Take a fresh look at your lifestyle.

مضامین قرآن (74) اخلاقی طورپرمطلوب و غیر مطلوب رویے: بخل اوراسراف ۔ ابویحییٰ

اللہ کی رضا کے لیے اپنے مال کو خرچ کرنا شریعت کا ایک قانون ہے جس میں انسان اپنے مال کا ایک متعین حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔ تاہم زندگی میں بندوں کی ضرورتیں اور نصرت دین کے مواقع بار بار سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس لیے انفاق فی سبیل اللہ محض ایک شرعی حکم ہی نہیں بلکہ ایک اخلاقی مطالبہ بھی ہے جو قرآن مجید میں بکثرت دہرایا گیا ہے۔ اس اخلاقی تقاضے اور شرعی حکم کی ادائیگی سے جو چیز سب سے بڑھ کر انسانوں کو روکتی ہے وہ انسانوں کی طبیعت میں پائی جانے والی مال کی محبت اور بخل، اسے جمع کرنے اور بڑھانے کی حرص اور اسے بے ضرورت چیزوں پر لٹانے اور فضول خرچی کا رویہ ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں جہاں انفاق پر کثرت سے زور دیا گیا ہے وہیں، ان تمام رویوں کی شناعت واضح کی گئی ہے اور درست راستہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ ذیل میں ان رویوں کا تفصیلی جائزہ قرآن مجید کی روشنی میں لیا جارہا ہے

بخل اور کنجوسی
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی جبلت میں اپنے تحفظ کا جذبہ رکھا ہے۔ عملی دنیا میں یہ تحفظ سب سے بڑھ کر انسان کو مال کے ذریعے سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ مال کی موجودگی ہے جو انسان کے اندر یہ اعتماد پیدا کرتی ہے کہ اس کی بقا کے لیے جس چیز کی ضرورت ہوگی، انسان اس کو حاصل کرلے گا۔ قرآن مجید نے اس حقیقت کو وَاُحْضِرَتِ الأَنفُسُ الشُّحَّ (شحّ لوگوں کی سرشت میں ہے) کے الفاظ سے بیان کیا ہے۔ ”شحّ“ کا مفہوم بخل بھی ہے اور حرص بھی۔ یہ وہ چیز ہے جو انسانوں کو خود غرضی اور تنگ دلی پر آمادہ کرتی ہے۔ اس رویے کو اختیار کرنے کے بعد انسان ایک طرف ادائے حقوق سے غافل ہوتا ہے اور دوسری طرف اپنی ذات سے ہٹ کر دوسروں کی بنیادی ضروریات کو دیکھنے سے بھی عاجز ہوجاتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید نے انسانوں کو یہ توجہ دلائی ہے کہ جو شخص اپنی اس جبلت پر قابو پاگیا اور ایثار کا راستہ اختیار کیا وہ آخرت کی فلاح پائے گا۔

اپنے تحفظ کے لیے مال کو جمع کرنے کا جذبہ جب بخل کی شکل اختیار کرتا ہے تو پھر یہ ایک ناقابل علاج اخلاقی مرض بن جاتا ہے۔ اس مرض کا ظہور انسانی شخصیت میں عجیب و غریب طریقوں سے ہوتا ہے۔ مثلاً یہ کہ ایسا شخص مال کی شکل میں ملی ہوئی نعمت کو اپنے اوپر بھی خرچ نہیں کرتا کہ مبادا دوسروں کو یہ احساس ہوجائے کہ اس شخص کے پاس مال ہے اور کسی ضرورت کے موقع پر اس سے اللہ کی راہ میں خرچ کا مطالبہ کرنے کی نوبت آجائے۔ ایسا شخص اپنی نعمتوں کو چھپاتا ہے اور ہر جگہ اپنے مسائل، پریشانیوں اور اخراجات کا تذکرہ کرتا رہتا ہے۔ اس کی ایک مروجہ شکل یہ ہے کہ کاروباری منافع میں کمی کو نقصان سے تعبیر کرکے بیان کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے رویے سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ نہ اس شخص سے انفاق کا مطالبہ کیا جائے اور نہ اس کے بخل پراسے ملامت کی جائے۔

