Take a fresh look at your lifestyle.

مذہب اور ریاست ۔ ابویحییٰ

دور جدید میں مغربی افکار کے عروج سے قبل انسانی معاشرے عام طور پر مذہبی ہوا کرتے تھے جن پر اہل مذہب کی گہری گرفت ہوتی۔ چنانچہ اہل اقتدار کی ہر دور میں یہ کوشش ہوتی تھی کہ اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے اہل مذہب سے بنا کر رکھی جائے یا پھر خود ہی مذہبی تقدس حاصل کر لیا جائے۔ حکمرانوں کے مذہبی تقدس حاصل کرنے کی ایک قدیم مثال فراعین کا مصر تھا جس میں بادشاہوں کو خدا کی اولاد سمجھا جاتا تھا۔ جبکہ اہل مذہب کی طاقت کو قبول کر کے ان سے بنا کر رکھنے کی مثال ازمنہ وسطیٰ کا یورپ تھا جس میں پوپ کو غیر معمولی قوت حاصل تھی۔

مذہب اور ریاست کے اس گٹھ جوڑ کا ایک نتیجہ مذہبی جبر کی صورت میں نکلتا۔ زمانہ قدیم میں ہزاروں برس تک یہی وہ صورتحال تھی جس میں شرک کو ریاستی سرپرستی حاصل رہی اور انبیائے کرام کے پیروکاروں کو توحید قبول کرنے کی پاداش میں زبردست ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ انبیا و رسل نے ہمیشہ اس مذہبی جبر کے خلاف جنگ کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اللہ کا حکم یہی تھا کہ مشرکین کے اس جبر یا فتنہ کے خلاف جنگ کر کے اسے ختم کر دیں۔

مغرب کو اس مذہبی جبر سے ذرا دیر سے نجات ملی۔ مگر جب ان کو نجات ملی تو انھوں نے مذہب ہی سے چھٹکارا پانے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ چھٹکارا ان معنوں میں نہیں تھا کہ فرد کی زندگی سے اسے نکال دیا جائے، بلکہ اس معنی میں تھا کہ ریاست کے معاملات میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔ اگرچہ کمیونزم کی شکل میں جبر کی ایک دوسری شکل بھی جدید دنیا میں نمودار ہوئی جو اپنی نوعیت میں مذہب مخالف تھی۔ تاہم دنیا میں عمومی طور پر مغربی سیکولرازم ہی کو قبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اور یہی اب جدید دنیا میں حکمرانی کا بنیادی ضابطہ مان لیا گیا ہے کہ ریاست اپنے باشندوں کے مذہب کے بارے میں غیر جانبدار ہوگی۔

یہی وہ پس منظر ہے جس میں قیام پاکستان کے بعد سے ہمارے ہاں ریاست اور مذہب کے تعلق کے حوالے سے ایک بحث جاری ہے۔ حالیہ برسوں میں دہشت گردی اور اقلیتوں کے ساتھ پیش آنے والے بہت سے واقعات کی بنا پر ایک دفعہ پھر یہ بحث تازہ ہوگئی ہے۔ سیکولر ازم کے موئدین قائد اعظم کی قانون ساز اسمبلی سے تقریر کے حوالے سے یہ نقطہ نظر پیش کرتے ہیں کہ وہ ایک سیکولر ریاست کا قیام چاہتے تھے جس میں ریاست کسی مذہب کی نمائندہ نہ ہو، وہ کسی شہری سے مذہب کی بنیاد پر تفریق نہ کرتے ہوئے ہر طرح کی مذہبی آزادی کو یقینی بنائے۔ جبکہ دوسرا نقطہ نظر تحریک پاکستان میں مذہب کے کردار اور قائد اعظم کی دیگر تقاریر کی بنیاد پر یہ رائے رکھتا ہے کہ قائد اعظم پاکستان کو ایک اسلامی ریاست ہی بنانا چاہتے تھے۔

