Take a fresh look at your lifestyle.

مضامین قرآن (70) اخلاقی طور پر مطلوب و غیر مطلوب رویے: عہد و امانت ۔ ابویحییٰ

قرآن مجید میں بیان کردہ اخلاقی مطالبات کے حوالے سے جن جامع اصطلاحات کا ہم مطالعہ کر رہے ہیں ان میں ایک آخری اہم اصطلاح عہد و امانت کی ہے۔ یہ دونوں ہی ان ذمہ داریوں کا جامع بیان ہیں جو خالق و خلق کے حوالے سے انسانوں پر عائد ہوتی ہیں۔ صرف اس فرق کے ساتھ کے عہد عام طور پر ان ذمہ داریوں کو بیان کرتا ہے جو ہم آگے بڑھ کر قبول کرتے ہیں جبکہ امانت کا لفظ ان ذمہ داریوں کا بیان ہوتا ہے جو کسی منصب، معاملے، صلاحیت یا اعتماد کی بنیاد پر دوسرے ہم پر ڈال دیتے ہیں۔ قرآن مجید نے ان دونوں کو ساتھ ساتھ بھی بیان کیا ہے اور الگ الگ بھی۔ ذیل میں عہد و امانت کے وہ پہلو تفصیل کے ساتھ بیان کر رہے ہیں جو قرآن مجید کے بیانات کی روشنی میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔

عہد و میثاق
قرآن مجید میں عہد اور میثاق کے الفاظ ایک ہی حقیقت کے بیان کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ تاہم میثاق کے الفاظ میں عہد سے زیادہ مضبوطی پائی جاتی ہے اور یہ اس پیمان کا بیان ہے جسے پختہ کرکے باندھا جاتا ہے۔ عہد و میثاق کو قرآن مجید نے دو پہلوؤں سے بیان کیا ہے۔ ایک پہلو وہ ہے جس میں اسے اللہ تعالیٰ کی ہستی کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔ اس میں کئی مفاہیم مراد ہوتے ہیں۔ اس سے مراد بندگی کا وہ عہد بھی ہے جسے باندھ کر ہم انسان اس دنیا میں آئے ہیں کہ اللہ ہی ہمارا رب ہے۔ اس کو عام طور پر عہد الست کہا جاتا ہے۔ اس عہد کا مفہوم اس ذمہ داری کو اٹھانا ہے کہ ہم خدا کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور شیطان کی اس دعوت کی پیروی نہیں کریں گے جس میں ہمیں وہ اللہ کی عبادت سے ہٹا کر غیراللہ کی عبادت کی طرف بلاتا ہے۔

اس کا ایک اور مفہوم اس دنیا میں آنے کے بعد پورے شعور کے ساتھ اللہ کے ساتھ باندھا گیا کوئی عہد و میثاق ہے۔ انبیا کی امتیں اللہ تعالیٰ سے شریعت کی پاسداری اور ان کے نبیوں کی نصرت کا عہد اسی پس منظر میں کرتی ہیں۔ ہر شخص جو پورے شعور سے اسلام قبول کرتا ہے وہ دراصل اللہ تعالیٰ سے یہی عہد کرتا ہے کہ وہ شریعت کے احکام کی پیروی کرے گا۔ اس کا ایک تیسرا اور آخری مفہوم وہ عہد ہے جو اللہ کا نام لے کر انسان خود اپنے آپ سے یا دوسرے انسانوں سے باندھا کرتا ہے۔ نذر ماننا اور قسم کھانا اسی عہد کی اقسام ہیں۔

