Take a fresh look at your lifestyle.

رزق اور قرآن مجید ۔ ابویحییٰ

رزق کے حوالے سے ہمارے ہاں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ خاص کر یہ غلط فہمی تو بہت عام ہے کہ انسان ہاتھ پر ہاتھ دھرا بیٹھا رہے تب بھی اس کا رزق اس تک ضرور پہنچے گا۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ اس حوالے سے قرآن مجید کا نقطہ نظر واضح کر دیا جائے۔

قرآن مجید اس دنیا میں ملنے والے مادی رزق کو تین پہلوؤں سے زیر بحث لایا ہے۔ ان میں سے پہلا دعوت عبادت رب اور شرک کے پس منظر میں زیر بحث آیا ہے۔ اس حوالے سے قرآن مجید کے تمام بیانات یہ واضح کرتے ہیں کہ رزق دینے والی ہستی صرف اللہ ہی کی ہے۔ چنانچہ اسی کی عبادت اور شکر گزاری ہونی چاہیے۔ غیر اللہ کے ہاتھ میں نہ کوئی رزق ہے اور نہ اللہ کے عطا کردہ رزق پر غیر اللہ کا نام لیا جاسکتا ہے اور نہ کسی اور قسم کی مشرکانہ بدعت کا ارتکاب کیا جاسکتا ہے۔

رزق کا دوسرا پہلو قرآن مجید میں انفاق پر ابھارنے کے ضمن میں بیان ہوا ہے۔ ایسی تمام آیات میں اللہ تعالیٰ بار بار لوگوں کو یہ توجہ دلاتے ہیں کہ ان کے پاس جو کچھ ہے وہ ان کے رب ہی کا عطا کردہ رزق ہے۔ اس لیے جب وہ اس کی راہ میں کچھ خرچ کرتے ہیں تو اپنے پاس سے کسی کو نہیں دے رہے ہوتے بلکہ صرف وہ ذریعہ بنتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔ اس کا اجر گرچہ انھیں ملے گا مگر یہ حقیقت ہمیشہ پیش نظر رہے کہ دینے والی ہستی اللہ ہی کی ہے۔

یہ بات جس طرح امیروں سے مخاطب ہوکر کہی گئی ہے، اسی طرح غریبوں کو رزق کے باب میں یہ توجہ دلائی گئی ہے کہ رزق کے معاملے میں اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ رزق میں تنگی کے خوف سے ایمان و اخلاق کے کسی تقاضے کو پورا کرنے سے نہ تو پیچھے ہٹنا چاہیے اور نہ اس حوالے سے کسی حرام کا ارتکاب کرنا چاہیے۔ اللہ ہی رزق دینے والا ہے۔ چنانچہ اسی پر بھروسہ کر کے اس کے احکام پر عمل کرنا چاہیے اور نافرمانی سے بچنا چاہیے۔

اس حوالے سے تیسری اور آخری بات وہ ہے جو کفار کے اس تکبر کے پس منظر میں کہی گئی جس کی بنا پر انھوں نے دعوت حق کا انکار کر دیا تھا۔ انھیں اپنی دولت کا بہت زعم تھا۔ وہ اسے اپنی محنت اور صلاحیت کا نتیجہ سمجھتے تھے۔ اپنی بڑائی کے احساس میں وہ دعوت حق کو جھٹلاتے اور غریبوں پر خرچ نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ یہی وہ پس منظر ہے جس میں قرآن بار بار یہ توجہ دلاتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ہستی ہے جو اپنی حکمت کے تحت جس کو چاہے زیادہ رزق دے اور جس کا رزق چاہے تنگ کر دے۔ چاہے تو غریب کو امیر کر دے اور چاہے تو امیر کو غربت کا مزہ چکھا دے۔ چنانچہ کسی کو رزق کی اس تقسیم کی بنیاد پر جو سرتاسر اللہ کا فیصلہ ہے، تکبر کا حق حاصل نہیں ہے۔