ہمارے نزدیک اس نزاع کو ماضی کے بجائے حال میں رہ کر حل کرنا چاہیے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان ایک جمہوری عمل کے ذریعے حاصل ہوا۔ کچھ انتہا پسندوں کو چھوڑ تمام سیکولر اورمذہبی عناصر بھی پاکستان کو جمہوری ریاست ہی مانتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس ملک کی غالب ترین اکثریت مسلمان ہے۔ وہ اسلام کو اپنا مذہب کہتی ہے۔ اور اسلام کے متعلق یہ بات معلوم ہے کہ وہ ریاست کے معاملے میں خاموش نہیں ہے۔ وہ حکمرانوں کو مذہبی ذمہ داریاں تفویض کرتا ہے اور مذہبی بنیادوں پر بہت سے ایسے احکام دیتا ہے جن کا نفاذ صرف حکمران ہی کرسکتے ہیں۔

چنانچہ یہ طے ہے کہ کوئی مسلم معاشرہ اگر واقعی مسلم ہے تو پھر وہ سیکولر نہیں ہوسکتا۔ تاہم یہ ’’اگر‘‘ ایک بہت بڑا اگر ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کی اکثریت دین کا شعور رکھتی ہو۔ ایک پرُجوش مذہبی اقلیت اگر دباؤ ڈال کر اپنی تعبیر دین کو قانونی سطح پر نافذ بھی کروا دے تو معاشرتی سطح پر اس کے کوئی مثبت اثرات نہیں نکلیں گے۔ بلکہ یہ طرز عمل الٹا اسلام کی بدنامی کا سبب بنے گا۔ بدقسمتی سے ریاست پاکستان یہ سارے مراحل دیکھ چکی ہے۔ اب بعض مذہبی عناصر دستوری اسلامائزیشن کے اس تجربے کی ناکامی کے بعد بالجبر اقتدار پر قبضہ کر کے اپنا خاص فہم اسلام لوگوں پر نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ حل اول تو قابل عمل ہی نہیں اور سوائے دہشت گردی اور فساد کے اس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلنا۔ تاہم کبھی یہ خواب شرمندہ تعبیر بھی ہوا تو پھر کچھ ہی عرصے میں معاشرہ نفس مذہب کے خلاف شدید بغاوت کر دے گا۔

اس وقت اہل مذہب کے لیے بہترین لائحہ عمل یہی ہے کہ وہ اسلام کو ایک دعوت بنا کر پیش کریں۔ مگر اس میں بھی مسئلہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے اِن برسوں میں اہل مذہب کی اخلاقی حیثیت بری طرح مجروح ہوچکی ہے۔ اتنی کمزور اخلاقی پوزیشن کے ساتھ کوئی بھی کام ہوسکتا ہے، دعوت کا کام نہیں ہوسکتا۔ اس اخلاقی حیثیت کو بحال کرنے کا یہی راستہ ہے کہ اہل مذہب دہشت گردی کے ہر شائبے سے اپنی جان چھڑائیں۔ اس کے بغیر سیکولر طبقات ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان میں اخلاقی طور پر مضبوط ہوتے چلے جائیں گے۔

اپنی اخلاقی پوزیشن کی بحالی کے ساتھ اہل مذہب کو دین کی دعوت وقت کے فکری مسلمہ معیارات کے مطابق پیش کرنا ہوگی۔ اس کے بغیر جدید معاشروں میں اب ان کی بات نہیں سنی جائے گی۔ فکری مسلمات سے مطابقت کا مطلب دین کے واضح احکام پر سمجھوتہ نہیں ہے۔ مثلاً بیشتر جدید دنیا سزائے موت کے خلاف ہوچکی ہے۔ جبکہ پروردگار عالم کا فیصلہ ہے کہ قصاص میں زندگی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم اپنے پروردگار کے فیصلے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ لیکن بہت سے ایسے معاملات ہیں جن میں جدید سماجیات اسلام کی منشا کو عصری تقاضوں کے مطابق بہتر طریقے پر حاصل کر رہی ہے۔ ایسے معاملات میں قرآن و سنت کو بنیاد بنا کر ازسرنو غور و فکر کرنے اور ایک نئے فقہی ڈھانچے کی تشکیل کی ضرورت ہے۔ ایسے معاملات میں طرز کہن پہ اڑنا اور آئین نو سے ڈرنا پاکستانی ریاست اور سماج کو بتدریج اسلام سے دور کر دے گا جو بہت بڑا نقصان ہوگا۔