ایسے مالداروں کی اصل ذمہ داری تو یہ ہوتی ہے کہ وہ خود بھی ضرورت مندوں پر مال خرچ کریں اور دوسروں کو بھی اس کارِخیر پر ابھاریں، مگر اول تو وہ ہر ایسے موقع پر پیٹھ پھیر جاتے ہیں، اس سے بڑھ کر یہ لوگ الٹا دوسروں کو بخل کی تلقین کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اگر دوسرے خرچ کریں گے تو مجبوراً کچھ نہ کچھ انھیں بھی خرچ کرنا پڑے گا۔ اور اگر خرچ کرنے کی نوبت آہی جائے تو اس کا اصل مقصد ریاکاری یا دکھاوا اور لوگوں کو جتانا ہوتا ہے کہ وہ کتنے سخی اور دوسروں کا خیال کرنے والے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس طرح کے لوگ پستی کی آخری سطح پر اتر کر نہ صرف ضرورت مندوں کا مذاق اڑانا شروع ہوجاتے ہیں بلکہ انفاق کے مطالبے پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وہ گستاخانہ کلمات کہتے ہیں جس کی ایک مثال قرآن مجید نے منافقین کے اس قول کی شکل میں بیان کی ہے کہ (قرض کا مطالبہ کرکے) اللہ محتاج ہوگیا ہے اور ہم غنی ہیں کہ ہم سے قرض کا مطالبہ کیا جارہا ہے یا یہ کہ کیا ہم ان کو کھلائیں جن کو اللہ چاہتا تو خود کھلا دیتا۔

قرآن مجید نے بخل کے اس رویے کی سخت مذمت کی ہے۔ اس رویے کو شیطان کے ساتھیوں کا رویہ قرار دیا ہے۔ یہ بتایا ہے کہ اس طرح بخل کرنے والوں کا مال طوق بنا کر یوم قیامت ان کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ یہ بھی سمجھایا گیا ہے کہ جو شخص بخل کرتا ہے وہ دراصل اپنے ساتھ ہی بخل کرتا ہے۔ یعنی جو مال وہ آج خرچ کرنے سے رک رہا ہے، یہی وہ مال ہے جو کل قیامت اسے ملنا تھا۔ آج اس مال کو نہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ انسان قیامت کے دن خود اپنے آپ کو محروم کرلے گا۔

اسراف اور تبذیر
اللہ کی راہ اور بندوں کی ضرورتوں میں مال خرچ کرنے سے انسانوں کو روکنے والی دوسری چیز فضول خرچی ہے۔ یہ بظاہر بخل کے برعکس رویہ ہے، مگر اپنی روح کے لحاظ سے اس میں اور بخل میں کوئی فرق نہیں۔ بخل مال کو سینت کر رکھنے کا نام ہے اور اسراف اس مال کو سونے، چاندی اور کرنسی نوٹوں کے بجائے اشیا کے ڈھیر کی صورت میں اپنے پاس جمع کرلینے کا نام ہے۔ پہلی چیز بھی انسان کے اندر یہ حوصلہ نہیں پیدا ہونے دیتی کہ وہ اپنا مال دوسروں پر خرچ کرے اور یہ دوسری چیز انسان کے پاس اتنا مال ہی نہیں چھوڑتی کہ وہ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کرسکے۔