عہد کا دوسرا پہلو وہ عمومی قسم کا وعدہ ہے جو انسان کسی دوسرے انسانوں سے کرتا ہے۔ یہ عہد زبانی بھی ہوسکتا ہے، کسی تحریری معاہدے کی شکل میں بھی ہوسکتا ہے اور کسی قانونی دستاویز پر دستخط کرکے بھی ہوسکتا ہے۔ یہ وعدے کے الفاظ کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اور وعدہ کے الفاظ کے بغیر بھی کیا جاسکتا ہے۔ عہد چاہے پہلی قسم کا ہو جس میں خدا کا نام لیا گیا ہو یا پھر دوسری قسم کا جس میں خدا نام نہ لیا گیا ہو، ہر صورت میں مقدس اور قابل احترام ہے۔ اس کا پورا کرنا ایک بنیادی اخلاقی وصف ہے جس کے بغیر کوئی انسان اعلیٰ انسان نہیں کہلا سکتا اور کوئی مومن خدا کی نگاہوں میں سرخرو نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک ایسا وصف ہے جسے قرآن مجید میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خصوصیت قرار دیا ہے اور یقین دلایا ہے کہ وہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کریں گے۔ انسانوں کو بھی انھوں نے متنبہ کیا ہے کہ انھیں اپنے عہد و میثاق کی پیروی کرنی چاہیے کیونکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر عہد کی پرسش کریں گے۔ اس دنیا میں امتوں کا بدترین وصف یہ بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے عہد کو توڑ ڈالتی ہیں اور اعلیٰ ترین انسان اپنا عہد نبھاتے ہیں۔ اہل ایمان کو اسی پس منظر میں ہر طرح کے حالات میں عہد کی پاسداری کا حکم دیا گیا ہے۔

امانت
امانت کا عام طور پر مفہوم یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک شخص کسی دوسرے کے پاس اپنی کوئی شے یا پیسے اس پر اعتماد کرتے ہوئے یا اپنا اعتماد قائم کرنے کے لیے اس یقین کے ساتھ رکھوا دے کہ تقاضا کرنے پر اس کی ملکیت اسے واپس کر دی جائے گی۔ امانت کے مفہوم میں یہ چیز بے شک شامل ہے اور قرآن مجید نے اس مفہوم میں اسے استعمال بھی کیا ہے۔ مگر امانت کا دائرہ دراصل اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ جیسا کہ ہم نے شروع میں بیان کیا کہ اس کا حقیقی مفہوم کسی پر کوئی ذمہ داری ڈالنا ہے۔ یہ مفہوم امانت کے اس مروجہ تصور میں بھی پوری طرح شامل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی ملکیت کی کوئی شے بھی کسی کے پاس رکھوانا امانت اسی لیے کہلاتا ہے کہ ایک فرد دوسرے پر یہ ذمہ داری ڈالتا ہے کہ وہ اس کی شے کو محفوظ رکھے اور اس کے مطالبے پر اسے واپس کر دے گا۔ ظاہر ہے یہ ایک ذمہ داری ہے جو اس دوسرے فرد پر عاید کردی گئی ہے۔

تاہم امانت کو قرآن مجید نے بہت وسیع مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ سورہ نساء آیت 58 میں ان مناصب اور ذمہ داریوں کو امانت قرار دیا گیا ہے جن کا تعلق اجتماعی زندگی سے ہوتا ہے۔ چنانچہ لوگوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ میرٹ کی پابندی کرتے ہوئے ان ذمہ داریوں کو ان افراد کو دیں جو ان کے اہل ہیں۔ اسی طرح سورہ انفال آیت 27 میں امانت ان ذمہ داریوں کو بیان کرتی ہے جو اللہ اور اس کی رسول پر ایمان لانے کے بعد شریعت کی پاسداری اور نصرت دین کے پہلو سے اہل ایمان پر عاید ہوجاتی ہیں۔ سورہ احزاب آیت 72 میں امانت سے مراد وہ اختیار ہے جو اس کائنات میں صرف خدا کو حاصل ہے اور جسے جب آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا گیا تو انھوں نے اس اختیار کے ساتھ منسلک ذمہ داریوں کے بوجھ سے ڈر کر اسے اٹھانے سے انکار کر دیا اور انسان نے آگے بڑھ کر اسے قبول کرلیا۔

