Take a fresh look at your lifestyle.

مضامین قرآن (43) دعوت کے ردوقبول کے نتائج: قیامت: موجودہ دنیا کا خاتمہ ۔ ابو یحییٰ

دعوت کے ردوقبول کے نتائج: قیامت: موجودہ دنیا کا خاتمہ

قیامت کے وقت کی دنیا

قرآن مجید روزِ قیامت کو تین حوالوں سے زیر بحث لاتا ہے۔ ایک اس دن کی علامات، دوسرا موجودہ دنیا کاخاتمہ اور اس موقع پر رونما ہونے والی مکمل تباہی اور تیسرا آخرت کی دنیا کے آغاز پر تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کر کے حساب کتاب کے لیے ان کا جمع کیا جانا۔ علامات قیامت پر پیچھے بات ہو چکی ہے۔ اس میں ہم نے یہ واضح کیا تھا کہ قرآن مجید نے قیامت کی ایک ہی علامت بیان کی ہے وہ ہے یاجوج ماجوج کی نسلوں کا دنیا پر غلبہ اور تاخت۔ اس حوالے سے ایک اور اہم بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے ۔

قرآن مجید کے مطابق وہ دنیا جس پر قیامت آئے گی ، اس دنیا میں حضرت ابراہیم کے نام لیوا مذہبی گروہ موجود ہوں گے ۔ ان میں سے یہود و نصاریٰ کا تو قرآن مجید نام لے کر وضاحت کرتا ہے کہ قیامت تک وہ موجود رہیں گے۔ رفع مسیح کے وقت اللہ تعالیٰ نے اپنا جو منصوبہ حضرت عیسیٰ کو بتایا تھا اس میں یہ بات بالصراحت بیان کی گئی تھی کہ حضرت عیسیٰ کے پیروکار جن میں مسیحی اصلاً اور مسلمان تبعاً شامل ہیں، ان کے منکرین یعنی یہود پر قیامت تک کے لیے غالب رہیں گے، (آل عمران 55:3)۔ یہ آیت نص قطعی ہے کہ حضرت ابراہیم کے نام لیوا قیامت کے دن تک باقی رہیں گے۔ قرآن مجید نے دیگر کئی مقامات پر اس حقیقت کو یہود ونصاریٰ کا نام لے کر اس طرح بیان کیا ہے کہ ان میں قیامت کے دن تک کے لیے بغض و عداوت ڈال دیا گیا ہے۔ چنانچہ کسی کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ قیامت کسی قسم کے بدلے ہوئے حالات میں نمودار ہو گی۔ظہورِ یاجوج ماجوج کے بعد قیامت کسی بھی وقت اچانک آ سکتی ہے ۔

دنیا کا خاتمہ

قیامت موجودہ دنیا کے خاتمے کا نام ہے۔ قرآن مجید نے قیامت کا آغاز جس واقعے کو قرار دیا ہے وہ صور کا پھونکا جانا ہے۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صور دو مرتبہ پھونکا جائے گا۔ پہلی دفعہ پھونکنے پر موجودہ دنیا کے خاتمے کا آغاز ہوجائے گا اور دوسری دفعہ پھونکے جانے پر آخرت کی دنیا کا آغاز ہو گا۔ یہ صور امور متشابہات کی نوعیت کی چیز ہے۔ قرآن مجید میں متشابہات کا طریقہ ان حقائق کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جن کی حقیقت کو اپنے محدود علم کی بنا پر اس وقت ہم نہیں سمجھ سکتے۔ لیکن کسی ملتی جلتی چیز سے اس حقیقت کا وہ تصور ہم کو دے دیا جاتا ہے جس کا دیا جانا مقصود ہوتا ہے اور جس تصور کا سمجھنا انسانوں کے لیے کچھ مشکل نہیں ہوتا۔ صور زمانہ قدیم میں جانوروں کے سینگ سے بنایا جانے والا ایک باجہ ہوتا تھا۔ اس کے ایک طرف سے پھونک ماری جاتی تھی اور دوسری طرف سے زوردار آواز نکلتی تھی۔ اسے نرسنگھا، بگل ، قرنا وغیرہ بھی کہتے ہیں اور اس کا مقصد زمانہ قدیم میں بادشاہ کی آمد کا اعلان کرنا یا اعلان جنگ کرنا ہوتا تھا۔

