Take a fresh look at your lifestyle.

شیطان اور اس کے لشکروں کے حملے ۔ ابویحییٰ

ایک تمثیل ایک حقیقت
محترم قارئین آج میں اپنی گفتگو کا آغاز ایک تمثیل سے کرنا چاہوں گا۔
فرض کیجیے کہ آپ کسی ایسے محلے یا بستی میں مقیم ہیں جہاں کا کوئی اور رہائشی آپ سے بدترین دشمنی اور عداوت رکھتا ہو۔ اس کی دشمنی اس حد تک بڑھی ہوئی ہے کہ وہ آپ کی دشمنی میں خود کو برباد کر دینے کے لیے تیار ہے۔ وہ دشمن اکیلا ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھی بھی ہیں جو ہر طرح سے اس کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں۔ اس سے کہیں بڑھ کر آپ کے اپنوں میں سے بھی کچھ لوگ اس کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔

اگر صورتحال واقعی یہی ہے تو پھر آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ آپ کتنی مشکل صورتحال سے دوچار ہوچکے ہیں۔ آپ کی جان، مال عزت و آبرو کچھ بھی محفوظ نہیں رہے گی۔ آپ ہی نہیں آپ کا پورا خاندان زبردست خطرے کی زد میں ہوگا۔ آپ کے پاس دو ہی انتخاب باقی رہ جائیں گے۔ یا تو آپ وہ بستی چھوڑ جائیں یا پھر ہر وقت مقابلے اور تیاری کی حالت میں رہیں تاکہ اپنا تحفظ کرسکیں۔

یہ بات سن کر بہت سے لوگ شکر ادا کر رہے ہوں گے کہ وہ کسی ایسی صورتحال سے دوچار نہیں ہیں۔ بہت سے لوگوں نے یقینا اسے ایک مفروضہ سمجھ کر سرسری طور پر لیا ہوگا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ میں نے عرض کیا ہے وہ کوئی مفروضہ یا تمثیل نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص چوبیس گھنٹے بلکہ اپنی پوری زندگی اس سے بھی کہیں زیادہ خوفناک صورتحال سے دوچار رہتا ہے۔ ہم سب جو آدم و حوا کی اولاد ہیں، ہمہ وقت ایک انتہائی خوفناک اور خطرناک دشمن کی نفرت، حسد، بغض اور عداوت کا شکار ہوکر جی رہے ہیں۔ یہ دشمن شیطان اور اس کی ذریت ہے۔

شیطان کون ہے ؟
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان دراصل ایک جن تھا۔ قرآن مجید اسے ابلیس کے نام سے یاد کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب فرشتوں کو یہ حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں تو تمام فرشتوں نے اللہ کے حکم کے مطابق سجدہ کیا۔ ایسے میں ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ فرشتوں کے ساتھ اس کے ذکر کی وجہ سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ کوئی معمولی حیثیت کا جن نہیں تھا بلکہ ایک ایسی ہستی تھا جسے جن ہونے کے باوجود ایک بڑی حیثیت حاصل تھی۔ مخلوقات میں اس کی حیثیت اتنی نمایاں تھی کہ اللہ کہ حکم کے باوجود آدم کو سجدہ کرنا اپنی توہین سمجھا۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی گفتگو سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ خود بارگاہ الوہیت میں کتنا رسوخ رکھتا تھا۔

قرآن مجید کے مطابق سجدے سے انکار کے بعد جو کچھ مطالبات اس نے اللہ تعالیٰ کے سامنے رکھے، ان سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ بارگاہ الوہیت کا کتنا مزاج شناس تھا۔ مثلاً اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ کبھی مغلوب الغضب نہیں ہوتے۔ چنانچہ عین اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے موقع پر بھی یہ اطمینان کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے گفتگو کرتا رہا اور اس سے اپنے اور انسانیت کے مستقبل کے حوالے سے اپنی حد تک تو آج کل کی اصطلاح میں ایک کامیاب ڈیل کی کہ جو چاہا مانگ لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس احمق نے اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ جیسی کریم اور بلند ہستی سے معافی مانگنے کے بجائے مہلت مانگی جو اسے دے دی گئی۔

قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے قیامت تک کی مہلت اس پہلو سے مانگی کہ اس کو اور اس کی اولاد کو انسانوں کو بہکانے کا مکمل موقع دیا جائے۔ اس کے بہکاوے میں آکر انسانیت جس طرح خدا کی نافرمانی اور ناشکری کرے گی اس سے شیطان یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائے گا کہ انسان اس منصب خلافت کا اہل نہیں تھا جو زمین پر اسے دیا گیا۔

