مضامین قرآن (76) شخصی رویے ۔ ابویحییٰ
مضامین قرآن کے سلسلے کے آغاز میں ہم نے یہ بات واضح کی تھی کہ قرآن مجید ہزاروں آیات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب ہے۔ مگر مضامین کے اعتبار سے یہ انتہائی مختصر ہے جس کے بنیادی موضوعات انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ یہ موضوعات نہ صرف تعداد میں بہت کم ہیں بلکہ آپس میں مربوط طریقے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہزاروں آیات پر مشتمل پورا قرآن مجید صرف تین بڑے بنیادی اور چند درجن ذیلی عنوانات کے تحت نہ صرف مرتب ہوجاتا ہے بلکہ یہ مضامین و عنوانات ہر فرد اور ہر دور کے انسان سے براہ راست متعلق رہتے ہیں۔ یہ تین بنیادی موضوعات درج ذیل ہیں۔
۱) دعوت دین اور اس کے رد و قبول کے نتائج
۲) دعوت کے دلائل
۳) مطالبات
ہم ابتدائی دو موضوعات یعنی دعوت دین اور اس کے رد و قبول کے نتائج اور دعوت کے دلائل پر بہت تفصیل کے ساتھ گفتگو کرکے یہ جائزہ لے چکے ہیں کہ ان کے ذیل میں قرآن مجید نے کیا کچھ بیان کیا ہے۔ جبکہ مطالبات کے ضمن میں ہم نے اخلاقی مطالبات کا جائزہ مکمل کرلیا ہے۔ لیکن آگے بڑھنے سے قبل ضروری ہوگا کہ ان مباحث کا خلاصہ کرلیا جائے۔
اخلاقی مطالبات کی بحث کا آغاز ہم نے خالق کے حقوق سے کیا تھا۔ ہم نے بتایا تھا کہ اس ضمن میں دین کا بنیادی مطالبہ شرک سے پرہیز اور تنہا ایک خدا کی عبادت کرنا ہے۔ پھر ہم نے عبادت کے اس نظام کا جائزہ لیا تھا جو دین نے بندگی رب کے تقاضے کی تکمیل کے لیے خود سکھایا ہے۔ اس میں نماز، انفاق، روزہ و اعتکاف، حج و عمرہ و قربانی کی حقیقت، مقصد اور مقررہ شریعت کے اندر پوشیدہ روح کی شرح و وضاحت کی تفصیل کی گئی تھی۔ شریعت اور احکام اسی وقت زیر بحث آئیں گے جب مطالبات کے ضمن میں شرعیت کے مطالبات پر بات ہوگی۔خالق کے حقوق کے ضمن میں جس دوسری چیز کو ہم نے تفصیل سے سمجھا تھا وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی قرآنی اساسات ہیں جو اس تعلق کو ایک زندہ تعلق بنا دیتی ہیں۔ ان میں پہلی اساس کو ہم نے ایمان و یقین، اسلام و قنوت اور اخلاص کے عنوان سے بیان کیا تھا۔ دوسری کو عبادت، اطاعت، بر و احسان کے عنوان سے، تیسری کو محبت، شکر اور نصرت دین سے، چوتھی کو ذکر و فکر اور دعا، پانچویں کو تقویٰ، چھٹی کو انابت اور توبہ، ساتویں کو صبر و رضا اور آٹھویں اساس کو توکل و تفویض کے عنوان سے بیان کیا تھا۔
اخلاقی مطالبات میں اس کے بعد مخلوق کے حقوق زیر بحث لائے گئے تھے۔ اس میں پہلے مرحلے پر ہم ان حقوق کو زیر بحث لائے جن کا تعلق مختلف سماجی طبقات اور انسانی تعلقات سے تھا۔ یہ وہ حقوق ہیں جن کی ادائیگی کے معاملے میں عام طور پر انسانوں سے کوتاہی ہوتی ہے۔ خاص طور پر والدین، رشتہ داروں، پڑوسیوں اور ماتحتوں اور معاشرے کے کمزور طبقات جیسے یتامیٰ، فقراء، مساکین، مسافر اور سائلین کے ساتھ قرآن مجید نے جس طرح حسن سلوک پر توجہ دلائی ہے اس کو ہم نے الگ الگ عنوانات کے تحت تفصیل سے بیان کیا تھا۔ پھر اخلاقی طور پر ان مطلوب اور غیر مطلوب رویوں کا بیان شروع ہوا تھا جو ادائیگی حقوق پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان میں پہلے ان رویوں پر بات کی گئی جو انسانی کردار کے کسی جامع وصف کو بیان کرتے ہیں۔ اس پس منظر میں عدل و ظلم، معروف و منکر، حفظ فروج و فواحش اور عہد و امانت پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ ساتھ ہی ان اوصاف کے عملی اطلاقات کو بھی زیر بحث لا کر یہ بتایا گیا کہ ان اصولی چیزوں سے کیا اخلاقی احکام پھوٹتے ہیں۔ اس کے بعد آخر میں ان اخلاقی صفات یا فضائل و رذائل کو زیر بحث لایا گیا جو متعین طور پر انسانی کردار کی کسی خاص خوبی یا خامی کو بیان کرتے ہیں۔
جامع اوصاف کی طرح اخلاق کے ان فضائل و رذائل سے جنم لینے والے اعمال پر معاشرے کی تمام تر خیر و فلاح کا انحصار ہوتا ہے اور انھی پر کسی فرد کی اخروی فلاح منحصر ہوتی ہے۔ اسی لیے قرآن مجید میں ان پر خصوصیت کے ساتھ توجہ دلائی گئی ہے۔ اس ضمن میں صدق و کذب، بہتان، تکبر اور حسد، بخل اور اسراف، قول احسن یا اچھی گفتگو پر تفصیل کے ساتھ بات کی گئی تھی۔ جس کے ساتھ اخلاقیات پر بحث مکمل ہوگئی۔ اب مطالبات کے ضمن میں دو چیزیں زیر بحث آنا باقی ہیں۔ ایک شرعی مطالبات یا شریعت کا قانون اور دوسرے وہ شخصی رویے جن پر قرآن مجید میں بالواسطہ یا بلاواسطہ توجہ دلائی گئی ہے۔
شخصی رویوں کی بحث
عام طور پر قرآن مجید میں بیان کردہ شخصی رویے زیر بحث نہیں آتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان و اخلاق کی دعوت کے برعکس جس پر فرد کی نجات موقوف ہے، شخصی رویوں کا دائرہ مباح امور تک ہی رہتا ہے۔ مگر بارہا ایسا ہوتا ہے کہ یہ شخصی رویے ایمان کی دعوت اور اخلاق کے مطالبات دونوں کی راہ میں مزاحم ہوجاتے ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ یہ رویے اخلاقی فضائل و رذائل پر اثر انداز ہوتے اور ان کے وجود میں آنے کا باعث بن جاتے ہیں۔ اس بات کی وضاحت میں ایک اچھی مثال قرآن مجید کا وہ حکم ہے جو اجْتَنِبُوا کَثِیْراً مِّنَ الظَّن ّ (الحجرات12:49) کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ یعنی بعض زیادہ گمان کرنے سے پرہیز کرو۔ آگے قرآن مجید نے اس کی وجہ بھی بیان کی ہے کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ گمان کرنا ایک انسانی ضرورت اور بہت زیادہ گمان کرنا ایک شخصی رویہ ہے جو اپنی ذات میں اخلاقی رذائل کی حیثیت نہیں رکھتا۔ مگر جب بہت گمان کرنے کی عادت ہوجائے پھر انسان بدگمانی بھی کرنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ چیز اپنی ذات میں ایک گناہ ہے۔
