مسئلہ فلسطین ۔ ابویحییٰ
مسئلہ فلسطین کا آغاز 1917 میں معاہدہ بالفور سے ہوا تھا جب انگریز حکومت نے فلسطین پر قبضہ کرلیا اور وہاں یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ 1948 میں اسرائیل بنا۔ اس وقت سے لے کر آج تک ایک ہی معاملہ بار بار دہرایا جاتا ہے: فلسطینیوں کی سخت مزاحمت، عربوں کی بھرپور حمایت اور باقی مسلمانوں کی زبردست تائید اور ان سب کے باوجود فلسطین میں یہودی علاقوں اور آبادکاروں میں مسلسل اضافہ اور فلسطینیوں پر زندگی کا مستقل تنگ ہونا۔
مسئلہ فلسطین کو دیکھنے کے بہت سے زاویے ہوسکتے ہیں، مگر اس طالب علم کے لیے ایک ہی زاویہ اہم ہے۔ وہ زاویہ قرآن مجید کا زاویہ ہے۔ اس مسئلے کے دو فریق ہیں۔ ایک یہود اور دوسرے عرب۔ دونوں کے متعلق قرآن مجید پہلے ہی بتا چکا ہے کہ وہ کیا کریں گے تو جواب میں اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ کیا کریں گے۔ یہود کے متعلق قرآن مجید کا فیصلہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کے کفر کے بعد وہ قیامت تک مسیحیوں سے مغلوب رہیں گے اور وقفے وقفے سے ان پر سخت عذاب مسلط کیا جائے گا۔ تاہم ان وقفوں اور غلامی کے درمیان ان کو مہلت ضرور ملے گی۔ یہود اس وقت اسی مہلت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
بعض نادان لوگ اس مہلت کو یہود کا عالمی غلبہ سمجھتے ہیں۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہود پچھلے دو ہزار برس سے مسلسل مغلوبیت اور عذاب کا شکار ہیں۔ اس وقت بھی وہ مغربی طاقتوں کے بل بوتے پر ہی یہاں تک پہنچے ہیں۔ پہلے برطانیہ اور اب امریکہ کی مسیحی طاقت نے اپنے مفادات کے لیے ان کو استعمال کیا ہے۔پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ نے یہودیوں کے ذریعے سے امریکہ کو جنگ میں شریک کروا کے پہلی جنگ عظیم میں اپنی شکست فتح میں بدلی اور اس خدمت کے بدلے میں اعلان بالفور ہوا۔ ہٹلر نے اسی جرم کی بنا پر یہود کا قتل عام کیا تھا۔
اس کے بعد بھی مغربی طاقتوں نے یہود کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا۔1938 میں سعودی عرب میں تیل کے سب سے بڑے عالمی ذخیرے کی دریافت کے بعد مغربی طاقتوں کو یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کا معیار زندگی اور ترقی عرب کے اس تیل پر منحصر ہے۔ چنانچہ اس تیل پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کی غرض سے اسرائیل کو بنایا گیا تاکہ عرب ریاستیں مسلسل خوف میں رہ کر مغربی طاقتوں کے کنٹرول میں رہ سکیں۔ عرب ریاستوں کی دولت کا ایک بڑا حصہ اس اسلحے کی خریداری پر خرچ ہوتا ہے جو وہ اسرائیل کے خوف سے خریدتی ہیں اور یوں تیل پر خرچ ہونے والی رقم اسلحے کی تجارت سے واپس مغربی اقوام کو مل جاتی ہے۔
