Take a fresh look at your lifestyle.

تعصبات میں صحیح رویہ ۔ ابویحییٰ

میرے نزدیک اس وقت معاصر مسلمانوں میں کام کرنے کے جو پہلو بہت اہم ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایمان و اخلاق کی دعوت کو نہ صرف پوری قوت سے زندہ کیا جائے بلکہ اسی کو مسلمانوں کا اہم ترین مسئلہ بنا دیا جائے۔ کسی شخص کی نیکی، کسی گروہ کے معیار حق ہونے، کسی عالم یا داعی کی دعوت کو پرکھنے کا معیار ہی یہ ہونا چاہیے کہ اس کے ہاں ایمان و اخلاق کو کیا حیثیت حاصل ہے۔

دوسرا اہم کام یہ ہے کہ فرقہ واریت اور تعصبات کی شناعت اور برائی کو واضح کیا جائے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یہی وہ چیزیں ہیں جو ایمان و اخلاق اور خیر کی ہر دعوت کو رد کرنے اور اس کی مخالفت کرنے جیسے مذموم مقام پر انسان کو پہنچا دیتی ہیں۔ یہ معاشرے میں فساد اور دوسروں کی جان، مال اور آبرو پر تعدی اور ظلم کرنے کا سبب بن جاتی ہیں۔ مسلمانوں کے اتحاد اور اتفاق کو اختلاف اور نفاق میں بھی یہی بدلتی ہیں۔ فکر و خیالات میں ارتقا اور علم و دانش کی ترقی کا راستہ بھی یہی چیزیں روکتی ہیں۔ انبیا و رسل کی اقوام انہی کی بنا پر ان کا کفر کرتے رہے اور ان کو ایذا دینے کا سبب بنتے رہے ہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر یہ چیزیں اگر کسی میں پائی جائیں تو اللہ کے حضور اسے مجرم کی شکل میں پیش کرنے کا سبب بن جائیں گی۔

اس تمہید کا سبب یہ ہے کہ آج میں آپ کے سامنے اپنے کچھ خطوط رکھ رہا ہوں۔ یہ خط جس بہن کو لکھے گئے انہوں نے ایک معاصر عالم کے خلاف پروپیگنڈا پر مبنی ایک ای میل بھیج کر میری رائے طلب کی تھی۔ جواب میں میں نے بہن کو تعصب اور فرقہ وارانہ رویے پر مبنی اس طرح کے پروپیگنڈے کے نتائج کی طرف کچھ توجہ دلائی ہے۔ ان کی اشاعت کا مقصد یہی ہے کہ دیگر مسلمان اس طرح کی چیزوں سے خود کو محفوظ رکھیں۔ خط کا پیرایہ عام مضمون سے بڑا مختلف ہوتا ہے، مگر اس میں بعض چیزیں عملی مثالوں یا واقعات سے اس طرح بیان ہوجاتی ہیں جن کا مضمون کی شکل میں بیان کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ہاں کچھ اضافی چیزیں عام قارئین کو پڑھنی پڑھتی ہیں مگر وہ بھی مفید ہی ہوتی ہیں۔ خیال رہے کہ ان خطوط میں اہل علم کے نام آئے ہیں جو کہ حذف کر دیے گئے ہیں۔

