Take a fresh look at your lifestyle.

ڈاجنگ کار اور ہمارا ٹریفک نظام ۔ ابویحییٰ

ڈاجنگ کار بچوں بڑوں کے لیے تفریح کا ایسا سامان ہے جو بڑے شہروں کی تفریح گاہوں میں عام طور پر دستیاب ہوتا ہے۔ یہ بجلی سے چلنے والی وہ گاڑیاں ہوتی ہیں جو جالیوں سے گھرے کسی احاطے کے فرش پر پھلستی ہوئی چلتی ہیں۔ یہ کسی بھی سمت تیزی سے مڑنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اور اسی صلاحیت کے بل بوتے پر لوگ ان گاڑیوں میں بیٹھتے ہیں اور ایک دوسرے کو ڈاج دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس عمل میں اکثر گاڑیاں ٹکرا بھی جاتی ہیں۔ مگر یہ گاڑیاں کم رفتار کی بنا پر نہ الٹتی ہیں اور نہ ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے۔

دنیا بھر کے لوگ ڈاجنگ کار میں بیٹھتے ہیں، مگر شہر کی سڑکوں پر اپنی گاڑیاں ڈاجنگ کار کے اصول پر کبھی نہیں چلاتے۔ اس معاملے میں شاید ایک ہی استثنا ہے اور وہ پاکستانی قوم اور خاص کر کراچی شہر کا ٹریفک ہے۔ یہاں چھوٹی بڑی ہرسڑک پر لوگ اپنی گاڑیاں اور اسکوٹریں ہی نہیں بلکہ بس، ویگن اور ٹرک ڈرائیور بھی اپنی گاڑیاں ڈاجنگ کار کے طریقے پر چلاتے ہیں۔ کراچی غالباً دنیا کا واحد شہر ہے جہاں موٹر وے (سپر ہائے وے) جیسے راستے پر بھی اسکوٹر سے لے کر ٹرک چلانے والے ون وے کی مستقل خلاف ورزی کرتے نظر آتے ہیں اور ان کو کوئی نہیں روکتا۔

یہی نہیں بلکہ موٹروے پر سو ایک سو بیس کی رفتار سے آتی ہوئی گاڑیوں کے درمیان بھاگ کر سڑک عبور کرنے والے لوگ بھی دنیا میں شاید یہیں پائے جاتے ہیں۔ یہاں اسکوٹر اور رکشہ ہی نہیں بلکہ ٹرک اور بس بھی اچانک بغیر اشارہ دیے اپنا ٹریک بدل لیتے ہیں۔ دنیا بھر کے برعکس جہاں فٹنس کے مقررہ معیار کے بغیر کوئی گاڑی سڑک پر نہیں آسکتی اور تمام قواعد کو جانے بغیر کوئی ڈرائیور گاڑی نہیں چلا سکتا، ہمارے ہاں گاڑی کا اسٹارٹ ہوجانا اور ڈرائیور کا اس کو چلا لینا گاڑی کے سڑک پر آنے کا واحد معیار ہوتا ہے۔

اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے ہاں آئے دن ٹریفک حادثات ہوتے ہیں جن میں قیمتی جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے۔ 2018 میں 36000 لوگ ٹریفک حادثات کی نذر ہوئے۔ ہر برس اس تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ مگر سوائے ان بدنصیب خاندانوں کے جن کے پیارے ان حادثات میں مارے جاتے ہیں، کسی اور کو اس عظیم جانی نقصان کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔

زیادہ سے زیادہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے یہ کیا جاتا ہے کہ قانون کو سخت سے سخت بنا دیا جائے۔ مگر قانون اور جرمانے سخت کرنے سے صرف رشوت کے ریٹ بڑھتے ہیں۔ مزید یہ کہ جب ہر شخص قانون کی خلاف ورزی شروع کر دے تو پولیس والے لاکھ کوشش کرکے بھی لوگوں کو قانون کی خلاف ورزی کرنے سے نہیں روک سکتے۔

اس مسئلے کا حل کئی پہلوؤں سے کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک یہ کہ روڈ سینس کے مضمون کو پرائمری نصاب کا لازمی حصہ بنایا جائے تاکہ بچپن سے ہر شہری کو معلوم ہو کہ اس کی غفلت سے سڑکیں، سفر ہی کا نہیں، موت کی منزل پر پہنچنے کا راستہ بھی بن سکتی ہیں۔ ڈرائیونگ لائسنس کا حصول دبئی جیسے ممالک کی طرح کئی مراحل سے مشروط کر دیا جائے جس میں ڈرائیونگ سے کہیں بڑھ کر روڈ سینس کی تربیت کے کورسز میں کامیابی لازمی ہو۔ لوگوں کو ان کورسز میں یہ بتایا جائے کہ ان کی سواری ان کی ذرا سی غفلت سے ایک آلہئ قتل میں تبدیل ہوسکتی ہے۔

شہریوں اور ڈرائیوروں کی تربیت کے ساتھ قوانین کے سخت اطلاق کے لیے ٹریفک پولیس کے پورے نظام میں تبدیلی کی سخت ضرورت ہے۔ اس کا پہلا قدم یہ ہے کہ ٹریفک پولیس کی تنخواہیں کئی گنا بڑھائی جائیں تاکہ وہ رشوت سے دور رہ کر قوانین کو سختی سے نافذ کرا سکیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ لائسنس فیس کو دس گنا بڑھا دیا جائے اور یہ تمام فیس ٹریفک پولیس کی تنخواہوں میں خرچ کی جائے۔

ٹریفک کے نظام کی نگرانی کے لیے پورے شہر میں ٹریفک سگنل پر نگرانی کرنے والے کیمرے لگائے جائیں۔ ان کیمروں کے ذریعے سے خلاف ورزی کرنے والوں کے سخت چالان کیے جائیں جیسا کہ دنیا بھر میں ہوتا ہے۔ ان جرمانوں کی رقم سے کیمروں کا یہ نظام باآسانی چلایا جاسکتا ہے۔

آج ہم یہ سارا سلسلہ شروع کریں گے تب کہیں جاکر اگلے چند برسوں میں ہمارا ٹریفک کا نظام ایک قاتل نظام سے ایک سہولت دینے والا نظام بنے گا۔ اور اگر ہم نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تو ہر برس مرنے والوں، معذوروں، زخمیوں کی تعداد بڑھتی چلی جائے گی۔ جبکہ مالی نقصان اس کے علاوہ ہوگا۔