Take a fresh look at your lifestyle.

مسئلہ فلسطین ۔ ابویحییٰ

یہود، عرب اور مغرب
مسئلہ فلسطین کا آغاز 1917 میں معاہدہ بالفور سے ہوا تھا جب انگریز حکومت نے فلسطین پر قبضہ کرلیا اور وہاں یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ 1948 میں اسرائیل بنا۔ اس وقت سے لے کر آج تک ایک ہی معاملہ بار بار دہرایا جاتا ہے: فلسطینیوں کی سخت مزاحمت، عربوں کی بھرپور حمایت اور باقی مسلمانوں کی زبردست تائید اور ان سب کے باوجود فلسطین میں یہودی علاقوں اور آبادکاروں میں مسلسل اضافہ اور فلسطینیوں پر زندگی کا مستقل تنگ ہونا۔

مسئلہ فلسطین کو دیکھنے کے بہت سے زاویے ہوسکتے ہیں، مگر اس طالب علم کے لیے ایک ہی زاویہ اہم ہے۔ وہ زاویہ قرآن مجید کا زاویہ ہے۔ اس مسئلے کے دو فریق ہیں۔ ایک یہود اور دوسرے عرب۔ دونوں کے متعلق قرآن مجید پہلے ہی بتا چکا ہے کہ وہ کیا کریں گے تو جواب میں اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ کیا کریں گے۔ یہود کے متعلق قرآن مجید کا فیصلہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کے کفر کے بعد وہ قیامت تک مسیحیوں سے مغلوب رہیں گے اور وقفے وقفے سے ان پر سخت عذاب مسلط کیا جائے گا۔ تاہم ان وقفوں اور غلامی کے درمیان ان کو مہلت ضرور ملے گی۔ یہود اس وقت اسی مہلت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

بعض نادان لوگ اس مہلت کو یہود کا عالمی غلبہ سمجھتے ہیں۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہود پچھلے دو ہزار برس سے مسلسل مغلوبیت اور عذاب کا شکار ہیں۔ اس وقت بھی وہ مغربی طاقتوں کے بل بوتے پر ہی یہاں تک پہنچے ہیں۔ پہلے برطانیہ اور اب امریکہ کی مسیحی طاقت نے اپنے مفادات کے لیے ان کو استعمال کیا ہے۔پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ نے یہودیوں کے ذریعے سے امریکہ کو جنگ میں شریک کروا کے پہلی جنگ عظیم میں اپنی شکست فتح میں بدلی اور اس خدمت کے بدلے میں اعلان بالفور ہوا۔ ہٹلر نے اسی جرم کی بنا پر یہود کا قتل عام کیا تھا۔

اس کے بعد بھی مغربی طاقتوں نے یہود کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا۔1938 میں سعودی عرب میں تیل کے سب سے بڑے عالمی ذخیرے کی دریافت کے بعد مغربی طاقتوں کو یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کا معیار زندگی اور ترقی عرب کے اس تیل پر منحصر ہے۔ چنانچہ اس تیل پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کی غرض سے اسرائیل کو بنایا گیا تاکہ عرب ریاستیں مسلسل خوف میں رہ کر مغربی طاقتوں کے کنٹرول میں رہ سکیں۔ عرب ریاستوں کی دولت کا ایک بڑا حصہ اس اسلحے کی خریداری پر خرچ ہوتا ہے جو وہ اسرائیل کے خوف سے خریدتی ہیں اور یوں تیل پر خرچ ہونے والی رقم اسلحے کی تجارت سے واپس مغربی اقوام کو مل جاتی ہے۔

چنانچہ مغرب اور خاص کر امریکہ کی اسرائیلی حمایت کا سبب مغرب کی وہ پالیسی ہے جس کے تحت وہ جس رقم کو تیل خریدنے پر خرچ کرتے ہیں، اس سے زیادہ اسلحہ بیچ کر کما لیتے ہیں۔ امریکی کانگریس کی ایک رپورٹ کے مطابق 2019-2000 کے عرصے میں مشرق وسطی میں 1.3 کھرب ڈالر کا اسلحہ خریدا گیا ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق مشرق وسطیٰ کے ممالک نے 1950سے 2017 تک 3.8 کھرب ڈالر کے اسلحے کی درآمد کے معاہدے کیے۔اس اسلحے کے بیچنے والے زیادہ تر مغربی اقوام ہیں۔ آپ اندازہ کیجیے کہ پاکستان کا کل بجٹ اس برس 45 ارب ڈالر کا ہے۔ اس سے ان معاہدوں کی بھاری مالیت کو سمجھا جاسکتا ہے اور اس منافع کو جو مغربی اقوام اسلحہ بیچ کرحاصل کر رہی ہیں۔