قرآن مجید میں لفظ امانت کے ان استعمالات سے واضح ہوتا ہے کہ یہ ان تمام ذمہ داریوں کا بیان ہے جو دین و دنیا کے پہلو سے انسانوں پر عاید ہوتی ہیں۔ امانت ان تمام حقوق کا بیان ہے جو خدا اور بندوں کے حوالے سے قانونی، شرعی اور اخلاقی طور پر ہم پر عاید ہوتے ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ ضروری نہیں کہ امانت کی ذمہ داری کا بوجھ ہم نے کسی باقاعدہ معاملے کے بعد اٹھایا ہو بلکہ فطرت انسانی، خاندانی،سماجی اور ریاستی سطح پر ہماری مختلف حیثیتوں کی بنا پر جو ذمہ داریاں خود بخود ہم عائد ہوجاتی ہیں وہ سب اس میں شامل ہیں۔ جیسے ریاستی معاملات میں قانون کی پابندی، خاندان میں مختلف رشتوں کا تقدس اور ادائیگی حقوق وغیرہ سب اس کا حصہ ہیں۔

امانت اور اسی طرح عہد کا یہ جامع مفہوم اگر واضح ہے تو پھر یہ بات سمجھنا دشوار نہیں رہتا کہ قرآن مجید جب اہل جنت کے اوصاف بیان کرتا ہے تو کیوں عہد و امانت کی پاسداری کو ایک لازمی وصف کے طور پر بیان کرتا ہے۔

قرآنی بیانات
”(اطاعت کا یہ تقاضا اُس ارادہ و اختیار کی بنا پر کیا جاتا ہے جو ہم نے انسان کو عطا فرمایا ہے)۔ ہم نے یہ امانت زمین اور آسمانوں اور پہاڑوں کے سامنے پیش کی تھی تو اُنھوں نے اُس کو اٹھانے سے انکار کر دیا تھا اور اُس سے ڈر گئے تھے، مگر انسان نے اُس کو اٹھا لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی ظالم اور جذبات سے مغلوب ہو جانے والا ہے۔“،(الاحزاب72:33)

”ایمان والو، اللہ و رسول سے بے وفائی نہ کرو، (یہ امانت میں خیانت ہے) اور جانتے بوجھتے اپنی امانتوں میں خیانت کا ارتکاب نہ کرو۔“(الانفال 27:8)

”(ایمان والو، اللہ نے تمھیں ایک عظیم بادشاہی عطا کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اِس موقع پر) اللہ تمھیں ہدایت کرتا ہے کہ امانتیں اُن کے حق داروں کو ادا کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔ نہایت اچھی بات ہے یہ جس کی اللہ تمھیں نصیحت کرتا ہے۔ بے شک، اللہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔“،(النساء58:4)

”اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس رکھنے والے ہیں۔“،(المومنون8:23)

”جو(خلق اور خالق، دونوں کے معاملے میں) اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس کرتے ہیں،“،(المعارج32:70)

”البتہ جو اپنے پروردگار سے ڈرتے رہے، اُن کے لیے بالاخانے اور بالاخانوں کے اوپر بھی آراستہ بالاخانے ہیں۔ اُن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی۔ یہ اللہ کا حتمی وعدہ ہے۔ اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہ کرے گا۔“،(الزمر20:39)

”سو اپنے اِس عہد کو توڑ دینے ہی کی وجہ سے ہم نے اِن پر لعنت کی اور اِن کے دل سخت کر دیے۔ (اب اِن کی حالت یہ ہے کہ) یہ کلام کو اُس کے موقع و محل سے ہٹا دیتے ہیں اور جس چیز کے ذریعے سے اِنھیں یاددہانی کی گئی تھی، اُس کا ایک حصہ بھلا بیٹھے ہیں اور (یہ اِسی کا نتیجہ ہے کہ) آئے دن تم اِن کی کسی نہ کسی خیانت کی خبر پاتے ہو۔ اِن میں سے بہت تھوڑے ہیں جو اِن چیزوں سے بچے ہوئے ہیں۔ (اِن سے اب تم کسی خیر کی توقع نہیں کرسکتے)، سو معاف کرو، (اے پیغمبر)، اور اِن سے درگذر کرتے رہو، اِس لیے کہ اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے جو احسان کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔“،(المائدہ13:5)

”اِسی طرح ہم نے اُن سے بھی عہد لیا تھا جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں۔ پھر جس چیز کے ذریعے سے اُنھیں یاددہانی کی گئی، اُس کا ایک حصہ وہ بھی بھلا بیٹھے تو ہم نے قیامت تک کے لیے اِن دونوں کے درمیان بغض و عداوت کی آگ بھڑکا دی۔ (اب اُسی میں جل رہے ہیں) اور اللہ عنقریب اِنھیں بتا دے گا جو کچھ یہ کرتے رہے ہیں۔“،(المائدہ14:5)

