Take a fresh look at your lifestyle.

میں یہاں سے گزر رہا تھا ۔ جاوید چوہدری

میرے ایک تیس سال پرانے دوست ہیں، پڑھے لکھے اور دانشور ہیں، ملک سے باہر رہتے ہیں، لہٰذا ملاقاتیں نہ ہونے کے برابر ہیں، فون پر بھی بہت کم بات ہوتی ہے، دو دن پہلے ان کا آڈیو پیغام آیا کہ میرا بھائی ملتان سے اپنے کسی دوست کو آم بھجوا رہا ہے، میں نے سوچا میں اسے کہہ دوں وہ تمہیں بھی بھجوا دے، کیا تم بس کے اڈے سے لے لو گے اور یہ بھی بتا دو، کیا تم آم کھاتے بھی ہو یا پھر نہیں۔

میں پیغام سن کر ہنس پڑا اور مجھے وہ لطیفہ یاد آگیا جس میں میزبان نے مہمان سے کہا تھا، آپ کھانا نوش فرمائیے، ہم نے ویسے بھی ڈسٹ بین میں ہی پھینکنا تھا، میں نے ان کو جوابی پیغام بھجوایا۔

جناب! آپ کا بہت شکریہ، آپ نے مجھے اس قابل سمجھا، میں آم نہیں کھاتا، لہٰذا آپ ہرگز تکلیف نہ کریں، دوسرا اسلام آباد سے ہر چیز مل جاتی ہے تاہم میں آپ کو صرف سمجھانے کے لیے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تحفہ ایک نفیس چیز ہوتی ہے، اس کے بھی آداب ہوتے ہیں، آپ جب کسی کو کہتے ہیں میرا بھائی کسی کو بھجوا رہا تھا تو میں نے سوچا میں آپ کو بھی بھجوا دوں یا آپ فلاں جگہ جا کر اپنا تحفہ وصول کرلیں گے یا آپ یہ کھاتے بھی ہیں یا نہیں تو یہ دوسرے کی بے عزتی ہوتی ہے، اس کا مطلب ہوتا ہے آپ دوسرے کو کم تر سمجھ رہے ہیں، تحفے عزت افزائی ہوتے ہیں، ان میں دوسروں کی عزت نفس کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ میرے دوست مائینڈ کر گئے، ان کا خیال تھا میں ان کے خلوص، ان کی محبت کو نہیں سمجھ سکا، چنانچہ انہوں نے میرے ساتھ قطع تعلق کا اعلان کر دیا۔

میں اس کے بعد دیر تک افسوس کرتا رہا، میرا خیال تھا مجھے یہ نہیں کہنا چاہیے تھا، چپ چاپ سہہ جانا چاہیے تھا لیکن پھر سوچا اگر سب لوگ ایسی غلطیوں پر خاموش رہیں گے، تعلقات بچانے کی فکر کرتے رہیں گے تو پھر ہم اپنی اصلاح کیسے کریں گے؟ آپ اس مثال ہی کو لے لیجیے، میرے دوست یہ بھی کہہ سکتے تھے، آپ اپنا ایڈریس دے دیجیے، میں آپ کو آم بھجوانا چاہتا ہوں۔

یہ ایک باعزت طریقہ ہوتا، تین جوتے مارنے کی کیا ضرورت تھی لیکن سوال یہ ہے کیا یہ غلطی صرف میرے اس دوست نے کی؟ جی نہیں! ہم میں سے زیادہ تر لوگ عموماً ایسی باتیں کر دیتے ہیں۔ میں خود بھی ایسی غلطیاں کرتا تھا اور میرے سینئر میری اصلاح کرتے تھے، مثلاً میں 1996ء میں لالہ موسیٰ سے اسلام آباد آرہا تھا۔ میں نے نئی نئی مہران گاڑی خریدی تھی اور خود کو ٹاٹا اور برلا سمجھتا تھا، چودھری فضل حسین میرے استاد تھے، یہ زمین دار کالج گجرات کے پرنسپل رہے تھے، ان کے شاگرد پوری دنیا میں پھیلے ہوئے تھے اور میں نے زندگی میں ان سے زیادہ نفیس اور شان دار شخص نہیں دیکھا، وہ سرتاپا حس مزاح بھی تھے۔ ان کی ہر بات پھلجھڑی ہوتی تھی، وہ کالج میں روز صبح اسمبلی کے وقت چھوٹی سی تقریر کرتے تھے، پورا کالج اور گرد و نواح کے لوگ ان کی تقریر سننے صبح آٹھ بجے کالج پہنچ جاتے تھے اور پیٹ پکڑ کر لوٹ پوٹ ہو جاتے تھے، چودھری صاحب جہلم میں رہتے تھے، وہ کسی فنکشن کے لیے لالہ موسیٰ آئے ہوئے تھے۔

