مضامین قرآن (60) اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی درست اساسات:توکل و تفویض ۔ ابویحییٰ
اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی اساسات کے بیان میں ہم نے ایمان و یقین سے گفتگو کا آغاز کیا تھا۔ ایمان خدا کو عقلی طور پر ماننے اور یقین دلی طور پر اس کی ہستی کو اس کی صفات کے ساتھ تسلیم کرنے کا نام ہے۔ پھر اسلام، قنوت اور اخلاص کی وہ بنیاد زیر بحث آئی تھی جس میں انسان خود کو خدا کے حوالے کرکے بندگی کا قلادہ گلے میں ڈالتا، فرمانبرداری کی راہ اختیار کرتا اور اپنے ہر عمل کو اس کے لیے خالص کر دیتا ہے۔ خدا کے ساتھ تعلق کا یہ سلسلہ اس کی بے پناہ نعمتوں پر شکر گزاری اور محبت اور اس محبت کی بنیاد پر اس کے دین کی نصرت کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ اعتراف نعمت کا یہ معاملہ انفس و آفاق کی نشانیوں پر تفکر کی عادت سے پیدا ہوتا، پھر اس کی یاد میں ڈھلتا اور اس کے حضور دعا و فریاد کو بندے کی ہستی بنا دیتا ہے۔ خدا سے تعلق کے یہ لطیف پہلو انسان کو بے خوف نہیں بناتے بلکہ بندہ رب کی پکڑ سے ہمیشہ اندیشہ ناک رہ کر تقویٰ کی زندگی گزارتا، اس کی عظمت کے تصور سے لرزاں رہتا اور اس کے سامنے دل و دماغ کو جھکائے رکھتا ہے۔ یہ بندہ اپنی غلطیوں پر توبہ کرنے والا، اسی کی طرف لوٹنے والا اور اسی کی طرف متوجہ رہنے والا بندہ ہوتا ہے۔ یہ بندہ ہر حال میں صبر کرنے والا اور اس کی رضا پر راضی رہنے والا بندہ ہوتا ہے۔
توکل: ایمان کا اہم ترین مظہر
قرآن مجید میں بیان کردہ خدا سے تعلق کی ان ساری اساسات پر ہم پیچھے گفتگو کرتے آئے ہیں۔ آج اس ضمن کے آخری وصف کو زیر بحث لایا جارہا ہے جو قرآن مجید نے بیان کیا ہے۔ یہ وصف توکل کا وصف ہے۔ جو درحقیقت ایمان کا اہم ترین مظہر ہے۔ انسان پر جب مشکل آجاتی ہے تو اس کے اندر خودبخود ایک نفسیاتی میکینزم کام کرنا شروع کر دیتا ہے جو اسے درپیش صورتحال کو برداشت کرنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ مگر جس وقت مشکل عملاً ابھی نہ آئی ہو اور انسان نے برے حالات کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہو تو اس کا تخیل مشکلات کو ہزار گنا بڑھا کر دکھاتا ہے۔ یہ بوجھ انسان کی جان پر نہیں ہوتا اس کی نفسیات پر ہوتا ہے اور اس کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ یہ گویا انسان کی ہستی کا نہیں اس کے حوصلہ کا امتحان ہوتا ہے۔