چنانچہ یہ تصور درست نہیں کہ یہود مغرب کو استعمال کر رہے ہیں بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں ہم اس بات کی نفی نہیں کر رہے کہ یہودیوں کا امریکہ یا مغرب پر اثر و رسوخ نہیں ہے۔ اخبار، جرائد، ٹی وی چینل، فلمیں بنانے والے ادارے اور اب سوشل میڈیا میں ہر جگہ یہودیوں کا غلبہ ہے۔ اسی طرح مالیاتی اداروں پر ان کا گہرا کنٹرول ہے۔ ان چیزوں کی بنیاد پر وہ اسرائیل کو بہت سے فوائد پہنچاتے ہیں، مگر مغربی اقوام کو یہودیوں کی حمایت کے بہت سے فوائد ملتے ہیں جن میں سے سب سے بڑے فائدے کا ذکر ہم نے اوپر کر دیا ہے۔

یہ مفادات کا دو طرفہ معاملہ ہے۔ جب مغربی اقوام یہ محسوس کریں گی کہ یہود ان کے مفاد کے خلاف جاکر کھڑے ہوگئے ہیں تو وہ دوبارہ وہی کریں گی جو تاریخ میں یہود کے ساتھ ہوتا چلا آیا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کی بات یہود کے بارے میں بالکل درست ہے کہ وہ مسیحی اقوام سے مغلوب ہیں اور وقفے وقفے سے ان پر خدائی عذاب کا کوڑا بھی برسے گا کیونکہ انھوں نے پہلے انبیا کی ایمان و اخلاق کی تعلیم کو رد کرکے ظاہر پرستی اور قوم پرستی کا مظاہرہ کرکے اللہ کے غضب کو بھڑکایا اور پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کفر کیا۔

عربوں کے متعلق بھی اللہ کا وہی قانون ہے جو یہود کے متعلق ہے کیونکہ یہ دونوں حضرت ابراہیم کی اولاد ہیں اور یہ قانون حضرت ابراہیم کی اولاد کے لیے ہے کہ انھیں دنیا پر حق کی شہادت دینی ہے۔ وہ یہ کام نہیں کریں گے تو اسی دنیا میں ان پر ذلت، رسوائی اور عذاب مسلط کیا جائے گا۔ یوں یہ شہادت جو وہ اپنے قول و فعل سے نہیں دیں گے وہ ان کے حالات سے دلوائی جائے گی کہ اللہ مجرموں کو سزا دیتا ہے اور وفاداروں کو انعام دیتا ہے۔

عربوں کی پوری تاریخ اس کی گواہ ہے۔ خلافت راشدہ، بنو امیہ اور بنو عباس کے دور میں عرب پوری دنیا کے امام تھے۔ مگر پھرانھوں نے ایمان و اخلاق کے تقاضے پامال کیے تو پہلے اندلس میں ان کا نام و نشان مٹا دیا گیا اور پھر تاتاریوں نے بغداد کو تباہ کرکے عرب اقتدار کو ختم کر دیا۔ عربوں کی حالیہ تاریخ بھی اسی قانون کا ثبوت ہے۔ اہل عرب اور خاص کر سعودی عرب کے لوگوں نے جب شرک کے مقابلے میں توحید کو پوری طرح اختیار کیا تو ہم جانتے ہیں کہ ان کے قدموں سے اللہ نے تیل کی دولت کے انبار نکال دیے۔ اگر وہ اخلاقیات کو بھی اختیار کرلیتے تو دنیا پر ان کا غلبہ قائم ہوجاتا۔ مگر بدقسمتی سے اس معاملے میں وہ پیچھے رہ گئے۔ چنانچہ ان کو دولت اور ان کی ریاست کو استحکام تو مل گیا مگر عالمی غلبہ و اقتدار نہیں مل سکا۔ ان کی اخلاقی پستی ہی وہ سبب ہے جس کی بنا پر اسرائیل جیسا چھوٹا ملک کروڑوں عربوں کے بیچ میں بیٹھ کر انھیں مسلسل ذلیل و رسوا کرتا رہا ہے۔

قرآن مجید نے قوموں کے بارے میں ایک مستقل قانون بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کے معاملے کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے معاملات خود نہیں بدلتے، (الرعد11:13)۔ چنانچہ عربوں کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اپنا رویہ بدلیں اور ایمان و اخلاق کی دعوت کو پوری طرح اختیار کریں۔ اگر وہ یہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ ایسے حالات و اسباب پیدا کر دیں گے کہ اسرائیل تباہ و برباد ہوجائے گا۔ مگر عرب یہ نہیں کرتے اور الٹا اخلاقی پستی کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں تو یہ طے ہے کہ ذلت و رسوائی کی یہ تاریک رات ختم نہیں ہونے کی۔

ہمارے لیے بھی درست راستہ یہ ہے کہ عربوں کو ایمان و اخلاق کی قرآنی دعوت کی تلقین کریں۔ یہ ان کی اصل خیر خواہی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کوئی عجمی مسلمانوں کا گروہ جب اسلام کا علمبردار بن کر دنیا میں کھڑا ہوجاتا ہے تو اس پر بھی اسی قانون کا اطلاق ہوجاتا جو حضرت ابراہیم کی اولاد کے لیے ہے۔ اہل پاکستان نے یہی راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ یعنی وہ قومی اور دستوری سطح پر اسلام کے علمبردار ہیں۔ دوسری طرف وہ عملی طور پر اسلام کی دعوت ایمان و اخلاق سے کوسوں دور بے عملی اور دو عملی کا نمونہ بنے ہوئے ہیں۔ یہی وہ رویہ ہے جو ہماری تمام مشکلات اور ذلت و رسوائی کا سبب ہے۔ ہمیں خود کو بدلنا ہوگا ورنہ عربوں کے ساتھ ہماری رسوائی کے دن بھی ایسے ہی جاری رہیں گے۔

