سیلاب اور پاکستان ۔ ابویحییٰ
فلاحی ریاست اور فلاحی ادارے
ایک ایسے دور میں جب جدید دنیا نے فلاحی ریاست کا تصور پیش کر دیا ہے اور اس تصور کی بنیاد پر کئی ریاستیں چل بھی رہی ہیں، یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے کمزور طبقات کا انحصار آج بھی فلاحی اداروں پر ہے۔ یہ ایک المیہ ہے لیکن اسی میں ہمارے سماج کی یہ خوبصورتی بھی سامنے آتی ہے کہ جب ریاست ہر طرح کی ذمہ داری اٹھانے سے بری الذمہ ہوچکی ہے، کچھ لوگ آگے بڑھ کر مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کے لیے سامنے آتے ہیں۔
ملک کے حالیہ سیلاب نے یہ حقیقت کھول دی ہے کہ اگر اس وقت عوام نہ اٹھتے اور فلاحی ادارے اتنے مضبوط اور فعال نہ ہوتے تو سیلاب زدگان کا جانی نقصان کہیں زیادہ ہوتا۔ پاکستان کے فلاحی اداروں کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ ان میں ایدھی صاحب کے ادارے کی تاریخ سب سے زیادہ پرانی اور خدمات بڑی غیرمعمولی ہیں۔ ان کا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے دوسرے لوگوں کو خدمت خلق کا راستہ دکھایا اور آج بہت سے ادارے یہ کام کر رہے ہیں۔
تاہم سیلاب جیسی وسیع علاقے میں پھیلی ہوئی آفتوں کے موقع پر وہ ادارے سب سے زیادہ موثر ہوتے ہیں جن کے پاس مخلص رضاکاروں کی ایک بڑی تعداد ہو کیونکہ ان کا کام سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ اس پہلو سے الخدمت کو باقی تمام اداروں پر یہ فوقیت حاصل ہے اس کے پاس جوش و جذبے والے رضاکاروں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے۔
رضاکاروں کے علاوہ کسی ادارے کا تنظیمی اسٹرکچر اور لوگوں سے ملنے والا تعاون جیسے عوامل بھی اپنی جگہ بہت اہم ہوتے ہیں اور ان پہلوؤں سے بھی الخدمت ایک بہت مضبوط ادارہ ہے۔ الخدمت کی راہ میں ایک رکاوٹ تاہم یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے سیاسی مخالفین یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے ساتھ تعاون کا مطلب جماعت اسلامی کے ساتھ تعاون ہے۔
تاہم یہ تصور درست نہیں ہے۔ الخدمت جماعت اسلامی کے لوگوں کی خدمت کے لیے بنایا گیا ادارہ نہیں ہے۔ البتہ اس معاملے میں جماعت اور جمعیت سے وابستہ ان لوگوں کو بھی کچھ احتیاط کی ضرورت ہی جو الخدمت کے کام کو خود ہی جماعت اسلامی سے جوڑ کر لوگوں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ جماعت کو ووٹ دیے جائیں۔
یہ رویہ دو وجوہات کی بنا پر نظرثانی چاہتا ہے۔ ایک تو یہ کہ سیاسی مخالفین کو اس پروپیگنڈے کا موقع مل جاتا ہے کہ یہ سب کچھ سیاسی مفادات کے لیے کیا جارہا ہے۔ دوسرا یہ کہ اس عمل میں بعض اوقات افراد کو نمایاں کیا جاتا ہے۔ سیاسی پہلو سے شاید یہ ایک ضرورت ہو، مگر فرد کے پہلو سے اس میں ریاکاری اور فخر جیسی چیزوں کے درآنے کا اندیشہ ہوتا ہے اور ممکنہ طور پر یہ اس شخص کے اجر کو ضائع کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کے برعکس صرف کام اور خدمات کو خاموشی سے نمایاں کر دیا جائے تو یہ نقصان نہیں ہوگا۔ البتہ وہ فائدہ بہرحال حاصل ہوگا کہ لوگوں میں اعتباریت بڑھے گی جس کے آخرکار سیاسی نتائج نکلتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سماج کو الخدمت جیسے اداروں کی ضرورت ہے۔ البتہ الخدمت اور دیگر تمام فلاحی اداروں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مصیبت زدہ اور غریب لوگوں کی مدد اور خدمت خلق کے دیگر پہلو اپنی جگہ، مگر ملک کا اصل اور بنیادی مسئلہ جہالت ہے۔ گاؤں دیہاتوں میں آج بھی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسکول کی سطح تک تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے جو ہمارا موجودہ نظام اسے نہیں دے پارہا۔ یہ کام تو ریاست کا ہے، مگر یہ فلاحی ادارے خدمت خلق کے ساتھ تعلیم کو اپنا ہدف بنا لیں تو آنے والے چند عشروں میں ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ ورنہ اگلے چند عشروں میں دنیا جس ایج آف آٹومیشن میں جارہی ہے, ہمارا انجام معاشی غلامی، بھوک، افلاس اور غربت کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
———-
اللہ کی راہ میں خرچ اور قرآن
اللہ کی راہ میں خرچ کرنا دین اسلام کے بنیادی مطالبات میں سے ایک ہے۔ یہ مطالبہ اتنا غیرمعمولی ہے کہ محتاج اور ضرورت مند لوگ جو خود خرچ کرنے کے قابل نہ ہوں، وہ اگر دوسروں کو خود پر ترجیح دیں اور دوسروں کو ملنے والی چیزوں پر اپنے دل میں تنگی محسوس نہیں کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی اس بے غرضی کی بنا پر آخرت میں ان کی فلاح کا فیصلہ سنا دیتے ہیں،(الحشر59:9)۔
مال کی محبت پر آخرت کو ترجیح دینا ہی تمام تر انفاق کی بنیاد ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مال دراصل دنیا کے قائم مقام ہے جس سے دنیا کی ہر چیز خریدی جاسکتی ہے۔ مگر آخرت کے طلبگاروں کو زیادہ سے زیادہ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنا چاہیے کیونکہ آخرت میں اس کا اجر بے حد و حساب ہے۔ اس حوالے سے قرآن مجید کی کچھ رہنمائی قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
قرآن اپنی ابتدا ہی میں انفاق کے حکم میں یہ بتا دیتا ہے کہ لوگ جو بھی خرچ کرتے ہیں وہ درحقیقت ان کی مِلک ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ سرتاسر اللہ کی عطا ہوتی ہے،(البقرہ3:2)۔ یہ احساس ملکیت ہی انسان کو مال خرچ کرنے میں مانع ہوتا ہے۔ جب اسے یقین ہوجاتا ہے کہ جو کچھ ہے وہ اللہ کا ہے تو پھر وہ اس میں سے خرچ کرتے ہوئے تنگ دل نہیں ہوتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جس نے دیا ہے وہ کبھی بھی لے سکتا ہے۔اسی بات کو یوں بھی بیان کیا گیا ہے جس مال پر تمھیں امین بنایا گیا ہے، اس میں سے خرچ کرو(الحدید57:7)۔