اس تعبیر سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ قیامت کے آغاز پر کوئی ایسا معاملہ ہو گا جو ایک اعلان عام بن کر ہر خاص و عام کو مطلع کر دے گا کہ دنیا کی مہلت عمل ختم ہو چکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی تمام لوگ جو اس سے قبل اطمینان سے گھوم پھر رہے ہوں گے، ہول کھا کر گھبرا اٹھیں گے۔ یہ صور عالم اور اہل عالم کی مکمل تباہی کا اعلان عام ہو گا۔

مکمل تباہی کا دن

عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ قیامت کا دن اسی تباہی کے دن کے لیے بولا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی اصطلاح میں معاملہ یوں نہیں ہے۔ قرآن مجید قیامت کے دن کی تعبیر اصلاً اس وقت کے لیے استعمال کرتا ہے جب دوسرے صور کے بعد تمام مردوں کو زندہ کر دیا جائے گا۔ پہلے صور کے بعد پیش آنے والے واقعات کے لیے قرآن مجید نے دیگر تعبیرات اختیار کی ہیں جیسے ’’الساعۃ‘‘ یعنی وعدے کی گھڑی، ’’القارعۃ‘‘ یعنی کھڑ کھڑانے والی، ’’الواقعہ‘‘ یعنی ہوکر رہنے والی، ’’الحاقہ‘‘ یعنی ہونی شدنی وغیرہ۔ یہ تمام تعبیرات اس وقت کا بیان کرتی ہیں جب اللہ کا عذاب فیصلہ کن طور پر نازل ہوکر دنیا کو ختم کر دے گا۔ تاہم قیامت کا دن عمومی طور پر آخرت کے تمام مراحل کے لیے بول دیا جاتا ہے۔

صور پھونکے جانے کے ساتھ ہی دنیا کی تباہی کا آغاز ہوجائے گا۔ لوگ مارے ہول کے گر کر بے ہوش ہونے لگیں گے۔ وحشی جانور دشمنی بھول کر اکٹھے ہوجائیں گے۔ زلزلے پر زلزے آنے شروع ہوں گے اور زمین ڈولتی کشتی کی طرح جب ہچکولے لے گی تو انسان کے قدم بھی کسی مدہوش شخص کی طرح ڈگمگانے لگیں گے۔ خوف و دہشت کا عالم ہو گا۔ پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح فضا میں بلند ہوجائیں گے اور آخر کار ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوجائیں گے ۔سمندر ابل کر اپنی حدوں سے باہر نکل جائیں گے۔ سورج ، چاند ، تارے اوراجرام فلکی سب کا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ غرض یہ دن ایک مکمل اور ہمہ گیر تباہی کا دن ہو گا جس کی ہولنا کی سے زمین و آسمان سب تباہ وبرباد ہوکر رہ جائیں گے ۔

قرآنی بیانات

’’اے لوگو! اپنے خداوند سے ڈرو۔ بے شک قیامت (الساعہ )کی ہلچل بڑی ہی ہولناک چیز ہے ۔ جس دن تم اسے دیکھو گے اس دن ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور ہر حاملہ اپنا حمل ڈال دے گی اور تم لوگوں کو مدہوش دیکھو گے حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہے ہی بڑی ہولناک چیز!‘‘      (الحج 22: 2-1)

’’یاد رکھو‘، جب کہ واقع ہو پڑے گی واقع ہونے والی(الواقعہ)۔ اس کے واقعہ ہونے میں کسی جھوٹ کا شائبہ نہیں ۔ وہ پست کرنے والی اور بلند کرنے والی ہو گی۔ جب کہ زمین بالکل جھنجھوڑ دی جائے گی اور پہاڑ بالکل ریزہ ریزہ ہو کر منتشر غبار بن جائیں گے ۔‘‘ (الواقعہ56: 6-1)

’’ شُدنی(الحاقہ)! کیا ہے شُدنی(الحاقہ)! کیا جانو کہ کیا ہے شُدنی(الحاقہ)! ثمود اور عاد نے اس کھٹکھٹانے والی (القارعہ)کو جھٹلایا۔‘‘   (الحاقہ69: 4-1)