ایسے میں خدا کی ذات پر توکل اور اس پر بھروسا وہ چیز ہے جو اگر انسان کے اندر نہ ہو تو پھر وہ جھاگ کی طرح بیٹھتا چلا جاتا ہے۔ وہ زندگی میں کوئی بڑا کام نہیں کر پاتا۔ اس کی نفسیات کسی چیلنج کا سامنا نہیں کرسکتی۔ اس کی شخصیت کسی طوفان کے مقابلے میں نہیں آسکتی۔لیکن اگر انسان کو خدا پر بھروسا ہو جائے تو پھر انسان کے دل سے حالات کا خوف نکل جاتا ہے۔ وہ انجام سے بے پروا ہو جاتا ہے۔ وہ ہر سیلاب کے مقابلے میں دیوار اور ہر آندھی کے مقابلے میں چٹان بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ دشمنوں کا خوف، حالات کی سختی، مستقبل کے اندیشے، مال و وسائل کی کمی، معاندین کی قوت غرض عالم اسباب کی کوئی منفی چیز اور اندیشوں کی کوئی یلغار اسے بندگی کی راہ سے نہیں ہٹا پاتی۔ بندہ اپنا بھروسا اپنے رب پر رکھتا ہے اور ہر طرح کے دشمن، ہر طرح کے حالات اور ہر طرح کے خطرات کے مقابلے میں بے خوف ہو کر اتر جاتا ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا رب اس کے ساتھ ہے۔ وہ رب ہر شے پہ جس کی نظر ہے۔ جو سب جانتا ہے جسے سب خبر ہے۔ جس کے قبضہ قدرت میں ہر چیز ہے۔ جس کے مقابلے کی طاقت کسی چیز میں نہیں۔ اس رب کی معیت کا جس شخص کو یقین ہو جائے ساری خدائی مل کر بھی اسیبے حوصلہ نہیں کرسکتی۔
توکل کا اگلا مرحلہ تفویض ہے۔ توکل اگر خدا کا نام لے کر اور اس کا تصور کر کے دل کو مضبوط بنانے کا نام ہے تو تفویض اس کی کارفرمائی اور قدرت پر بھروسا کرکے اس کے حکم کے مطابق مشکل ترین حالات میں وہ قدم اٹھا لینے کا نام ہے جس کا مطالبہ خدا نے کیا ہے۔یہ اس خدا کو اپنا وکیل بنا لینے کا نام ہے جو مشرق و مغرب کا تنہا رب ہے۔ تفویض میں بندہ اپنا معاملہ اپنے رب کے سپرد کر دیتا ہے۔ ہر طوفان سے بے نیاز ہوکر اپنی کشتی اس کے حوالے کر دیتا ہے۔ اس یقین کے ساتھ خدا اس کشتی کو ڈوبنے نہیں دے گا۔ اور اگر ڈبونے کا فیصلہ بھی کرتا ہے تو اس میں بھی اسی کی کوئی حکمت ہوگی۔ یہ توکل اور یہ تفویض ایمان کا وہ اظہار ہے جس سے بڑا ایمان کا ظہور آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر کم ہی وجود میں آسکتا ہے۔
توکل اور اسباب
تاہم اس توکل و تفویض کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اسباب کی دنیا سے نظریں چرالے، اپنی حماقتوں اور بے تدبیری کو خدا کے کھاتے میں ڈال دے، اپنی بے بصیرتی اور خدا کی سنتوں سے بے خبری کو اپنا ایمان سمجھ لے۔ خدا کی بنائی ہوئی دنیا اسباب کی دنیا ہے۔ اس میں کشتی کے بغیر کوئی شخص سمندر میں اترے گا تو آخر کار ڈوبے گا۔ بندہ پر لازم ہے کہ وہ سمجھے کہ خدا دنیا کو اسباب کے کن اصولوں کے تحت چلا رہا ہے۔ ان اسباب کا ممکنہ حد تک اہتمام کرے۔ اسباب کا اہتمام نہ کرسکتا ہو تو خود کو اس امتحان میں نہ ڈالے جس میں معلوم ہے کہ خد اکی مدد اسباب کے اہتمام کے بغیر نہیں آیا کرتی۔ یہ کرے گا تو مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ تاہم ایک دفعہ اسباب کا اہتمام کرلیا یا حالات نے کسی ایسے جبر میں ڈال دیا جہاں اسباب کا اہتمام ہو ہی نہیں سکتا تو پھر ایمان کا تقاضا ہے کہ انسان خدا پہ بھروسا کرے اور ہر مشکل کا سامنا پورے حوصلہ کے ساتھ کرنے کے لیے اٹھ جائے۔ پھر خدا آتا ہے اور وہاں سے آتا ہے جہاں سے انسان کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ خدا انسان کے لیے کافی ہو جاتا ہے، اس طرح کافی ہو جاتا ہے کہ کسی دوسرے کی ضرورت نہیں رہتی۔