چنانچہ مغرب اور خاص کر امریکہ کی اسرائیلی حمایت کا سبب مغرب کی وہ پالیسی ہے جس کے تحت وہ جس رقم کو تیل خریدنے پر خرچ کرتے ہیں، اس سے زیادہ اسلحہ بیچ کر کما لیتے ہیں۔ امریکی کانگریس کی ایک رپورٹ کے مطابق 2019-2000 کے عرصے میں مشرق وسطی میں 1.3 کھرب ڈالر کا اسلحہ خریدا گیا ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق مشرق وسطیٰ کے ممالک نے 1950سے 2017 تک 3.8 کھرب ڈالر کے اسلحے کی درآمد کے معاہدے کیے۔اس اسلحے کے بیچنے والے زیادہ تر مغربی اقوام ہیں۔ آپ اندازہ کیجیے کہ پاکستان کا کل بجٹ اس برس 45 ارب ڈالر کا ہے۔ اس سے ان معاہدوں کی بھاری مالیت کو سمجھا جاسکتا ہے اور اس منافع کو جو مغربی اقوام اسلحہ بیچ کرحاصل کر رہی ہیں۔
چنانچہ یہ تصور درست نہیں کہ یہود مغرب کو استعمال کر رہے ہیں بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں ہم اس بات کی نفی نہیں کر رہے کہ یہودیوں کا امریکہ یا مغرب پر اثر و رسوخ نہیں ہے۔ اخبار، جرائد، ٹی وی چینل، فلمیں بنانے والے ادارے اور اب سوشل میڈیا میں ہر جگہ یہودیوں کا غلبہ ہے۔ اسی طرح مالیاتی اداروں پر ان کا گہرا کنٹرول ہے۔ ان چیزوں کی بنیاد پر وہ اسرائیل کو بہت سے فوائد پہنچاتے ہیں، مگر مغربی اقوام کو یہودیوں کی حمایت کے بہت سے فوائد ملتے ہیں جن میں سے سب سے بڑے فائدے کا ذکر ہم نے اوپر کر دیا ہے۔
یہ مفادات کا دو طرفہ معاملہ ہے۔ جب مغربی اقوام یہ محسوس کریں گی کہ یہود ان کے مفاد کے خلاف جاکر کھڑے ہوگئے ہیں تو وہ دوبارہ وہی کریں گی جو تاریخ میں یہود کے ساتھ ہوتا چلا آیا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کی بات یہود کے بارے میں بالکل درست ہے کہ وہ مسیحی اقوام سے مغلوب ہیں اور وقفے وقفے سے ان پر خدائی عذاب کا کوڑا بھی برسے گا کیونکہ انھوں نے پہلے انبیا کی ایمان و اخلاق کی تعلیم کو رد کرکے ظاہر پرستی اور قوم پرستی کا مظاہرہ کرکے اللہ کے غضب کو بھڑکایا اور پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کفر کیا۔
عربوں کے متعلق بھی اللہ کا وہی قانون ہے جو یہود کے متعلق ہے کیونکہ یہ دونوں حضرت ابراہیم کی اولاد ہیں اور یہ قانون حضرت ابراہیم کی اولاد کے لیے ہے کہ انھیں دنیا پر حق کی شہادت دینی ہے۔ وہ یہ کام نہیں کریں گے تو اسی دنیا میں ان پر ذلت، رسوائی اور عذاب مسلط کیا جائے گا۔ یوں یہ شہادت جو وہ اپنے قول و فعل سے نہیں دیں گے وہ ان کے حالات سے دلوائی جائے گی کہ اللہ مجرموں کو سزا دیتا ہے اور وفاداروں کو انعام دیتا ہے۔
عربوں کی پوری تاریخ اس کی گواہ ہے۔ خلافت راشدہ، بنو امیہ اور بنو عباس کے دور میں عرب پوری دنیا کے امام تھے۔ مگر پھرانھوں نے ایمان و اخلاق کے تقاضے پامال کیے تو پہلے اندلس میں ان کا نام و نشان مٹا دیا گیا اور پھر تاتاریوں نے بغداد کو تباہ کرکے عرب اقتدار کو ختم کر دیا۔ عربوں کی حالیہ تاریخ بھی اسی قانون کا ثبوت ہے۔ اہل عرب اور خاص کر سعودی عرب کے لوگوں نے جب شرک کے مقابلے میں توحید کو پوری طرح اختیار کیا تو ہم جانتے ہیں کہ ان کے قدموں سے اللہ نے تیل کی دولت کے انبار نکال دیے۔ اگر وہ اخلاقیات کو بھی اختیار کرلیتے تو دنیا پر ان کا غلبہ قائم ہوجاتا۔ مگر بدقسمتی سے اس معاملے میں وہ پیچھے رہ گئے۔ چنانچہ ان کو دولت اور ان کی ریاست کو استحکام تو مل گیا مگر عالمی غلبہ و اقتدار نہیں مل سکا۔ ان کی اخلاقی پستی ہی وہ سبب ہے جس کی بنا پر اسرائیل جیسا چھوٹا ملک کروڑوں عربوں کے بیچ میں بیٹھ کر انھیں مسلسل ذلیل و رسوا کرتا رہا ہے۔