”اور اُن لوگوں کو جنھیں کتاب دی گئی، اُن کا وہ عہد بھی یاد دلاؤ جو اللہ نے اُن سے لیا تھا کہ تم لوگوں کے سامنے اِس کتاب کو لازماً بیان کرو گے اور اِسے ہرگز نہ چھپاؤ گے۔ پھر اُنھوں نے اِسے پس پشت ڈال دیا اور اِس کے بدلے میں بہت تھوڑی قیمت لے لی۔ سو کیا ہی بری ہے وہ چیز جسے یہ خرید لائے ہیں۔“،(آل عمران187:3)

”اِس سے وہ لوگ، البتہ مستثنیٰ ہیں جو کسی ایسی قوم سے جاملے ہوں جن سے تمھارا کوئی معاہدہ ہے۔ اِسی طرح وہ لوگ بھی مستثنیٰ ہیں جو تمھارے پاس اِس طرح آئیں کہ نہ اپنے اندر تم سے لڑنے کی ہمت پاتے ہوں نہ اپنی قوم سے۔ اللہ چاہتا تو اُنھیں تم پر دلیر کر دیتا اور وہ بھی تم سے لڑتے۔ لہٰذا اگر وہ تم سے الگ رہیں اور جنگ نہ کریں اور تمھاری طرف صلح و آشتی کا ہاتھ بڑھائیں تو اللہ تمھیں بھی اُن کے خلاف کسی اقدام کی اجازت نہیں دیتا۔“،(النساء 90:4)

”(ایمان والو، اِس صورت حال میں اگر کوئی مسلمان حمایت و نصرت کا خواہاں ہو تو اُس سے کہو کہ مدینہ آجائے۔ اِس لیے کہ) جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنے جان و مال سے جہاد کیا ہے، اور جن لوگوں نے (ہجرت کرنے والوں کو) پناہ دی اور (اُن کی) مدد کی ہے، وہی ایک دوسرے کے حامی و ناصر ہیں۔ رہے وہ لوگ جو ایمان تو لائے، مگر ہجرت کرکے (مدینہ) نہیں آئے، تمھارا اُن سے حمایت و نصرت کا کوئی رشتہ نہیں ہوسکتا، جب تک وہ ہجرت کرکے نہ آجائیں۔ ہاں، اگر وہ دین کے معاملے میں تم سے مدد مانگیں تو اُن کی مدد کرنا تم پر فرض ہے، لیکن کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جس سے تمھارا معاہدہ ہو۔ (یاد رکھو)، جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُسے دیکھ رہا ہے۔“،(الانفال72:8)

”جو اللہ کے عہد کو اُس کے باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور اللہ نے جس چیز کے جوڑنے کا حکم دیا ہے، اُسے کاٹتے ہیں، اور اِس طرح زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ یہی ہیں جو (دنیا اور آخرت، دونوں میں) نامراد ہیں۔“،(البقرہ2:27)

”(اِس رعایت سے فائدہ اٹھاؤ) اور اپنے اوپر اللہ کی اِس نعمت کو یاد رکھو اور اُس کے اُس عہد و میثاق کو بھی جو اُس نے تم سے ٹھیرایا تھا، جب تم نے کہا کہ ہم نے سن لیا اور ہم فرماں بردار ہیں، (اِسے یاد رکھو) اور اللہ سے ڈرو، اِس لیے کہ اللہ دلوں کے بھید تک جانتا ہے۔“،(المائدہ7:5)

”ایمان والو، (اپنے پروردگار سے باندھے ہوئے سب) عہد و پیمان پورے کرو۔ تمھارے لیے مویشی کی قسم کے تمام چوپایے حلال ٹھیرائے گئے ہیں، سواے اُن کے جو تمھیں بتائے جا رہے ہیں۔ لیکن احرام کی حالت میں شکار کو حلال نہ کر لو۔ (یہ اللہ کا حکم ہے اور) اللہ جو چاہتا ہے، حکم دیتا ہے۔“،(المائدہ1:5)