چنانچہ قرآن مجید نے ایک طرف انفاق کا حکم دیتے ہوئے خاص طور پر اسراف سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ دوسری طرف اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خرچ کرتے وقت بھی اعتدال اور توازن کی طرف توجہ دلائی ہے۔ جس طرح بخل کرنے والوں کو شیطان کا ساتھی قرار دیا گیا تھا، فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کے بھائی قرار دیا گیا ہے۔ اس مماثلت سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ انسان بخل کرے یا اسراف ہر دو شکل میں وہ شیطان کے مقاصد کی تکمیل کرتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی آخر میں سمجھنا ضروری ہے کہ بخل ادائے حقوق کے موقع پر خرچ سے بچنے کا نام ہے، اپنی ذات پر احتیاط سے خرچ کرنا، بخل نہیں۔ اسی طرح اسراف پیسے کے بے جا خرچ کا نام ہے۔ ضرورت، ذوق، سہولت اور خواہشات کی تکمیل کے لیے حدود الٰہی کے اندر رہ کر خرچ کرنا اسراف نہیں۔ اللہ عطا کرے تو انسان قیمتی لباس، عالیشان گھر اور بہترین گاڑی رکھ سکتا ہے۔ یہ اسراف نہیں ہے۔ اسراف تب ہوتا ہے جب ضرورت، ذوق اور سہولت کے بجاے پیش نظر صرف اشیا کے ڈھیر جمع کرنا ہو یا بخل و اسراف دونوں میں انسانوں کا سماجی پس منظر، مالی حیثیت، ذوق و عادت دیکھا جاتا ہے۔ ان معاملات میں اپنے اوپر سب سے اچھی نظر خود انسان رکھ سکتا ہے۔ اسے یہ یاد رہنا چاہیے کہ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے اور مال اس دنیا میں اللہ کی ایک نعمت ہے جس سے دنیا کا حصول ممنوع نہیں، لیکن آخرت فراموشی کا عمل بھی اپنی قبر آپ کھودنے کے مترادف ہے۔

قرآنی بیانات
”ہاں، اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے بے زاری یا بے پروائی کا اندیشہ ہو تو اُن پر گناہ نہیں کہ دونوں آپس میں کوئی سمجھوتا کر لیں۔ اِس لیے کہ سمجھوتا بہتر ہے۔ اور (یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ) حرص لوگوں کی سرشت میں ہے، لیکن حسن سلوک سے پیش آؤ گے اور تقویٰ اختیار کرو گے توصلہ پاؤ گے، اِس لیے کہ جو کچھ تم کرو گے، اللہ اُسے جانتا ہے۔“(النساء128:4)

”اور اگر وہ اِن کو تم سے مانگ لے اور سب کچھ سمیٹ کر مانگ لے تو (معلوم ہے کہ) تم بخیلی کرو گے (اور صاف انکار کر دو گے) اور اِس سے وہ تمھارے (دلوں میں چھپے ہوئے) کینوں کو ظاہر کر دے گا۔

سنو، تم وہ لوگ ہو کہ تم کو (تمھارے مال کا کچھ حصہ) خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی دعوت دی جاتی ہے تو تم میں ایسے بھی ہیں جو (اُس میں بھی) بخیلی کرتے ہیں۔ (یاد رکھو)، جو بخیلی کرتا ہے تو حقیقت میں اپنے ہی ساتھ بخیلی کرتا ہے۔ اللہ تو (ہر چیز سے) بے نیاز ہے اور تم اُس کے محتاج ہو۔ (تم خدا سے روگردانی کرنا چاہتے ہو تو جاؤ، کرو)۔ اگر تم روگردانی کرو گے تو اللہ تمھاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گا، پھر وہ تمھاری طرح نہ ہوں گے۔“، (محمد37-38:47)

”(اِن منافقوں کے برخلاف) جو لوگ اِس دیار کو اِن سے پہلے ٹھکانا بنائے ہوئے اور اپنا ایمان محکم کیے ہوئے ہیں، وہ اُن لوگوں سے محبت رکھتے ہیں جو(اُن کے بعد اب) ہجرت کرکے اُن کی طرف آرہے ہیں اور جو کچھ اِن مہاجروں کو دیا جا رہا ہے، اُس سے اپنے دلوں میں کوئی خلش محسوس نہیں کرتے اور اُنھیں اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں، خواہ اپنی جگہ خود ضرورت مند ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو خودغرضی سے بچا لیے جائیں، وہی فلاح پانے والے ہیں۔“، (الحشر9:59)

