Take a fresh look at your lifestyle.

مضامین قرآن (72) اخلاقی طور پر مطلوب و غیر مطلوب رویے : بہتان ۔ ابویحییٰ

قرآن مجید نے جھوٹ کی شناعت کو جس طرح واضح کیا ہے اس پر پیچھے گفتگو کی جاچکی ہے۔ جھوٹ اور کذب کی ایک انتہائی شکل وہ ہے جس میں لوگ کسی اور کی طرف جھوٹ منسوب کرکے اس پر الزام اور بہتان لگاتے ہیں۔ قرآن مجید جھوٹ اور کذب کے اس پہلو کو بھی بہت تفصیل کے ساتھ زیر بحث لایا ہے۔ اس بہتان کے دو نمایاں پہلو قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں۔ ایک وہ ہے جس کا تعلق انسانوں سے ہے اور اس میں انسانوں پر جھوٹا الزام اور بہتان لگا کر ان کی جان، مال اور آبرو کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ دوسرا پہلو وہ ہے جس میں جھوٹ گھڑنے والے اللہ تعالیٰ کے اوپر جھوٹ گھڑتے ہیں۔ کذب و بہتان کی یہ شکل دین سازی، شریعت سازی اور حق سازی ہے۔ یعنی جو چیز دین، شریعت اور حق نہیں ہے اس کو اس حیثیت میں پیش کیا جائے۔ اس میں بغیر علم کے اللہ کی طرف کسی بات کو منسوب کرنا، اپنی خواہشات، تصورات، بدعات اور ظن و گمان کو دین کے نام پر پیش کرنا وغیرہ جیسی چیزیں شامل ہیں۔ اس دوسری چیز کی شناعت واضح کرنے کے لیے قرآن مجید میں اس پر بہت تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔ ذیل میں ہم پہلے اس پر اور پھر انسانوں پر بہتان کے حوالے سے قرآنی تعلیمات پر گفتگو کریں گے۔

افتری علی اللہ یا اللہ تعالیٰ پر جھوٹ منسوب کرنا
انسانوں پر جھوٹ گھڑنے، ان پر الزام و بہتان لگانے کی برائی اخلاقی طو رپر انسانوں پر واضح ہوتی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ گھڑنا اور اس کے نام پر عقیدہ سازی اور شریعت سازی ایک ایسا عمل ہے جسے کبھی برا نہیں سمجھا گیا بلکہ مذہب کی تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ یہ ہمیشہ سے اہل مذہب کا معمول رہا ہے۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک اور مذہبی بدعات کی ان تمام اقسام کے پیچھے شیطانی وسوسہ انگیزی ہے،(النساء117-121:4)۔ چنانچہ ہر دور میں اہل مذہب نے انبیا کی تعلیمات کو چھوڑ کر اس میں اپنی خواہشات سے اضافے کیے اور پھر ان عقائد اور اعمال کو اللہ کی طرف منسوب کر دیا۔ کئی مقامات پر قرآن مجید نے یہ بات بیان کی ہے کہ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ گھڑ کر منسوب کرے اور اس کی آیات کو جھٹلائے۔ ان تمام مقامات پر افتری علی اللہ کذبا (اللہ پر جھوٹ منسوب کرنا) کو مقدم کیا گیا ہے اور اس کی آیات کے جھٹلانے کے عمل کو بعد میں بیان کیا گیا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کفر سے زیادہ بڑا جرم ہے۔

بعض اوقات لوگ یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ ہم کوئی بہتان اللہ کی طرف نہیں گھڑر ہے بلکہ نیک نیتی سے اچھے کاموں کی طرف لوگوں کو بلانا چاہتے ہیں، اس لیے اگر کسی اچھے عمل کو دین کہہ دیا جائے تو اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ اچھے کام کو شوق سے کرنے لگ جاتے ہیں۔ قرآن مجید نے اس عذر کو بھی اٹھا کر پھینک دیا اور یہ صاف واضح کر دیا کہ اللہ تعالیٰ کی نسبت سے صرف وہی چیز کہی جاسکتی ہے جس کی کوئی سند موجود ہو اور بلاعلم اللہ کی طرف منسوب کرکے کسی بات کو بیان کرنا بنیادی جرائم میں سے ایک جرم قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید نے سورہ اعراف آیت 33 میں جہاں تمام حرمتوں کی اساسات کو بیان کیا ہے، وہاں اس جرم کو اس طرح بیان کیا ہے کہ اللہ نے حرام کیا ہے اس بات کو کہ تم اللہ کی طرف منسوب کرکے وہ بیان کرو جو تم نہیں جانتے۔

