Take a fresh look at your lifestyle.

جو روپے کے بھی امیں نہیں۔۔۔ ۔ ابویحییٰ

کئی برس قبل مجھے کینیڈا اور امریکہ میں تفصیلی قیام کا موقع ملا۔ اس عرصے کے دوران میں متعدد قابلِ ذکر مشاہدات پیش آئے۔ ان میں سے ایک دلچسپ مشاہدہ یہ تھا کہ میں نے ایک روپے کے پاکستانی کرنسی کے سکے کو کینیڈا میں خرید و فروخت میں استعمال ہوتے دیکھا۔ دراصل کینیڈا کی کرنسی کا سب سے چھوٹا سکہ پینی (Penny) ہے۔ ایک کینیڈین ڈالر سو پینی کے برابر ہوتا ہے۔ پینی کا یہ سکہ اپنے رنگ، ساخت اور جسامت میں بالکل پاکستانی روپے جیسا ہوتا ہے۔ جب تک غور سے نہ پڑھا جائے کہ اس پر کیا لکھا ہے۔ صرف سرسری نظر ڈال کر یہ بتانا ممکن نہیں کہ یہ پاکستانی روپیہ ہے یا کینیڈین پینی ہے۔

یہ پاکستانی روپیہ کس طرح کینیڈا میں گردش میں آیا؟ اس سوال کا جواب دینا کوئی مشکل نہیں۔ حالیہ وقتوں میں پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کینیڈا منتقل ہوئی ہے۔ جانے والوں کے ساتھ ساتھ ان کے اہل خانہ کی بڑی تعداد کو بھی کینیڈین شہریت حاصل ہوئی ہے۔ اس طرح کثرت سے پاکستانی کینیڈا آنے جانے لگے ہیں۔ یقینا انہی میں سے کچھ لوگ ہوں گے جن کے ساتھ کچھ پاکستانی سکے کینیڈا پہنچ جاتے ہوں گے۔ باقی سکے تو وہاں بالکل بے مصرف ثابت ہوتے ہیں مگر ایک روپے کے سکے کا استعمال وہاں نکل آیا۔ چنانچہ ایک پینی کی انتہائی حقیر رقم کی جگہ پاکستانی روپیہ استعمال ہونے لگا۔ یوں نہ صرف پاکستانیوں کا ایک روپیہ ضائع ہونے سے بچ گیا بلکہ ایک پینی کا اضافی ’’فائدہ‘‘ بھی وہ اٹھانے لگے۔

بہت سے لوگوں کے لیے یہ ایک چھوٹی بات ہوگی جسے ہنسی مذاق میں اڑایا جاسکتا ہے۔ بہت سے لوگ اسے پاکستانیوں کی ذہانت کے کھاتے میں ڈالیں گے۔ مگر مجھے اس واقعہ پر قرآن کی ایک آیت یاد آگئی۔ اہل کتاب کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اور ان (اہل کتاب) میں وہ بھی ہیں کہ اگر تم ان کی امانت میں ایک دینار بھی رکھو تو وہ اس وقت تک اس کو لوٹانے والے نہیں ہیں جب تک تم ان کے سر پر سوار نہ ہوجاؤ‘‘(آل عمران75:3)

قرآن کی اس آیت سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہودی خود کو تمام دنیا سے افضل سمجھتے تھے، لیکن درحقیقت وہ اخلاقی زوال کی کس پستی میں اترچکے تھے۔ اللہ اور رسول سے لے کر ایک دینار تک، کسی معاملے میں وہ صاحب کردار نہیں رہے تھے۔ اس کے بعد چاہے وہ خود کو کتنا ہی امامت عالم کے منصب پر فائز سمجھتے، خدا کی نظر میں ان کی کوئی حیثیت نہیں رہی تھی۔

قرآن کی اس آیت سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض چھوٹی چھوٹی باتیں انسان کے کردار کو کھول کر رکھ دیتی ہیں۔ وہ یہ بتاتی ہیں کہ جب کسی انسان کا زندگی کے بارے میں بنیادی نقطۂ نظر ہی غلط ہوجائے تو ضروری نہیں کہ وہ اہم مواقع ہی پر اس کا اظہار کرے۔ انسان بہت معمولی باتوں میں اس کا اظہار کرنے لگتا ہے۔ وہ معاشرہ جس سے امانت اٹھ جائے، آہستہ آہستہ اس مقام پر آجاتا ہے کہ ایک روپے اور ایک پینی کی ناقابل تذکرہ رقم میں بھی خرد برد کرنے لگتا ہے۔ آخرت اور ایمان کے مقابلے میں ہر فائدہ بہت حقیر ہے مگر انسان اتنا غیرمحتاط ہوتا ہے کہ اپنے کردار و دیانت کو صرف ایک روپے میں فروخت کر دیتا ہے۔

امانت و دیانت انسانی کردار کے اعلیٰ ترین اوصاف میں سے ہے۔ جن لوگوں میں یہ اخلاقی وصف نہیں وہ کسی ذمہ داری اور کسی بھی منصب کے اہل نہیں۔ جو لوگ آج ایک روپے کے بھی امین ثابت نہیں ہوتے، وہ موقع ملنے پر لاکھ روپے کی امانت کا بوجھ بھی نہیں اٹھا سکیں گے۔ چاہے یہودی ہو یا مسلمان، کوئی گروہ جب زوال کی گھاٹی پر قدم رکھتا ہے تو اسے یہ دن بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ اس کے رہنما اسے دنیا کی امامت کا مژدۂ جان فزا سناتے ہیں اور اس کا کردار یہ ہوتا ہے کہ وہ روپے کی امانت کا بھی تحمل نہیں کرسکتا۔

لوگوں کا جو دل چاہے وہ کہتے اور سمجھتے رہیں، خدا کا فیصلہ یہ ہے کہ جو لوگ روپے کے بھی امین نہیں، انہیں کبھی امامتِ عالم کے منصب پر فائز نہیں کیا جاسکتا۔