پھر خارج سے مدد آتی ہے۔ اندر سے مدد آتی ہے۔ حالات بدل جاتے ہیں۔ احوال تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔ انہونی ہونی میں بدل جاتی ہے۔ ناممکنات ممکنات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اسباب مہیا کر دیے جاتے ہیں۔ وسائل چل کر آجاتے ہیں۔ انسان آگے بڑھ کر راستہ دیتے ہیں اور کوئی نہ آئے تو خدا خود آجاتا ہے۔ اس کے فرشتے راستہ ہموار کر دیتے ہیں۔ یہ ہوتا ہے اور اس کے ہونے میں کوئی شک نہیں۔
امید، طمع اور رغبت
بندہ مومن کو بدترین حالات میں حوصلہ دینے والی چیز رجا یا امید ہوتی ہے۔ بندہ مومن کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ خدا کی رحمت سے مایوسی کفر کی علامت ہے جو ایمان کی عدم موجودگی کی علامت ہے۔ امید عین ایمان ہے جو بندہ مومن میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ خدا خدا ہے۔ پتھر کا بت نہیں ہے جسے پکارنا اور نہ پکارنا ایک برابر ہو۔ خدا سمیع و بصیر ہے۔ رحیم و کریم ہے۔ وہ سب کا رب ہے، مگر اپنے ماننے والوں کا تو سب سے بڑھ کر ہے۔ وہ سب کا مالک ہے، مگر اپنے نام لیواؤں کا تو حامی و ناصر بھی ہے۔ جب وہ ساتھ ہے، جب وہ حامی و ناصر ہے تو پھر مایوسی کا کیا سوال۔ پھر بدترین حالات میں بھی امید نہیں ٹوٹتی۔ مایوسی غالب نہیں ہوتی۔ بندہ طمع کے ساتھ اسے پکارتا ہے۔ رغبت کے ساتھ اس کی امید رکھتا ہے۔ اس لیے کہ یہ خدا کو زیب دیتا ہے کہ اس جیسے سخی سے طمع کی جائے اور اس جیسے ان داتا سے رغبت سے مانگا جائے۔ اس سے طمع و رغبت کے ساتھ مانگنا عبادت ہے اور اس کے غیر سے مانگنا جرم ہے۔ چنانچہ بندہ اس سے امید رکھتا ہے۔ اس سے فریاد کرتا ہے اور آخر کار اسی سے پاتا بھی ہے۔ اس لیے کہ اس کے سوا دینے والا کوئی نہیں۔
توکل و تفویض کے ساتھ جس شخص کی امید خدا سے نہیں بندھی، اس نے طمع و رغبت کے ساتھ خدا کو نہیں پکارا، وہ مومن نہیں، اپنی حقیقت کے اعتبار سے کافر ہے۔ اس نے ابھی تک ایمان کا ذائقہ نہیں چکھا۔
قرآنی بیانات
’’(پھر روانہ ہونے لگے تو) اُس نے اُن کو ہدایت کی کہ میرے بیٹو، تم سب ایک ہی دروازے سے (مصر کے دارالسلطنت میں) داخل نہ ہونا، بلکہ الگ الگ دروازوں سے جانا۔ (یہ محض ایک تدبیر ہے، ورنہ) حقیقت یہ ہے کہ میں اللہ کے مقابل میں تمھارے کچھ بھی کام نہیں آسکتا۔ تمام اختیار تو اللہ ہی کا ہے۔ میں نے اُسی پر بھروسا کیا ہے اور بھروسا کرنے والوں کو اُسی پر بھروسا کرنا چاہیے۔‘‘،(یوسف67:12)