———————-

مسئلہ فلسطین اور پاکستانی مسلمان
پوری دنیا میں مسلمان مسئلہ فلسطین کے معاملے میں بہت جذباتی ہیں۔ تاہم اہل پاکستان غالباً اس پہلو سے دنیا میں سب سے آگے ہیں کہ ہم نے براہ راست اس تنازعہ کا فریق نہ ہونے کے باوجود اسرائیل دشمنی کو اپنی قومی اور انفرادی زندگی کا بنیادی اصول بنا رکھا ہے۔ اس کی وجہ بالکل سادہ ہے۔ وہ یہ کہ ہمارے نزدیک اسرائیل فلسطینی مسلمانوں پر مسلسل ظلم کر رہا ہے اور بحیثیت مسلمان ہم اپنے فلسطینی بھائیوں سے محبت کرتے اور ان کی تباہی پر خون کے آنسو روتے ہیں۔

مگر ایک بہت عجیب بات یہ ہے کہ پاکستانی مسلمانوں کی یہ حساسیت خود اپنی قوم کے بارے میں ظاہر نہیں ہوتی۔ فلسطین کے معاملے میں ہماری شکایت کیا ہے؟ یہی کہ وہاں عدل نہیں ہو رہا۔ مگرعدل کے معاملے میں ہماری حساسیت کا عالم یہ ہے ہم اس برس 128 ممالک کی فہرست میں انصاف کی فراہمی میں 120 نمبر پر ہیں۔ کسی کو اس بات کا مطلب سمجھنا ہو تو لاہور کے اس محنت کش کا واقعہ اخبارات میں پڑھ لیں جس کی پانچ دن کی سزا پر فیصلہ سنانے میں عدالت کو چھ سال لگ گئے۔ حیرت ہے جس قوم کے اپنے ہاں انصاف کا یہ عالم ہو وہ دوسروں کو انصاف دلانے میں کتنی دلچسپی رکھتی ہے؟

کچھ جذباتی لوگ کہیں گے کہ فسلطین میں تو مسلمان مارے جارہے ہیں۔ یہ بات درست ہے۔ مگر یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں دہشت گردوں نے خون کی ندیاں بہا دی تھیں، مگر ایسے ہر قتل عام کے موقع پر کتنے ہی لوگ اگر، مگر کی ڈھال سے دہشت گردوں کا دفاع کرتے اور ان کو شہید لکھتے اور بولتے رہے یا کم از کم چپ ہی رہے۔ حیرت ہے کہ پاکستانی مسلمانوں کے قتل عام پر جن لوگوں کا یہ رویہ رہا وہ کس منہ سے فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام پر واویلا کر رہے ہیں؟

ہماری اس بات پر کچھ لوگ بجا طور پر کہیں گے کہ ہم نے دہشت گردوں کی بھرپور مذمت کی تھی۔مگر ایسے لوگوں کی خدمت میں یہ سوال ہے کہ کیا انھیں معلوم ہے کہ ہمارے ملک میں ہر روز کتنے شہری ٹریفک حادثات میں مارے جاتے ہیں؟ ان کی لاشوں کا اس سے بھی برا حال ہوتا ہے جتنا گولی اور بم سے مرنے والوں کا ہوتا ہے۔ اطلاعاً عرض ہے کہ حالیہ تنازع میں ایک ہفتے میں دو سو کے قریب فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔ جلد یہ تنازع ختم ہوگا اور اموات رک جائیں گی۔ مگر ہمارے ملک میں روزانہ ہی دو سو کے قریب بے گناہ لوگ ٹریفک حادثات میں مارے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ بغیر رکے برسوں سے مسلسل جاری ہے۔

حیرت ہے کہ جس ملک کے اپنے شہری اس بڑی تعداد میں سڑکوں پر روزانہ مارے جارہے ہوں، انھیں اپنے لوگوں کی آہیں اور سسکیاں تو نظر نہیں آتیں، فلسطینی مسلمانوں کا درد محسوس ہوجاتا ہے۔ انھیں سڑکوں پر پڑی اپنے جوانوں، بچوں، بوڑھوں، مردوں اور عورتوں کی لاشیں تو نظر نہیں آتیں فلسطینی مسلمانوں کی لاشوں کا ماتم کرنے میں وہ سب سے آگے ہیں۔

فلسطینی مسلمانوں کا درد ہمیں بھی ہے۔ مگر اپنے لوگوں کے لیے اس سے کہیں زیادہ دل تڑپتا ہے۔ ہم فلسطینیوں کو عدل ضرور دلانا چاہتے ہیں، مگر اپنے ملک میں عدل کی ہمیں زیادہ خواہش ہے۔ ہم جب اپنی قوم کے معاملے میں اس درجہ بے حس لوگوں کو فلسطینیوں کے لیے چیختے چلاتے، روتے، احتجاج کرتے دیکھتے ہیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہیں اور کیا نہ کہیں۔