پہلا خط
عزیز بہن
السلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ
میں بہت معذرت چاہتا ہوں کہ میرا جواب آپ کے لیے باعث تشفی نہ ہوسکا۔ آپ کی یہ شکایت بھی سر آنکھوں پر کہ میں نے آپ کا ای میل پورا نہیں پڑھا اور جواب دے دیا۔ میں اس میں صرف یہ اضافہ کروں گا کہ میں نے آپ کا ای میل سرے سے پڑھا ہی نہیں۔ مگر اس کا سبب یہ تھا کہ آپ کے بھیجے ہوئے ای میل میں کسی قسم کی کوئی تحریر نہ تھی اور یہ بالکل خالی تھا۔ ای میل کے سبجیکٹ یعنی what do you say about this اور ساتھ منسلک اٹیچمنٹ کی بنیاد پر میں نے ایک جواب دے دیا تھا۔ آپ کو بہن کے بجائے بھائی کہہ کر مخاطب کرنے کا سبب بھی یہی تھا کہ آپ کے بھیجے ہوئے ای میل ایڈریس یعنی Deejah سے آپ کی حقیقی جنس دریافت کرنا عملا ناممکن تھا۔ اسی لیے اس گنہگار نے ایک اجتہاد کیا جو بدقسمتی سے غلط ثابت ہوا اور آپ کے لیے باعث تکلیف ہوگیا۔ تاہم میرے بارے میں یہ فیصلہ کرنے سے قبل کہ میں نے ای میل پڑھے بغیر جواب دے کر ایک غلط کام کیا آپ اگر مجھ سے پوچھ لیتیں کہ میں نے ایسا کیوں کیا تو میں یہی بات آپ کو بیان کر دیتا جو ابھی بیان کی ہے اور آپ اس احساس ندامت سے بچ جاتیں جو شاید اب میرا ای میل پڑھنے کے بعد آپ میں پیدا ہوا ہوگا۔ تاہم یقین رکھیے میرا مقصود آپ کو شرمندہ کرنا ہرگز نہیں صرف اپنی صفائی پیش کرنا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ای میل آپ نے لکھا ہوگا۔ مگر کسی غلطی کی وجہ سے وہ بھیجنے سے قبل ہی مٹ گیا ہوگا اور میرے پاس خالی ای میل آگیا۔ میں لوگوں سے حسن ظن سے کام لیتا ہوں۔ یہی اللہ رسول کا حکم ہے۔

تاہم مثبت انداز فکر ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہر کام میں اللہ کی کوئی بہتری ہوتی ہے۔ یہی بہتری جب میں نے آپ کے ای میل میں تلاش کرنا چاہی تو مجھے معلوم ہوا کہ جو بات آپ پوچھنا جا رہی ہیں آپ کے اخلاص کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک عملی تجربے سے اس کا جواب عطا فرما دیا ہے۔

وہ تجربہ یہ ہے کہ کسی کے متعلق کوئی بھی رائے قائم کرنے سے پہلے تحقیق کرلینا چاہیے۔ مثلا میرے بارے میں یہ رائے قائم کرنے سے قبل کہ دین کا ایک طالب علم لکھنا پڑھنا ہی جس کا کام ہے اتنا غیر ذمہ دار ہوسکتا ہے کہ کسی کی ای میل پڑھے بغیر اسے ایک رائے دے دے۔ آپ یہ کرتیں کہ میرے جواب کے نیچے دیکھ لیتیں تو وہاں آپ کو خالی جگہ نظر آتی۔ مطلب اس کا یہ ہے جب کوئی ای میل کا جواب دیتا ہے تو بھیجنے والے کا لکھا ہوا مواد نیچے آجاتا ہے مگر اس کیس میں میرے جواب کے نیچے آپ کو کوئی مواد نہیں ملتا اور آپ کو سمجھ آتا کہ غلطی سے آپ کا لکھا ہوا مٹ گیا ہے۔ یا دوسری شکل یہ ہونی چاہیے تھی کہ مجھ پر اعتراض کرنے سے قبل آپ مجھ سے پوچھ لیتی کہ بھائی آپ نے میرا ای میل پڑھے بغیر جواب کیسے دے دیا۔

یہی وہ دو بنیادی اصول ہیں جو ہمیں کسی کے بارے میں قائم کرنے چاہییں۔ محض ظن و گمان اور سنی سنائی باتوں پر کسی کے بارے میں منفی رائے قائم کرنا قرآن و حدیث کی روشنی میں ایک گناہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا کَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ
اے لوگو! جوایمان لائے ہو، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔

ارشاد نبی کریم ہے۔
إِيَّاکُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِيثِ
تم بد گمانی سے بچو اس لئے کہ بد گمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے

اس تمہید کے بعد یہ عرض ہے کہ بڑی خوشی ہوئی یہ سن کر کہ آپ نے میری کتاب تیسری روشنی پڑھ رکھی ہے۔ اس میں اس گنہہگار نے بڑی تفصیل سے انہی سب باتوں پر توجہ دلائی تھی۔ امید ہے کہ آپ اس کا ایک دفعہ پھر مطالعہ کرلیں گی تو آپ کو آپ کے سوال کا جواب خود ہی مل جائیگا۔ وہ جواب یہ ہے کہ جب کسی شخص کے بارے میں اس درجہ کا پروپیگنڈا آپ تک پہنچے جس کے نتیجے میں اس شخص کو یہود کا ایجنٹ یا دوسرے الفاظ میں کافر اور منافق ثابت کیا جارہا ہو تو میرے بیان کردہ اصولوں کی روشنی میں خود ہی تحقیق کرلیں۔ نہ کرسکیں تو اس شخص سے اس کا نقطہ نظر پوچھ لیں۔ اس کے بغیر کسی بھی شخص کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا، اسے گمراہ سمجھنا، اس کے ایمان اور نیت کے بارے میں رائے قائم کرنا، ان صحیح روایات کے مطابق جن کو میں نے تیسری روشنی میں نقل کیا ہے، قیامت کے دن اپنے ایمان کے سلب ہونے کی شکل میں نکل سکتا ہے۔

کوئی اور یہ کرے نہ کرے میں کوشش کرتا ہوں کہ اسی اصول کی پیروی کروں۔ اب اسی اصول کی روشنی میں میں نے جب آپ کے بھیجے ہوئے ای میل میں ان عالم کے متعلق گمراہی کے سرٹیفیکیٹ کا مطالعہ کیا تو جو نتیجہ نکلا وہ میں آپ سے شئیر کرنا چاہوں گا۔ میری دلچسپی کا موضوع چونکہ آخرت کی نجات ہے اس لیے میری نگاہ چوتھے نکتے پر اٹک گئی۔ جس کے تحت یہ لکھا ہے کہ ان عالم کے مطابق قیامت کے دن حضور نبی کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے سامنے کسی کی شفاعت نہیں کرسکیں گے۔ ساتھ میں ان کی کتاب کا حوالہ درج ہے۔ جب میں نے یہ صفحات کھول کر پڑھے تو وہاں تو اس کے بالکل برعکس بات لکھی ہوئی تھی۔ ان صفحات میں تو یہ بتایا گیا تھا کہ نبی کی شفاعت کن اصولوں کے تحت ہوگی اور وہ کون لوگ ہیں "جن کے بارے میں شفاعت کی توقع ہوسکتی ہے۔” یہ آخری الفاط جو کوٹ میں ہیں اس شخص کے ہیں جس کے بارے میں شفاعت کو نہ ماننے کا دعوی کیا گیا ہے۔ میں اور آپ یہ حق رکھتے ہیں کہ ان اصولوں سے اتفاق یا اختلاف کریں مگر یہ کہنا کہ مصنف شفاعت کا قائل نہیں بدترین درجہ کا جھوٹ اور دروغ گوئی ہے۔ وہاں تو اس کے برعکس یہ ثابت کیا گیا ہے کہ نبی نے اس دنیا میں بھی بندوں کی شفاعت کی اور قیامت میں بھی کریں گے۔ اس درجے کا جھوٹ اور ایسی بد دیانتی کے مرتکب شخص کا آپ تصور کرسکتی ہیں اللہ تعالیٰ کیا حشر کریں گے۔