اللہ تعالیٰ کی بلند اور اعلیٰ ہستی نے شیطان کا یہ چیلنچ منظور کرلیا۔ صرف یہ پابندی لگا دی کہ شیطان کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتا بلکہ وہ صرف وسوسہ انگیزی کرسکے گا۔ جو لوگ شیطان کی پیروی کریں گے اسی کے ساتھ جہنم رسید ہوں گے اور جو نیک بندے شیطان کے مکر و فریب میں آنے سے انکار کر دیں گے وہ جنت کے حقدار ہوں گے۔

شیطانی ہتھکنڈے اور ہماری کمزوریاں
اس تفصیل سے قارئین یہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ تمام انسانیت اس وقت کتنی سنگین صورتحال میں گرفتار ہے۔ شیطان نے اللہ کے سامنے کھڑے ہوکر اس کی عزت و جلال کی قسم کھا کر یہ چیلنج دیا تھا کہ میں ان سب کو گمراہ کر کے دم لوں گا۔ خدا کی مرضی کے راستے پر چلنے کے بجائے اس کی نافرمانی کے راستے پر چلاؤں گا۔ جس ہستی نے یہ چیلنج اپنی بربادی کی قیمت پر کیا ہے، ظاہر ہے کہ وہ اس کو پورا کرنے کے لیے کسی بھی حد پر جانے کے لیے تیار رہے گی۔ یہی کچھ شیطان، اس کی ذریت اور اولاد نے تاریخ میں ہمیشہ کیا ہے۔

تاہم شیطان کا اختیار صرف وسوسہ انگیزی تک محدود ہے اس لیے وہ اپنا مطلب حاصل کرنے کے لیے ہمارے اندر موجود اپنے دوست یعنی ہمارے نفسانی تقاضوں، نفسیاتی کمزوریوں اور انسانی ضعف کو استعمال کر کے ہمیں گمراہ کرتا ہے۔ ہم اگر اپنی ان کمزوریوں کو سمجھ لیں تو ہمیں شیطان کے ہتھکنڈے سمجھنا اور ان سے بچنا بہت آسان ہو جائے گا۔ ذیل میں ایسی ہی کچھ اہم انسانی کمزویوں کا بیان ہے جن کو استعمال کر کے شیطان انسانوں کو ہر دور میں بھٹکاتا رہا ہے اور آج بھی بھٹکا رہا ہے۔

ظاہر پرستی اور نامعقول جذباتیت
انسانوں کی پہلی اور بنیادی کمزوری یہ ہے کہ انسان گرچہ ایک عقلی وجود ہے اور اسی عقل کے سہارے وہ کرہ ارض پر اپنا اختیار قائم کیے ہوئے ہے، لیکن جیسے ہی مذہب کا معاملہ آتا ہے، انسان اپنی عقل کو اٹھا کر کونے میں پھینک دیتا ہے اور نری ظاہر پرستی، سطحیت اور جذباتیت کا شکار ہوجاتا ہے۔

اس کی سب سے بڑی مثال شرک اور الحاد ہے۔ دین کا بنیادی تقاضہ اللہ کی ہستی کو اپنا سب کچھ تسلیم کر لینا ہے۔ مگراللہ تعالیٰ انسانی حواس سے بلند ہیں۔ وہ نظر نہیں آتے۔ ان کو صرف عقل استعمال کر کے دریافت کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس معاملے میں لوگ ہمیشہ سطحی جذبات کا شکار رہے ہیں۔ چنانچہ ہر دور میں لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کو پوجا ہے جس کی واحد خوبی یہ تھی کہ وہ مخلوق ہونے کی بنا پر حواس کی گرفت میں آجاتا ہے۔ اسی لیے انسانوں نے بتوں کے سامنے ماتھا ٹیکا ہے، انسانوں کو خدا کی ذات یا صفات کا حصہ سمجھ کر ان سے عبادت اور استعانت کا تعلق قائم کیا ہے۔ چاند سورج اور تاروں کو رب بنایا ہے اور ہر اس مخلوق کی پرستش کی ہے جس کی طرف شیطان ان کو کھینچ کر لے گیا ہے۔