یہی وہ پس منظر ہے جس میں حکم دیا گیا ہے کہ جو تم تمھاری ضرورت سے زائد ہے، وہ سب خرچ کر دو،(البقرہ219:2)۔ یہاں ضرورت سے زائد کا مطلب اپنی اور پنے اہل خانہ کی حال و مستقبل کی حقیقی ضروریات سے زیادہ مال ہے۔ یہ مطلب بھی نہیں کہ اس زائد مال کو سڑک پر پھینک دیں بلکہ مراد یہ ہے کہ جب کوئی ضرورت مند آجائے تو پھر یہ اضافی مال اس کا حق ہے جو اسے دے دینا چاہیے۔
پھر قرآن یہ حکم دیتا ہے کہ مال دیں تو نہ احسان جتلائیں نہ لینے والوں کی دل آزاری کریں،(البقرہ264:2)۔ اس سے اجر ضائع ہوجاتا ہے۔ اسی طرح گھٹیا مال دوسروں کو نہ دیا جائے،(البقرہ267:2)۔ اپنا مال علانیہ اور چھپا کر دونوں طرح اللہ کی راہ میں دیا جاسکتا ہے،(البقرہ271:2)۔ علانیہ دینے سے دوسروں کو بھی تلقین ہوتی ہے، لیکن چھپا کر دینا نفس کی تربیت کے لیے بہتر ہے کہ اس میں ریاکاری کا اندیشہ نہیں رہتا۔
مال رشتہ داروں، محتاجوں، یتیموں، مسافروں اور سوال کرنے والوں اور کسی بھی طرح کی مصیبت میں گرفتار شخص پر خرچ کیا جاسکتا ہے،(البقرہ177:2)۔ ان لوگوں کا خصوصی خیال کرنا چاہیے جو عزت نفس کی بنا پر ضرورت مند ہونے کے باوجود ہاتھ نہیں پھیلاتے، (البقرہ273:2)۔ جو شخص ان سب باتوں کی رعایت کرکے خرچ کرے گا اس کے لیے خوشخبری ہے کہ اس کا اجر کم از کم دس گنا اور حالات اور جذبے کے لحاظ سے سات سو گنا تک بڑھ سکتا ہے۔ جیسے جو لوگ خوشحالی کے ساتھ تنگی میں بھی مال دیتے ہیں،(آل عمران134:3)، ان کا تنگی میں مال دینے کا اجر یقینا خوشحالی سے بہت زیادہ ہوگا۔
خیال رہے کہ یہ زکوٰۃ سے آگے بڑھ کر خرچ کرنے کا ذکر ہے۔ زکوٰۃ تو فرض ہے اور اس فرض کی ادائیگی کا بھی بے حد اجر ہے اور ایک سفید پوش شخص تو یہی ادا کر دے تو بہت ہے۔ لیکن زیادہ مال والوں کو زکوٰۃ سے آگے بڑھ کر خرچ کرنا چاہیے۔
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ مال کی اس نعمت کو ان قرآنی احکام کے مطاق خرچ کرتے ہیں، وہ قیامت کے دن اپنی اس تجارت پر بہت خوش ہوں گے۔ باقی لوگ اُس روز اس بات کا ماتم کر رہے ہوں گے کہ ان کا مال پچھلی دنیا میں ضائع ہوگیا اور ابدی دنیا میں ان کے لیے کچھ نہیں۔
———-
مال اور جہنم
مال خدا کی جنت حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ مگر بدقسمتی سے کچھ عادات اور رویے ایسے ہیں جو انسان کو اللہ کی راہ میں مال خرچ نہیں کرنے دیتے اور انسان آخرکار جہنم کا ایندھن بن جاتا ہے۔ ہر مسلمان کو ان رویے اور عادات سے واقف ہونا ضروری ہے تاکہ وہ خود بھی ان سے بچ سکے اور دوسروں کو بچنے کی تلقین کرسکے۔
ان میں سے پہلا بخل ہے۔ بخیل انسان اپنے اوپر مال خرچ کرتا ہے نہ دوسروں پر۔ اس کا کل سرمایہ اس کا احساس دولت ہوتا ہے جس میں وہ اپنی دولت کو گن گن کر خوش ہوتا ہے، مگر یہ دولت اسے دنیا میں نفع دیتی ہے اور نہ آخرت میں۔
