم تجھے چھوڑ کر پکارتے رہے تو وہ ان پر بات پھینک ماریں گے کہ تم بالکل جھوٹے ہو۔” (النحل86: 16)
”اور جن لوگوں نے کفر کیا ہوگا وہ گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانک کر لے جائے جائیں گے۔ یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس حاضر ہوں گے اس کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور اس کے داروغے ان سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس تمہی میں سے رسول تمہارے رب کی آیتیں سناتے اور اس دن کی ملاقات سے ڈراتے نہیں آئے!وہ کہیں گے ہاں، آئے تو سہی، پر کافروں پر کلمہئ عذاب پورا ہو کر رہا۔ کہا جائے گا ، جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ، اس میں ہمیشہ رہنے کے لیے۔ پس کیا ہی برا ٹھکانا ہے متکبروں کا!
اور جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے وہ گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جائے جائیں گے۔ یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آئیں گے اور اس کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور اس کے پاسبان ان سے کہیں گے، السلام علیکم، شاد رہو! پس اس میں داخل ہو جاؤ ہمیشہ کے لیے اور وہ کہیں گے شکر ہے اس اللہ کے لیے جس نے ہم سے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور ہم کو ارضِ جنت کا وارث بنایا، ہم جنت میں جہاں چاہیں براجماں ہوں پس کیا ہی خوب صلہ ہے نیک عمل کرنے والوں کا!
اور تم فرشتوںکو دیکھو گے عرشِ الٰہی کے گرد گھیرے ہوئے، اپنے رب کی تسبیح، اس کی حمد کے ساتھ کرتے ہوئے۔ اور لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ شکر کا سزاوار اللہ ہے، عالم کا خداوند!” (الزمر 71-75: 39)