آج کے دور میں یہ کمزوری ایک دوسرے پہلو سے ظاہر ہو رہی ہے۔ یعنی خدا چونکہ نظر نہیں آتا اس لیے لوگ سرے سے خدا کے وجود کے منکر ہوگئے ۔کائنات کا پورا نظام اپنی خاموش آواز سے پکار کر یہ گواہی دے رہا ہے کہ میرا بنانے والا ایک خالق ہے، مگر یہ عقل کے اندھے مان کر نہیں دیتے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ شیطان انسانوں کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھا کر ان کو بہکاتا ہے اور یہ لوگ اس کے فریب میں آجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے کبھی گفتگو کر لیجیے۔ آپ کو نامعقول جذباتیت کی ایک بالکل نئی سطح کا تجربہ ہو جائے گا۔ ان کو ساری شکایات اہل مذہب سے ہوتی ہیں۔ اس میں یہ کسی نہ کسی حد تک حق بجانب ہوتے ہیں۔ لیکن نامعقول مذہبی رویوں کو چھوڑ کر درست مذہب کو تلاش کرنے کے بجائے خدا کے انکار کو معقولیت سمجھتے ہیں۔ اس سے بڑی نامعقولیت اور کیا ہوسکتی ہے۔

جنسی بے راہ روی
روز ازل شیطان نے انسان کو جب رب کی نافرمانی پر آمادہ کیا تو اس نے انسان کے جنسی جذبے ہی کو استعمال کیا تھا۔ یہی اس نے ہر دور میں کیا اور آج تو سب سے بڑھ کر وہ جنسی معاملات کے ذریعے سے انسانوں کو اللہ کی مقرر کردہ حدود سے بھٹکا رہا ہے۔ موجودہ تمدن جس کی بنیاد مغربی اقوام نے رکھی ہے، آزادی اس میں ایک بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔ چنانچہ جنسی آزادی اس کا ایک لازمی حصہ ہے۔ اس کے نتیجے میں عریانی، فحاشی، مرد و زن کے آزاد تعلقات اور اب ہم جنسی تعلقات سب اسی تہذیب کے لوازم ہیں۔

انفارمیشن ایج سے قبل جنسی آزادی کا یہ کلچر کچھ حدود و قیود میں تھا۔ مگر اب تو صورتحال یہ ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے سے دنیا کے ہر گھر میں اور ہر شخص کی انگلیوں کی نوک کے نیچے یہ پورا برہنہ کلچر آچکا ہے۔ انسان چونکہ جنسی جذبے سے بہت تیزی سے مغلوب ہوتا ہے اس لیے شیاطین اس پہلو سے مسلسل وسوسہ انگیزی کر کے لوگوں کو آمادہ کرتے ہیں کہ وہ بہت آسانی سے دستیاب برہنہ تصاویر، عریاں فلموں اور فحش مناظر سے لطف اندوز ہوں۔

جو لوگ کچھ مزاحمت کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے شیاطین نے کچھ اور انتظامات کر رکھے ہیں۔ مثلاً یہ کہ عام فلموں میں بھی جگہ جگہ ایسے مناظر ڈال دیے جاتے ہیں جو قلب و نظر کو آلودہ کرتے ہیں۔ اب کوئی شخص یہ سب کچھ نہیں بھی دیکھنا چاہتا، مگر وہ کوئی عام فلم دیکھ رہا ہے تو غیر ضروری طور پر وہ یہ مناظر دیکھنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح فیس بک وغیرہ پر مسلسل ایسی چیزیں خود بخود سامنے آتی رہتی ہیں جن کے پیچھے جانے سے خود کو روکنے کے لیے بہت مضبوط ایمان اور ارادے کی ضرورت ہوتی ہے جو کم ہی لوگوں کے پاس ہوتا ہے۔

غفلت اور دنیا پرستی
شیطان کا ایک بہت اہم ہتھیار غفلت اور دنیا پرستی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا معاملہ یہ ہے کہ انھوں نے امتحان کی غرض سے اپنے اور انسان کے بیچ غیب کا ایک پردہ حائل کر رکھا ہے۔ انسان کو اس دنیا میں یہ مکمل آزادی دی گئی ہے کہ وہ جو چاہے عمل کرے، وہ اس میں آزاد ہے۔ انسان کو البتہ یہ بتا دیا گیا ہے کہ جو برے کام کریں گے ان کا بدلہ جہنم کی آگ ہے۔ اور جو اچھے کام کریں گے ان کا بدلہ جنت ہے۔

