مدر ٹریسا کا سبق ۔ ابویحییٰ
مدرٹریسا (1910-1997) کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی ساری زندگی انسانیت کے لیے وقف کر دی۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں کئی عالمی ایوارڈ بشمول نوبل انعام، عطا کیے گئے۔ حال ہی میں مدر ٹریسا کے خطوط پر مشتمل ایک کتاب Mother Treesa: come be my light) شائع ہوئی ہے۔ ان خطوط سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مدر ٹریسا جو کیتھولک چرچ سے وابستہ ایک نن تھیں، مذہبی اعتقدات کے بارے میں شکوک کا شکار تھیں۔ انہیں سینٹ کی سطح کا ایک بلند رتبہ مذہبی شخص سمجھا جاتا تھا، مگر اب معلوم ہوا کہ وہ خدا اور ایمان کے بار ے میں بے یقینی کا شکار رہیں۔
مدر ٹریسا کی زندگی کے تفصیلی مطالعے سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا ہوگا۔ ان کی پرورش ان کے کٹر مذہبی والدین نے بطور ایک نن کے کی۔ 18 سال کی عمر میں وہ غریبوں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں حصہ لینے کے لیے یک آئرش مشنری تنظیم سے وبستہ ہوگئیں۔ 1929 میں انڈیا آئیں اور اس تنظیم کے تحت چلنے والوں اسکولوں میں بچوں کو پڑھانے لگیں۔ اس کام کو انہوں نے اتنے جی جان سے کیا کہ وہ شدید بیمار پڑ گئیں۔ افسران نے انہیں تبدیلی آب و ہوا کے لیے دارجلنگ بھیجا اور یہیں انہیں خواب میں مسیح کی زیارت ہوئی۔ اس خواب میں انہیں انتہائی غریب طبقات کی مدد کا حکم ہوا۔ اس طرح کے خواب انہیں بار بار آتے رہے۔ چنانچہ انہوں نے غریبوں کی مدد کے لیے اپنی ایک فلاحی تنظیم مشنریز آف چیریٹی قائم کی۔ جس سے وابستہ ہزاروں افراد آج دنیا بھر میں لاکھوں ضرورت مندوں کی مدد میں مصروف ہیں۔ لیکن اس تنظیم کے تحت انہوں نے جیسے ہی اپنے کام کا آغاز کیا تو انہیں یہ احساس ہوا کہ خدا موجود نہیں۔ انہیں یہ احساس 1948 میں کلکتہ میں غربت کے ہاتھوں دم توڑتے لوگوں کے درمیان میں ہوا اور پھر تاعمر اس احساس نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔
مدر ٹریسا کی زندگی کی یہ تفصیلات ان کے معاملے کو صاف بیان کرتے ہیں۔ ایک کٹر مذہبی ماحول میں پرورش نے ان کی زندگی کی راہیں متعین کر دیں۔ انہوں نے مشنری کاموں یسے زندگی کا آغاز کیا۔
مسیحی مذہب کے عقائد چونکہ عقل کی کسی بنیاد پر پورے نہیں اترتے، اس لیے اس مذہب کے پیروکاروں میں مسیحی کی قربانی اور ان پر گہرے ایمان پر بڑا زور دیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں خوابوں کی وہ دنیا آباد ہوتی ہے جس کا ظہور مدر ٹریسا کی زندگی میں بھی ہوا۔ وہ چونکہ ایک بے حد حساس اور اپنے کام سے مخلص شخصیت تھیں، اس لیے انہوں نے پہلے تعلیم کے کام اور پھر خدمت خلق کے کام کو بھی اسی تندہی سے کیا۔ لیکن تعلیم کے کام کے برعکس غریبوں کی مدد کرتے ہوئے انہوں نے وہ اندوہناک مناظر دیکھے، جو ایک حساس آدمی کو ہلا ڈالنے کے لیے بہت ہیں۔
افلاس، غربت، بیماری، معذوری اور بے کسی کی موت کو کوئی بھی انسان جب قریب سے دیکھتا ہے تو اس کا تڑپ اٹھنا بالکل فطری ہے۔ خاص کر ایک ایسے مسیحی کے لیے جسے ہر وقت خدا کی رحمت اور محبت کا درس دیا جاتا ہو۔ اگر اس کی عقل بالکل کند نہ کر دی جائے تو وہ یہ فطری سوال کرے گا کہ افلاس کی اس دنیا میں خدا کی رحمت کہاں ہے۔ بیماری اور مایوسی کی اس دنیا میں خدا کیوں خود ظاہر نہیں ہوتا۔ مسیح کی شکل میں غیر معمولی معجزات دکھانے والا خدا اس وقت کہا ں ہے۔
ان سوالوں کے جواب مذہبی لوگ بھی دے سکتے ہیں، مگر ایک حساس انسان اس سے کم پر مطمئن نہیں ہو سکتا کہ خدا خود آ کر اسے اصل بات بتائے ۔ظاہر ہے کہ یہ ممکن نہیں سوائے اس کے کہ ایک شخص براہ راست قرآن پڑ ھے ۔ قرآن خدا کا زندہ و جاوید کلام ہے جس میں انسان کے ہر سوال کا جواب اللہ تعالیٰ خود دیتے ہیں۔ وہ قرآن میں بتاتے ہیں کہ انہوں نے ہی دنیا میں موت و زندگی کا سلسلہ رکھا ہے اور وہی انسانوں کو اچھے برے حالات سے آزماتے ہیں تاکہ وہ دیکھیں کہ لوگ ان حالات میں کیسے کام کرتے ہیں۔ ان کے کاموں ہی کی بنیاد پر ہو قیامت کے دن یہ فیصلہ کریں گے کہ کسے جنت کی ہمیشہ رہنے والی نعمتیں ملیں گی اور کسے جہنم کا عذاب۔ پھر وہ قرآن میں آخرت کی زندگی کا نقشہ اتنے یقین اور تفصیل سے کھینچتا ہے کہ ہر دکھی دل صبر کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور ہر مایوس امید کی روشنی پالیتا ہے۔
آج کے انسان کو اگر شک اور مایوسی کے صحرا سے نکلنا ہے تو اسے قرآن کو اپنا رہنما بنانا ہوگا۔ کیونکہ قرآن ہی آج کے ہر حساس انسان کے سوالات کا جواب ہے۔