Take a fresh look at your lifestyle.

مضامین قرآن (16) دلائل آخرت : ترتیب و تدریج کی دلیل ۔ ابو یحییٰ

دلائل آخرت : ترتیب و تدریج کی دلیل

جوڑے کی دلیل پر ایک اعتراض

قرآن مجید قیامت کے دن اور آخرت کی زندگی کو عقلی بنیادوں پر ثابت کرنے کے لیے جو عام فہم دلائل دیتا ہے ان میں سے ایک اہم دلیل جوڑے کی دلیل ہے۔ اس دلیل پر پچھلی قسط میں تفصیل سے گفتگو کی گئی تھی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کائنات کی اکثر و بیشر چیزیں جوڑے جوڑے کی شکل میں تخلیق کی گئی ہیں ۔ جوڑے کے ایک ہی جز کو اگر دیکھا جائے گا تو اس کی مقصدیت ہرگز واضح نہیں ہو گی۔ یہ مقصدیت اسی وقت واضح ہو گی جب جوڑوں کے دونوں اجزا سامنے ہوں گے ۔اس ضمن میں قرآن کریم متعدد مثالیں دے کر یہ واضح کرتا ہے کہ اس دنیا کی ہر چیز نہ صرف جوڑے جوڑے کی شکل میں بنی ہے بلکہ جوڑے کے دونوں اجزا مل کر ہی ایک بامقصد اکائی یا کُل بناتے ہیں ۔ جوڑے کا ہر جز اپنی جگہ مکمل ہوتا ہے لیکن اس میں کچھ نہ کچھ کمی ہوتی ہے ۔ چنانچہ جوڑے کے ایک جز میں جو کمی ہوتی ہے دوسرا جزاس کی تکمیل کر دیتا ہے ۔ مثلاً مرد و عورت دونوں اپنی جگہ مکمل ہستی ہیں لیکن جب یہ دونوں ملتے ہیں تب ہی ان کی نفسیات بھی تسکین پاتی ہے اور وہ نسل انسانی آگے بڑھانے کا مقصد بھی سرانجام دیتے ہیں۔ اسی طرح مرد میں قوت و توانائی ہے جو خاندان اور بچوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہے تو اس میں اُس نرمی اور برداشت کی کمی ہوتی ہے جو ناتواں بچوں کی ذمہ داری کو اٹھانے کے لیے لازمی ہے ۔عورت مرد کی یہی کمی پوری کرتی ہے ، گرچہ وہ جسمانی قوت میں مرد سے کم ہوتی ہے ۔

یہی معاملہ دنیا اور آخرت کا ہے ۔ آخرت کی دنیا موجودہ دنیا کا جوڑا ہے ۔ موجودہ دنیا کا نامکمل وجود، جس پر مقصدیت کی دلیل کے ضمن میں تفصیل سے گفتگو ہو چکی ہے ، اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ اس کا ایک جوڑا ہو۔ یہ دنیا اگر دارالامتحان ہے تو ضروری ہے کہ ایک دارالجزا ہو۔ یہ دنیا فانی ہے تو وہ دنیا ابدی ہو۔ یہ دنیا محدود ہے تو وہ دنیا لامحدود ہو۔ چنانچہ یہ اصول اگر درست ہے کہ اس دنیا میں ہر چیز کا ایک جوڑا ہے تو یہ بات مان لینا عین عقلی چیز ہے کہ خود اس دنیا کا بھی ایک جوڑا ہے ۔ یہ جوڑا وہی آخرت ہے جس کا بیان قرآن مجید کرتا ہے ۔

اس دلیل پر ایک معقول اعتراض یہ کیا جا سکتا ہے کہ دنیا کا ہر جوڑا ہمیں اپنی آنکھوں سے نظر آ جاتا ہے ۔ مرد ہماری نظر کے سامنے ہوتے ہیں تو عورتوں کے وجود کو بھی ہم دیکھتے ہیں ۔ زمین ہمارے پیروں تلے ہے تو آسمان کی چھتری کا مشاہدہ بھی ہمارا روزمرہ ہے ۔ نشیب میں بہتے دریا ہم نے دیکھے ہیں تو فلک بوس اور صدیوں سے اپنی جگہ قائم پہاڑ بھی ہمارے سامنے ہیں ۔ لیکن آخرت کو تو کسی نے نہیں دیکھا۔ یہ تو محض ایک خبر ہے ۔ ایک اطلاع ہے۔ اس خبر کو کس بنیاد پر درست مان لیا جائے ۔ یہی نہیں بلکہ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار مکہ کا قیامت پر ایک اہم اعتراض یہ تھا کہ جس قیامت کی خبر دی جا رہی ہے اس کو کو فوراً برپا کر کے دکھایا جائے ۔ یا کم از کم اس کا وقت ہی بتادیا جائے۔ یہ اعتراض ایک پہلو سے قیامت کی خبر کا مذاق اڑانے کا عمل تھا اور ایک دوسرے پہلو سے ایک عقلی اشکال تھا کہ خدا اگر قادر مطلق ہے اور اس کے پیغمبر سچے ہیں تو اس قادر مطلق خدا کو اپنے سچے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کے بعد قیامت کو برپا کرنے سے کیا چیز روک رہی ہے ۔