’’(اے پیغمبر)، ہم نے اِسی طرح (ایسی کسی نشانی کے بغیر ہی) تم کو رسول بنا کر بھیجا ہے، ایک ایسی قوم میں جس سے پہلے بہت سی قومیں گزر چکی ہیں، اِس لیے کہ تم اُنھیں وہ پیغام سنا دو جو ہم نے تم پر وحی کیا ہے، ہر چند وہ خدائے رحمن کا انکار کر رہے ہیں۔ اِن سے کہو کہ وہی میرا پروردگار ہے، اُس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، میں نے اُسی پر بھروسا کیا ہے اور (جانتا ہوں کہ ایک دن) اُسی کی طرف لوٹنا ہے۔‘‘،(الرعد30:13)
’’اگر ہم تمھاری ملت میں لوٹ آئیں، اِس کے بعد کہ اللہ ہمیں اُس سے نجات دے چکا ہے تو (اِس کے معنی یہ ہیں کہ) ہم نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے۔ (نہیں)، یہ ہمارے لیے ممکن نہیں ہے کہ ہم اُس میں لوٹ آئیں، الّا یہ کہ اللہ، ہمارا پروردگار ہی چاہے۔ ہمارے پروردگار کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ہم نے اللہ پر بھروسا کیا ہے۔ پروردگار، ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے، تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔‘‘، (الاعراف89:7)
’’کہہ دو: (ہم اپنے بارے میں کوئی دعویٰ نہیں کرتے۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ) وہ سراسر رحمت ہے۔ ہم اُس پر ایمان لائے ہیں اور ہم نے اُسی پر بھروسا کیا ہے۔ سو عنقریب تم جان لوگے کہ کون کھلی گمراہی میں پڑا ہوا ہے۔‘‘،(الملک29:67)
’’(ایمان والو)، اگر اللہ تمھاری مدد پر ہو تو کوئی تم پر غلبہ نہیں پاسکتا اور وہ تمھیں چھوڑ دے تو اُس کے بعد کون ہے جو تمھاری مدد کرے گا؟ اور اِیمان والوں کو تو اللہ ہی پر بھروسا کرنا چاہیے۔‘‘،(آل عمران 160:3)
’’سو یہ اللہ کی عنایت ہے کہ تم اِن کے لیے بڑے نرم خو واقع ہوئے ہو،(اے پیغمبر)۔ اگر تم درشت خو اور سخت دل ہوتے تو یہ سب تمھارے پاس سے منتشر ہو جاتے۔ اِس لیے اِن سے درگذر کرو، اِن کے لیے مغفرت چاہو اور معاملات میں اِن سے مشورہ لیتے رہو۔ پھر جب فیصلہ کر لو تو اللہ پر بھروسا کرو، اِس لیے کہ اللہ کو وہی لوگ پسند ہیں جو اُس پر بھروسا کرنے والے ہوں۔‘‘،(آل عمران 159:3)
’’یاد کرو، جب منافقین اور وہ بھی جن کے دلوں کو روگ لگا ہوا ہے، (خود تمھارے متعلق) کہہ رہے تھے کہ اِن کے دین نے اِن لوگوں کو دھوکے میں ڈال دیا ہے، دراں حالیکہ جو اللہ پر بھروسا رکھتے ہیں، (اللہ ضرور اُن کی مدد کرتا ہے)، اِس لیے کہ اللہ زبردست ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے۔‘‘،(الانفال49:8)
’’اگر تم اِن سے پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔ کہو، پھر تم نے سوچا ہے کہ اگر اللہ مجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو اللہ کے سوا جن دیویوں کو تم پکارتے ہو، کیا یہ اُس کی پہنچائی ہوئی تکلیف کو دور کرسکتی ہیں؟ یا اللہ مجھ پر کوئی فضل کرنا چاہے تو کیا یہ اُس کے فضل کو روکنے والی ہوسکتی ہیں؟ کہہ دو، میرے لیے اللہ کافی ہے، بھروسا کرنے والے اُسی پر بھروسا کرتے ہیں۔‘‘،(الزمر38:39)
