مضامین قرآن: سورۃ البقرۃ (2) ۔ ابویحییٰ
سورة البقرة (2)
سورة بقرة کی تمہید
ہم سورة بقرة کی ابتدائی پانچ آیات کا مطالعہ کرچکے ہیں۔ ان میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ سورة فاتحہ میں جس ہدایت کی دعا کی گئی تھی سورة بقرة اسی ہدایت کے ساتھ نازل کی گئی ہے۔ مگر اس ہدایت سے فائدہ وہی لوگ اٹھائیں گے جو خوف خدا کی نفسیات میں جیتے ہیں۔ جو ایمان و اخلاق کے تقاضوں کو پورا کرتے اور ہر قسم کے تعصب سے خالی ہو کر آخرت کی جوابدہی کے یقین کے ساتھ حقائق پر غور کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اس ہدایت سے فائدہ اٹھا کر آخرت کی ابدی فلاح کے حقدار ہوں گے۔
یہ بات بھی واضح کی جاچکی ہے کہ اس سورت کی ابتدائی انتالیس آیات تمہید کی ہیں جن میں ہدایت کی تفصیل اور اس پر لوگوں کے ردعمل کا بیان ہے۔ ان آیات کا ترجمہ درج ذیل ہے جس کے بعد ہم ان آیات میں زیر بحث آنے والے ان مضامین اور موضوعات میں سے ایک ایک کو لے کر ان پر بات کریں گے۔
”جن لوگوں نے (اس کتاب کو) نہ ماننے کا فیصلہ کر لیا ہے، ان کے لیے برابر ہے، تم انھیں خبردار کرو یا نہ کرو، وہ نہ مانیں گے۔ ان کے دلوں اور کانوں پر (اب) ﷲ نے (اپنے قانون کے مطابق) مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے۔ اور (قیامت کے دن) ایک بڑا عذاب ہے جو ان کے لیے منتظر ہے۔
اور انھی لوگوں میں وہ (منافقین) بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے ﷲ کو مانا ہے اور قیامت کے دن کو مانا ہے، دراں حالیکہ وہ اصلاً ان میں سے کسی چیزکو بھی نھیں مانتے۔ وہ ﷲ اور اہل ایمان، دونوں کو فریب دینا چاہتے ہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ اپنے آپ ہی کو فریب دے رہے ہیں، لیکن اس کا شعور نھیں رکھتے۔ ان کے دلوں میں (حسد کی) بیماری تھی تو ﷲ نے (اب) ان کی اس بیماری کو اور بڑھادیا ہے، اور ان کے اس جرم کی پاداش میں کہ یہ جھوٹ بولتے رہے ہیں، ان کے لیے بڑا دردناک عذاب ہے۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ (اپنے اس رویے سے) تم اس سرزمین میں فساد پیدا نہ کرو تو جواب میں کہتے ہیں کہ ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ خبردار، یہی فسادی ہیں، لیکن اس کا احساس نھیں کررہے۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم بھی اسی طرح ایمان لاﺅ، جس طرح (تمھارے سامنے) یہ لوگ ایمان لائے ہیں تو (بڑے تکبر سے) کہتے ہیں کہ ہم کیا ان احمقوں کی طرح ایمان لائیں؟ سن لو، یہی احمق ہیں، لیکن نھیں جانتے۔ اور جب مسلمانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے مان لیا اور جب علیحدگی میں اپنے شیطانوں کے پاس پہنچتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں، ہم تو مذاق کررہے تھے۔ ﷲ ان سے مذاق کررہا ہے اور ان کی سرکشی میں ان کی رسی (اپنے قانون کے مطابق) دراز کیے جاتا ہے، اس طرح کہ یہ بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ یہی ہیں جنھوں نے ہدایت پر گمراہی کو ترجیح دی تو ان کا یہ سودا ان کے لیے کچھ بھی نفع بخش نہ ہوا اور نہ یہ کوئی راستہ پاسکے ہیں۔
ان کی مثال بالکل ایسی ہے، جیسے (اندھیری رات میں) کسی شخص نے الاﺅ جلایا، پھر جب آگ نے اس کے ماحول کو روشن کردیا تو (جن کے لیے آگ جلائی گئی تھی)، الله نے ان کی روشنی سلب کرلی اور انھیں اس طرح اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ وہ کچھ دیکھ نہیں سکتے؛ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، سو اب وہ کبھی نہ لوٹیں گے۔ یا بالکل ایسی ہے جیسے آسمان سے بارش ہورہی ہے۔ اس میں اندھیری گھٹائیں بھی ہیں اور کڑک اور چمک بھی۔ وہ کڑک کے مارے اپنی موت کے ڈر سے کانوں میں انگلیاں ٹھونسے لے رہے ہیں، دراں حالیکہ اس طرح کے منکروں کو ﷲ ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ بجلی کی چمک ان کی آنکھیں خیرہ کیے دے رہی ہے؛ یہ اس میں کچھ چل لیتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ان کے کان اور آنکھیں بھی اگر ﷲ چاہتا تو سلب کرلیتا۔ بے شک، ﷲ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے“ (البقرہ ۲: ۶۔۲۰)
منکرین حق