ایسے لوگوں کی خدمت میں بس یہ عرض ہے کہ قیامت کے دن آپ لوگوں سے یہ ضرور پوچھا جائے گا کہ تم جب فلسطین کے لیے انصاف مانگ رہے تھے تو تم نے اپنے ملک میں انصاف کے لیے کیا کیا تھا؟ جب تم فلسطینیوں کی اموات پر رو رہے تھے تو اپنے ملک کے لوگوں کی جان بچانے کے لیے تم نے کیا کیا تھا؟ دل پتھر نہیں ہوا تو رات کو سونے سے قبل اس سوال کا جواب ضرور سوچ لیجیے گا۔

———————-

فلسطین اور پاکستان کے ٹریفک حادثات
”مسئلہ فلسطین اور پاکستانی مسلمان“ کے عنوان سے ایک مضمون میں ہم نے یہ توجہ دلائی تھی کہ فلسطینی مسلمانوں کے درد کو محسوس کرنا بالکل فطری ہے، لیکن اس سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے پاکستانی مسلمانوں کا درد محسوس کریں اور اس ظلم اور قتل ناحق کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں جو خود ہمارے ملک میں برپا ہے۔ اس مضمون کو لوگوں نے بڑے پیمانے پر سراہا لیکن بعض لوگوں نے ایک اعتراض بھی کیا ہے۔ وہ یہ کہ اس مضمون میں اپنے ہاں ٹریفک میں مرنے والوں کے معاملے پر ہم نے جس بے حسی کی طرف توجہ دلائی ہے، اس کا فلسطین کے معاملے سے موازنہ درست نہیں۔ یہ مہذب تنقید تھی۔ غیر مہذب تنقید، جہالت، الزام و بہتان اور بدتمیزی جس کا لائسنس خدا کے خوف سے خالی ہر شخص کو یہاں ملا ہوا ہے، اس کی تفصیلات ناقابل بیان ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اپنے مضمون میں فلسطین کے مسئلے کا ٹریفک کے مسئلے سے کوئی موازنہ یا مقابلہ نہیں کیا۔ دونوں جگہ جو چیز مشترک ہے وہ قیمتی انسانی جانوں کا زیاں ہے۔ جو تقابل ہم نے کیا ہے وہ ایک معاملے میں انتہائی حساسیت اور دوسرے میں آخری درجہ کی بے حسی کا ہے۔ ہماری پوری قوم فلسطین کے 200 مسلمانوں کے قتل پر سراپا احتجاج ہے، مگر وہی قوم سالانہ ستر ہزار سے ایک لاکھ پاکستانیوں کی موت پر ایسے خاموش رہتی ہے جیسے مرنے والے انسان اور مسلمان نہیں بلکہ کتے اور بلیاں ہوں۔

ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ فلسطین کے مسئلے پر احتجاج نہ کریں۔ ہم یہ پوچھ رہے ہیں کہ دسیوں ہزار پاکستانیوں کی موت پر آپ کیوں خاموش رہتے ہیں؟ جہاں آپ واقعی کوئی بہتری لاسکتے ہیں وہاں مرنے والوں کی کٹی پھٹی لاشیں آپ کو نظر نہیں آتیں، لواحقین کی فلک شگاف چیخیں آپ کے کانوں تک نہیں پہنچتیں، لیکن جہاں آپ کچھ نہیں کرسکتے نہ آپ کے احتجاج کی کوئی حیثیت ہے، وہاں آپ اس دھوکے میں مبتلا کہ گویا سارا معاملہ آپ کے احتجاج ہی سے حل ہوگا۔ کوئی شخص آپ کو اس دھوکے سے نکال کے اصلاح کی طرف لانا چاہتا ہے توآپ خدا کے خوف سے خالی ہوکر، اس کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ جاتے ہیں۔ طرح طرح کے لایعنی اعتراضات کرنا اور اصلاح کرنے والوں پر الزام و بہتان لگا کر انھیں بدنام کرنا ہی یہودیوں کا وہ وصف تھا جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت مسلط کی تھی۔

لگتا یہ ہے کہ ان بھولے بھالے معصوم معترضین کا خیال یہ ہے کہ پاکستان میں ٹریفک کے معاملات ایسے ہی ہیں جیسے دنیا بھر کے مہذب ملکوں میں ہوتے ہیں۔ یعنی تمام لوگ ٹریفک قوانین کی پابندی کرتے ہیں۔ ٹریفک پولیس انتہائی مستعدی سے اپنی ذمہ داری نبھاتی ہے۔ ایک انسانی جان کو بچانے کے لیے پورا سماج حرکت میں آجاتا ہے۔ ایسے میں اتفاق سے چند اموات ہوجاتی ہیں۔ پولیس ملزموں کو پکڑ لیتی ہے۔ مجرموں کو قانون کے مطابق سزا ہوجاتی ہے۔ لواحقین کو دستور کے مطابق دیت مل جاتی ہے۔ حکومت قانون، ضابطے میں کوئی بہتری لاکر اور نااہلوں کو کچھ سزا دے کر آئندہ ایسے واقعات کا سدباب کر دیتی ہے۔ ان حالات میں ہمارے جیسا کوئی شخص اٹھ کر قوم کو جھنجھوڑے کہ بھائی فلسطین سے پہلے خود کو دیکھو تو یہ غیض و غضب سر آنکھوں پر۔ مگر ہمارے حقائق کیا ہیں، سب جانتے ہیں۔

