Take a fresh look at your lifestyle.

بچوں کے سوالات ۔ فرح رضوان

یہ تو بالکل ٹھیک ہے کہ ہر معاملے میں بچوں کی شمولیت مناسب نہیں لیکن اب گھر کے چھوٹے اور بچے اپنی عمر سے کہیں زیادہ سیانے ہو چکے ہیں، تو بجائے اس کے کہ وہ ادھوری باتیں سن کر اس سے بھی آدھی سمجھ کر معاملات کو غلط طور سے لیں، بہتر ہے کہ جب کبھی بھی، نارمل سے ہٹ کر حالات ہوں تو اس پر بچوں کو اعتماد میں لے کر انہیں زندگی کی اونچ نیچ سے آگاہ کیا جائے تاکہ کل کو عملی زندگی میں بھی یہ سبق ان کے کام آئے۔ بار بار کی اس پریکٹس سے دوہرے مثبت نتائج کی امید ہے، ایک تو یہ کہ، آپس میں بات چیت کا یہ ماحول اس وقت بھی برقرار رہ پائے گا، جب آپ بوڑھے اور بچے مصروف ہو جائیں گے، دوسرا یہ کہ کوئی بھی الجھن بچے کے ذہن میں ہو تو آپ سے پوچھنے سے نہیں ہچکچائے گا۔ اسے یہ اعتماد دینے کے لیے آپ دو اصول ضرور اپنالی ، پہلا یہ کہ بچہ اپنی عمر سے کتنا ہی بڑا سوال کر لے، آپ اسے جھڑکیں نہیں، دوسرا یہ کہ کوئی جھوٹی کہانی نہ سنائیں بلکہ نرمی سے صرف اتنا کہہ دیں کہ بیٹا جب آپ بڑے ہو جائیں گے تو آپ کو خود پتہ چل جائے گا۔ جھوٹا بہلاوا نہ دینے کی برکت سے ہوتا یہ ہے کہ بچہ ہمیشہ سے اپنے والدین کو جس مقام پر بٹھا کر رکھتا ہے، حقیقت معلوم ہونے پر اس بلند مقام سے گر کر والدین کا کردار مجروح نہیں ہو پاتا، لیکن! ایسا ماحول ممکن اس وقت ہو سکے گا جب کھانے اور ٹی وی کا وقت ایک نہ ہو۔

ٹی وی بھی اپنی طرز کی ایک بڑی آزمائش ہے کہ آپ اپنی تفریح بھی چاہتے ہیں، بچوں کو بگاڑ سے بھی بچانا چاہتے ہیں، آپ بہت اصول پسند اور مہذب واقع ہوئے ہیں لہٰذا آپ بچوں کو موویز دیکھنے کے لیے PG ریٹنگ دیکھ کر ہی اس کی اجازت مرحمت فرماتے ہیں اور اپنے لیے بڑوں والی فلم یا شوز کا انتخاب فرماتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ بحثیت مسلمان آپ کو کیا کچھ دیکھنے اور سننے کی اجازت ہے؟ کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ بچوں سے چھپ کر اللہ کی بنائی حدود کو پھلانگتے رہیں اور وہ با حیا اور با کردار نکلیں۔

برگد کا درخت جس طرح یکے بعد دیگرے اپنی ہی جڑ سے پنپتا اور میلوں پھیلتا چلا جاتا ہے ایسے ہی ہمارے گناہ یا نیکی ہماری اولاد اور پھر نسلوں میں پھیلتی چلی جاتی ہے، ہمارے آج کے لمحاتی گناہ، بچوں کے اخلاق و کردار میں ڈھل کر ہمارے لیے گناہ جاریہ اور نہ ختم ہونے والی اذیت بن سکتے ہیں اور آج کی سچی توبہ، ذرا سا صبر، تقوی اور نیکی انشاللہ صدقہ جاریہ اور ہمیشہ کی راحت کا سبب بن سکتی ہے۔ کیونکہ ہم بچوں سے تو چھپ سکتے ہیں اللہ تعالیٰ سے نہیں۔

چھپی ہوئی ایک عادت بھی اکثر والدین میں ہوتی ہے اور ایسی مخفی، کہ انہیں اس کا اندازہ تک نہیں ہو پاتا، وہ ہے میاں بیوی کی ایک دوسرے سے غاصبانہ محبت، یعنی اکثر ماں یا باپ میں سے کوئی ایک، دسرے کو اس حد تک چاہتا ہے کہ پھر غیر کیا، خود اپنی اولاد سے ہی رقابت شروع ہو جاتی ہے اور شامت اس بچے کی آتی ہے جو سب سے زیادہ آپ کے spouse سے attached ہو۔ یہ اپنی طرز کا انوکھا اور پیچیدہ ترین love triangle ہوتا ہے جس میں کوئی ولن تو نہیں ہوتا لیکن ایک دوسرے سے شدید محبت کے باوجود کوئی کسی سے خوش بھی نہیں ہوتا، چپکو بچے کی ان کہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ parent سے چپکا رہے، اس سے محبت پاتا، فرمائشیں منواتا، اس کے آس پاس ہی منڈلاتا رہے جب کہ والدین میں سے وہ، جو بہت possessive ہے، اپنے غیر شعوری invisible جذبہ رقابت کے تحت، اپنی ہی اولاد سے الجھنا، چڑچڑانا، بات بات پر خفا ہونا، ڈانٹنا اور سزا دینا شروع کر دیتا ہے۔

جب کہ اسی کا رویہ دوسرے بچوں سے ایسا جارحانہ نہیں بلکہ مشفقانہ ہوتا ہے، تو یہ بچہ، عدم اعتماد، خود رحمی، نفرت اور ضد میں مبتلا ہو کر بات بات پر روتا، اڑ جاتا، اس پر ڈانٹ کھاتا اور پھر گھٹ کر رہ جاتا ہے، اور بار بار کا یہی عمل بچوں کی نفسیات کو مسخ اور گھر کے سکون کو برباد کر ڈالتا ہے۔

اس صورتحال میں بچے کا پسندیدہ parent اس بچے کو compensate کرنے کی خاطر دوسروں کی نسبت رعایتی طرز عمل اختیار کرنا شروع کر دیتا ہے، یہ بات possessive parent کو بھی کھٹکتی ہے اور باقی بچوں کو بھی تو یوں اس رعایتی طرز عمل کا فائدہ کم اور نقصان بہت ہی زیادہ ہوتا ہے، کیونکہ تمام ہی بچوں میں رقابت، نا اتفاقی، عدم اعتماد، احساس برتری اور کمتری ان کی شخصیات اور عمروں کے لحاظ سے اپنی اپنی جگہ بنانا شروع کر دیتا ہے، تو چالاک بچے ان حالات کو بھانپ کر manipulate کرنا شروع کر دیتے ہیں، اور نادان بچے گھر میں گھٹن کا شکار ہو کر غلط دوستوں یا عادتوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔

لہٰذا بچوں کے ایسے ری ایکشنز پر ان کی خبر لینے کے بجائے اپنا کڑا جائزہ لیجیے، اور اپنی اصلاح اور ان سے صلح کرنے میں بالکل بھی دیر نہ کیجیے۔