کائنات میں رائج ترتیب و تدریج کا قانون

یہی وہ پس منظر ہے جس میں قرآن مجید ہمارے سامنے ان مثالوں اور مشاہدات کو رکھتا ہے جو یہ حقیقت واضح کرتی ہیں کہ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کا طریقہ تخلیق بلاشبہ جوڑوں کی شکل میں ہے ، مگر اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر جوڑا ایسا نہیں ہوتا جس کے دونوں اجزا بیک وقت ہمارے سامنے ہوں ۔ بلکہ بہت سے جوڑے ایسے ہیں کہ ایک وقت میں ان کا ایک ہی جز ہماری نظروں کے سامنا ہوتا ہے ۔ وہ اپنے دوسرے جز سے اتنا مختلف ہوتا ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے دوسرے جز کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مگر ہم سب جانتے ہیں کہ ایک وقت آتا ہے کہ جوڑے کا پہلا جز ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوجاتا ہے اور دوسرا جز اس کی جگہ لے لیتا ہے ۔اس دوسر ے جز کا ظہور پذیر ہونا یقینی ہوتا ہے لیکن اللہ کی حکمت اور اس کے قانون تخلیق کا تقاضہ یہ ہے کہ یہ ایک دم سے ظاہر نہ ہو بلکہ بتدریج اپنے مقرر وقت پر ظاہر ہو۔

اس کی سب سے نمایاں مثال دن اور رات کا جوڑا ہے ۔ ان کا جوڑا ہونا، بامقصد جوڑا ہونا اور جوڑے کے اجزا کا ایک دوسرے سے متضاد ہونا ایک ناقابل تردید حقیقت ہے ۔ اگر دنیا میں ہمیشہ دن رہے تو زندگی ختم ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر دنیا میں ہمیشہ کے لیے رات طاری ہوجائے تب بھی حیات کا امکان اپنی موت آپ مرجائے گا۔ مگر یہ دونوں ایک خوبصورت تناسب سے ملتے ہیں اور اس دنیا میں ایک کے بعد ایک کر کے آتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں دنیا میں زندگی کا معجزہ وجود میں آتا ہے ۔

رات اور دن کی اس ترتیب کے تصور سے ناواقف کوئی شخص اگر رات کے بارہ بجے اس حال میں پیدا ہو کہ وہ مکمل شعور رکھتا ہو، سوچ سکتا ہو اور چیزوں کو دیکھ کر ان کی حقیقت سمجھ سکتا ہو تو وہ رات ، اندھیرے ، چاند اور تاروں کے وجود کو تو فوراً مان لے گا، مگر رات میں اسے یہ سمجھانا بہت مشکل ہے کہ اس دنیا میں دن کے نام کی ایک حقیقت بھی پائی جاتی ہے جس میں اجالا ہوتا ہے ، سورج ہوتا ہے اوردھوپ ہوتی ہے ۔ مگرجیسے ہی صبح طلوع ہو گی رات ڈھل جائے گی اور دن طلوع ہوجائے گا اور وہ شخص خود مان لے گا کہ دن بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے ۔ قرآن کریم اسی مثال کو سامنے رکھ کر بیان کرتا ہے کہ رات کے بعد طلوع فجر کے وقت دن کا آنا مقدر ہوجاتا ہے اور دن کے بعد ظہور شفق کے وقت رات کا آنا طے ہوجاتا ہے ۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی وہی طلوع فجر ہے جس کے بعد نیکوکاروں کے لیے جنت کے دن اور وہی ظہور شفق ہے جس کے بعد بدکاروں کے لیے جہنم کی رات کا آنا بس اب تھوڑی ہی دیر کی بات ہے ۔

چنانچہ لوگوں کو چاہیے کہ حیل و حجت کرنے کے بجائے رات اور دن کی اس دلیل سے آخرت کو سمجھیں ۔ ظلم اور فساد کے موجودہ اندھیرے کے بعد لازمی ہے روز قیامت کا سورج طلوع ہو گا اور کبھی نہ ختم ہونے والی روشنی سے زمین جگمگا اٹھے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ جن لوگوں نے معصیت و نافرمانی کے چراغوں سے اِس دنیا میں اپنی زندگی کو روشن کیے رکھا ، وہ جہنم کے ابدی اندھیروں میں دھکیل دیے جائیں گے ۔