ایسے جھوٹے دغاباز شخص کی بات پر اگر بلا تحقیق آپ نے یقین کیا تو آپ کو بھی روز قیامت طلب کرلیا جائے گا۔ آپ تصور کیجیے کہ اللہ کی بارگاہ میں آپ کھڑی ہیں۔ اور آپ سے پوچھا جارہا ہے کہ تم نے بلاتحقیق اس بہتان پر کیوں یقین کیا۔ اس یقین کو اپنے بچوں تک بھی منتقل کر دیا کہ یہ شخص فتنہ ہے۔ مجھے بتایے قیامت کے دن آپ کیا جواب دیں گی۔ آپ یہ جواب دیں گی کہ میرے پاس ایک ای میل آیا تھا جسے میں نے بلا تحقیق آگے بڑھا دیا۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ خود قرآن و حدیث کے مسلمہ اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ اس نوعیت کے ہر جواب کو رد کر دیا جائے گا۔ پھر یہ معاملہ چونکہ کسی فرد کے ایمان اور نیت پر براہِ راست حملے کا ہے تو حدیث کے مطابق بہتان لگانے والے کا ایمان سلب کرکے اس کی ساری نیکیاں دوسرے شخص کو دے دی جائیں گی۔ اور اسے جہنم رسید کر دیا جائے گا۔ تاہم مجھے اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ آپ نے چونکہ سوال کرکے تحقیق کا عمل شروع کر دیا ہے اس لیے کم از کم آپ اس جگہ پر انشاء اللہ نہیں ہوں گی بلکہ ان اہل ایمان کے ساتھ عرش کے سائے میں ہوں گی جو عمل صالح ہی نہیں کرتے بلکہ اپنے ایمان اور اعتقاد کو بھی تحقیق پر استوار کرتے ہیں۔

یہاں میں چاہوں گا کہ ایک دوسرے امکان اور قیامت میں اس کے نتیجے کو بیان کر دوں۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ کسی عالم نے واقعی دین کے کسی معاملے میں ایک رائے قائم کرنے میں بالکل ٹھوکر کھائی ہو، مگر اس کی بنیاد پر اس پر یہود و نصاریٰ کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا تب کیا ہوگا۔ تب یہ ہوگا کہ جس شخص نے اس پر یہود و نصاریٰ کا ایجنٹ ہونے کا فتویٰ لگایا اس کو بلالیا جائے گا اور عالم کو بھی بلا کر پوچھا جائے گا کہ کیا تم دین کے دشمنوں کے ایجنٹ تھے۔ وہ کہے گا پروردگار تو دلوں کا حال جانتا ہے میں نے تو جو دین اپنے علم کی بنیاد پر سمجھا دیانت داری سے بیان کر دیا۔ میرا تیرے دشمنوں سے کیا تعلق۔ چنانچہ صحیح حدیث کے مطابق اس عالم کی غلطی کو اجتہادی خطا سمجھا جائے گا۔ اور ایک اجر بہرحال ملے گا۔ البتہ جس شخص نے الزام لگایا اس کا الزام صحیح احادیث کے مطابق اس پر لوٹے گا اور وہ خود خدا کے دشمنوں کا ایجنٹ قرار پاکر جہنم رسید ہوگا۔

معذرت چاہتا ہوں کہ آپ کے ایک چھوٹے سے سوال کا اتنا طویل جواب دیا۔ لیکن میرے نزدیک یہ نجات کا مسئلہ ہے اس لیے پوری صورتحال کو واضح کرنا ضروری ہے۔ اب میں یہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ آپ کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔

البتہ پھر درخواست کروں گا کہ تیسری روشنی کا دوبارہ مطالعہ کیجیے۔ اس میں آپ کو بار بار اس کا ذکر ملے گا کہ ہمارے پیدا کردہ اس فرقہ واریت کے جہنم میں دین کا کوئی بڑا عالم آپ کو نہیں ملے گا جس کے خلاف اسی نوعیت کے کفر کے فتوے، گمراہی کے سرٹیفیکٹ نہ ملیں۔ پھر میری درخواست یہ ہوگی کہ کسی عالم اور کسی مسلک کی کوئی کتاب کسی کو نہ پڑھوائیں کیونکہ اطمینان رکھیے کہ اگر پروپیگنڈا کوئی معیار ہے تو اس معیار پر اس معاشرے کا ہر بڑا عالم اور ہر مسلک کا فرد کافر، مشرک، بدعتی، گستاخ رسول، منکر درود، منکر حدیث، گمراہ، بددین اور یہود و نصاریٰ کا ایجنٹ ہے۔

اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے تعصبات کی پیروی کے بجائے اعلیٰ ایمان اور اخلاقی رویوں کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

دوسرا خط
یہ خط ایک اور بہن نے لکھا۔ یہ بہن دعوت دین کے کاموں میں پوری طرح ہمارے ساتھ شریک ہیں۔ انہوں نے کوئی الزام و بہتان ہرگز نہیں لگایا تھا، مگر اپنی سہیلی کے حوالے سے ایک اور صاحب علم کے بارے میں یہ بات لکھی تھی کہ وہ اپنے سوا دوسروں کی کتابیں پڑھنے سے منع کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں جو کچھ میں نے لکھا وہ درج ذیل ہے۔

عزیز بہن
السلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ
میں یہ چاہتاہوں کہ مولانا۔ ۔ ۔ صاحب کے حوالے سے جو آپ نے پچھلے ای میل میں بات لکھی ہے اس پر ایک اہم چیز کی طرف توجہ دلاؤں۔ میری ناقص رائے میں ہمیں اہل علم کے متعلق مثبت رائے قائم رکھنی چاہیے۔ یہ بات کہ مولانا اپنے چاہنے والوں کو دوسروں کا لٹریچر پڑھنے سے منع کرتے ہیں، علی الاطلاق درست معلوم نہیں ہوتی۔ وہ جس سطح کے عالم ہیں، اس سطح کا عالم کبھی دوسرے اہل علم سے خوفزدہ نہیں ہوتا کہ دوسروں کی چیز پڑھنے سے اس کے علم اور تحقیق کی کوئی کمزوری سامنے آجائے گی۔ کسی عالم کے بارے میں کسی ایک فرد کی سنی سنائی بات پر کوئی رائے قائم کرنے کے بجائے ان کی اپنی تحریر اور نقطہ نظر پیش کرنا ضروری ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ کی سہیلی جھوٹی ہے، مگر ہوسکتا ہے کہ ان کو جو بات کہی گئی وہ کسی خاص پس منظر میں ہو۔

ان کے تحریر کردہ لٹریچر میں اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ دوسروں کی چیزیں نہ پڑھی جائیں۔ مزید یہ کہ ان کے ایک شاگرد مولانا۔ ۔ ۔ صاحب تو مستقل میرے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں اور مختلف علمی استفسارات کرتے رہتے ہیں۔ وہ خود بھی ایک بڑے عالم دین ہیں لیکن اس کے باوجود میرے جیسے معمولی طالب علم کو اس پہلو سے اپنا استاد بھی کہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مولانا۔ ۔ ۔ کی تربیت یہ ہوتی تو وہ کبھی ان کے سوا کسی اور کو نہ پڑھتے۔

ہمیں علما کو انسان سمجھنا چاہیے۔ نہ یہ کہ کسی کو ایسا بے عیب سمجھنے لگیں کہ اس کی ہر بات حرف آخر ہے اور نہ یہ کہ ہر کس و ناکس کی گواہی پر کسی بڑے عالم کے متعلق کوئی منفی رائے قائم کرلیں۔ توازن زندگی کا حسن ہے یہی حسن ہمیں ہر معاملے میں اختیار کرنا چاہیے۔
امید ہے آپ میری باتوں کا برا نہیں مانیں گی۔