کچھ لوگ بخیل ہوتے ہیں لیکن بخل کے طعنے سے بچنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا مزاج ہوتا ہے کہ خرچ کے ہر موقعے پر وہ دوسروں کے سامنے اپنے کاروباری حالات کی خرابی، بڑھتے ہوئے اخراجات اور مہنگائی کا ذکر کرکے یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ تو خرچ کرنا چاہتے ہیں، مگر حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔ ان میں سے بعض لوگ وہ ہوتے ہیں جو طرح طرح کے جواز گھڑ کر دوسروں کو خرچ کرنے سے روکتے ہیں تاکہ ان کی وجہ سے شرما حضوری ان کو کچھ خرچ نہ کرنا پڑجائے۔ ایسے لوگ بدترین ہوتے ہیں جو اپنے ساتھ دوسروں پر بھی جنت کے دروازے بند کرتے ہیں۔
بخل کے علاوہ اسراف اور فضول خرچی کی عادت بھی انسان کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے نہیں دیتی کیونکہ ایسے لوگوں کے پاس انفاق کے لیے سرمایہ بچتا ہی نہیں۔ اخراجات میں توازن نہ رکھنے والوں کا بھی یہی معاملہ ہوتا ہے۔ ان سب سے زیادہ خطرناک ریاکاری کی عادت ہے جس میں انسان دوسروں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتا ہے۔ ایسا کرنے والا خرچ بھی کرتا ہے اور اس کو کوئی اجر بھی نہیں ملتا۔
مومن کو ان عادتوں سے بچنا چاہیے کیونکہ یہ انسان کو جہنم کی راہ کا مسافر بنا دیتی ہیں۔
———-
دولت اور آخرت
اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا خدا کی رحمت کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ خاص پر مالداروں کے لیے تو دنیا کی نعمتوں کے ساتھ آخرت کی نعمتیں سمیٹنے کا یہ وہ موقع ہے جو دوسرے لوگوں کو ملنا بہت مشکل ہے۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ دولتمند اس موقع سے ہمیشہ دور رہتے ہیں۔ ان کی جتنی دولت ہوتی ہے، اتنا ہی ان کا حوصلہ کم ہوتا ہے۔ اول تو ایسے لوگ اللہ کی راہ میں پیسے خرچ نہیں کرتے۔ کرتے ہیں تو درحقیقت وہ فی صد کے لحاظ سے ان کی دولت کا بہت ہی کم حصہ ہوتا ہے۔ یوں لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ زیادہ پیسے دے رہے ہوتے ہیں، مگر خدا کے حضور وہ ان دوسروں کے مقابلے میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں جو فی صد کے لحاظ سے اپنی بچت کا زیادہ بڑا حصہ راہ خدا میں دے دیتے ہیں۔
یہی وہ چیز ہے جس کو حضرت عیسیٰ نے اس طرح بیان کیا تھا کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہوسکتا ہے، مگر دولت مند خدا کی بادشاہی یعنی جنت میں داخل نہیں ہوسکتا۔
اس رویے کا سبب یہ ہے کہ انسان کی نفسیات میں اپنی دولت کو بڑھانے کی خواہش اتنی ہی بڑھتی ہے جتنی اس کی دولت بڑھتی ہے۔ یہ چیز آخرکار خزانہ جمع کرنے کی اس خواہش تک پہنچتی ہے جس میں انسان دولت کے ڈھیر کے ڈھیر جمع کرتا چلا جاتا ہے۔ زمانہ قدیم میں یہ عمل سونے چاندی کے خزانے (کنز) جمع کرنے کی شکل میں ہوتا تھا اور دور جدید میں یہ پلاٹوں، جائیدادوں، فارن کرنسی اور انویسٹمنٹ کی دیگر اقسام کی شکل میں ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کو آخرت کا یقین ہوجائے تو وہ حال و مستقبل کی ضروریات کے علاوہ اپنا سب کچھ آخرت کے لیے وقف کر دے گا۔ کیونکہ قرآن یہ یقین دہانی کراتا ہے کہ بندے کو وہاں کم سے کم ایک کا دس ملے گا اور زیادہ سے زیادہ اجر ایک کا سات سے گنا تک ہے۔ خرچ اگر خدا کے دین کی مدد کے لیے کیا جائے تو پھر اس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا۔ عالم کا پروردگار اسے قرض حسنہ کہتا ہے جس میں بندہ اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرتا ہے اور رب اپنی شان کے مطابق لوٹاتا ہے۔