میں نے انہیں راستے میں ڈراپ کرنے کی پیش کش کر دی، چودھری صاحب خوش دلی سے میرے ساتھ جانے کے لیے تیار ہوگئے، وہ گاڑی میں سوار ہونے لگے تو میں نے شوخی میں آکر نیچ حرکت کر دی، میں نے ہنس کر کہا سر آپ کہاں بس پر خوار ہوں گے، میں جہلم سے گزر کر جا رہا ہوں، میں آپ کو راستے میں چھوڑ دوں گا۔

چودھری صاحب نفیس اور شان دار انسان تھے، وہ مسکرا کر بولے، بیٹا میں پوری زندگی بسوں پر خوار ہوا ہوں، میں آج بھی خوار ہوسکتا ہوں لیکن میں نے سوچا، میں ایک گھنٹہ آپ جیسے پڑھے لکھے نوجوان کی کمپنی سے لطف لے لیتا ہوں۔ میری کمر تک پسینے میں تر ہوگئی، مجھے آج بھی جب یہ واقعہ یاد آتا ہے تو میں شرمندہ ہو جاتا ہوں۔

لیکن وہ دن ہے اور آج کا دن میں نے زندگی میں جب بھی کسی کو لفٹ دی یا کسی کے لیے گاڑی بھجوائی تو ہمیشہ عاجزی سے عرض کیا، سر آپ اگر میرے ساتھ جائیں گے تو یہ میری عزت افزائی ہوگی، مجھے آپ سے سیکھنے کا موقع ملے گا یا پھر سر میرا ڈرائیور وہ جگہ اچھی طرح جانتا ہے، یہ آپ کو آسانی سے لے جائے گا یا لے آئے گا، اس سے آپ کا بہت سا وقت بچ جائے گا۔

ہم میں سے اکثر لوگ یہ غلطی بھی کرتے ہیں، یہ کسی کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں، میں ادھر سے گزر رہا تھا میں نے سوچا آپ سے بھی مل لوں۔ آپ ذرا فقرے کے اندر جھانک کر دیکھیے یعنی یہ بڑے آدمی ہیں، انہوں نے یہاں سے گزر کر اور آپ کے دفتر یا گھر تشریف لا کر بہت احسان فرمایا اور دوسرا یہ آپ کو اتنا فارغ اور فضول سمجھ رہے ہیں کہ یہ آپ کے پاس جب چاہیں آجائیں اور آپ پر فرض ہے آپ دروازے اور بانہیں کھول کر کھڑے ہو جائیں۔

آپ کوشش کریں یہ غلطی نہ کریں، آپ اگر کسی سے ویسے ہی گزرتے گزرتے ملنا چاہتے ہیں تو بھی فون کریں اور یہ کہیں میں اگر ابھی آپ کے پاس آجاؤں تو کیا آپ سے ملاقات ہوسکتی ہے اور وہ اگر اجازت دیں تو آپ مل لیں ورنہ کسی دوسرے دن خصوصی طور پر ان سے ملنے کے لیے چلے جائیں، یوں ہی چلتے چلتے یا گزرتے گزرتے کسی سے ملنا زیادتی ہے۔

ہم میں سے بے شمار لوگ کسی کو کپڑے یا جوتے دیتے ہوئے بھی فرما دیتے ہیں میں نے یہ سوٹ، یہ شرٹ یا پتلون خریدی تھی لیکن یہ تنگ یا ڈھیلی نکلی، میں نے سوچا یہ میں آپ کو دے دوں یا نیا جوتا نکالیں گے اور کہیں گے یہ میں نے لندن سے خریدا تھا، یہ مجھے تنگ ہے، یہ آپ لے لیں، یہ بھی دوسرے شخص کی سیدھی سادھی بے عزتی ہے۔