مگر امتحان کی بنا پر خدا کی طرح یہ جنت اور جہنم بھی سردست پردہ غیب میں ہیں۔ جو چیز سامنے ہے وہ دنیا اور اس کی رنگینیاں ہیں۔ اس کا نفع ہے۔ اس کا نقصان ہے۔ اس کی زینت اور خوبصوتی ہے۔ مادی زندگی کا عروج ہے۔ چنانچہ انسان کی وہ ظاہر پرست طبیعت جس کا اوپر ذکر ہوا خدا اور جنت و جہنم کو بھول کر اسی دنیا کے خیر و شر اور پانے اور کھونے کو اپنا سب سے بڑا مسئلہ بنا لیتی ہے۔

لوگ اسی دنیا کے ملنے پر ہنستے اور اسی کے چھننے پر روتے ہیں۔ اسی کے نفع کو اصل کامیابی اور اسی کے نقصان کو اصل خسارہ سمجھتے ہیں۔ لوگ اپنی ہر جیت یہاں پر دیکھنا چاہتے ہیں اور ہر شکست سے یہاں پر ہی بچنا چاہتے ہیں۔ یہ رویہ خدا و آخرت سے غفلت پیدا کرتا ہے۔ یہ انسان کو دنیا پرست بناتا ہے۔ ایسا غافل اور دنیا پرست انسان شیطان کا سب سے بڑا نشانہ بن جاتا ہے۔ شیطان اس دنیا اور اس کی کامیابی کے پیچھے انسان کو لگاتا اور ہر خیر و شر سے اسے بے نیاز کر دیتا ہے۔ جس کے بعد انسان ہر حد توڑتا، ہر ظلم کا ارتکاب کرتا اور ہر بند کو عبور کرتا چلا جاتا ہے۔ جس کے بعد وہ شیطان کا کھلونا بن جاتا ہے جس سے وہ جس طرح چاہے کھیلتا ہے۔

انانیت
قرآن مجید کے مطابق شیطان نے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں جو کچھ کیا اس کی اصل وجہ تکبر تھی۔ یہی وہ منفی جذبہ ہے جو انسانوں کو آخری درجے میں خدا کا نافرمان بنا دیتا ہے۔ چنانچہ جو شخص کسی اور طریقے سے قابو نہیں آتا، اس کے لیے شیاطین تکبر کا داؤ استعمال کرتے ہیں۔ انسان خود کو بڑا سمجھتا ہے۔ اپنے عمل کو بڑا عمل خیال کرتا ہے۔ وہ اپنی دولت، طاقت، مقام و مرتبے، حسن، علم، ذہانت، صلاحیت اور اقتدار پر نازاں ہوتا ہے۔ اس کا یہی ناز اسے خدا کی بارگاہ میں ایک مجرم بنا دیتا ہے۔ ایسا انسان حق کا انکار کرتا ہے، کمزوروں پر ظلم کرتا ہے، معصوموں کا حق دباتا ہے۔ ان میں سے ہر چیز غضب الٰہی کو بھڑکانے کا سبب بن جاتی ہے۔

بہت سے لوگ اپنی ذات میں متکبر نہیں ہوتے بلکہ بہت متواضع طبیعت کے حامل ہوتے ہیں۔ مگر ایسے لوگ اکثر اوقات اپنی قوم، پارٹی، فرقے، گروہ کے بارے میں تعصبات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کے نزدیک جن سے وہ وابستہ ہیں، وہ کبھی غلطی کر ہی نہیں سکتے۔ بر بنائے بحث وہ مان لیں گے کہ غلطی ہوسکتی ہے، مگر یہ کبھی نہیں مانیں گے کہ ان کے لوگوں نے غلطی کی ہے۔ چنانچہ ایسے لوگوں میں ایک نوعیت کا گروہی تکبر پیدا ہوتا ہے۔

یہ گروہی تکبر بھی انفرادی تکبر کی طرح انسان کا دشمن ثابت ہوتا ہے۔ یہ علم اور فکر کے لحاظ سے ظہور کرے تو لوگ اپنے گروہ سے باہر کبھی کسی سچائی کو قبول نہیں کرتے۔ چاہے وقت کا پیغمبر بھی اس سچائی کو پیش کرے۔ یہود اس کی سب سے نمایاں مثال ہیں۔ آج کل بھی بظاہر نیکی کو اختیار کیے ہوئے بہت سے لوگ عام طور پر اسی گروہی تکبر کا شکار ہوتے ہیں اور اپنے گروہ سے باہر کی ہرسچائی کو اطمینان سے رد کر کے شیطان کے پھندے میں پھنس جاتے ہیں۔