چاند کی مثال

قرآن مجید دن اور رات کے ایک ترتریب کے ساتھ باری باری آنے جانے سے یہ استدلال ہی نہیں کرتا بلکہ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ ان کا آنا جانا ایک دم سے نہیں ہوتا بلکہ ترتیب کے ساتھ یہ واقعہ تدریجاً وقوع پذیر ہوتا ہے ۔ یہی اللہ تعالیٰ کا دنیا کے بارے میں فیصلہ ہے کہ یہاں چھائے ہوئے بدی کے اندھیرے قیامت کی روشنی سے ایک روز ضرور دور ہوجائیں گے مگر یہ سب کچھ ایک دم نہیں ہو گا بلکہ تدریج کے ساتھ ہو گا۔ جیسے چاند اپنا سفر طے کرتا ہے۔ مہینے کے ابتدائی دس دن چاند کے عروج کے ہوتے ہیں ۔ اگلے دس دنوں میں چاند بدر کامل بن جاتا ہے اور پھر اس کا زوال شروع ہوجاتا ہے ۔ پھر آخر کے دس دنوں میں چاند تیزی سے گھٹتا ہے اور مہینے کے آخر میں غائب ہوجاتا ہے ۔ یہ دس دس دنوں پر مشتمل یہ قمری مہینہ کبھی طاق یعنی 29 دنوں کا ہوتا ہے اور کبھی جفت یعنی 30 دن کا ہوتا ہے ۔ایک عام آدمی اپنے مشاہدے کی بنیاد پر پہلے سے نہیں جان سکتا کہ نیا مہینہ 29 دن کے بعد طلوع ہو گا یا پھر 30 کے بعد۔ یہ گویا ایک غیر یقینی کی کیفیت ہوتی ہے جس میں قیامت کے آنے کی طرح، نئے مہینے کے آغاز کا علم نہیں ہوتا، گرچہ اس کا آنا ، قیامت کے آنے کی طرح ، یقینی ہوتا ہے ۔ پھراچانک نئے مہینے کا چاند افق پر نمودار ہوجاتا ہے ۔ ٹھیک اسی طرح تدریج کے ساتھ یہ دنیا اپنی ابتدا سے اپنے انجام کو پہنچے گی اور ایک ایسے مہینے میں جس کے متعلق کوئی نہیں جانتا کہ وہ 29 کا ہو گا یا پھر 30 کا اچانک نئی دنیا کا آغاز ہوجائے گا۔

قرآنی بیانات

دن اور رات ، شفق اور فجر، قمری مہینے کے دس دس ایام اور ان میں چاند کے سفر سے اس طرح استدلال کیا گیا ہے ۔

پس نہیں ، میں قسم کھاتا ہوں شفق کی اور رات کی اور ان چیزوں کی جن کو وہ اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے اور چاند کی جب وہ پورا ہو جاتا ہے کہ تم کو لازماً چڑھنا ہے درجہ بدرجہ۔

(سورۃ الانشقاق 84: 19-16 )

شاہد ہے فجر اور دس راتیں اور جفت و طاق اور رات جب وہ چل کھڑی ہو۔ کیوں، ان میں تو ہے ایک عاقل کے لیے عظیم شہادت!(سورۃ الفجر89: 5-1 )

پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں پیچھے ہٹنے والے ، چلنے والے اور چھپ جانے والے ستاروں کی اور رات کی جب وہ جانے لگتی ہے اور صبح کی جب وہ سانس لیتی ہے کہ یہ ایک باعزت رسول کا لایا ہوا کلام ہے ۔   (سورہ تکویر 81: 19-15)

ہرگز نہیں ، شاہد ہے چاند اور رات جبکہ وہ پیٹھ پھیر لیتی ہے اور صبح جب روشن ہو جائے کہ یہ ماجرا ان بڑے ماجروں میں سے ہے جو انسان کی تنبیہ کے لیے سنایا گیا۔

(سورۃ المدثر74: 35-32)

ْٰقیامت کے ظہور کو دن کی روشنی سے اس طرح تشبیہ دی گئی ہے ۔

اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی اور رجسٹر رکھا جائے گا اور انبیا اور گواہ حاضر کیے جائیں گے اور لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔         (سورۃ الزمر39:69)

قیامت کے وعدے کو ابھی پورا کرنے اور اس کے آنے کے وقت پر کفار کے سوالات کو ایسے بیان کیا گیا ہے ۔

اور وہ کہتے ہیں کہ یہ دھمکی کب پوری ہو گی، اگر تم لوگ سچے ہو! کہہ دو، یہ علم اللہ ہی کے پاس ہے ، میں تو بس ایک کھلا ہوا ڈرانے والا ہوں ۔ پس جب وہ اس کو دیکھیں گے قریب آتے تو ان لوگوں کے چہرے بگڑ جائیں گے جنھوں نے کفر کیا۔ اور ان سے کہا جائے گاکہ یہی ہے وہ چیز جس کا تم مطالبہ کر رہے تھے ۔      (سورۃ الملک67: 27-25 )

اور یہ کہتے ہیں کہ کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو ہم از سر نو اٹھائے جائیں گے ! کہہ دو کہ تم پتھر یا لوہا بن جاؤ یا کوئی اور شے جو تمہارے خیال میں ان سے بھی سخت ہو۔ پھر وہ کہیں گے کہ ہمیں کون دوبارہ زندہ کرے گا؟ کہہ دو کہ وہی جس نے تم کو پہلی بار پیدا کیا۔ پھر وہ تمہارے آگے سر ہلائیں گے اور کہیں گے کہ یہ کب ہو گا؟ کہہ دو کہ عجب نہیں کہ اس کا وقت قریب ہی آ پہنچا ہو۔  (سورہ بنی اسرائیل 17: 51-49 )

[جاری ہے ]