قرآن مجید نے قوموں کے بارے میں ایک مستقل قانون بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کے معاملے کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے معاملات خود نہیں بدلتے، (الرعد11:13)۔ چنانچہ عربوں کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اپنا رویہ بدلیں اور ایمان و اخلاق کی دعوت کو پوری طرح اختیار کریں۔ اگر وہ یہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ ایسے حالات و اسباب پیدا کر دیں گے کہ اسرائیل تباہ و برباد ہوجائے گا۔ مگر عرب یہ نہیں کرتے اور الٹا اخلاقی پستی کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں تو یہ طے ہے کہ ذلت و رسوائی کی یہ تاریک رات ختم نہیں ہونے کی۔
ہمارے لیے بھی درست راستہ یہ ہے کہ عربوں کو ایمان و اخلاق کی قرآنی دعوت کی تلقین کریں۔ یہ ان کی اصل خیر خواہی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کوئی عجمی مسلمانوں کا گروہ جب اسلام کا علمبردار بن کر دنیا میں کھڑا ہوجاتا ہے تو اس پر بھی اسی قانون کا اطلاق ہوجاتا جو حضرت ابراہیم کی اولاد کے لیے ہے۔ اہل پاکستان نے یہی راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ یعنی وہ قومی اور دستوری سطح پر اسلام کے علمبردار ہیں۔ دوسری طرف وہ عملی طور پر اسلام کی دعوت ایمان و اخلاق سے کوسوں دور بے عملی اور دو عملی کا نمونہ بنے ہوئے ہیں۔ یہی وہ رویہ ہے جو ہماری تمام مشکلات اور ذلت و رسوائی کا سبب ہے۔ ہمیں خود کو بدلنا ہوگا ورنہ عربوں کے ساتھ ہماری رسوائی کے دن بھی ایسے ہی جاری رہیں گے۔
———————-
مسئلہ فلسطین اور پاکستانی مسلمان
پوری دنیا میں مسلمان مسئلہ فلسطین کے معاملے میں بہت جذباتی ہیں۔ تاہم اہل پاکستان غالباً اس پہلو سے دنیا میں سب سے آگے ہیں کہ ہم نے براہ راست اس تنازعہ کا فریق نہ ہونے کے باوجود اسرائیل دشمنی کو اپنی قومی اور انفرادی زندگی کا بنیادی اصول بنا رکھا ہے۔ اس کی وجہ بالکل سادہ ہے۔ وہ یہ کہ ہمارے نزدیک اسرائیل فلسطینی مسلمانوں پر مسلسل ظلم کر رہا ہے اور بحیثیت مسلمان ہم اپنے فلسطینی بھائیوں سے محبت کرتے اور ان کی تباہی پر خون کے آنسو روتے ہیں۔