اس باب میں سورہ انعام کا مطالعہ بہت اہم ہے جس کا ایک بنیادی موضوع ہی مشرکین کی خود ساختہ عقیدہ سازی اور شریعت سازی کے عمل کی تردید ہے۔ اس سورت میں قرآن مجید نے خدا پر جھوٹ گھڑنے کے اس عمل کے لیے متعدد تعبیرات اختیار کی ہیں اور اس رویے کے سنگین نتائج سے متنبہ کیا ہے۔ سورہ انعام آیت 93 میں یہ کہا گیا ہے کہ اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ گھڑ کر منسوب کرے یا کہے کہ مجھ پر وحی آئی ہے جبکہ اس پر کوئی وحی نہ آئی ہو۔ آیت 112 میں اس طرح کی بدعات کو ’زخرف القول‘ یعنی پرفریب باتیں اور کفار کی گھڑی ہوئی چیزیں کہا گیا ہے۔ آیت 116 میں اسے ظن و گمان اور اٹکل و اندازوں کی وہ پیروی قرار دیا گیا ہے جو راہِ خدا سے بھٹکانے کا سبب بن جاتی ہے۔ آیت 119 میں ان بدعتوں سے لوگوں کو گمراہ کرنے والوں کو اللہ نے حد سے بڑھنے والا قرار دیا ہے۔ آیت 140 میں خدا پر افترا کرنے والوں کو گمراہ اور ہدایت سے دور قرار دیا گیا ہے۔ آیت 144 میں بغیر علم کے خدا پر جھوٹ گھڑ کر منسوب کرنے والوں کو سب سے بڑا ظالم کہا گیا اور واضح کیا گیا کہ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیتا۔ آیت 150 میں مسلمانوں کو تلقین کی گئی ہے کہ اگر ان مشرکین کو اپنے اس جھوٹ پر اتنا اعتماد ہو کہ یہ اس کی سچائی پر گواہی دینے پر بھی تیار ہوجائیں، تب بھی ان کی باتوں میں مت آنا۔

قرآن مجید میں دیگر مقامات پر بھی اللہ پر جھوٹ منسوب کرنے کے اس رویے کو بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورہ العنکبوت آیت 17 میں یہ بتایا گیا ہے کہ بتوں کی پرستش کی گمراہی کے پیچھے بھی حق کے نام پر جھوٹ گھڑنے کا یہی عمل ہے۔ اسی طرح سورہ الصافات آیت 152 میں فرشتوں کو اللہ کی اولاد بنانے کے بہتان کے بارے میں بھی یہ کہا گیا کہ اس کی وجہ ان کا خدا کے بارے میں جھوٹ بولنا ہے۔

قرآن مجید کے یہ اور ان جیسے دیگر مقامات اس جرم کی سنگینی کو کھول کر بیان کرتے ہیں جس میں آج کے مسلمان بھی مبتلا ہیں۔ یعنی اس چیز کو اللہ تعالیٰ کا دین بنا کر پیش کیا جائے جسے اللہ تعالیٰ نے دین و شریعت کے طور پر پیش نہیں کیا۔ اس جرم کی سنگینی کی وجہ یہ ہے کہ مذہب کے نام پر کھڑے ہوئے لوگ اپنے ظن و اوہام، خواہش و بدعات اور شیطانی الہام کو جب دین کے نام پر بیان کر تے ہیں تو اس کے نتیجے میں شرک، بت پرستی، بدعات غرض ایمان اور عمل کی تمام گمراہیاں وجود میں آجاتی ہیں۔ دین میں کیے گئے اضافے دراصل وہ بیڑیاں اور بوجھ بن جاتے ہیں، جن سے چھڑانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے۔

ان بیانات سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ دین میں کسی نئے عقیدے یا عمل کا اضافہ اپنی طرف سے کرنا اور اسے دین کے نام پر پیش کرنا کتنی بڑی گمراہی ہے اور اس کا وبال کتنا زیادہ ہے۔ اس سخت مذمت کی وجہ بھی بالکل واضح ہے کہ ایک دفعہ جب یہ خودساختہ دین سازی کا کام شروع ہوجاتا ہے تو ایک متوازی دین وجود میں آجاتا ہے اور پھر اصل دین اور اس کے مطالبات بے وقعت ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ اس جرم کو سنگین جرم سمجھ کر اس کے شائبے سے بھی ہمیشہ دور رہنا چاہیے۔