معاملہ آخرت ہی کا نہیں بلکہ خد اکی راہ میں خرچ کرنا دنیا میں بھی نفع بخش ہے۔ اس حوالے سے چند روایات جو بخاری و مسلم دونوں میں آئی ہیں وہ اس طرح ہیں۔ فرمایا کہ خرچ کرو اور گن گن کر نہ دو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمھیں گن کر دے گا اور ہاتھ نہ روکو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تم سے اپنا ہاتھ روک لے گا۔ ایک حدیث قدسی میں آتا ہے کہ اے ابن آدم تو (میری مخلوق پر) خرچ کرتو میں تیرے اوپر خرچ کروں گا۔ فرمایا کہ جس نے کسی تنگ دست پر آسانی کی اللہ اس پر دنیا و آخرت میں آسانی کرے گا۔
اس طرح کی تمام روایات میں مخاطب مالدار ہی ہوتے ہیں۔ عام لوگوں کے لیے اسلوب جدا ہوتا ہے۔ مثلا ایک روایت میں روز حشر خدا کے حضور پیشی اور جہنم کا ذکر کرکے فرمایا کہ جہنم سے بچو چاہے کجھور کے ایک ٹکڑے سے ہو۔ یہ اسلوب عام لوگوں کے لیے ہے۔ مالداروں کا معاملہ تو یہ ہے کہ ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مال کثرت سے خرچ کریں گے جیسا کہ ایک روایت میں بیان ہوا کہ رب کعبہ کی قسم وہ لوگ خسارے میں ہیں۔ پوچھا گیا کہ کون لوگ ہیں تو فرمایا کہ وہ کثیر مال والے لوگ ہیں سوائے ان کے جو اِدھر اُدھر دائیں بائیں آگے پیچھے خرچ کرتے ہیں۔ لیکن ایس لوگ بہت کم ہیں۔
یہ روایات مال والوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے مال کا بہت کم حصہ خود پر خرچ کرتا ہے۔ بیشتر حصہ دوسروں کے لیے چھوڑ جاتا ہے۔ کیسا بدنصیب ہے وہ شخص جو دولت کو دوسروں کے لیے چھوڑ جاتا ہے، مگر اپنی آخرت تباہ کرلیتا ہے۔
———-
سیلاب اور پانچ طبقات
دنیا کے کسی ملک میں جہاں کوئی ایسی بڑی آفت آجائے جسے سنبھالنا حکومت کے بس کی بات نہ ہو تو وہاں معاشرے کے چند طبقات کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کریں۔ ان میں سے پہلا طبقہ سرمایہ داروں کا ہوتا ہے۔ ہر معاشرے میں پانچ سے دس فی صد لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس باقی معاشرے کی مجموعی دولت سے زیادہ سرمایہ ہوتا ہے۔ کسی آفت کے آنے پر ان لوگوں کا ردعمل بنیادی ہوتا ہے۔ یہ لوگ اگر چاہیں تو اپنی دولت کا چند فی صد بھی خرچ کرکے سارے نقصان کا ازالہ کرسکتے ہیں۔ ان کا ایک فی صد ہزار افراد کے سو فی صد سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔
دوسرا طبقہ ان لوگوں کا ہوتا ہے جن کا عوام اور مالدار طبقات پر اثر و رسوخ ہوتا ہے۔ لیڈر، صوفیا و مشائخ، علما، اداکار اور کھلاڑیوں سے سمیت معاشرے کے متعدد گروہ ایسے ہیں جن کی ایک اپیل پر لوگ بڑی تعداد میں اٹھ جاتے ہیں۔
