Take a fresh look at your lifestyle.

رب بول رہا ہے ۔ ابویحییٰ

قرآن مجید سے ہدایت کی جو تاریخ سامنے آتی ہے اس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک امت بنا کر دنیا میں بھیجا تھا۔ اس کی تفصیل قرآن مجید سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ انسانیت کا آغاز جس ہستی یعنی حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا تھا وہ اللہ تعالیٰ سے ہدایت پا کر اس دنیا میں تشریف لائے اور انسانیت نے اپنی زندگی کا آغاز کیا۔

اولاد آدم کو اول دن سے معلوم تھا کہ انھیں اللہ کی ہدایت کی پیروی کرنی ہے اور اس راستے میں شیطان ان کا سب سے بڑا دشمن ہے جو ہر قدم پر ان کی راہ کھوٹی کرنے کی کوشش کرے گا۔ حسب توقع ابتداء ہی سے شیطان نے اپنی کارفرمائی شروع کر دی۔ جس کے نتیجے میں انسانوں کی عملی گمراہیوں اور ظلم و تعدی کا آغاز ہوگیا ۔ اس کی ایک مثال قرآن مجید میں بیان کردہ قابیل و ہابیل کا واقعہ ہے۔ ہابیل اور قابیل نے اللہ کے حضور قربانی پیش کی۔ ہابیل کی قربانی قبول ہوگئی اور قابیل کی قربانی رد ہوگئی۔ اس پر قابیل نے حسد اور غصے کے شیطانی جذبات کا شکار ہوکر ہابیل کو قتل کر ڈالا۔

رفتہ رفتہ اس عملی گمراہی اور ظلم و تعدی کے ساتھ فکری اختلافات نے جنم لیا اور لوگ دین کی بنیادی ہدایت یعنی توحید کے بارے میں بھی اختلافات کرنے لگے۔ چنانچہ یہی وہ موقع تھا جب اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو بھیجا جو ان اختلافات میں درست بات کی طرف رہنمائی کرتے اور ساتھ میں صحیح رویہ اختیار کرنے والوں کو اللہ کی رحمت، نجات اور جنت کی خوشخبری سناتے اور بدکاروں کو خدا کی پکڑ اور اس کے غضب اور عذاب سے متنبہ کرتے۔

انبیا علیھم السلام وہ ہستیاں تھے جن پر اللہ کی ہدایت بذیعہ وحی نازل ہوتی۔ یہ وحی براہ راست انبیا کے قلب اطہر پر بھی اترتی اور اللہ کے فرشتوں کے ذریعے سے بھی ان تک پہنچائی جاتی۔ وحی کے ذریعے سے ملنے والی یہ ہدایت حضرات انبیا عام لوگوں تک پہنچاتے اور ان کی رہنمائی کرتے۔

تمدن کے ارتقا اور زمانی ضروریات کے پیش نظر ہدایت کے باب میں ایک اگلا قدم یہ اٹھایا گیا کہ بعد میں آنے والا انبیاء پر وحی کو کتابوں کی شکل میں مرتب کیا جانے لگا۔ اللہ کی مرضی، اس کی ہدایت، اس کا دیا ہوا قانون، اس کی حمد و ثنا کے طریقے اور اس کے فیصلے جو انبیاء کی زبانی لوگوں تک منتقل ہوتے، انھیں تحریری کلام کی شکل میں مرتب کر کے محفوظ کر دیا جاتا۔ یوں کتاب کی شکل میں مرتب کردہ ہدایت زیادہ وسیع حلقے تک پھیل جاتی اور انبیا کے رخصت ہونے کے بعد بھی لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کر کے ان کی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیتی۔

اس سلسلے کا آخری قدم وہ تھا جو نزول قرآن مجید کے وقت اٹھایا گیا۔ قرآن مجید کے معاملے میں یہ اہتمام کیا گیا کہ اللہ کی نازل کردہ وحی کے الفاظ حرف بحرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل کیے گئے اور آپ کی زبان مبارکہ سے دنیا کی تاریخ میں پہلی اور آخری دفعہ اللہ کا کلام اس کے اپنے منتخب کیے ہوئے الفاظ کی شکل میں محفوظ کیا گیا۔ یہی وہ چیز ہے جسے تورات میں نبی کریم علیہ السلام کی پیش گوئی کے وقت اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ میں اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور قرآن میں اسے یتلوا علیھم آیاتہ (وہ ان پر اللہ کی آیات تلاوت کرتا ہے) کے الفاظ سے بیان کیا گیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ اہتمام بھی کیا گیا کہ سلسلہ نبوت چونکہ ختم کیا جا رہا ہے اس لیے اس کلام کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا جائے۔ چنانچہ قرآن مجید پچھلی کتابوں کے برعکس ہر طرح کی تبدیلی و تحریف سے محفوظ ہے۔