انسانوں پر بہتان
بہتان کا دوسرا پہلو وہ ہے جس میں انسانوں پر جھوٹا الزام لگایا جائے۔ اس کی ایک وجہ تو دوسروں کی جان، مال، آبرو کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے اور دوسری وجہ کسی معاملے میں اپنی جان بچا کر الزام کسی اور پر لگانا ہوتا ہے۔ ہر دوپہلوؤں سے یہ ایک سنگین اخلاقی برائی ہے۔ قرآن مجید میں اس کا سب سے اہم پہلو معصوم اور پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے کے حوالے سے بیان ہوا ہے۔ چنانچہ اس جرم کی سزا اسی کوڑے مقرر کی گئی ہے اور ایسے لوگوں پر دنیا و آخرت میں لعنت اور عذاب عظیم کی وعیددی گئی ہے۔ یہ تلقین کی گئی ہے کہ لوگ جب ایسا کوئی بہتان بغیر ثبوت کے سنیں تو اس کے پھیلانے کے بجائے اس کی تردید کریں۔ اور جس طرح اپنے متعلق یہ چاہتے ہیں کہ ان سے حسن ظن رکھا جائے، اسی طرح دوسروں کے متعلق بھی حسن ظن رکھیں۔

یہ باتیں گرچہ خواتین کی عصمت پر بہتان کے حوالے سے کہی گئی ہیں، مگر پاک دامن مردوں کے حوالے سے بھی یہی رویہ اپنانا چاہیے۔ یہی نوعیت دیگر نوعیت کے بہتانوں کی ہے کیونکہ کسی بھی شخص کی عزت اور حیثیت عرفی پر حملہ کسی بھی پہلو سے کیا جائے، وہ ایک سنگین جرم ہے۔ سورہ نساء آیت 112 میں اس رویے کو سخت گناہ قرار دے کر اس کی مذمت کی گئی ہے۔ حضرت یوسف کے واقعے میں جب ان کے بھائی ان پر چوری کا جھوٹا الزام لگاتے ہیں، تو حضرت یوسف کا اس پر تبصرہ نقل کرکے اس رویے کی سنگینی کو واضح کیا گیا ہے۔ چنانچہ یہ بات واضح ہے کہ کسی انسان کی عزت اور حیثیت عرفی کو جھوٹے الزامات سے آلودہ کرنا ایک انتہائی سنگین جرم ہے۔

قرآنی بیانات
”(اِن پر افسوس)، یہ اللہ کے سوا پکارتے بھی ہیں تو دیویوں کو پکارتے ہیں اور پکارتے بھی ہیں تو اُسی شیطان کو پکارتے ہیں جو سرکش ہوچکا ہے۔ جس پر خدا نے لعنت کی اور جس نے کہہ رکھا ہے کہ میں تیرے بندوں میں سے ایک مقرر حصہ لے کر رہوں گا۔ میں اُنھیں ضرور بہکاؤں گا، اُنھیں آرزوؤں میں الجھاؤں گا، اُنھیں سکھاؤں گا تو وہ چوپایوں کے کان پھاڑیں گے اور اُنھیں سکھاؤں گا تو وہ خدا کی بنائی ہوئی ساخت کو بگاڑیں گے۔ (اِنھیں بتاؤ کہ) اللہ کو چھوڑ کر جس نے شیطان کو اپنا سرپرست بنا لیا، اُس کے لیے کوئی سرپرستی نہیں ہے، سو وہ صریح نقصان میں پڑ گیا ہے۔ وہ اُن سے وعدے کرتا اور اُنھیں امیدیں دلاتا ہے، مگر اُن سے شیطان کے یہ وعدے سراسر فریب ہیں۔
لہٰذا یہی وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور اُس سے بھاگنے کے لیے یہ کوئی راہ نہ پائیں گے۔“،(النساء117-121:4)

”کہہ دو، میرے پروردگار نے تو صرف فواحش کو حرام کیا ہے، خواہ وہ کھلے ہوں یا چھپے اور حق تلفی اور ناحق زیادتی کو حرام کیا ہے اور اِس کو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیراؤ، جس کے لیے اُس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اِس کو کہ تم اللہ پر افترا کرکے کوئی ایسی بات کہو جسے تم نہیں جانتے۔“،(الاعراف33:7)

”سو اُن سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھیں یا اُس کی آیتوں کو جھٹلا دیں۔ اُن کے نوشتے میں جو حصہ اُن کے لیے (دنیا کی زندگی میں لکھ دیا گیا) ہے، وہ اُنھیں پہنچے گا۔ یہاں تک کہ جب ہمارے فرشتے اُن کی روحیں قبض کرنے کے لیے اُن کے پاس آئیں گے تو پوچھیں گے کہ اللہ کے سوا جن کو تم پکارتے تھے، وہ کہاں ہیں؟ وہ کہیں گے کہ وہ سب تو ہم سے کھوئے گئے اور اپنے خلاف خود گواہی دیں گے کہ وہ فی الواقع منکر تھے۔“، (الاعراف37:7)