مگر ایک بہت عجیب بات یہ ہے کہ پاکستانی مسلمانوں کی یہ حساسیت خود اپنی قوم کے بارے میں ظاہر نہیں ہوتی۔ فلسطین کے معاملے میں ہماری شکایت کیا ہے؟ یہی کہ وہاں عدل نہیں ہو رہا۔ مگرعدل کے معاملے میں ہماری حساسیت کا عالم یہ ہے ہم اس برس 128 ممالک کی فہرست میں انصاف کی فراہمی میں 120 نمبر پر ہیں۔ کسی کو اس بات کا مطلب سمجھنا ہو تو لاہور کے اس محنت کش کا واقعہ اخبارات میں پڑھ لیں جس کی پانچ دن کی سزا پر فیصلہ سنانے میں عدالت کو چھ سال لگ گئے۔ حیرت ہے جس قوم کے اپنے ہاں انصاف کا یہ عالم ہو وہ دوسروں کو انصاف دلانے میں کتنی دلچسپی رکھتی ہے؟
کچھ جذباتی لوگ کہیں گے کہ فسلطین میں تو مسلمان مارے جارہے ہیں۔ یہ بات درست ہے۔ مگر یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں دہشت گردوں نے خون کی ندیاں بہا دی تھیں، مگر ایسے ہر قتل عام کے موقع پر کتنے ہی لوگ اگر، مگر کی ڈھال سے دہشت گردوں کا دفاع کرتے اور ان کو شہید لکھتے اور بولتے رہے یا کم از کم چپ ہی رہے۔ حیرت ہے کہ پاکستانی مسلمانوں کے قتل عام پر جن لوگوں کا یہ رویہ رہا وہ کس منہ سے فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام پر واویلا کر رہے ہیں؟
ہماری اس بات پر کچھ لوگ بجا طور پر کہیں گے کہ ہم نے دہشت گردوں کی بھرپور مذمت کی تھی۔مگر ایسے لوگوں کی خدمت میں یہ سوال ہے کہ کیا انھیں معلوم ہے کہ ہمارے ملک میں ہر روز کتنے شہری ٹریفک حادثات میں مارے جاتے ہیں؟ ان کی لاشوں کا اس سے بھی برا حال ہوتا ہے جتنا گولی اور بم سے مرنے والوں کا ہوتا ہے۔ اطلاعاً عرض ہے کہ حالیہ تنازع میں ایک ہفتے میں دو سو کے قریب فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔ جلد یہ تنازع ختم ہوگا اور اموات رک جائیں گی۔ مگر ہمارے ملک میں روزانہ ہی دو سو کے قریب بے گناہ لوگ ٹریفک حادثات میں مارے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ بغیر رکے برسوں سے مسلسل جاری ہے۔
حیرت ہے کہ جس ملک کے اپنے شہری اس بڑی تعداد میں سڑکوں پر روزانہ مارے جارہے ہوں، انھیں اپنے لوگوں کی آہیں اور سسکیاں تو نظر نہیں آتیں، فلسطینی مسلمانوں کا درد محسوس ہوجاتا ہے۔ انھیں سڑکوں پر پڑی اپنے جوانوں، بچوں، بوڑھوں، مردوں اور عورتوں کی لاشیں تو نظر نہیں آتیں فلسطینی مسلمانوں کی لاشوں کا ماتم کرنے میں وہ سب سے آگے ہیں۔
فلسطینی مسلمانوں کا درد ہمیں بھی ہے۔ مگر اپنے لوگوں کے لیے اس سے کہیں زیادہ دل تڑپتا ہے۔ ہم فلسطینیوں کو عدل ضرور دلانا چاہتے ہیں، مگر اپنے ملک میں عدل کی ہمیں زیادہ خواہش ہے۔ ہم جب اپنی قوم کے معاملے میں اس درجہ بے حس لوگوں کو فلسطینیوں کے لیے چیختے چلاتے، روتے، احتجاج کرتے دیکھتے ہیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہیں اور کیا نہ کہیں۔
ایسے لوگوں کی خدمت میں بس یہ عرض ہے کہ قیامت کے دن آپ لوگوں سے یہ ضرور پوچھا جائے گا کہ تم جب فلسطین کے لیے انصاف مانگ رہے تھے تو تم نے اپنے ملک میں انصاف کے لیے کیا کیا تھا؟ جب تم فلسطینیوں کی اموات پر رو رہے تھے تو اپنے ملک کے لوگوں کی جان بچانے کے لیے تم نے کیا کیا تھا؟ دل پتھر نہیں ہوا تو رات کو سونے سے قبل اس سوال کا جواب ضرور سوچ لیجیے گا۔
———————-
فلسطین اور پاکستان کے ٹریفک حادثات