آیت نمبر چھ تا سات میں حق کا انکار کرنے والا گروہ زیر بحث آیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہدایت کو ہدایت کی صورت میں دیکھ لینے کے باوجود بھی محض اپنے تعصبات کی بنیاد پر اسے رد کردینے کا فیصلہ کرلیتے ہیں۔ جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ ان کے قلوب و سماعت پر مہر لگا کر ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ جس کا نتیجہ دنیا میں گمراہی اور آخرت میں عذاب عظیم ہے۔
نفاق، حسد، فساد
ہدایت کے باب میں تیسرا گروہ منافقین کا ہے۔ یہ دراصل وہ یہودی تھے جو اتنے ایمان کے دعوے دار تو بن گئے جتنا ان کے تعصبات گوارا کرنے کو تیار تھے یعنی اللہ اور آخرت پر ایمان، مگر اس سے آگے بڑھ کر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانا ان کو گوارا نہ تھا۔ یوں ادھورے ایمان کے مدعی بن کر وہ اللہ اور مسلمانوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کررہے تھے، مگر دراصل ان کا یہ عمل خود فریبی کے سوا کچھ نہیں تھا۔
ان کے اس عمل کی وجہ حسد تھی۔ یعنی اس بات پر حسد کہ نئی نبوت یہودی قوم کے باہر کیوں آگئی۔ چنانچہ اللہ نے اس حسد کو ہی دنیا میں ان کی سزا بنادیا کہ اسلام کی ترقی کے ساتھ ساتھ ان کی حسد بڑھتی گئی اور انہیں جلاتی گئی اور آخرت میں ان کے لیے دردناک عذاب کا فیصلہ تھا۔
تاہم حسد ہمیشہ فساد پیدا کرتی ہے ، چاہے وہ اصلاح کا جتنا چاہے لبادہ اوڑھ لے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اسی وقت متنبہ کردیا کہ جو کچھ تم کررہے ہو اس کا نتیجہ فساد کی شکل میں نکلے گا۔ مگر وہ اس حقیقت کا ادراک نہیں کرسکے اور یہ سمجھتے رہے کہ ہم مدعی ایمان بن کر دراصل مسلمانوں اور یہودیوں کے تعلقات ٹھیک رکھنا چاہتے تھے اور یہ بڑا ہی اصلاحی عمل ہے۔
ان کا خیال تھا کہ سادہ دل مسلمان نئی نبوت پر ایمان لے آئے ہیں اور انہیں ان خطرات کا اندازہ نہیں جو اس ایمان کے نتیجے میں ظاہر ہوسکتے تھے۔ یہ اس بات کو حماقت سمجھتے ہوئے خود کو ان خطرات سے بچانے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل تھے۔ چنانچہ وہ مسلمانوں سے ملتے تو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ان کے سامنے ایمان کا اظہار کیا کرتے لیکن اپنے آپ کو خطرات سے بچانے کے لیے اپنی یہودی لیڈرشپ سے بھی روابط استوار رکھتے تھے۔ جب وہ شیطان صفت یہود سردار ان کی سرزنش کرتے کہ تم مدعی ایمان کیوں بن رہے ہو تو وہ اپنی صفائی پیش کرکے کہتے کہ ہم تو آپ ہی کے ساتھ ہیں۔ مسلمانوں سے تو ہم دل لگی کررہے ہیں۔
جبکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ تھا کہ ان لوگوں کو ڈھیل دے کر دراصل اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ مذاق کررہے ہیں۔ یہ اپنے اندھے پن میں بھٹکتے پھر رہے ہیں اور ہدایت سے محروم ہیں۔ یہ سزا ہے اس بات کی کہ انہوں نے ہدایت کے بدلے میں گمراہی کو خریدا اورنتیجتاً یہ ایک برا سودا ثابت ہوا۔
کفر و نفاق کی تمثیل
آیت نمبر 17 سے ہدایت کا انکار کرنے والے دو گروہوں کی مثال دو اعلیٰ تمثیلوں کی شکل میں بیان ہورہی ہے۔ پہلی تمثیل کفار کی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اندھیروں میں گھرے تھے۔ ایسے میں ایک شخص نے روشنی کے لیے آگ جلائی تو عین اسی وقت ان کی بینائی سلب کرلی گئی۔ یوں اندھے اندھے ہی رہے۔ پہلے باہر کے اندھیرے کی بنا پر اور پھر اندر کی تاریکی کی وجہ سے۔ یہ اندھیرا اتنا بڑھا کہ اس نے ان کی سماعت اور گویائی کو بھی ختم کرڈالا اور وہ ہمیشہ کے لیے ہدایت سے محروم ہوگئے۔
دوسری تمثیل منافقین کی ہے۔ جن کا اصل کفار کی طرح تعصب کا اندھیرا نہیں تھا بلکہ ان کے مفادات انہیں بہت عزیز تھے جن کے لیے وہ کوئی خطرہ مول لینے کو تیار نہ تھے۔ چنانچہ ان کی تمثیل اس قافلے سے دی گئی جو اندھیری رات میں بارش میں گھر جائے۔ چمک ہوتی تو کچھ راہ نظر آتی اور وہ آگے بڑھنے لگتے۔ مشکلات کا اندھیرا چھاتے ہی ان کے قدم رک جاتے۔ کڑک ہوتی تو موت کے خوف سے وہ کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے۔ یوں وہ رکتے چلتے اور ڈرتے بہرحال مسلمانوں کے قافلے کے ساتھ ہی چل رہے تھے۔ چنانچہ اللہ نے ابھی ان کی مہلت مکمل سلب نہیں کی اور پہلے گروہ کی طرح ان کو مکمل اندھا نہیں کیا بلکہ تنبیہات سے انہیں راہ راست پر لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
[جاری ہے]