ہر سال ہمارے ہاں سڑکوں پر دسیوں ہزار لوگ مرتے ہیں۔ ان کی لاشوں کے ٹکڑے ہوجاتے ہیں۔ گھر والے روتے بلکتے اپنے پیاروں کے ٹکڑے جمع کرکے انھیں دفناتے ہیں۔ مارنے والے بھاگ جاتے ہیں۔ پولیس ایف آئی آر تک درج نہیں کرتی۔ کرلے تو ملزم نہیں پکڑے جاتے۔ پکڑے جائیں تو پیسے دے کر چھوٹ جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ ٹریفک قوانین کی کھلی خلاف ورزی، ٹریفک پولیس کی نااہلی اور حکومتی غفلت اور اس سب سے بڑھ کر عام لوگوں کی اس معاملے میں بے حسی کا نتیجہ ہے۔ ہم سب مل کر یہ روک سکتے ہیں۔ مگر ہم یہ نہیں کرتے۔

ہم یہ اس لیے نہیں کرتے کہ ہماری فکری قیادت اصل اشوز کو کبھی اشوز بننے ہی نہیں دیتی۔ اس کے بجائے وہ نان اشوز کے معاملے میں قوم کو جذباتی بنا کر رکھتی ہے۔ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہوتا ہے، مگر ہمارے اپنے ملک میں خون کی ہولی کھیلی جائے، ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اس بات کا انکار کرسکتا ہے کہ پاکستان میں سالانہ دسیوں ہزار کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر مرتے ہیں۔ اگلا سوال یہ ہے کہ جتنا احتجاج ہم فلسطین میں بے گناہ جانوں کے زیاں پر کر رہے ہیں، اتنا احتجاج ہم اگر ان ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں کی موت پر کریں تو کیا ہماری حکومت، پولیس اور انتظامیہ حرکت میں نہیں آئے گی؟

ان دونوں سوالوں کا جواب بلاشبہ اثبات میں ہے۔ یعنی لوگ اتنی بڑی تعداد میں مرتے بھی ہیں اور ہمارا احتجاج تبدیلی بھی لاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر یہ احتجاج کیوں نہیں ہوتا؟ کیا اس لیے کہ دو سو فلسطینیوں کو یہودیوں نے مارا ہے اور یہاں لاکھوں مسلمانوں کو مسلمان مار رہے ہیں؟

لوگوں کے تصورات ان کے خودساختہ دینی خیالات کے مطابق ہوتے ہیں۔ ہمارا تصور ِدین و انسانیت، ہمارے رب اور رسول کے فرامین کے مطابق ہے جس کے تحت جس نے کسی ایک انسان کو قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کر دیا اور جس نے کسی انسان کو بچایا اس نے پوری انسانیت کو بچا لیا،(المائدہ32:5)۔ اور یہ کہ ہر شخص اپنے ہی دائرے میں مسئول ہوگا، (بخاری، رقم893)

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں انسانی جان کی حرمت کوئی قدر نہیں بن سکی۔ ہمیں اس کو قدر بنانا ہوگا۔ ورنہ آخرکار ایسے معاشرے پر قانون قدرت مجموعی طور پر موت کا فیصلہ نافذ کر دیتا ہے۔ اس سے پہلے یہ وقت آئے ہمیں اپنی بے حسی کو ختم کرنا ہوگا۔

———————-

مسئلہ فلسطین
مسئلہ فلسطین کو عام طور پر حالات حاضرہ کے تناظر میں ایک قومی اور سیاسی مسئلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تاہم اس کا ایک دوسرا زاویہ بھی ہے جو تاریخ اور آسمانی صحائف کی روشنی میں سامنے آتا ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ قارئین کی خدمت میں اس مسئلے کو اسی زاویے سے پیش کریں۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس زاویے کے بغیر مسلمانوں کا کوئی مسئلہ ٹھیک نہیں ہوسکتا۔

مسئلہ فلسطین اپنی موجودہ شکل میں پہلی جنگ عظیم میں پیدا ہوا جب یہ فلسطین خلافت عثمانیہ کا ایک حصہ تھا۔ اس جنگ میں ترکی نے جرمنی کا ساتھ دیا اور شکست کے بعد موجودہ ترکی کے علاوہ تمام علاقے اس کے ہاتھ سے نکل گئے۔ تاہم عرب علاقوں میں ترکوں کی شکست کی وجہ شریف مکہ حسین بن علی کی بغاوت تھی جو ایک انگریز کرنل لارنس کے زیر اثر اس نے کی۔