”مسئلہ فلسطین اور پاکستانی مسلمان“ کے عنوان سے ایک مضمون میں ہم نے یہ توجہ دلائی تھی کہ فلسطینی مسلمانوں کے درد کو محسوس کرنا بالکل فطری ہے، لیکن اس سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے پاکستانی مسلمانوں کا درد محسوس کریں اور اس ظلم اور قتل ناحق کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں جو خود ہمارے ملک میں برپا ہے۔ اس مضمون کو لوگوں نے بڑے پیمانے پر سراہا لیکن بعض لوگوں نے ایک اعتراض بھی کیا ہے۔ وہ یہ کہ اس مضمون میں اپنے ہاں ٹریفک میں مرنے والوں کے معاملے پر ہم نے جس بے حسی کی طرف توجہ دلائی ہے، اس کا فلسطین کے معاملے سے موازنہ درست نہیں۔ یہ مہذب تنقید تھی۔ غیر مہذب تنقید، جہالت، الزام و بہتان اور بدتمیزی جس کا لائسنس خدا کے خوف سے خالی ہر شخص کو یہاں ملا ہوا ہے، اس کی تفصیلات ناقابل بیان ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اپنے مضمون میں فلسطین کے مسئلے کا ٹریفک کے مسئلے سے کوئی موازنہ یا مقابلہ نہیں کیا۔ دونوں جگہ جو چیز مشترک ہے وہ قیمتی انسانی جانوں کا زیاں ہے۔ جو تقابل ہم نے کیا ہے وہ ایک معاملے میں انتہائی حساسیت اور دوسرے میں آخری درجہ کی بے حسی کا ہے۔ ہماری پوری قوم فلسطین کے 200 مسلمانوں کے قتل پر سراپا احتجاج ہے، مگر وہی قوم سالانہ ستر ہزار سے ایک لاکھ پاکستانیوں کی موت پر ایسے خاموش رہتی ہے جیسے مرنے والے انسان اور مسلمان نہیں بلکہ کتے اور بلیاں ہوں۔
ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ فلسطین کے مسئلے پر احتجاج نہ کریں۔ ہم یہ پوچھ رہے ہیں کہ دسیوں ہزار پاکستانیوں کی موت پر آپ کیوں خاموش رہتے ہیں؟ جہاں آپ واقعی کوئی بہتری لاسکتے ہیں وہاں مرنے والوں کی کٹی پھٹی لاشیں آپ کو نظر نہیں آتیں، لواحقین کی فلک شگاف چیخیں آپ کے کانوں تک نہیں پہنچتیں، لیکن جہاں آپ کچھ نہیں کرسکتے نہ آپ کے احتجاج کی کوئی حیثیت ہے، وہاں آپ اس دھوکے میں مبتلا کہ گویا سارا معاملہ آپ کے احتجاج ہی سے حل ہوگا۔ کوئی شخص آپ کو اس دھوکے سے نکال کے اصلاح کی طرف لانا چاہتا ہے توآپ خدا کے خوف سے خالی ہوکر، اس کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ جاتے ہیں۔ طرح طرح کے لایعنی اعتراضات کرنا اور اصلاح کرنے والوں پر الزام و بہتان لگا کر انھیں بدنام کرنا ہی یہودیوں کا وہ وصف تھا جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت مسلط کی تھی۔
لگتا یہ ہے کہ ان بھولے بھالے معصوم معترضین کا خیال یہ ہے کہ پاکستان میں ٹریفک کے معاملات ایسے ہی ہیں جیسے دنیا بھر کے مہذب ملکوں میں ہوتے ہیں۔ یعنی تمام لوگ ٹریفک قوانین کی پابندی کرتے ہیں۔ ٹریفک پولیس انتہائی مستعدی سے اپنی ذمہ داری نبھاتی ہے۔ ایک انسانی جان کو بچانے کے لیے پورا سماج حرکت میں آجاتا ہے۔ ایسے میں اتفاق سے چند اموات ہوجاتی ہیں۔ پولیس ملزموں کو پکڑ لیتی ہے۔ مجرموں کو قانون کے مطابق سزا ہوجاتی ہے۔ لواحقین کو دستور کے مطابق دیت مل جاتی ہے۔ حکومت قانون، ضابطے میں کوئی بہتری لاکر اور نااہلوں کو کچھ سزا دے کر آئندہ ایسے واقعات کا سدباب کر دیتی ہے۔ ان حالات میں ہمارے جیسا کوئی شخص اٹھ کر قوم کو جھنجھوڑے کہ بھائی فلسطین سے پہلے خود کو دیکھو تو یہ غیض و غضب سر آنکھوں پر۔ مگر ہمارے حقائق کیا ہیں، سب جانتے ہیں۔