”(اب تمھاری دنیا الگ اور اِن کی دنیا الگ ہے)۔ آدم کے بیٹو، کیا میں نے تمھیں پابند نہیں کر دیا تھا کہ شیطان کی بندگی نہ کرنا، اِس لیے کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔“،(یس60:36)

”اور یہ کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ، مگر ایسے طریقے سے جو (اُس کے لیے) بہتر ہو، یہاں تک کہ وہ سن رشد کو پہنچ جائے۔ اور ناپ تول انصاف کے ساتھ پوری رکھو۔ ہم کسی جان پر اُس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے۔ اور جب بات کہو تو حق کی بات کہو، اگرچہ معاملہ اپنے کسی رشتہ دار ہی کا ہو۔ اور اللہ کے عہد کو پورا کرو۔ یہ چیزیں ہیں جن کی اللہ نے تمھیں ہدایت کی ہے تاکہ تم یاددہانی حاصل کرو۔“،(انعام 6:152)

”تم بھی، (اے اہل کتاب)، اللہ کے ساتھ (اپنے) عہد کو پورا کرو، جب کہ تم اُسے باندھ چکے ہو اور اپنی قسمیں اُن کے پختہ کر لینے کے بعد مت توڑو، جب کہ تم اللہ کو اپنے اوپر گواہ ٹھیرا چکے ہو۔ بے شک، اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔“،(النحل 91:16)

”جو اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور اپنے اِس پیمان کو توڑتے نہیں۔“،(الرعد20:13)

”یہ اپنی نذریں پوری کرتے اور اُس دن سے ڈرتے رہے جس کا ہول ہر چیز کو گھیر لے گا۔“،(الدھر7:76)

”اِن میں وہ بھی ہیں جنھوں نے اللہ سے عہد کیا کہ اگر اُس نے ہم کو اپنے فضل سے نوازا تو ہم ضرور صدقہ کریں گے اور خوب نیکیاں کرنے والوں میں سے ہوں گے۔“،(التوبہ 75:9)

”اور اگر تم سفر میں ہو اور تمھیں کوئی لکھنے والا نہ ملے تو قرض کا معاملہ رہن قبضہ کرانے کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے۔ پھر اگر ایک دوسرے پر بھروسے کی صورت نکل آئے تو جس کے پاس (رہن کی وہ چیز) امانت رکھی گئی ہے، وہ یہ امانت واپس کر دے اور اللہ، اپنے پروردگار سے ڈرتا رہے (اور اِس معاملے پر گواہی کرا لے)، اور گواہی (جس صورت میں بھی ہو، اُس) کو ہرگز نہ چھپاؤ اور (یاد رکھو کہ) جو اُسے چھپائے گا، اُس کا دل گناہ گار ہوگا، اور (یاد رکھو کہ) جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُسے جانتا ہے۔“،(البقرہ283:2)

”ایمان والوں میں وہ مردان حق بھی ہیں کہ اُنھوں نے اللہ سے جس چیز پر عہد کیا تھا، اُسے پورا کر دکھایا ہے۔ پھر اُن میں سے کوئی اپنا ذمہ پورا کرچکا اور کوئی منتظر ہے۔ اُنھوں نے اِس میں ذرا بھی تبدیلی نہیں کی ہے۔“،(الاحزاب23:33)

”اور یاد کرو، جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو گے اور والدین کے ساتھ اور قرابت مندوں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کرو گے۔ اور عہد لیا کہ لوگوں سے اچھی بات کہو اور نماز کا اہتمام کرواور زکوٰۃ ادا کرو۔ پھر تم میں سے تھوڑے لوگوں کے سوا تم سب (اُس سے) پھر گئے اور حقیقت یہ ہے کہ تم پھر جانے والے لوگ ہی ہو۔“،(البقرہ 83:2)

”تم یتیم کے مال کے قریب نہ پھٹکو۔ ہاں، مگر اچھے طریقے سے، یہاں تک کہ وہ اپنی پختگی کو پہنچ جائے۔ اور عہد کو پورا کرو، اِس لیے کہ عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔“،(بنی اسرائیل34:17)