یہ تکبر اگر قوم یا قبیلے کے لحاظ سے ظہور کرے تو نسل پرستی، لسانیت اور صوبائیت جیسے امراض کا باعث بنتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ظلم، زیادتی، حق تلفی اور ناانصافی جیسے جرائم کا ظہور ہوتا ہے۔ ان دونوں پہلوؤں سے گروہی تکبر کے مریض شیطان کا صرف نشانہ ہی نہیں بنتے بلکہ اس کے مقاصد کی تکمیل کے لیے اس کا آلہ کار بھی بن جاتے ہیں اور بہت اعتماد کے ساتھ دوسروں کو شیطان کے راستے پر چلاتے ہیں۔

دین کی تعلیم میں افراط و تفریط
اس سلسلے کی آخری اہم بات یہ ہے کہ شیطان کے مقابلے میں انسانوں کی مدد کے لیے اللہ پروردگار عالم نے ہر دور میں اپنے نبیوں کو انسانوں کی رہنمائی کے لیے بھیجا ہے۔ تاہم شیاطین نے ایک طرف تو لوگوں کو ظاہر پرستی، غفلت اور تکبر کے جال میں پھنسا کر ان کا انکار کرایا۔ ساتھ میں شیاطین نے ایک دوسرا راستہ یہ اختیار کیا کہ جو لوگ کسی طور ان کے جال میں نہیں آئے اور انبیاء کے ساتھی بن کر ان کے مددگار بن گئے، انھوں نے ان کو افراط و تفریط کا نشانہ بنا کر دین کی اصل تعلیم کو سامنے نہیں آنے دیا۔

مثال کے طور پر یہود میں ظاہر پرستی پیدا کر دی گئی۔ ان میں چھوٹے چھوٹے غیر اہم اعمال اہم ترین بن گئے اور اہم ترین دینی اعمال کی کوئی حیثیت نہیں۔ ایمان، رحم اور انسانی ہمدردی کے بجائے کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا ان کے نزدیک اصل دین بن گیا۔ اس رویے پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے شدید تنقید کی۔

بدقسمتی سے خود آنجناب کے پیروکاروں نے بھی ایک دوسری انتہا کو چھو لیا۔ انھوں نے شریعت کی پابندیوں کو مکمل طور پر چھوڑ دیا۔ آپ کی عقیدت میں غلو کر کے آپ کو خدا کا بیٹا سمجھنا شروع کر دیا اور رہبانیت جیسی بدعت کو نیکی سمجھ کر اختیار کر لیا۔ یہ مثالیں افراط و تفریط کے وہ نمونے ہیں جو دراصل شیطان کی کارفرمائی کے سبب وجود میں آتے ہیں۔ لوگ ان کو نیکی سمجھ کر اختیار کرتے ہیں، مگر درحقیقت یہ افراط و تفریط گمراہی ہے۔ رفتہ رفتہ لوگ اس گمراہی کو اصل دین سمجھ لیتے ہیں۔

آج یہی معاملہ مسلمانوں کا ہے۔ گرچہ مذہب اسلام ہر طرح کی تحریفات سے پاک ہے اور کوئی گمراہی اس کے ماخذ میں جگہ نہیں پاسکتی۔ لیکن عملی طور پر اس کا امکان پوری طرح ہے کہ لوگ اصل دین کو چھوڑ کر غیر متعلق چیزوں کو اہم بنا دیں۔ بدقسمتی سے یہی ہمارے ہاں ہوا ہے۔ ہمارے ہاں دین کی اصل تعلیم بڑی حد تک غیر متعلق ہوچکی ہے اور دین کے نام پر دیگر چیزوں کو رواج ہوگیا ہے اور ان ہی کو نیکی و تقویٰ کی معراج سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ اسی پس منظر میں اس عاجز نے اپنی کتاب ’’قرآن کا مطلوب انسان‘‘ میں یہ کوشش کی ہے کہ دین کی اصل تعلیم کو بے کم و کاست لوگوں کے سامنے پیش کر دیا جائے تاکہ جو لگ سچے دل سے ہدایت کے طلبگار ہیں وہ باآسانی دین کے اصل احکام کو اس کے بنیادی ماخذ سے خود پڑھ کر سمجھ لیں۔

خلاصہ
بہرحال اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ شیطان انسان کا دشمن ہے۔ دشمن بھی وہ جس کے وار سے بچنا بہت مشکل ہے۔ چنانچہ ہم میں سے ہر شخص کو پوری طرح اس دشمن اور اس کے حربوں کے بارے میں متنبہ رہنا چاہیے۔ یہی عافیت اور سلامتی کا راستہ ہے۔

جہاں رہیے بندگان خدا کے لیے رحمت بن کر رہیں، باعث زحمت نہ بنیے۔