Take a fresh look at your lifestyle.

مسجد میں جھوٹ ۔ خطیب احمد

آج عشا کی نماز پڑھنے جب مسجد گیا تو میرے ساتھ ایک بظاہر فالج زدہ شخص اپنی ٹانگیں کھینچتا ہوا آکر بیٹھ گیا۔ جب سلام پھیرا گیا تو اس نے مشکل سے کھڑے ہوتے ہوئے اعلان کیا کہ مجھے فالج ہے گھر میں بچیاں ہیں فاقے ہیں کچھ مدد کریں۔

میں اسپیشل ایجوکیشن کا طالب علم ہوں اور میری ماسٹرز و ایم فل میں اسپیشلائزیشن جسمانی معذوریاں ہی تھی۔ مجھے بھیک مانگنے کے پوائنٹس پر بظاہر معذوری کے حامل افراد کو دیکھ کر یہ جانچنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی کہ یہ واقعی کسی معذوری کا شکار ہیں یا کپڑوں میں ٹانگ بازو چھپا کر بیساکھیاں پکڑ کر ڈراما کر رہے ہیں۔ یہ سب ڈراما ہم روز میڈیا پر دیکھتے ہیں کیسے کچھ لوگ یا پولیس والے ان کو بے نقاب کرتے اور ان کی دوڑیں لگتی ہیں۔ یہ ڈراما اب مسجدوں میں بھی آچکا ہے۔ خیر جس طرح ان صاحب نے کھڑے ہو کر بات کی ایک فالج زدہ فرد یا جیسی وہ ٹانگیں گھسیٹ کر چال چل رہے تھے اس معذوری کو (Cerebral Palsy) کہا جاتا ہے۔ اس میں متاثرہ فرد اس روانی سے بول ہی نہیں سکتا۔

زبان میں لکنت آجاتی ہے ایک لفظ بھی ٹھیک سے ادا نہیں ہوتا بولا بھی جائے تو اس اسپیچ کا اور چلنے کا ایک خاص پیٹرن ہوتا ہے سر اور ہاتھوں کی غیر ارادی حرکات ہوتی ہیں جسے ڈاکٹرز کے علاوہ اس فیلڈ کے متعلقین بھی پہچان لیتے ہیں۔

خیر نماز کے بعد وہ صاحب باہر نکلے جب سب نمازی گلیوں میں چلے گئے وہ گھسٹتی ہوئی ٹانگوں سے اندھیرے میں جاتے جاتے قدم بقدم ٹھیک ہوتے گئے اور میرے سامنے بالکل ٹھیک چل کر نظروں سے اوجھل ہوگئے۔

بھیک مانگنے والوں کا عموماً یہ طریقہ واردات ہوتا ہے کہ وہ خود کو کسی معذوری کا حامل شخص ظاہر کرتے ہیں جبکہ میرا ذاتی مشاہدہ و تجربہ ہے ان میں سے اکثریت ڈراما کر رہی ہوتی عوام کو دھوکا دے رہی ہوتی اور اب یہ دھوکا مسجدوں میں بھی دیا جانے لگا ہے۔ بھیک مانگنے کے لیے بولے جانے والے جھوٹ اب مسجدوں میں بلا خوف و خطر بولے جا رہے ہیں۔ تاہم بہت سی مساجد میں اس طرح کی مدد کی اپیل پر پابندی عائد کر دی گئی ہے جو ایک احسن اقدام ہے۔ میں کسی بھکاری کو پیسے نہیں دیتا چاہے وہ پانچ روپے کا سکہ ہی کیوں نہ ہو کہ یہ ایک پیشہ بن چکا ہوا ہے میں جب کرنی ہو اپنے سرکل میں موجود سفید پوش لوگوں کی مدد کر دیتا ہوں جو مدد کا سوال نہیں کرتے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔

کیا وہ خدائے برتر جس کے گھر میں آکر یہ دھوکا دیا جانے لگا ہے جہاں لوگ آج بھی سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کو لے کر جاتے ہیں کہ یہ جیسا بھی ہو مسجد میں تو جھوٹ نہیں بولے گا وہاں اس خدا کو پتا نہیں کہ یہ میرا بندہ کیا کر رہا ہے؟ وہ اس کے جھوٹ کو سچ کرنا چاہے تو اسے کتنی دیر لگے گی؟ اس کے جھوٹ کو ظاہر بھی کرنا چاہے تو اسے کون روک سکے گا؟ مگر خدا کا طریقہ کار انسانوں جیسا بالکل نہیں ہے۔ وہ اپنے گناہگار بندوں کو مہلت دیتا ہے کہ میری طرف پلٹ آؤ اس سے پہلے کہ میں تمہاری طرف آؤں۔

وہ اپنی زمین پر اور اپنے گھر میں آئے ہوئے بندے کے ڈرامائی جھوٹ و فریب پر بھی سالوں سال پردہ ڈالے رکھتا ہے مگر یقین مانیں یہ سب پردے بہت جلد ہٹا دیے جائیں گے میری اور آپ کی یہ آنکھ کسی بھی لمحے بند ہوجائے گی اور وہ سب کچھ جو ہم مسجد یا مسجد سے باہر کسی بھی جگہ چھپ کر یا علانیہ کر رہے ہیں خود کو یا خدا کو دھوکا دے رہے ہیں جس کا ہمیں یا ہمارے خدا کو علم ہے پوری کائنات کے سامنے میدان عدل میں ظاہر کر دیا جائے گا۔

اس دن خدا کوئی ایسا پردہ نہ ڈالے گا جو آج ہمارے گناہوں پر اس نے اپنے رب ہونے کے واسطے ڈالا ہواہے کہ میرے بندے آج تیرے پاس وقت ہے لوٹ آ میں تجھے نہ یہاں تیرے اعزا و اقارب میں رسوا کروں گا نہ روز محشر پوری دنیا کے سامنے تیرا پردہ فاش کروں گا۔ بس تو لوٹ آ اور تیرے گناہ ایسے ہی چھپے کے چھپے رہ جائیں گے۔ ہاں کسی بندہ مومن کے ساتھ کسی بھی طرح کا دھوکا کیا ہے اس سے زندگی میں معافی مانگ لینا وہ میں بھی معاف نہیں کروں گا۔

مگر ہم میں سے کتنے ہیں جو زندگی کی اس مہلت کو موت سے پہلے غنیمت سمجھ کر خدا کو نہیں بلکہ خود کو دیے جانے والے دھوکے سے نکال کر اس کے در پر دل سے سر بسجود ہو جائیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں وہ ذات معاف کرنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگائے گی۔