’’اِس طرح کی سرگوشیاں تو شیطان کی طرف سے ہیں تاکہ وہ ایمان والوں کو غم زدہ کر دے، دراں حالیکہ خدا کی اجازت کے بغیر وہ اُن کو ذرا بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور ایمان والوں کو تو ہر حال میں اللہ ہی پر بھروسا کرنا چاہیے۔‘‘،(المجادلہ10:58)
’’اور اُنھیں وہاں سے رزق دے گا، جدھر اُن کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ اور جو اللہ پر بھروسا کریں گے، وہ اُن (کی دست گیری) کے لیے کافی ہے۔ بے شک، اللہ اپنے ارادے پورے کرکے رہتا ہے۔ (ہاں، یہ ضرور ہے کہ) اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے۔‘‘،(طلاق3:65)
’’تم اُس جیتے پر بھروسا رکھو جو مرنے والا نہیں ہے اور اُس کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرتے رہو۔ (وہ اِن سے خود سمجھ لے گا)، اپنے بندوں کے گناہوں سے باخبر رہنے کے لیے وہ کافی ہے۔‘‘،(الفرقان58:25)
’’اور اللہ پر بھروسا رکھو اور بھروسے کے لیے اللہ کافی ہے۔‘‘،(الاحزاب3:33)
’’کہتے ہیں کہ سرتسلیم خم ہے، پھر جب تمھارے پاس سے ہٹتے ہیں تو اِن میں سے ایک گروہ اپنی اِس بات کے بالکل برخلاف مشورے کرتا ہے۔ اِن کی یہ تمام سرگوشیاں اللہ لکھ رہا ہے۔ سو اِن سے اعراض کرو اور اللہ پر بھروسا رکھو اور (جان لو کہ) اللہ بھروسے کے لیے کافی ہے۔‘‘،(النساء81:4)
’’وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے، اُس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، اِس لیے اُسی کو اپنا کارساز بناؤ۔‘‘، (مزمل9:73)
’’(ایمان والو، اِس جنگ کے لیے نکلو) اور دشمن کے تعاقب میں کمزوری نہ دکھاؤ۔ اگر تم تکلیف اٹھا رہے ہو تو تمھاری طرح وہ بھی تکلیف اٹھا رہے ہیں، لیکن تم خدا سے وہ توقعات رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھتے، اور اللہ علیم و حکیم ہے۔‘‘،(النساء104:4)
’’میرے بیٹو، جاؤ یوسف اور اُس کے بھائی کی ٹوہ لگاؤ اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ اللہ کی رحمت سے تو صرف منکرین ہی مایوس ہوتے ہیں۔‘‘،(یوسف87:12)
’’ابراہیم نے کہا: اپنے پروردگار کی رحمت سے گمراہوں کے سوا کون مایوس ہوسکتا ہے۔‘‘، (الحجر56:15)
’’عنقریب تم اُسے یاد کرو گے۔ میں اپنا معاملہ اب اللہ کے حوالے کرتا ہوں۔ یقیناً اللہ اپنے بندوں کا نگران ہے۔‘‘،(الغافر44:40)
’’پھر اُس کی یہ دعا ہم نے قبول کی اور اُسے یحییٰ عطا فرمایا اور اُس کی بیوی کو اُس کے لیے بھلا چنگا کر دیا۔ اِس میں شبہ نہیں کہ یہ لوگ نیکی کے کاموں میں سبقت کرتے تھے اور امید و بیم کی ہر حالت میں ہم کو پکارتے اور ہمارے آگے سرافگندہ رہنے والے تھے۔‘‘،(الانبیا90:21)
’’اور زمین کی اصلاح کے بعد اُس میں فساد برپا نہ کرو اور اُسی کو پکارو، بیم و رجا، دونوں حالتوں میں۔ (یہی خوبی کا راستہ ہے) بے شک، اللہ کی رحمت اُن لوگوں سے قریب ہے جو خوبی اختیارکرنے والے ہیں۔‘‘،(الاعراف 56:7)