”(اُن لوگوں کے حق میں) جو(آج) اِس نبی امی رسول کی پیروی کریں گے جس کا ذکر وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا دیکھتے ہیں۔ وہ اُنھیں بھلائی کا حکم دیتا ہے، برائی سے روکتا ہے، اُن کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام ٹھیراتا ہے اور اُن کے اوپر سے اُن کے وہ بوجھ اتارتا اور بندشیں دور کرتا ہے جو اب تک اُن پر رہی ہیں۔ لہٰذا جو اُس پر ایمان لائے، جنھوں نے اُس کی عزت کی اور اُس کی نصرت کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے اور اُس روشنی کی پیروی اختیار کرلی جو اُس کے ساتھ اتاری گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔“(الاعراف157:7)

”(اُس دن، جب لوگ جمع ہوئے تو) موسیٰ نے (مقابلے سے پہلے اُنھیں تنبیہ کی)، فرمایا: شامت کے مارو، (اللہ کے شریک ٹھیرا کر) تم اللہ پر جھوٹ نہ باندھو کہ کسی عذاب سے وہ تمھاری جڑ اکھاڑ دے۔ (یاد رکھو)، خدا پرجس نے بھی جھوٹ باندھا، وہ نامراد ہوا ہے۔“،(طہ61:20)

”تم اپنی زبانوں کے گھڑے ہوئے جھوٹ کی بنا پر یہ نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اِس طرح اللہ پر جھوٹ باندھنے لگو۔ یاد رکھو، جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھیں گے، وہ ہرگز فلاح نہ پائیں گے۔“،(النحل116:16)

”پھر اِس کے بعد بھی جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھیں، وہی ظالم ہیں۔“،(آل عمران94:3)

”دراں حالیکہ اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا اُس کی آیتوں کو جھٹلا دے؟ یقینا ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔“،(الانعام21:6)

”سو اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھے یا اُس کی آیتوں کو جھٹلا دے؟ حقیقت یہ ہے کہ اِس طرح کے مجرم کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔“،(یونس17:10)

”اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو اللہ پر جھوٹی تہمت باندھے یا کہے کہ میری طرف وحی آئی ہے، دراں حالیکہ اُس کی طرف کوئی وحی نہ آئی ہو اور اُس سے بڑھ کر جو دعویٰ کرے کہ میں بھی اُس جیسا کلام نازل کیے دیتا ہوں، جیسا خدا نے نازل کیا ہے؟“(الانعام93:6)

”(یہ معاملہ صرف تمھارے ساتھ نہیں ہے)۔ ہم نے انسانوں اور جنوں کے اشرار کو اِسی طرح ہر نبی کا دشمن بنایا۔ وہ دھوکا دینے کے لیے ایک دوسرے کو پرفریب باتیں القا کرتے رہتے ہیں۔ تیرا پروردگار چاہتا تو وہ کبھی ایسا نہ کر پاتے۔ سو اِنھیں اِن کی افترا پردازیوں میں پڑا رہنے دو۔“،(الانعام112:6)

”زمین والوں میں زیادہ ایسے ہیں کہ اُن کی بات مانو گے تو تمھیں خدا کے راستے سے بھٹکا کر چھوڑیں گے۔ یہ محض گمان پر چلتے اور اٹکل دوڑاتے ہیں۔“،(الانعام116:6)

”اور تم اُن چیزوں میں سے کیوں نہ کھاؤ جن پر اللہ کا نام لیا گیا ہو، دراں حالیکہ اُس نے جو کچھ تم پر حرام ٹھیرایا ہے، وہ (اپنی کتاب میں) تمھارے لیے تفصیل سے بیان کر دیا ہے، اِس استثنا کے ساتھ کہ تم کسی چیز(کو کھانے) کے لیے مجبور ہوجاو۔ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ لوگ بغیر کسی علم کے اپنی بدعتوں کے ذریعے سے گمراہی پھیلاتے ہیں۔ اِن حد سے بڑھنے والوں کو تیرا پروردگار خوب جانتا ہے۔“،(الانعام119:6)