ہر سال ہمارے ہاں سڑکوں پر دسیوں ہزار لوگ مرتے ہیں۔ ان کی لاشوں کے ٹکڑے ہوجاتے ہیں۔ گھر والے روتے بلکتے اپنے پیاروں کے ٹکڑے جمع کرکے انھیں دفناتے ہیں۔ مارنے والے بھاگ جاتے ہیں۔ پولیس ایف آئی آر تک درج نہیں کرتی۔ کرلے تو ملزم نہیں پکڑے جاتے۔ پکڑے جائیں تو پیسے دے کر چھوٹ جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ ٹریفک قوانین کی کھلی خلاف ورزی، ٹریفک پولیس کی نااہلی اور حکومتی غفلت اور اس سب سے بڑھ کر عام لوگوں کی اس معاملے میں بے حسی کا نتیجہ ہے۔ ہم سب مل کر یہ روک سکتے ہیں۔ مگر ہم یہ نہیں کرتے۔
ہم یہ اس لیے نہیں کرتے کہ ہماری فکری قیادت اصل اشوز کو کبھی اشوز بننے ہی نہیں دیتی۔ اس کے بجائے وہ نان اشوز کے معاملے میں قوم کو جذباتی بنا کر رکھتی ہے۔ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہوتا ہے، مگر ہمارے اپنے ملک میں خون کی ہولی کھیلی جائے، ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اس بات کا انکار کرسکتا ہے کہ پاکستان میں سالانہ دسیوں ہزار کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر مرتے ہیں۔ اگلا سوال یہ ہے کہ جتنا احتجاج ہم فلسطین میں بے گناہ جانوں کے زیاں پر کر رہے ہیں، اتنا احتجاج ہم اگر ان ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں کی موت پر کریں تو کیا ہماری حکومت، پولیس اور انتظامیہ حرکت میں نہیں آئے گی؟
ان دونوں سوالوں کا جواب بلاشبہ اثبات میں ہے۔ یعنی لوگ اتنی بڑی تعداد میں مرتے بھی ہیں اور ہمارا احتجاج تبدیلی بھی لاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر یہ احتجاج کیوں نہیں ہوتا؟ کیا اس لیے کہ دو سو فلسطینیوں کو یہودیوں نے مارا ہے اور یہاں لاکھوں مسلمانوں کو مسلمان مار رہے ہیں؟
لوگوں کے تصورات ان کے خودساختہ دینی خیالات کے مطابق ہوتے ہیں۔ ہمارا تصور ِدین و انسانیت، ہمارے رب اور رسول کے فرامین کے مطابق ہے جس کے تحت جس نے کسی ایک انسان کو قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کر دیا اور جس نے کسی انسان کو بچایا اس نے پوری انسانیت کو بچا لیا،(المائدہ32:5)۔ اور یہ کہ ہر شخص اپنے ہی دائرے میں مسئول ہوگا، (بخاری، رقم893)
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں انسانی جان کی حرمت کوئی قدر نہیں بن سکی۔ ہمیں اس کو قدر بنانا ہوگا۔ ورنہ آخرکار ایسے معاشرے پر قانون قدرت مجموعی طور پر موت کا فیصلہ نافذ کر دیتا ہے۔ اس سے پہلے یہ وقت آئے ہمیں اپنی بے حسی کو ختم کرنا ہوگا۔