دعا کیسے کریں ۔ مولانا وحیدالدین خان
میرے لیے ایک سائیکل خرید دیجیے، بیٹے نے باپ سے کہا۔ باپ کی آمدنی کم تھی۔ وہ سائیکل خریدنے کی پوزیشن میں نہ تھا۔ اس نے ٹال دیا۔ لڑکا بار بار کہتا رہا اور باپ بار بار منع کرتا رہا۔ بالآخر ایک روز باپ نے ڈانٹ کر کہا، میں نے کہہ دیا کہ میں سائیکل نہیں خریدوں گا۔ اب آئندہ مجھ سے اس قسم کی بات مت کرنا۔
یہ سن کر لڑکے کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ کچھ دیر چپ رہا۔ اس کے بعد روتے ہوئے بولا: آپ ہی تو ہمارے باپ ہیں۔ پھر آپ سے نہ کہیں تو اور کس سے کہیں۔ اس جملے نے باپ کو تڑپا دیا۔ اچانک اس کا انداز بدل گیا۔ اس نے کہا: اچھا بیٹے اطمینان رکھو، میں تمھارے لیے سائیکل خریدوں گا۔ اور کل ہی خریدوں گا۔ یہ کہتے ہوئے باپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اگلے دن اس نے پیسوں کا انتظام کرکے بیٹے کے لیے نئی سائیکل خرید دی۔
لڑکے نے بظاہر ایک لفظ کہا تھا۔ مگر یہ ایک ایسا لفظ تھا جس کی قیمت اس کی اپنی زندگی تھی، جس میں اس کی پوری ہستی شامل ہوگئی تھی۔ اس لفظ کا مطلب یہ تھا کہ اس نے اپنے آپ کو اپنے سرپرست کے آگے بالکل خالی کر دیا ہے۔ یہ لفظ بول کر اس نے اپنے آپ کو ایسے نقطہ پر کھڑا کر دیا جہاں اس کی درخواست اس کے سرپرست کے لیے بھی اتنا ہی بڑا مسئلہ بن گئی جتنا خود اس کے لیے۔
اس واقعہ سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ذکرِ الٰہی کی وہ کون سی قسم ہے جو میزان کو بھر دیتی ہے اور جس کے بعد خدا کی رحمتیں بندے کے اوپر امنڈ آتی ہیں۔ یہ رٹے ہوئے الفاظ کی تکرار نہیں ہے۔ نہ اس کا کوئی نصاب ہے۔ یہ ذکر کی وہ قسم ہے جس میں بندہ اپنی پوری ہستی کو انڈیل دیتا ہے۔ جب بندہ اپنے آپ کو اپنے رب کے ساتھ اتنا زیادہ شامل کر دیتا ہے کہ بیٹا اور باپ دونوں ایک ترازو پر آجاتے ہیں یہ وہ لمحہ ہے جب کہ ذکر محض لغت کا لفظ نہیں ہوتا بلکہ ایک شخصیت کے پھٹنے کی آواز ہوتا ہے۔ اس وقت خدا کی رحمتیں اپنے بندے پر ٹوٹ پڑتی ہیں۔ بندگی اور خدائی دونوں ایک دوسرے سے راضی ہوجاتے ہیں قادر مطلق عاجز مطلق کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے۔