یہ رزق کے باب میں قرآن مجید کے بیانات کا خلاصہ ہے۔ رہی یہ بات کہ اسلام کوئی خاص معاشی نظام دیتا ہے یا تقسیم رزق کا کوئی فارمولا طے کرتا ہے یا کسی فرد کو بغیر جدوجہد کے رزق عطا کرنے کا کوئی وعدہ کرتا ہے، اس طرح کی چیزیں قرآن مجید میں زیر بحث آئی ہیں اور نہ یہ اس کا موضوع ہیں۔ ان سارے معاملات میں اصول یہ ہے کہ انسانی فطرت اور عقل اس کی رہنمائی کے لیے کافی ہے۔ انسان کو انھی کی پیروی کرنی چاہیے۔ اگر کوئی مسلمہ فطری اور عقلی اصول کی خلاف ورزی کرے گا تو خود ہی اس کے نتائج بھگتے گا۔

اس کو ایک سادہ مثال سے یوں سمجھیں کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ یہ کہتے ہیں کہ وہ جس کو چاہیں بیٹیاں دیں، جس کو چاہیں بیٹے دیں جس کو چاہیں دونوں ملا کر عطا کریں اور جس کو چاہیں کچھ نہ دیں،(الشوریٰ49-50:50)۔ اب قرآن مجید کے اس بیان کو لے کر کوئی شخص یہ کہنا شروع کر دے کہ اللہ نے اپنا فیصلہ سنا دیا اور میں بغیر نکاح کے بندھن کے ہی اولاد پالوں گا تو یہ نری حماقت ہوگی۔ دینے کو تو اللہ نے حضرت مریم کو ایسے ہی اولاد دے دی تھی۔ مگر ان کا قانون فطرت یہی ہے کہ ایک مرد و عورت نکاح کے بندھن میں بندھیں گے، تعلق زن و شو قائم کریں گے، اس کے بعد ہی جا کر اللہ کی قدرت ظہور میں آئے گی۔ گویا پوری بات یہ ہوگی کہ یہ آیت نکاح اور تعلق زن و شو کے بعد کی صورتحال کو زیر بحث لا رہی ہے نہ کہ اس سے پہلے کی۔

ٹھیک اسی طرح رزق کے معاملے میں فطرت کا عمومی قانون یہی ہے کہ ایک شخص جدوجہد کرے گا تو اس کو رزق ملے گا۔ وہ اپنی جاب اور کاروبار میں اسی درجہ میں کامیاب ہوگا جس درجہ میں محنت، منصوبہ بندی اور دیگر معاشی اور کاروباری عوامل کا خیال رکھ کر معاشی عمل کو اختیار کرے گا۔ لیکن کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہے گا اور اللہ تعالیٰ ہی ہر طرح کا رزق اس کو دیتے رہیں گے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔ جس طرح کھانا کھانے کے لیے منہ کھولنا پڑتا ہے اسی طرح رزق کمانے کے لیے جدوجہد لازم ہے۔ یہی قانون فطرت ہے۔
تاہم انسانوں کی محنت کے بعد اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کس کی محنت اکارت جاتی ہے اور کس کی محنت ٹھکانے پر لگتی ہے۔ کس کو اس کی محنت سے کئی گنا بڑھا کر رزق دیا جاتا ہے اور کس کو تمام تر محنت کے باوجود نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔یہ سب اللہ کی حکمت کے تحت ہوتا ہے۔ مگر ہوتا اسی وقت ہے جب انسان اپنے حصے کا کام کر دے۔

یہی معاملہ اجتماعی معاشی نظام کا ہے۔ اگر اس معاملے میں عقلی اور فطری قوانین کا لحاظ نہیں رکھا جائے گا تو مسائل پیدا ہوں گے۔ ان مسائل کی ذمہ داری انسانوں پر عائد ہوگی۔ ایسے میں قرآن کی آیات پڑھ کر ساری ذمہ داری اللہ تعالیٰ پر ڈالنے کا رویہ نہ علمی طور پر درست ہے اور نہ عملی طور پر کسی مسئلے کو حل کرنے والا ثابت ہوگا۔ اس کے لیے قانون فطرت کی پابندی ضروری ہے۔