اس کی ایک اور مثال جلد بازی ہے۔ یہ ایک شخصی رویہ ہے جو اپنی ذات میں اخلاقی طور پر محمود یا مذموم نہیں ہوتا۔ بعض اوقات جلد بازی فطری ہوتی ہے اور بعض اوقات ضروری بھی۔ یہ نہ بھی ہو تب بھی براہ راست اس کا ایمان و اخلاق کی دعوت سے کوئی تعلق نہیں۔ مگر قرآن مجید میں کئی مقامات پر یہ توجہ دلائی گئی ہے کہ انسان کی عادت ایمانی دعوت کی قبولیت اور دینی مطالبات کی تعمیل میں مزاحم بن جاتی ہے۔ چنانچہ اس بات کی بہت زیادہ اہمیت ہے کہ اس طرح کے شخصی رویوں پر نگاہ رکھی جائے اور اس بات پر متنبہ رہا جائے کہ اگر ان سے نجات نہ بھی مل سکے، تب بھی کم از کم ایمان و اخلاق کے کسی تقاضے کی راہ میں وہ کبھی مزاحم نہ ہوسکیں۔
ان شخصی رویوں کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ بعض اوقات انسان یہ چاہتا ہے کہ وہ کسی اخلاقی برائی سے محفوظ رہے۔ مگر وہ کسی ایسی شخصی کمزوری کا شکار ہوتا ہے جس کے لازمی نتیجے کے طور پر کبھی نہ کبھی انسان اس اخلاقی برائی کا شکار ہوجاتا ہے۔ چنانچہ ضروری ہوتا ہے کہ اس شخصی رویے کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکا جائے۔ اس کی ایک مثال بہت زیادہ گمان سے باز رہنے کا وہی حکم ہے جو اوپر بیان ہوا ہے۔ یعنی گمان بہت زیادہ کرنے کی جب عادت ہوگی تو انسان کبھی نہ کبھی بدگمانی بھی کرہی لے گا۔ اس کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس طرح کے شخصی رویے انسان کو دنیوی طور پر بھی بہت زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔ گرچہ براہ راست یہ بات دین کا موضوع نہیں لیکن ان شخصی رویوں کی اس اہمیت سے واقف ہونے کے بعد کسی بھی شخص کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ وہ اس پہلو سے اپنی اصلاح کرکے بہت سے دنیوی نقصانات سے بھی بچ سکتا ہے۔ اس ضمن کی آخری چیز یہ ہے کہ قرآن مجید کا ایک بہت بڑا حصہ وہ ہے جو نہ دعوت دین پر مشتمل ہے، نہ دلائل پر، نہ دعوت کے رد و قبول کے نتائج کو بیان کرتا ہے نہ کوئی دینی مطالبہ زیر بحث لاتا ہے۔ یہ وہ حصہ ہے جو زمانہ نزول اور اس سے پہلے کے واقعات، گفتگو اور احوال کو بیان کرتا ہے۔ یہ وہ تمام مواقع ہیں جہاں سیکھنے اور سمجھنے کی سب سے بڑی چیز وہ شخصی رویے ہوتے ہیں جن کا اظہار ان واقعات اور مکالموں میں پوری طرح ہو رہا ہوتا ہے جنھیں قرآن مجید بہت تفصیل کے ساتھ بیان کر رہا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر انبیا کے واقعات میں جگہ جگہ یہ بات ملتی ہے کہ ان کی قوم کے کفر کی ایک بڑی وجہ تعصب اور اپنے باپ دادا کی روایت سے حمیت کا تعلق تھا ۔یہ ایک شخصی رویہ ہے جو اپنی ذات میں برا نہیں، مگر یہی وہ رویہ ہے جو انسان کو حق کے سننے، سمجھنے اور اسے قبول کرنے سے روک دیتا ہے۔ اس پہلو سے قرآن مجید کا مطالعہ بہت سی ایسی چیزیں ایک طالب علم پر واضح کر دیتا ہے جو براہ راست بیان نہیں ہو رہی ہوتیں اور ان کا سمجھنا انسانوں کو بڑی برائیوں میں پڑنے سے بچا لیتا ہے۔