”یقینا نامراد ہوئے وہ لوگ جنھوں نے اپنی اولاد کو محض بے وقوفی سے، بغیر کسی علم کے قتل کیا اور اللہ نے جو رزق اُنھیں عطا فرمایا تھا، اُسے اللہ پر جھوٹ باندھ کر حرام ٹھیرایا ہے۔ وہ یقینا بھٹک گئے ہیں اور ہرگز راہ راست پر نہیں رہے۔“،(الانعام140:6)

”اِسی طرح دو اونٹ کی قسم سے اور دو گائے کی قسم سے، پھر پوچھو کہ اللہ نے اِن دونوں کے نر حرام کیے ہیں یا مادہ یا اُس بچے کو حرام ٹھیرایا ہے جو مادداؤں کے پیٹ میں ہے؟ کیا تم اُس وقت حاضر تھے، جب اللہ نے تمھیں اِس کی ہدایت فرمائی تھی؟ پھر اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے، اِس لیے کہ بغیر کسی علم کے لوگوں کو گم راہ کرے؟ اللہ ایسے ظالم لوگوں کو کبھی راستہ نہیں دکھائے گا۔“،(الانعام144:6)

”تم اللہ کو چھوڑ کر محض بتوں کو پوج رہے ہو اور اِس کے لیے جھوٹ گھڑتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ جنھیں تم خدا کو چھوڑ کر پوج رہے ہو، وہ تمھارے رزق پر کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ سو اللہ ہی کے ہاں رزق تلاش کرو اور اُسی کی بندگی کرو اور اُسی کے شکر گزار رہو، تم اُسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔“،(العنکبوت 17:29)

سن لو، حقیقت یہ ہے کہ یہ محض اپنی من گھڑت سے کہہ رہے ہیں۔ کہ اللہ کے اولاد ہوئی ہے اور یہ بالکل جھوٹے ہیں۔“،(الصافات151.152:37)

”اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر (زنا کی) تہمت لگائیں، پھر (اُس کے ثبوت میں) چار گواہ نہ لاسکیں، اُن کو اسی کوڑے مارو اور اُن کی گواہی پھر کبھی قبول نہ کرو، اور یہی لوگ فاسق ہیں۔“،(النور4:24)

”جو لوگ پاک دامن، بھولی بھالی، مومن عورتوں پر تہمتیں لگاتے ہیں، اُن پر دنیا اور آخرت، دونوں میں لعنت کی گئی اور اُن کے لیے بڑا عذاب ہے۔“،(النور23:24)

”تم لوگوں نے جب یہ بات سنی تو مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں نے اپنے لوگوں کے حق میں نیک گمان کیوں نہ کیا اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ ایک کھلا ہوا بہتان ہے؟ یہ (الزام لگانے والے) اپنے الزام کے ثبوت میں چار گواہ کیوں نہ لائے؟ پھر جب گواہ نہیں لائے تو اللہ کے نزدیک یہی جھوٹے ہیں۔ تم (مسلمانوں) پر دنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل اور اُس کی رحمت نہ ہوتی تو جس راستے پر تم چل نکلے تھے، اُس میں تم پر کوئی بڑا عذاب آجاتا۔ ذرا خیال کرو، جب تم اِس کو اپنی زبانوں سے نقل در نقل کر رہے تھے اور اپنے مونہوں سے وہ بات کہہ رہے تھے جس کا تمھیں کوئی علم نہ تھا۔ تم اُس کو معمولی بات سمجھ رہے تھے، حالاں کہ اللہ کے نزدیک وہ بہت بڑی بات تھی۔ تم نے اُس کو سنتے ہی کیوں نہ کہہ دیا کہ ہم کو زیبا نہیں کہ ہم ایسی بات زبان پر لائیں؟ معاذ اللہ، یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔“،(النور12-16:24)

”(اِنھیں بتاؤ کہ) جو کسی غلطی یا گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، پھر اُس کی تہمت کسی بے گناہ پر لگا دیتا ہے، اُس نے تو ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر لے لیا ہے۔“،(النساء112:4)

”بھائیوں نے (یہ دیکھا تو) کہا: اگر یہ چوری کرے تو کچھ تعجب کی بات نہیں ہے، اِس سے پہلے اِس کا ایک بھائی بھی چوری کرچکا ہے۔ (یہ سراسر تہمت تھی)، مگر یوسف نے اِس کو اپنے دل ہی میں رکھا، اُن پر اِسے ظاہر نہیں کیا، بس (اپنے جی میں) اتنی بات کہہ کر رہ گیا کہ تم لوگ بڑے ہی برے ہو اور جو کچھ تم بیان کر رہے ہو، اللہ اُس کو خوب جانتا ہے۔“، (یوسف77:12)