Take a fresh look at your lifestyle.

خاموشی کی سزا ۔ ابویحییٰ

کچھ عرصے پہلے میں اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک ایسی سڑک سے گزرا جہاں حال ہی میں چار نوجوان ایک کار حادثے میں جاں بحق ہوگئے تھے۔ اس کے بعد میں نے حادثات کے حوالے سے چند حقائق ان کے سامنے بیان کیے جو قارئین کی خدمت میں بھی پیش ہیں۔

پاکستان میں انسانوں کی غیرطبعی موت کی سب سے بڑی وجہ ٹریفک حادثات ہیں۔ مگر چند بنیادی وجوہات کی بنا پر ہمارے ہاں یہ المیہ بالکل نگاہوں سے اوجھل ہوچکا ہے۔ پہلا یہ کہ ہمارے معاشرے میں انسانی جان بے وقعت ہوچکی ہے۔ کسی ایک انسان کی موت ہمارے ہاں کوئی خبر نہیں رہی۔ ہاں کسی ٹک ٹاک اسٹار کی خوبصورتی، کسی اداکار یا کھلاڑی کی زندگی کا معمولی سا واقعہ یا کسی سیاستدان کا بیان ہمارے لیے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ چنانچہ خبروں میں یہی کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ٹریفک حادثہ اسی وقت خبر بنتا ہے جب مرنے والوں کی تعداد زیادہ ہو۔

دوسرا یہ کہ خبر نہ بننے کے علاوہ حادثات میں مرنے والے اکثر لوگوں کی ایف آئی آر بھی درج نہیں ہوتی سوائے اس کچی ایف آئی آر کے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔ چنانچہ سرکاری ریکارڈ پر ساٹھ فی صد حادثات آتے ہی نہیں۔ تیسرے یہ کہ سالانہ مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہونے کے باوجود بائیس کروڑ آبادی کے وسیع و عریض ملک میں جو لوگ مرتے ہیں، ایک دن میں ان کی تعداد بہت کم محسوس ہوتی ہے۔ ورنہ کوئی جہاز گرجائے جس میں سو پچاس لوگ مر جائیں تو لوگوں کو برسوں یہ بات یاد رہتی ہے، لیکن لاکھ کے لگ بھگ لوگ ہر سال مرتے ہیں اور کسی کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی۔

یہ تفصیلات اپنی اہلیہ کو بتانے کے ساتھ میں نے ان کو اس خاص حادثے کے بارے میں بھی بتایا کہ یہ حادثہ کیوں پیش آیا۔ اس حادثے میں نوجوان خالی سڑک پر انتہائی تیز رفتاری سے گاڑی چلا رہے تھے۔ ان کے آگے ایک موٹر سائیکل والا جارہا تھا جس کی بیک لائٹ نہیں جل رہی تھی۔ رات کے اندھیرے میں اگلی گاڑی کی بیک لائٹ نہ ہو تو قریب پہنچے بغیر اس کا نظر آنا مشکل ہوتا ہے۔ ان نوجوانوں کی کار اتنی تیز تھی کہ جب تک انھیں موٹر سائیکل نظر آئی، بریک لگانے کا موقع نہیں بچا تھا۔ چنانچہ غیرشعوری طور پر ڈرائیور نے اسٹیرنگ موڑا اور تیز رفتار گاڑی بے قابو ہوکر سڑک پر بنے اوور ہیڈ برج کے ستون سے ٹکرا گئی۔ چاروں نوجوان موقع پر جاں بحق ہوگئے۔ چار خاندانوں میں صف ماتم بچھ گئی اور موٹرسائیکل سوار اطمینان سے اپنے گھر چلا گیا۔

میں جائے حادثہ پر اپنی اہلیہ کو جب یہ واقعہ سنا رہا تھا تو اپنے گھر سے تقریبا چند کلومیٹر دور تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ چلیں ایک مشاہدہ کرتے ہیں کہ گھر تک پہنچتے ہوئے ہمیں کتنی گاڑیاں ایسی ملتی ہیں جن کی بیک لائٹ نہیں ہوتی۔ ہم نے گننا شروع کیا اور پندرہ منٹ میں گھر پہنچتے پہنچتے تیرہ موٹر سائیکلیں اور ایک گاڑی راستے میں ایسی ملی جو بیک لائٹ بند کیے ہمارے آگے جارہی تھیں۔ کسی نے یہ زحمت گوارا نہیں کی تھی کہ اسے ٹھیک کرا کر گاڑی چلائیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی قاتلانہ غفلت جب اس حد تک بڑھ جائے تو قانون کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اس میں اصل قصور ہمارے اس قومی شعور کا ہے کہ ہم نے روڈ سینس جیسی بنیادی چیز کو اپنے نصاب کا حصہ نہیں بنایا۔ یہ ٹی وی چینلز کا موضوع نہیں۔ یہ حکومت اور دانشوروں کا مسئلہ نہیں۔ یہ افراد قوم کی موت ہے اور قوم کا درد سر نہیں ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہماری قومی، سرکاری، دانشورانہ اور صحافیانہ ترجیحات مجرمانہ حد تک غلط ہوچکی ہیں۔ اس طرح کے اجتماعی جرم کی سزا ایک ایک کرکے معاشرے کے تمام افراد کو ملتی ہے۔ کسی خاندان میں صف ماتم آج بچھی ہے، کسی میں دس سال بعد بچھے گی۔ اس لیے جو سارے لوگ سو رہے ہیں وہ جان لیں، ماتم جلد یا بدیر آپ کے گھر میں آئے گا۔ آپ کو آپ کی مجرمانہ خاموشی کی سزا ضرور ملے گی۔