نادیدہ آنکھیں دیکھتی ہیں ۔ ہمایوں مجاہد تارڑ
گلی کی نکڑ والے گھر انے نے ایک عدد CCTV کیمرہ نصب کر رکھا ہے۔ یہ پوری گلی کے منظر کو کَور کرتا ہے ننّھا سا سیکیورٹی گارڈ ہے۔ بہت ضروری ہے کہ گلی میں وارد ہوئے ہر شخص پر نظر رکھی جا سکتی ہے کون، کب، کیوں، کس طرف سے، کس انداز میں، کتنی دیر کے لیے یہاں آیا، رُکا، اور کب، کس طرف سے، کس حالت میں نکلا۔۔۔؟
تاہم، میرے ساتھ ایک عجیب معاملہ ہے۔ اگرچہ یہاں ہم پرانے ہیں، اور کیمرے والے مخصوص گھر کے افراد (بہت عمدہ و شریف لوگ) ہمیں خوب اچھی طرح سے جانتے ہیں، بوجوہ کیمرہ کی موجودگی بعض اوقات مضطرب کرتی ہے: جب جب میرے ہاتھ میں تسبیح ہوتی ہے تو خیال آتا ہے کیمرہ کے عقب میں چھپی آنکھ یہ نہ خیال کر لے کہ میں نیک ہونے کی نمائش کر رہا ہوں۔ یہی احساس مسجد کی طرف جاتے سمے تکلیف دیتا ہے۔۔۔ پھر، کبھی اُس نکڑ پر کسی وجہ سے چند منٹوں کے لیے کھڑا ہونا پڑ جائے، تب دل میں یہ چور کھٹکتا ہے کہ نجانے دیکھنے والی آنکھ کیا سمجھ بیٹھے…… میں ہڑبڑا سا جاتا ہوں، اورجلدی سے وہاں سے ہٹ جاتا ہوں۔ دیکھا جائے تو ”نادیدہ کیمرے والی دو آنکھیں“ بھی یہی کام کر رہی ہیں۔ اور ایسی بے چینی اور اضطراب صرف اُنھی کے لیے روا ہے۔
بِن دیکھے خدا نے ایسے احساس، اضطراب، خوف، اور محبت میں برتے ہر معمولی عمل کے بدلے سحر انگیز مناظر اور سہولیات سے لدی بہشتیں بنا رکھی ہیں۔ ہماری ہر سوچ، نیت، اور عمل اُنستاروں، سیاروں کی رعنائیوں میں یا تو اضافہ کر دیتے ہیں یا اُنھیں بھیانک بنا ڈالتے ہیں۔ ایک حدیثِ مبارکہ چونکا دینے والی ہے۔ کہا، وہاں جنّتی اپنے سے اوپری رَینک والوں کو دیکھ دیکھ حسرت سے کہا کریں گے کہ کاش ہم نے فلاں نماز میں سُستی نہ برتی ہوتی، فلاں نماز ترک نہ کی ہوتی۔۔۔ دیکھیں، انصاف بھی یہی ہے!۔۔۔ ایک شخص بِن دیکھے خدا کی ہمہ دم دیکھتی نادیدہ آنکھوں کا خیال کر کے منہ اندھیرے بستر سے اُٹھتا ہے، وضو بنا کر اُس کے حضور سجدہ ریز ہو جاتا اور رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِیْنَا أَوْ أَخْطَأْنَا کی گڑگڑاہٹ اُس کے حضور پیش کرتا ہے بِن دیکھے خدا کو۔۔۔!!تو خدا کس قدر خوش ہوتا ہوگا، کس قدر!!۔۔۔ یا ایسے دکاندار سے جو ایک اَن پڑھ، جاہل کسٹمر کو expired آئیٹم اِس لیے دینے سے گریزاں ہے کہ بِن دیکھے خدا کی نادیدہ آنکھیں دیکھتی ہیں۔
جیتے جی اِقرار بالّلسان و تصدیق بالقلب والے اخلاص کے ساتھ خدا کی موجودگی اور اُس کے بڑے پن کا اقرار کر جانا اِس بات کی ٹکٹ ہے کہ آپ جہنّم کا ایندھن نہیں بن سکتے۔ حدیثِ مبارکہ موجود ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس بات کو بالکل واضح کیا ہے کہ جس کسی نے خلوصِ دل سے کلمہ پڑھا، پھر اُسی ایمان پر جان دی، وہ جہنّم سے خلاصی پا گیا۔ تاہم، قرض شہید کو بھی معاف نہیں۔ اِس دنیا میں ادا نہ ہوا تو بدلے میں نیکیاں وصول کی جائیں گی، اور اُس روز نیکیاں دینا بڑا بھاری پڑے گا۔ کیوں؟ وہاں کئی برسوں پر محیط طویل دورانیے حائل ہیں جنّت میں قدم رکھنے کو۔ خواری ہے!۔۔۔ جس شخص کے معاملات یہاں درست ہیں، اُس کے لیے جنّت میں داخلہ بھی آسان ہے۔ ورنہ ٹیڑھے میڑھے راستے اور بھوک پیاس سے لبریز کمر شکن مشکلات پر مبنی ہیں۔
یہ سازوسامان ہمیں تھما کر، اپنے ارادے کو استعمال کا فریبی اختیار سونپ کر، خاموش مگر وَیری پَاورفُل خدا کی نادیدہ آنکھیں ہمیں دیکھتی ہیں۔ کبھی رضا کے ساتھ اور کبھی ناراضی کے ساتھ۔ زندگی آڈیو کیسٹ والی رِیل کی طرح چل کر ختم ہو جاتی ہے۔ چھ فٹ قبر اُوپر سائیں سائیں کرتی ہوائیں سرگوشیاں کرتی ہیں: کہاں ہے وہ مال و متاع، وہ کرّو فر، وہ ناز و نخرے، وہ جولانیاں، رعنائیاں، تمہاری سب vanities۔۔۔؟
نادیدہ آنکھیں دیکھتی ہیں۔۔۔ بِن دیکھے خدا کے احساس میں اُٹھ کر بہ صد حُسنِ نیت خیر کے کسی کام کے لیے فکر مند ہونا، متحرّک ہونا اور متحرّک رہنا۔۔۔ بڑی بات ہے صاحب۔ بڑی بات!