پہلی جنگ عظیم کے فاتحین برطانیہ اور فرانس نے اپنے منصوبوں کے مطابق اس پورے علاقے کی تقسیم کر دی۔ شام و لبنان فرانس جبکہ فلسطین، اردون اور موجودہ عراق، برطانیہ کے حصے میں آئے۔ یہ سب کچھ سائکس پیکوٹ (Sykes-Picot) معاہدے کے تحت ہوا جو 1916 میں برطانیہ اور فرانس کے درمیان طے پایا تھا۔ تاہم عربوں کی قوم پرستانہ تحریکوں کے نتیجے میں وہ مجبور ہوگئے کہ ان علاقوں کو ہندوستان کی طرح کالونی بنانے کے بجائے یہاں اپنی مرضی کی مقامی حکومتیں قائم کریں تاکہ ان کا اثر و رسوخ یہاں ضرور باقی رہ سکے۔

تاہم فلسطین کے بارے میں برطانیہ کا ایک خصوصی منصوبہ تھا جس کا اظہار 1917 میں اعلان بالفور میں ہوا۔ اس میں یہ چیز تسلیم کرلی گئی کہ فلسطین میں ایک یہودی ریاست قائم کی جائے گی۔ فلسطین میں یہودی ریاست پہلی جنگ عظیم کے بعد ہی قائم ہوجاتی، مگر مسئلہ یہ تھا کہ وہاں یہودیوں کی تعداد عربوں کے مقابلے میں انتہائی کم تھی۔ چنانچہ دنیا بھر سے یہودیوں کی فلسطین آمد کا سلسلہ شروع ہوا اور مقامی عربوں کے سخت احتجاج اور مزاحمت کے باوجود جاری رہا۔ یوں ان کی آبادی جو 1917 میں محض 8 فی صد تھی دوسری جنگ عظیم کےبعد ایک تہائی تک جاپہنچی۔ یہی وہ وقت تھا جب 1947 میں اقوام متحدہ میں فلسطین کی تقسیم کی منظوری دی گئی اور 1948 میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا۔

اس کے بعد عربوں اور اسرائیل کے بیچ میں تین بڑی جنگیں لڑی گئیں۔ ان جنگوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیل کے حدود اور وہاں یہودی آبادی بڑھتی گئی۔ فلسطینیوں، عربوں اور مسلمانوں کی تمام تر کوشش کے باوجود آج تک اسرائیل کا وجود نہ صرف باقی ہے بلکہ بیت المقدس جو ابتدا میں ان کے پاس نہیں تھا، اب ان کے قبضہ میں ہے۔

فلسطین کی اس تاریخ سے پہلے بھی اس علاقے کی چار ہزار سال پر مبنی معلوم تاریخ ہے۔ خوش قسمتی سے اس تاریخ پر قرآن مجید نے تبصرے کر دیے ہیں، اس لیے ہم بالکل صحت کے ساتھ بتا سکتے ہیں کہ اس علاقے میں جو کچھ ہوتا رہا وہ کیوں ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے اس تاریخ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بیان کرنا شروع کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اور ان کی اولاد کو انسانیت کا پیشوا بنا دیا تھا۔ یہ ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ دنیا میں توحید کا پرچم بلند کریں اور شرک سے بھری ہوئی دنیا کو سچی خدا پرستی کا ایک عملی نمونہ دکھا دیں۔

اس مقصد کے لیے ضروری تھا کہ ایک زمینی علاقہ انھیں دیا جائے جہاں وہ ایک سچا خدا پرست معاشرہ قائم کریں۔ حضرت موسیٰ کے زمانے تک بنی اسرائیل ایک قوم بن چکے تھے، اس لیے ان کے ذریعے سے بنی اسرائیل کو اہل مصر کی غلامی سے نجات دلائی گئی اور بعد ازاں تورات میں شریعت کا قانون عطا کرکے فلسطین میں آباد کیا گیا۔ اگلے تقریباً ڈیڑھ ہزار برس تک یہ علاقہ انھی کے تصرف میں رہا۔ تاہم تورات میں اس چیز کو ایک قانون کے طور پر بیان کر دیا گیا ہے اور قرآن مجید نے اس کی تائید کر دی ہے کہ یہ غلبہ غیر مشروط نہ تھا بلکہ خدا کے ساتھ وفاداری اور اس کے پیغمبروں کی اطاعت سے مشروط تھا۔