قرآن مجید میں ایک مزید یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ جن بنیادی چیزوں پر انسان کی نجات موقوف ہے اسے کھول کھول کر اور دہرا دہرا کر اتنا زیادہ بیان کیا گیا ہے کہ کوئی احمق سے احمق آدمی بھی، اگر وہ ہدایت حاصل کرنے میں سنجیدہ ہے تو یہ سمجھنے میں غلطی نہیں کرسکتا کہ قرآن مجید کن چیزوں پر آخرت کی نجات موقوف قرار دیتا ہے۔ جن لوگوں کو اس بات کو مزید تفصیل سے سمجھنا ہے وہ راقم کی کتاب ’’قرآن کا مطلوب انسان‘‘ کا مطالعہ کر کے یہ دیکھ سکتے ہیں کہ قرآن مجید اپنے اصل مقصود کو بیان کرنے میں کتنا زیادہ واضح ہے۔

یہ عوام الناس کے لیے قرآن مجید کی حیثیت ہے۔ جبکہ اہل علم اور خواص کے لیے قرآن مجید کا اعجاز یہ ہے کہ وہ مشکل ترین علمی، مذہبی اور فلسفیانہ مسائل میں بھی ایک فیصلہ کن بات کہتا ہے۔ ایسے معاملات میں جب کوئی علمی اور ادبی ذوق کا شخص قرآن مجید کی طرف رخ کرتا ہے تو ہمیشہ اپنے دامن مراد کو بھر کر لوٹتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ قرآن مجید اب قیامت تک اللہ تعالیٰ کے قائم مقام ہے۔ جس طرح اللہ سے مانگ کر کوئی شخص نامراد نہیں رہ سکتا اسی طرح قرآن کا کوئی سائل خالی ہاتھ نہیں لوٹتا۔

مگر دور حاضر میں مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ وہ قرآن کو پڑھتے ہی نہیں۔ جو پڑھتے ہیں وہ بغیر سمجھے اس کے الفاظ دہرانے کو عبادت سمجھتے ہیں۔ جو سمجھ سکتے ہیں، وہ تدبر اور غور فکر کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ اس کے ساتھ ساتھ اکثر لوگ قرآن کی ہدایت کو سمجھنے سے قبل ہی اپنے نظریات میں پختہ ہوکر قرآن تک آتے ہیں۔ جس کے بعد قرآن مجید سے انھیں اپنی گمراہی کی تائید کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ یضل بہ کثیرا۔ ۔ ۔ وما یضل بہ الا الفاسقین۔

تاہم ماہ رمضان میں ہم میں سے ہر شخص کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ قرآن پڑھ کر گمراہ ہوجانے اور اپنے فسق کو اللہ کی نظر میں یقینی بنانے کے بجائے، اس سے ہدایت پائے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کے قائم مقام سمجھ کر اسے پڑھا جائے۔ اس یقین کے ساتھ کہ رب بول رہا ہے اور ہم سن رہے ہیں۔ اپنے دل کو ہر نظریے، تعصب اور خواہش سے خالی کر کے صرف اللہ کی بات سمجھنے کی غرض سے قرآن کا مطالعہ کیا جائے۔ کوئی بات سمجھ نہ آئے تو دو چار بڑے اہل علم کی تفاسیر اور اچھے اہل علم سے سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے بعد یقین جانیے کہ جنت کا راستہ آپ پر کھل جائے گا۔ ورنہ اطمینان رکھیے! جہنم ھل من مزید (کیا اور لوگ بھی ہیں؟) کی صدا ہر روز بلند کرتی ہے۔ جو لوگ قرآن کی آواز پر لبیک نہیں کہتے جہنم کی اس پکار کا جواب بننا ان کا مقدر ہوجائے گا۔