Take a fresh look at your lifestyle.

یہ ظلم کیسے ختم ہو؟ ۔ ابویحییٰ

ساہیوال کے قریب سی ٹی ڈی فائرنگ سے مرنے والے خلیل احمد، ان کی بیوی نبیلہ، بیٹی اریبہ اور ہمسایہ کار ڈرائیور ذیشان کی موت پر پورے ملک میں ایک ہیجانی کیفیت طاری ہے۔ مگر اطمینان رکھیے! پچھلے تمام ہیجانوں کی طرح یہ بھی دوچار دن کی بات ہے۔ کوئی نیا مسئلہ آئے گا اور پھر سارا سوشل اور الیکٹرونک میڈیا اس کے پیچھے لگ جائے گا۔ باقی رہا مظلوم خاندان تو اب اس کے ساتھ قیامت کے دن ہی انصاف ہوگا۔ہماری چیخ و پکار کسی کو انصاف نہیں دلا سکتی۔

مگر کیا قیامت سے قبل ظلم کی یہ سیاہ رات ختم ہوسکتی ہے؟ اس سوال کا جواب ہاں میں ہے، مگر اس کی دو بنیادی شرائط ہیں۔ ایک یہ کہ ہم اپنے تعصبات سے اوپر اٹھیں اور دوسرا یہ کہ اپنے جذباتی انداز فکر سے اوپر اٹھیں۔ تعصبات سے اوپر اٹھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ظلم پر صرف اس لیے آواز اٹھائیں کہ وہ ظلم ہے نہ کہ اس لیے کہ ہمیں کسی سے حساب چکانا ہے۔ مگر ہمارا معاملہ کیا ہے؟ یہ کہ ہم میں سے کچھ مذہبی تعصبات کے تحت دہشت گردوں کے حمایتی ہیں۔ دہشت گردوں نے اس ملک میں خون کی ندیاں بہا دیں اور ہم ان کے ہر ظلم کے باوجود اگر مگر کی تاویل سے انھیں بچاتے رہے۔

ہم میں سے کچھ سیاسی تعصبات کے اسیر ہیں۔ ہماری پسند کی سیاسی جماعت کے دور میں بھی یہ ظلم ہوتا تھا مگر ہم ظلم سے زیادہ اس کے تحفظ کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ ہم میں سے کچھ قوم پرست ہیں۔ قوم پرستوں کے ہر ظلم پر ہم اپنی زبان سی لیتے ہیں۔ مگر ایسا کوئی موقع مل جائے تو پھر ہم سب کی رگ عدل پھڑک اٹھتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حساب چکانے کا وقت آگیا۔ دہشت گردوں کے حمایتی کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کی دھجیاں بکھیرنے پر اتر آتے ہیں۔ سیاسی مخالفین نئی حکومت کو ٹف ٹائف دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ قوم پرست اسٹبلشمنٹ کو ہدف بنا لیتے ہیں۔

یہ سب کر کے ہم انسانوں کو بے وقوف بنا سکتے ہیں۔ مگر عالم کا پروردگار جانتا ہے کہ یہ سب کے سب مجرم ہیں۔ یہ اپنے اپنے ظالموں کے حمایتی ہیں۔ اس لیے ہماری سزا ختم نہیں ہوتی۔ جب تک ہم صدق دل سے توبہ کرکے عدل کو اپنی بنیادی قدر نہیں بنائیں گے، ظلم کی یہ رات ختم نہیں ہوگی۔

دوسری چیز جذبات سے اوپر اٹھنا ہے۔ ہمارے معاشرے میں آئے دن ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ اس سے کم یا زیادہ یا ملتے جلتے معاملات جن میں معصوموں کی جان، مال، آبرو برباد ہوتی ہے۔ مگر ہم وقتی طور پر جذباتی ہوجاتے ہیں۔ پھر رات گئی بات گئی۔ قوموں کے مسائل ایسے حل نہیں ہوتے۔ قوموں کے مسائل حل کرنے کے لیے کچھ لوگوں کو زندگی لگانی پڑتی ہے۔ اور باقی لوگوں کو ان کی مدد کرنی ہوتی ہے۔

کچھ لوگ یہ طے کرلیں کہ وہ غربت کے خلاف جنگ لڑیں گے۔ کچھ جہالت کے خلاف لڑنے کو زندگی بنالیں۔ کچھ قانون کی درستی اور عدالتی نظام کی اصلاح کو اپنا ہدف بنالیں۔ کچھ لوگ مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے خود کو وقف کر دیں۔ کچھ لوگ ملاوٹ اور کرپشن کے خلاف نچلی سطح پر جنگ کے لیے زندگی لگا دیں۔ باقی لوگ ان کی مدد کریں اور ان کو سہارا دیں۔

جب کچھ لوگ ایسے کاموں کے لیے زندگیاں لگائیں گے تو پھر حقیقی تبدیلی آنا شروع ہوگی۔ پھر ظلم ختم ہونا شروع ہوگا۔ پھر بے نگاہوں کو کوئی سرِ راہ اس طرح نہیں مارے گا۔ معصوموں کے سامنے ان کے ماں باپ نہیں قتل کیے جائیں گے۔ پھر پولیس مقابلے کے بجائے عدالتیں دہشت گردوں کو پھانسی دیں گے۔ پھر معاشرے سے ظلم اور فساد ختم ہوگا۔

اس کے بغیر ہم ایک کے بعد دوسرے سانحے اور ایک کے بعد دوسرے ظلم کا نشانہ بنتے رہیں گے۔ یہی تاریخ کا سبق ہے۔ یہی خدا کا فیصلہ ہے۔