چنانچہ اسی اصول پر بنی اسرائیل کی وفاداری کی بنا پر انھیں غلبہ و اقتدار ملتا اور غداری پر بدترین سزا۔ حضرت داؤد و سلیمان کے دور میں ملنے والا سپر پاور کا مقام اور مکابی تحریک کے بعد ملنے والا سیاسی اقتدار اسی وعدے کا ظہور تھا۔ اسی طرح بخت نصر اور رومیوں کے ہاتھوں بدترین تباہی اسی وعید کا ظہور تھی۔ حضرت عیسیٰ کے کفر کے بعد بنی اسرائیل کو منصب امامت سے معزول کر دیا گیا اور ان کے لیے دو سزائیں طے کر دی گئیں۔ ایک یہ کہ ان پر وقفے وقفے سے ایسے لوگ مسلط ہوں گے جو ان کو بدترین عذاب دیں گے اور دوسرے یہ کہ وہ مستقل طور پر حضرت عیسیٰ کے نام لیواؤں کے تابع ہوکر رہیں گے۔ تاریخ ان دونوں وعدوں کےظہور کا واضح بیان ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد دنیا کی امامت حضرت ابراہیم کی اولاد کی دوسری شاخ یعنی بنی اسماعیل کو منتقل کر دی گئی۔ ان کے لیے فلسطین کی جگہ سرزمین عرب کو خاص کر دیا گیا جسے ہر طرح کے شرک سے محفوظ رکھ کر خدا پرستانہ معاشرہ قائم کرنا ان کی ذمہ داری تھی۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ تاریخ میں جو کچھ بنی اسرائیل کے ساتھ ہوا بعینہٖ وہی بنی اسماعیل کے ساتھ بھی ہوا۔ وہ دراصل ان وعدوں اور وعیدوں کا نتیجہ تھا جو بنی اسرائیل سے تورات میں کیے گئے تھے اور ان کے بعد بنی اسماعیل کے لیے بھی یہی قانون روبہ عمل ہوگیا۔ چنانچہ پہلے حضرت داؤد و سلیمان کی طرح خلافت راشدہ کے دوران میں بنی اسماعیل کو عظیم غلبہ حاصل ہوا اور پھر چنگیز و ہلاکو کے ہاتھوں وہی بربادی دیکھنی پڑی جو بخت نصر کے ہاتھوں بنی اسرائیل کو دیکھنی پڑی تھی۔

عجمی مسلمان اسی طرح بنی اسماعیل کو ملنے والی سزا و جزا میں شریک تھے جس طرح یہود کے ساتھ بسنے والے پردیسی انھیں ملنے والی سزا و جزا میں شریک رہے۔ چنانچہ مکابیوں کی طرح جب مسلمانوں کے دوسرے غلبے کا وقت آیا تو اس دفعہ یہ عالمی غلبہ عجمی مسلمانوں یعنی ترکوں اور مغلوں کے ذریعے سے قائم کیا گیا۔ اور جب دوسری سزا کا وقت آیا تو جس طرح رومیوں نے بنی اسرائیل اور پردیسیوں کا لحاظ کیے بغیر سب کو تباہ کیا تھا اسی طرح جدید رومیوں یعنی مغربی طاقتوں نے عرب و عجم کے مسلمانوں کو یکساں طور پر مغلوب کرلیا۔

ہم نے ابتدا میں پہلی جنگ عظیم کے بعد کی جس مختصر تاریخ کو بیان کیا تھا وہ دراصل اسی دوسرے زوال یا آسمانی صحیفوں کی روشنی میں اس دوسری سزا کا دور ہے۔ لوگ جب آسمانی صحیفوں کی روشنی سے محروم ہوتے ہیں تو انھیں لگتا ہے کہ یہود اور مغربی طاقتیں ان کے خلاف سازش کرکے انھیں ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ مگر کبھی قرآن کو کھول کر اللہ تعالیٰ کا وہ تبصرہ نہیں پڑھتے جو سورہ بنی اسرائیل میں بنی اسرائیل پر بخت نصر اور رومیوں کے ہاتھوں آنے والی تباہی پر انھوں نے کیا ہے۔ اللہ توفیق دے تو اس کے ساتھ تورات اور انجیل کو پڑھ کر نبیوں کے وہ تبصرے پڑھ لیں جو انھوں نے یہود کی اخلاقی حالت پر کیے ہیں۔ مجال ہے جو ایک لفظ بخت نصر، ٹائٹس، آشوریوں اور رومیوں کے مظالم پر ان کی مذمت میں مل جائے۔

ہم نے ایک پوری کتاب عروج و زوال کا قانون اور مسلمان لکھ کر تاریخ اور آسمانی صحائف کے سارے حوالوں کے ساتھ بتا رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ پچھلے چار ہزار سال میں دنیا کے وسط میں کس طرح اپنے ہونے اور قیامت میں آنے والی سزا و جزا کا ثبوت دے رہے ہیں۔ جو وفاداری کرے گا وہ آخرت کی فلاح پائے گا اور دنیا میں غلبہ و اقتدار اور جو غداری کرے گا وہ آخرت میں سزا پائے گا اور دنیا میں ذلت و مغلوبیت پائے گا۔ کسی کو پسند ہو یا نہ ہو یہی خدا کا غیر متبدل قانون ہے۔ یہ خدا کے ہونے اور قیامت کا ایک ایسا زندہ ثبوت ہے جسے جو چاہے جب چاہے دنیا کے وسط میں ہوتا ہوا دیکھ لے۔