آپ اس کے بجائے وہ کپڑے یا جوتے پیک کروا کر اپنے کسی ورکر یا کسی ضرورت مند کو دے دیں، آپ کو ثواب بھی ملے گا اور دل کو تسلی بھی ہوگی اور آپ نے اگر واقعی غلط سائز کے جوتے یا کپڑے خرید لیے ہیں اور آپ نے یہ استعمال نہیں کیے اور یہ آپ اپنے کسی دوست ہی کو دینا چاہتے ہیں تو آپ اسے ری پیک کرائیں اور اپنے دوست یا عزیز رشتے دار کو دے دیں۔ وہ خوش ہوجائے گا، یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے یہ مجھے تنگ یا ڈھیلا تھا لہٰذا تم لے لو، اس رویے سے آپ کی چیز بھی ضائع ہو جاتی ہے اور دوسرے کا دل بھی ٹوٹ جاتا ہے، میرے سامنے ایک بار میرے ایک جاننے والے نے اپنے ایک دوست کے ساتھ یہ سلوک کیا تھا، اس نے اسے رسل اینڈ براملے کا نیا جوتا دیا اور کہا یہ میں نے لندن سے پانچ سو پاؤنڈ کا خریدا تھا۔ یہ مجھے تنگ ہے، میں نے ایک دن بھی نہیں پہنا، یہ تمہیں آجائے گا، تم لے لو۔ یہ سن کر سامنے موجود شخص کا چہرہ سرخ ہوگیا، اس نے جوتا لیا، اپنا ڈرائیور بلایا اور اسے جوتے دے کر بولا، بیٹا! یہ نوید صاحب آپ کے لیے لندن سے لائے ہیں، آپ انہیں پہن کر دکھاؤ، ڈرائیور خوش ہوگیا، اس نے اپنے میلے جوتے اتارے، نیا جوتا پہنا، چل پھر کر تسلی کی اور جھک کر نوید صاحب کو سلام پیش کیا۔ نوید صاحب کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا اور ایک جا رہا تھا۔

ہم پنجابی قیمت پوچھنے کی علت کا شکار بھی ہیں، ہمیں اگر کسی کی شرٹ، کرسی، میز، گھر یا گاڑی پسند آجائے گی تو ہم اس سے فوراً اس کی قیمت پوچھ لیں گے، ہم اس سے گھر یا فلیٹ کا رقبہ بھی پوچھیں گے مثلاً یہ کتنے مرلے میں ہے، بنانے میں کتنا ٹائم لگا اور کتنا خرچ ہوا؟ اور یہ شرٹ کہاں سے لی اور کتنے میں لی، یہ بھی دوسرے کی بے عزتی ہوتی ہے۔

آپ کو اگر کسی کے کپڑے اچھے لگ رہے ہیں تو آپ کھل کر ان کی تعریف کریں، وہ اگر مناسب سمجھے گا تو آپ کو درزی یا برینڈ کا نام بتا دے گا، آپ وہ یاد رکھ لیں اور واپس جا کر درزی یا دکان دار سے تفصیل پوچھ لیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو آپ کھل کر تعریف کریں، گھر جائیں، وہاں سے فون کریں اور اس سے برینڈ یا درزی کے بارے میں پوچھ لیں لیکن قیمت اس وقت بھی نہ پوچھیں، کیوں؟ کیوں کہ قیمت پوچھنے کا مطلب ہوتا ہے آپ چیزوں کو جمالیاتی حس کی بجائے بیوپاری یا قصائی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور آپ کی نظر میں چیز کی نہیں، قیمت کی ویلیو ہے اور یہ حرکت ناشائستہ بھی ہے اور چیپ بھی۔ میں ایک بار روم میں کسی کا مہمان تھا، میرا میزبان شان دار کلچرڈ انسان تھا، میں اس کی شرٹ کا عاشق ہوگیا۔ میں نے جی بھر کر اس کی تعریف کی، وہ خوش ہوگیا، کھانے کے دوران اس نے میری فضول سی شرٹ کی تعریف کی اور باتوں ہی باتوں میں پوچھا، مجھے اس کا کالر 40 لگ رہا ہے، میں نے فوراً جواب دیا نہیں، یہ 41 ہے اور یہ قطعاً اچھی نہیں، اس نے کہا، مجھے تو یہ بہت اچھی لگ رہی ہے، ہم نے کھانا کھایا، میں ہوٹل واپس آگیا۔

اگلی شام میرے میزبان کا ڈرائیور آیا اور مجھے اس کی طرف سے ایک گفٹ پیک دے گیا، میں نے کھولا تو وہ اسی طرح کی شرٹ تھی جیسی اس نے رات پہن رکھی تھی، میں خوش ہوگیا، میں نے اگلے دن اس کو دو برینڈڈ ٹائیاں بھجوا دیں، وہ بھی خوش ہوگیا جب کہ میں زمانہ جاہلیت میں کیا کیا کرتا تھا؟ میں فوراً چیز کی قیمت اور دکان پوچھ لیتا تھا اور دوسرے بے چارے کا منہ بن جاتا تھا۔

یہ یاد رکھیں تحفہ سنت ہے، یہ ایک مقدس اور نفیس چیز ہوتا ہے لہٰذا ہمیں چاہیے ہم جب کسی کو تحفہ دیں تو سنت سمجھ کر، عبادت سمجھ کر دیں، عزت اور احترام کے ساتھ دیں، اسے خیرات نہ بنا دیں، اس سے دوسروں کے دل ٹوٹ جاتے ہیں۔