سربازار می رقصم
مدیر رسالہ ابو یحییٰ صاحب نے پچھلے دنوں جنوب مشرقی ایشیا کے تین ممالک گئے تھے۔ اس حوالے سے زیر تصنیف سفر نامے کا ایک اقتباس اس اشاعت میں خاص طور پر شامل کیا جارہا ہے۔ ملائیشیا کے جزیرے لنکاوی کے حوالے سے لکھی گئی یہ تحریر قارئین کے لیے رمضان کی خصوصی سوغات کے طور پر پیشِ خدمت ہے۔(ادارہ)
لنکاوی کا جزیرہ وہ جگہ ہے جہاں فطرت بلا مبالغہ پچھلے کئی کروڑ برسوں سے اپنے رنگ اور اپنے جلوے وقت کی رم جھم کے ساتھ برسا رہی ہے۔ اس بات سے بے پرواہ کہ اس کے حسن کی دید کے لیے کوئی دیدہ ور یہاں آتا بھی ہے یا نہیں۔ حسنِ فطرت کی یہ عجیب ادا ہے کہ وہ اپنے جلوے بکھیرنے کے لیے کبھی عشاق کی محفل کا انتظار نہیں کرتی۔ اسے اپنی بے حجابی کے لیے انسانی دید سے زیادہ سورج کی نگاہِ روشن اور تاروں کی جگمگاتی نظر کا انتظار رہتا ہے۔ اسے رونق سے زیادہ ویرانی اور شہرت سے زیادہ گمنامی پسند ہے۔
حسن ِبے پرواہ کو اپنی بے حجابی کے لیے
شہر سے ہوں بن جو پیارے تو شہر اچھے کہ بن
مجھے چار سو پھیلے اس حسن کو دیکھ کر بارہا یہ احساس ہوا کہ یہ حسن تو خود کسی اور حسیں کی زلف کا اسیر ہے۔ اُس حسنِ ازل کی ایک نظر کے لیے کروڑوں سال سے یہ بے خودی کے عالم میں رقص کیے جارہا ہے۔ مگر اس قاتل ادا نے ابھی تک پلٹ کر حسن فطرت کو نہیں دیکھا۔ وہ تو کسی اور کے رقص کا منتظر ہے۔ کسی صاحب شعور، صاحب اختیار، صاحب اقتدار کے رقصِ بندگی کا۔ جس کی آنکھوں سے نکلنے والا ایک قطرہ ناچیز اسے فطرت کی ہزار بارشوں سے زیادہ عزیز ہے۔ جس کی تسبیح و تمجید کا ایک گیت فطرت کے ہزار سروں سے زیادہ سریلا ہے، جس کی عبدیت کا ایک رنگ فطرت کے ہزار رنگوں سے زیادہ خوشنما ہے۔ جس کی اٹھی ہوئی خدا آشنا نظر ہر پہاڑ کی بلندی سے بلند تر ہے اور جس کی جھکی ہوئی پیشانی زمین اور سمندر کی ہر وسعت سے زیادہ عریض ہے۔ اس لیے کہ وہ صاحب شعور ہو کر رقص بندگی کرتا اور صاحب جنون ہو کر حدود آشنائی میں جیتا ہے۔ فطرت کا رقص بہت حسین ہے۔ مگر بندگی کا رقص حسین تر ہے۔ اس لیے کہ یہ ایک بادشاہ کا رقص عبدیت ہے۔ یہ رقص ایمان سے شروع ہوتا اور معرفت کی روشنی پا کر اپنے جوبن پر آتا ہے۔ یہ رقص جو دل کی محفل کو آباد کرتا ہے، سانسوں کی مالا میں یاد الہی کے موتی پروتا، آنسوؤں کی لڑی بنتا اور آخر کار عبد کو معبود سے ہم کلام کر دیتا ہے۔
نمی دانم کہ آخرچوں دم دیدار می رقصم
مگر نازم با ایں ذوق کہ پیش یار می رقصم
بیاں جاناں تماشا کن کہ درانبوہ جانبازاں
بصد سامان رسوائی سر بازار می رقصم
مجھے نہیں معلوم کہ میں (اپنے دوست کے) دیدار کے وقت رقص کیوں کرنے لگتا ہوں۔ مگر مجھے اس پر فخر ہے کہ میرا رقص صرف اپنے دوست کے سامنے ہی ہوتا ہے۔
جاناں آؤ اور یہ تماشہ تو دیکھو کہ تمھارے جانبازوں کے گروہ میں اپنی رسوائی کا ہزار سامان کیے میں سر بازار رقص کررہا ہوں۔