چند چیزیں البتہ ایسی ہیں جن کو مزید سمجھنا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ بنی اسرائیل کے برعکس بنی اسماعیل اور مسلمان ابھی منصب امامت سے معزول نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ تعداد میں دو ارب اور بہترین قدرتی وسائل کے مالک ہونے کے باوجود عالمی غلبے میں ان کا کوئی کردار نہیں اور وہ مغلوبیت کی جگہ پر کھڑے ہیں۔ وہ جس روز اصل دین یعنی ایمان و اخلاق کی دعوت کی طرف لوٹ آئے خدا آسمان سے فرشتے اتار کر زمین پر ان کا غلبہ ایسے ہی قائم کرے گا جیسے آل داؤد، مکابیوں، صحابہ کرام اور عثمانیوں کا قائم کیا تھا۔ اور جب تک یہ نہیں کریں گے ان کی ساری کوشش بھی وہی نتائج پیدا کرے گی جو اس وقت فلسطین کے حالات سے ظاہر ہے۔

دوسری چیز یہ کہ اسرائیل کا فلسطین میں موجودہ غلبہ بنی اسرائیل کے بارے میں خدا کے قانون میں کسی تبدیلی کا اظہار نہیں۔ جو قرآن میں خدا نے کہہ دیا وہی حق ہے کہ یہود تاقیامت متبعین مسیح کے تابع رہیں گے۔ اسرائیل کے قیام سے لے کر آج کے دن تک یہ مغربی مسیحی طاقتیں ہیں جو اپنے مفادات کے لیے اسرائیل کا تحفظ کر رہی ہیں۔ وہ مفادات کیا ہیں، ان کے بیان کا یہ موقع نہیں، مگر کالونیل نفسیات پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ لڑانا اور حکومت کرنا، اپنے طفیلیوں کے ذریعے سے اپنے مفادات کی جنگ لڑنا کالونیل طاقتوں کا وطیرہ ہے۔

البتہ یہ بات ایک حقیقت ہے کہ صیہونی تحریک کی قیادت میں یہودیوں نے پچھلی صدیوں میں خود کو بہت منظم کرلیا ہے۔ انھوں نے صحافت، معیشت اور میڈیا میں گہرا اثر و رسوخ پیدا کیا ہے جس کے نتائج سیاسی سطح پر نکلتے ہیں۔ اسی طرح انھوں نے اپنی قوم کی بہترین تربیت کی ہے۔ وہ تعلیم اور تحقیق ہر دو میدان میں باقی اقوام سے بہت آگے جاچکے ہیں۔ دنیا میں جب بھی کوئی گروہ یہ راستہ اختیار کرتا ہے تواس کے نتائج نکلتے ہیں۔ یہ بھی خدا کا ایک قانون ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے، مگر یہ خدا کے اس قانون پر حاوی نہیں ہوسکتا جو قرآن میں بیان ہوچکا کہ متبعین مسیح منکرین مسیح پر غالب رہیں گے۔

تیسری چیز یہ کہ اللہ تعالیٰ کے قانون میں قوموں کا محشر یہی دنیا ہے۔ اس میں قوموں کے بارے میں ان کا قانون یہ ہے کہ جو قوم علم و اخلاق میں دوسری اقوام سے بہتر ہو اسے عالمی غلبہ دیتے ہیں۔ جو ان چیزو ں میں پیچھے ہو، اسے وہ نیچے رکھتے ہیں۔ اس معاملے میں وہ ان معیارات کو ملحوظ نہیں رکھتے جو آل ابراہیم کے بارے میں ہیں یعنی توحید سے وابستگی اور خدا کے رسولوں کی اطاعت کوئی شرط نہیں ہوتی۔ موجودہ مغربی طاقتوں کا غلبہ اسی اصول پر ہے۔ مسلمان اگر راہ راست پر نہ آئے تو اہل مغرب کے بعد اللہ تعالیٰ یہ غلبہ کسی اور کو انھی اصولوں پر دے دیں گے۔

چوتھی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس طرح کی صورتحال میں گناہ گارو ں کے ساتھ معصوم اور بے گناہ بھی زد میں آجاتے ہیں ۔قرآن مجید نے اسی بات پر متنبہ کرتے ہوئے مسلمانوں سے کہا تھا کہ اس فتنے سے ڈرو جو خاص انھی لوگوں کو لاحق نہیں ہوگا جو تم میں سے ظلم کے مرتکب ہوں گے اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے، (الانفال25:8)۔ چنانچہ فلسطین یا کہیں اور مسلمان کسی مصیبت کا شکار ہوں تو ہمیشہ یہ خیال کرکے اللہ کے حضور معافی مانگی چاہیے کہ ہمارے گناہوں کی سزا یہ لوگ بھگت رہے ہیں۔

ہم نے مسلمہ تاریخ اور نبیوں کے پیغام کی روشنی جو واضح کرنا تھا کر دیا ہے۔ اب مسلمانوں نے مسئلہ فلسطین پر جتنی گفتگو کرنی ہے وہ کرتے رہیں۔ ہوگا وہی جو خدا کے قانون میں طے ہوچکا ہے۔ إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِکُمْ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَہَا، اگر تم اچھے کام کرو گے تو اپنے لیے اچھا کرو گےاور اگر برے کام کرو گے تو وہ اپنے لیے کرو گے۔(بنی سرائیل7)۔