”اور (اِن میں سے)جو لوگ اُن چیزوں میں بخل کرتے ہیں جو اللہ ہی نے اپنے فضل سے اُنھیں عطا فرمائی ہیں، وہ ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ یہ اُن کے لیے بہتر ہے۔ نہیں، یہ اُن کے حق میں بہت برا ہے۔ (اُنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) جس چیز پر اُنھوں نے بخل کیا ہے، قیامت کے دن عنقریب اُس کا طوق اُنھیں پہنایا جائے گا اور (معلوم ہونا چاہیے کہ) زمین اور آسمانوں کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُسے جانتا ہے۔

اللہ نے اُن لوگوں کی بات سن لی ہے جنھوں نے کہا ہے کہ اللہ محتاج ہے اور ہم غنی ہیں۔ اِن کی یہ باتیں ہم لکھ رکھیں گے اور اِن کا پیغمبروں کو ناحق قتل کرنا بھی ہم نے لکھ رکھا ہے۔ اور (فیصلے کے دن) اِن سے کہیں گے کہ اب چکھو آگ کا عذاب۔“،(آل عمران180-181:3)

”اور جب اِن سے کہا جاتا ہے کہ جو رزق خدا نے تمھیں بخشا ہے، اُس میں سے (اُس کی راہ میں) خرچ کرو تو یہ لوگ جنھوں نے (پیغمبر کا) انکار کر دیا ہے، ماننے والوں سے کہتے ہیں کہ کیا ہم اُن لوگوں کو کھلائیں جنھیں اگر اللہ چاہتا تو خود کھلا دیتا؟ تم لوگ تو صریح گم راہی میں پڑے ہو۔“،(یس47:36)

”(اِن کے ٹھیرائے ہوئے شریک نہیں، بلکہ) وہی اللہ ہے جس نے قسم قسم کے باغ پیدا کیے ہیں، (اِن میں سے) کچھ ٹٹیوں پر چڑھائے جاتے ہیں اور کچھ نہیں چڑھائے جاتے۔ اِسی طرح کھجور پیدا کی اور کھیتیاں اگائی ہیں جن کے طرح طرح کے پھل ہیں اور زیتون اور انار جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں اور الگ الگ بھی اِن کی پیداوار میں سے کھاو، جب یہ پھلیں اور اِن کا حق ادا کرو، جس دن یہ کاٹے جائیں اور بے جا نہ اڑاو۔ اللہ (اِس طرح) اڑا دینے والوں کو پسند نہیں کرتا۔“،(الانعام141:6)

”آدم کے بیٹو، ہر مسجد کی حاضری کے وقت اپنی زینت کے ساتھ آؤ، اور کھاؤ پیو، مگر حد سے آگے نہ بڑھو۔ اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔“،(الاعراف31:7)

”جو خود بھی بخل کرتے اور دوسروں کو بھی اِسی کا مشورہ دیتے ہیں اور اللہ نے اپنے فضل میں سے جو کچھ اُنھیں دیا ہے، اُسے چھپاتے ہیں۔ ایسے ناشکروں کے لیے ہم نے ذلیل کر دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔

جو اپنے مال لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور نہ اللہ کو مانتے ہیں اور نہ قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔ (اُن کا ساتھی شیطان ہے) اور حقیقت یہ ہے کہ جس کا ساتھی شیطان بن جائے تو وہ بہت ہی برا ساتھی ہے۔“،(النساء37-38:4)

”تم قرابت دار کو اُس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو بھی، اور مال کو بے جا نہ اڑاؤ۔ اِس لیے کہ مال کو بے جا اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہوتے ہیں اور شیطان اپنے ربکا بڑا ہی ناشکرا ہے۔“،(بنی اسرائیل26-27:17)

”اور (وہ ہیں) جو خرچ کرتے ہیں تو نہ اڑاتے ہیں، نہ تنگی کرتے ہیں، اُن کا خرچ اِس کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے۔“،(فرقان67:25)