تیسرا طبقہ عملاً کام کرنے والے رضاکاروں کا ہوتا ہے جو اپنے وقت، صلاحیت اور توانائی خرچ کرکے مصیبت زدگان کی مدد کرسکتے ہیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی ہوتی ہے۔
چوتھا طبقہ اہل علم کا ہوتا ہے جو اپنے علم و استدلال سے فطری، عقلی اور مذہبی بنیادوں پر عوام و خواص کو اس مشکل میں اٹھنے کے لیے آمادہ کرتے اور انھیں مصیبت زدہ لوگوں کی مدد پر تیار کرتے ہیں۔ پانچواں اور آخری طبقہ جو عصر حاضر میں اہم ترین ہوگیا ہے وہ پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر موجود لوگوں کا ہے۔ اس طبقے کی پہنچ سماج کے بیشتر طبقات تک ہوتی ہے۔ چنانچہ ان کا اٹھنا پورے سماج کی بیداری کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
پاکستان میں موجودہ سیلاب اتنا تباہ کن ہے کہ ان پانچوں طبقات کو پوری قوت سے اٹھنا ہوگا۔ یہ نہ اٹھے تو برباد لوگ مزید برباد ہوجائیں اور اس کی ذمہ داری ان تمام لوگوں پر ہوگی۔
———-
سیلاب اور ہماری فطرت
پاکستان میں حالیہ سیلاب نے جو تباہی مچائی ہے وہ انتہائی غیر معمولی ہے۔ اس سیلاب کا ایک حصہ بارشوں کی شکل میں آچکا ہے اور دوسرا حصہ دریائے سندھ میں آنے والے سیلاب کی شکل میں ابھی ظاہر ہونا باقی ہے۔ بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے یہ سیلاب ماضی میں تباہی کے سارے ریکارڈ توڑ دے گا۔
اس انسانی المیے سے نمٹنے کے لیے پوری قوم کا اٹھنا ضروری ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ہم لوگ اپنی سطح پر کام کرنے کے ساتھ دوسروں کو اس حوالے متوجہ کریں۔ اس پس منظر میں ہم چند چھوٹے چھوٹے آرٹیکل لکھ کر دین کی تعلیمات کی روشنی میں یہ واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ ایسے مواقع پر معاشرے کی کیا ذمہ داری ہے۔
اس حوالے سے پہلی چیز یہ حقیقت واضح کرنا ہے کہ مذہب سے قبل یہ ہماری فطرت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے ابنائے نوع کو مصیبت میں دیکھ کر اس کی مدد کریں۔ یہی جذبہ ترحم ہمیں انسان بناتا ہے کہ جانوروں کے برعکس یہ انسان ہوتے ہیں جو اپنے بالکل قریبی رشتوں سے آگے بڑھ کر دوسرے انسانوں کی اس بنیاد پر مدد کرتے ہیں کہ وہ بھی انسان ہیں۔ ہم انسان اگر یہ نہیں کرتے تو ہم انسان کہلانے کے مستحق نہیں رہتے۔ یہی پس منظر ہے جس میں ساری دنیا کے انسان بلاتفریق رنگ و نسل دکھی لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
اگر ہم دوسروں کو دکھ میں دیکھ کر ان کی مدد نہیں کرتے تو پھر ہم بظاہر انسان ہوتے ہیں لیکن دراصل ہم ایک بے حس مخلوق بن جاتے ہیں۔ چنانچہ یہ ہماری انسانیت کا تقاضا ہے کہ ہم اٹھیں اور چاہے سو روپے سے سہی اپنی بھائیوں کی مدد کریں۔ یہ مدد ان کی جتنی مشکل دور کرے گی، اسے کہیں بڑھ کر ہمارے دل و دماغ کے لیے سکون کا باعث ہوگی۔ یہی وہ چیز ہے جس کی آج ہر انسان کو تلاش ہے۔