اڑنے والا گھوڑا ۔ ابویحییٰ
پچھلے دنوں انٹرنیٹ پر ایک وڈیو دیکھی۔ یہ ایک طوفانی رات کی وڈیو تھی جس میں مکہ کی فضاؤں میں ایک اڑتے ہوئے گھوڑے کے منظر کو ریکارڈ کرلیا گیا تھا۔ بجلی کی چمک اور کڑک میں گھوڑا اڑ رہا ہے اور ساتھ میں لوگ سبحان اللہ، لا الہ الا اللہ اور اللہ کبر کہہ رہے ہیں۔
یہ وڈیو جنگل کی آگ کی طرح مشہور ہوگئی اور ہر طرف لوگ اسے اسلام کی سچائی کا ثبوت قرار دینے لگے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ جدہ میں کھلونوں کی دکان پر رکھا ایک گھوڑا تھا۔ اس میں گیس بھری تھی اور ایک ڈور کی مدد سے اسے ہوا میں اڑایا جاتا تھا۔ طوفانی ہوا میں ڈور ٹوٹ گئی اور یوں گھوڑا واقعی اڑنے لگا۔ لوگوں نے یہ منظر اور اس کی وڈیو بنا کر نیٹ پر ڈال دی۔ پھر جدہ مکہ بن گیا اور اسلام کی حقانیت ایک نئے پہلو سے ثابت کر دی گئی۔
اس طرح کے واقعات نہ صرف یہ بتاتے ہیں کہ مسلمانوں میں ہر سنی سنائی بات بلاتصدیق آگے بڑھانے کا کتنا ’’ذوق‘‘ ہے بلکہ یہ بھی بتاتے ہیں مسلمان اپنی کتاب قرآن مجید سے کس درجہ میں ناواقف ہیں جو ہوا میں اڑتے ہوئے گھوڑوں کے بجائے زمین پر چلنے والے گھوڑوں اور ہوا میں اڑتے پرندوں کو اپنی حقانیت کا ثبوت بنا کر پیش کرتا ہے۔ بلاشبہ زمین پر چلنے والے گھوڑے اور ہوا میں اڑتے پرندے ایک عظیم معجزہ ہیں، مگر چونکہ یہ معمول کے واقعات ہیں اس لیے کوئی نہیں جو ان کو دیکھ کر سبحان اللہ، لا الہ الا اللہ اور اللہ کبر کہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی خدا کی کتاب قرآن مجید توہمات کی نہیں علم کی کتاب ہے۔ اس میں گھوڑوں اور پرندوں پر ہی نہیں بلکہ شہد کی مکھی اور صحرا کے اونٹ سے لے کر زمین و آسمان کی ہر نشانی پر تفکر کی دعوت دی گئی۔ یہ بتایا گیا ہے کہ ان چیزوں کا ہونا خدا کے ہونے اور تنہا رب ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں چلنے والے گھوڑوں، اڑنے والے پرندوں اور زندگی کی ہر قسم کا ہونا ایک معجزہ ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہم جن چلنے والے گھوڑوں اور اڑنے والے پرندوں کو دیکھتے ہیں، وہ ایک ایسی کائنات کے باسی ہیں جو ہر اعتبار سے زندگی کی ہر قسم کے لیے ایک قاتل کائنات ہے۔ آج کا انسان یہ بات سب سے بڑھ کر جانتا ہے کہ اس کائنات میں زیادہ تر وہ مہیب خلا ہے جہاں نہ سانس لینے کو آکسیجن ہے، نہ پینے کو پانی ہے، نہ کھانے کو غذا ہے۔ اس خلا میں اگر سیارے ہیں تو ان کا درجہ حرارت اتنا کم ہے کہ زندگی کی ہر قسم کو وہ فوراً ختم کر دے گا۔ اگر چٹانیں ہیں تو زندگی کی ہر قسم کے لیے موت کا پیغام ہیں۔
باقی کائنات ستاروں یا بلیک ہول پر مشتمل ہے۔ ستارے اتنی گرم اور ایسی خوفناک آگ اگل رہے ہیں کہ ان سے لاکھوں میل کے فاصلے پر موجود ہر گھوڑے، انسان اور پرندے کی ہڈیاں بھی پگھل جائیں گی۔ جبکہ بلیک ہولز مادہ کی ہر شکل ہی کو نہیں روشنی اور توانائی کو بھی اپنے اندر نگل کر موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ یہاں زندگی کا کیا سوال۔ اس کے علاوہ بھی کائنات میں اگر کچھ ہے تو زندگی کی ہر قسم کے لیے اس کا مطلب موت کے سوا کچھ اور نہیں۔
یہ ہے وہ کائنات جس میں استثنائی طور پر کرہ زمین پایا جاتا ہے۔ کائنات کے اس قبرستان میں زندگی کا یہ گہوارا تن تنہا کھڑا اپنے خالق و مالک، اپنے حاکم و ناظم اور رب مہربان کا زندہ تعارف بن کر کھڑا ہے۔ اس کرہ ارض پر پانی ہے۔ یہاں ہریالی ہے۔ کھلی فضا ہے۔ سمندر اور دریا ہیں۔ زرخیر مٹی اور برف سے لدے پہاڑ ہیں۔ حیات کی باقی اقسام کو چھوڑیئے یہاں زمین پر چلنے والے گھوڑے ہیں اور آسمان پر اڑنے والے پرندے ہیں۔ پھر یہاں قرآن مجید ہے جو لوگوں کے سامنے ان چلنے والے گھوڑوں اور اڑنے والے پرندوں کو بطور نشانی پیش کرتا ہے۔
آہ! مگر یہ بدنصیب حاملین قرآن اڑنے والے پرندوں اور زمین پر چلنے والے گھوڑوں کو دیکھتے ہیں اور چیخیں مار کر نہیں روتے۔ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری نہیں ہوتے۔ ان کی زبان سے سبحان اللہ، لا الہ الا اللہ اور اللہ کبر کے الفاظ نہیں نکلتے۔ وہ اڑتے ہوئے گھوڑے تلاش کرتے اور ان کو اسلام کی سچائی کا ثبوت بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
کوئی ان عقلمندوں سے پوچھے کہ کسی روز ایسا کوئی گھوڑا اگر واقعی نظر آگیا اور ویٹیکن میں نظر آگیا تو کیا مسیحیت سچا مذہب بن جائے گی؟ ہمیں جان لینا چاہیے کہ اسلام توہمات کی نہیں، علم کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ اس کی دعوت ایک ایسے دور کے لیے ہے جب علم سچائی کی بنیاد بن چکا ہے۔ جدید انسان اب توہمات کی نہیں علم کی بنیاد پر جیتا ہے۔ اور قرآن مجید اس کی طلب کا بہترین جواب ہے۔
مگر بدقسمتی سے سر دست یہ قرآن مجید بغیر سمجھے پڑھنے کے کام آتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اب مسلمان قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنا شروع کر دیں۔ جس کے بعد وہ اڑنے والے گھوڑوں کے بجائے چلنے والے گھوڑوں میں خدا کی عظمت کو تلاش کریں گے اور اسے دنیا کے سامنے بیان کریں گے۔ مسلمانوں کو یہ کرنا ہوگا۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے۔ وہ یہ نہیں کریں گے تو غیرمسلم خدا کا انکار کر کے مسلمانوں کی دنیا اور اپنی آخرت دونوں خراب کرتے رہیں گے۔