دلہن کی نمائش ۔ ابویحییٰ
بننا سنورنا اور زیب و زینت خواتین کی فطرت کا حصہ ہے۔ یہ اپنی ذات میں کوئی قابل اعتراض بات بھی نہیں ہے۔ اس لیے دین اسلام میں اس عمل پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ہے۔ البتہ سورہ نور میں خواتین کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ مردوں کے قریبی حلقے کے علاوہ جن میں زیادہ تر محارم شامل ہیں، اپنی زینتوں کو نمایاں نہ کریں۔ اس سے قبل خواتین کو اس بات پر بھی پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنے سینوں کو اپنی اوڑھنیوں سے چھپائے رکھیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں شادی بیاہ کے مواقع پر اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی خلاف ورزی کا ایک اجتماعی موقع بن جاتا ہے۔ عام طور پر ہماری شادی کی مجالس یا تو مخلوط ہوتی ہیں یا پھر مرد خود ہی دندناتے ہوئے خواتین کے حصے میں آجاتے ہیں۔ یوں اللہ تعالیٰ کا حکم سر عام پامال ہوتا ہے۔ اس میں پہلی غلطی تو مردوں ہی کی ہے جو شادی کا انتظام کرتے ہیں۔ انہیں ایک ایسے موقع پر مخلوط مجالس کا انتظام نہیں کرنا چاہیے جہاں خواتین پوری طرح آراستہ ہوکر آتی ہوں۔ یہ انتظام نہ ہو تو انہیں غض بصر (نظر جھکانے) کے دینی حکم کی پابندی کرنی چاہیے۔
ایسے مواقع پر خواتین بھی احتیاط نہیں کرتیں۔ مگر سب سے بڑھ کر اس موقع پر دلہن کے طور پر موجود لڑکی کا وجود مجسم اس حکم کی خلاف ورزی بنا ہوا ہوتا ہے۔ سولہ سنگھار کی ہوئی دلہن کو بنا سنوار کر اسٹیج پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ زیورات اور لباس کی نمائش کے لیے دلہن کے دوپٹے کو سینے سے ہٹا کر باہتمام پیچھے کمر پر ڈال دیا جاتا ہے۔ یوں کھلے گلے اور چھوٹی آستین کے ساتھ ممکنہ حد تک جسم کی نمائش کا اہتمام بھی ہوجاتا ہے۔ فوٹو گرافر اور مووی بنانے والے سرعام کیمرے کی آنکھ سے دلہن کو ٹٹولتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دلہن جسے اُس وقت سب سے بڑھ کر اللہ کی رحمت کی ضرورت ہوتی ہے، اپنی نمائش کر کے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہوجاتی ہے۔