’’پس یاد رکھو جب کہ صُور میں ایک ہی بار پھونک ماری جائے گی اور زمین اور پہاڑوں کو اٹھا کر ایک ہی بار میں پاش پاش کر دیا جائے گا تو اس دن واقع ہونے والی واقع ہو جائے گی۔ اور آسمان پھٹ جائے گا اور اس دن وہ نہایت پھُس پھُسا ہو گا۔‘‘ (الحاقہ69: 16-13)

’’کھٹکھٹانے والی (القارعہ)! کیا ہے کھٹکھٹانے والی(القارعہ)! اور تم کیا سمجھے کہ کیا ہے کھٹکھٹانے والی(القارعہ)! اس دن لوگ منتشر پتنگوں کے مانند ہوں گے اور پہاڑ دھنکی ہوئی اون کے مانند ہو جائیں گے ۔‘‘ (القارعہ101: 5-1)

’’اور جو لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں، ہم نے ان سے بھی عہد لیا تو جس چیز کے ذریعے سے ان کو یاد دہانی کی گئی وہ اس کا ایک حصہ بھلا بیٹھے تو ہم نے قیامت تک کے لیے ان کے درمیان عداوت اور بغض کی آ گ بھڑکا دی اور جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں عنقریب اللہ اس سے ان کو آگاہ کرے گا۔‘‘      (المائدہ 5: 14)

’’اور یہود کہتے ہیں کہ خدا کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔ ہاتھ ان کے بندھ جائیں اور ان کی اس بات کے سبب سے ان پر لعنت ہو بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں، وہ خرچ کرتا ہے جیسے چاہتا ہے۔ ان میں سے بہتوں کی سرکشی اور ان کے کفر کو وہ چیز بڑھا رہی ہے جو تیرے رب کی طرف سے تیری طرف اتاری گئی ہے اور ہم نے ان کے اندر دشمنی اور کینہ قیامت تک کے لیے ڈال دیا ہے۔ جب جب یہ لڑائی کی کوئی آگ بھڑکائیں گے اللہ اس کو بجھا دے گا۔ یہ زمین میں فساد برپا کرنے میں سرگرم ہیں اور اللہ فساد برپا کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (المائدہ 5: 64)

’’جب کہ اللہ نے کہا کہ اے عیسیٰ میں تمہیں قبض کر لینے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھا لینے والا ہوں اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان سے تمہیں پاک کرنے والا ہوں ۔ جن لوگوں نے تمہاری پیروی کی ہے ان کو قیامت تک کے لیے ان لوگوں پر غالب کرنے والا ہوں جنہوں نے تمہارا انکار کیا ہے۔ پھر میری طرف تم سب کا پلٹنا ہو گا اور میں تمہارے درمیان ان چیزوں کے بارے میں فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔‘‘       (آل عمران 3: 55)

’’جب کہ سورج کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور ستارے بے نور ہو جائیں گے۔ پہاڑ چلا دیے جائیں گے اور دس ماہہ گابھن اونٹنیاں آوارہ پھریں گی۔ وحشی جانور اکٹھے ہو جائیں گے اور سمندر ابل پڑیں گے ۔‘‘ (التکویر81: 6-1)

’’اور صور پھونکا جائے تو آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں سب بے ہوش ہو کے گر پڑ یں گے مگر جن کو اللہ چاہے ۔ پھر دوبارہ اس میں پھونکا جائے گا تو دفعتہ وہ کھڑ ے ہو کر تاکنے لگیں گے ۔‘‘     (الزمر39: 68)

’’جب کہ آسمان پھٹ جائے گا اور اپنے خداوند کے حکم کی تعمیل کرے گا اور اس کے لیے یہی زیبا ہے ۔ اور جب کہ زمین تان دی جائے گی اور وہ اپنے اندر کی چیزیں باہر ڈال کر فارغ ہو جائے گی اور وہ اپنے خداوند کے حکم کی تعمیل کرے گی اور اس کو یہی چاہیے ۔‘‘     (الانشقاق84: 5-1)

’’اور اس دن کا خیال کرو جس دن صور پھونکا جائے گا تو جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں سب گھبرا اٹھیں گے ۔ صرف وہی اس سے محفوظ رہیں گے جن کو اللہ چاہے گا اور سب اس کے آگے سرفگندہ ہو کر حاضر ہوں گے ۔‘‘ (النمل 27: 87)

[جاری ہے ]