مما پپا اور اللہ ۔ ابویحییٰ
پارک کی اونچی نیچی روشوں، سرسبز ڈھلانوں، رنگ برنگے پھولوں، اونچے اونچے درختوں، ان کے سائے میں لگے پر لطف جھولے میں اپنے ہم جولیوں کے ہمراہ کھیلتا، دوڑتا، ہنستا بچہ بہت مگن تھا۔ اتنا مگن کہ وہ یہ بھی بھول گیا کہ وہ پارک میں اپنے ماں باپ کے ساتھ آیا تھا۔ اس کے ماں باپ ہی اس کی ہر ضرورت پوری کرنے والے اور اس کے محافظ ہیں۔ مگر اس کے ماں باپ کو اس کی فکر تھی۔ وہ دور جھولوں میں گیا تو وہ بھی اسے اپنی نظر میں رکھنے کے لیے جھولوں کے پاس آبیٹھے۔
یکایک کھیل کی مستی میں بچے کو اپنے ماں باپ یاد آئے۔ اجنبیوں کے درمیان اپنوں کی یاد آئی تو بچہ دوڑ کر اسی جگہ گیا جہاں اس نے انہیں چھوڑا تھا۔ وہ وہاں موجود نہ تھے۔ بچہ نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ انہیں کہیں نہ پایا تو تڑپ کر انہیں پکارنا شروع کر دیا۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ بچہ پکارے اور ماں باپ جواب نہ دیں۔ جواب آیا اور بچہ ماں باپ کے پاس تھا۔
ماں باپ اور بچے کی یہ کہانی انسان اور اس کے رب کی کہانی سے زیادہ مختلف نہیں۔ انسانوں کا مالک ماں باپ سے کہیں زیادہ ان سے محبت کرتا ہے۔ وہ ان کا دامن جنت کی خوشیوں سے بھرنا چاہتا ہے اور دنیا کی راحت سے بھی محروم نہیں رکھنا چاہتا۔ وہ ان کے فائدے کے لیے ان پر کچھ پابندیاں لگاتا ہے، مگر لذات دنیا سے استفادہ کا موقع بھی دیتا ہے۔ اس کے بندے اس سے کتنے ہی غافل ہوجائیں وہ انہیں یاد رکھتا ہے۔ تمام تر گناہوں کے باوجود جب کبھی بندے تڑپ کر اسے پکارتے ہیں تو وہ ان کی ہر خطا معاف کر کے انہیں اپنی آغوش رحمت میں لے لیتا ہے۔
مگر افسوس کہ اکثر انسانوں کا دل بچوں کی طرح نہیں ہوتا۔ وہ خدا کو بھولے رہتے ہیں۔ وہ اسے نہیں پکارتے۔ وہ ابلیس کی پکار پر لبیک کہتے ہیں اور غفلت کے جھولے جھولتے ہوئے ایک روز قبر کے اندھیرے میں جاگرتے ہیں۔
کتنا عجیب ہے وہ جو ہر پکار کا جواب دیتا ہے اور کتنے بدنصیب ہیں وہ جو اسے نہیں پکارتے۔