Take a fresh look at your lifestyle.

مضامین قرآن (54) اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی درست اساسات ۔ ابویحییٰ

ہم اخلاقی مطالبات کی بحث کے ضمن میں اللہ تعالیٰ کے حوالے سے عائد ہونے والے مطالبات کے ضمن میں عبادات کا جائزہ لے رہے تھے۔ عبادات کی بحث کے پورا ہونے کے بعد اب ہم ان مطالبات کی دوسری جہت پر کلام کریں گے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی درست نوعیت کو بیان کرتی ہے۔

انسان ایک پیچیدہ مخلوق ہے۔ بظاہر وہ دیگر حیوانات کی طرح ایک مادی وجود اور حیوانی جبلتیں رکھتا ہے، مگر اس کو انسان بنانے والی چیز اس کا وہ نفسیاتی وجود ہے جو اخلاقی، روحانی اور عقلی شعور سے مل کر بنا ہے۔ یہ نفسیاتی وجود جس طرح انسانوں اور مادی دنیا کے ساتھ ایک ذہنی تعلق قائم کرتا ہے، اسی طرح یہ نفسیاتی وجود اپنے خالق و مالک اللہ رب العالمین کے ساتھ بھی ایک تعلق قائم کرتا ہے۔ قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ وہ کیا درست اساسات ہیں جن کی بنیاد پر انسان کے اس نفسیاتی وجود کو اپنے رب کے ساتھ متعلق ہونا چاہیے۔ ان میں سے اہم ترین اساسات درج ذیل ہیں۔

ایمان، یقین، اسلام اور قنوت
اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی پہلی اساس ایمان ہے۔ ایمان اپنے عقلی شعور اور فہم و بصیرت کو استعمال کرتے ہوئے کائنات کے رب کو دریافت کرنے کا نام ہے۔ یہ کائنات کی ناتمامی پر غور کرکے اس آنے والی دنیا کو مان لینے کا نام ہے جو اس دنیا کے بعد قائم ہوگی۔ یہ اپنے تعصبات، مفادات اور خواہشات کی بنا پر سچائی کی تکذیب کرنے کے بجائے اسے حق جان کر مان لینے کا نام ہے۔ سچائی اور حق کو مان لینا ہی ایمان کی روح اور اس کی اصل حقیقت ہے۔ سچائی کے انکار سے اس کے اقرار کا سفر ایمان کہلاتا ہے۔ یہ ذہن کی دنیا میں پیش آنے والا واقعہ ہے جو آخرکار خارج کی دنیا میں اپنا اظہار قولی اور عملی سطح پر کرکے دم لیتا ہے۔

یوں تو ہر سچائی کو مان لینا ایسے ہی ہوتا ہے۔ مگر خدا جس درجہ کی طاقتور اور بلند ہستی ہے، اس کی نعمتیں اور مہربانیاں جس درجے میں ہیں، وہ جس طرح لمحہ لمحہ اپنے بندوں سے متعلق رہتا ہے؛ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک بندہ مومن کا زندہ ایمان یقین و معرفت کے ایک عملی تجربے میں تبدیل ہوتا چلا جاتا ہے۔ یوں تو خدا غیب میں ہے اور اس پر ایمان کا بنیادی تقاضا یہی ہے کہ اسے بن دیکھے اور غیب میں رہ کر مانا جائے اور اسی بنا پر ایک نوعیت کا شک اور اضطراب محسوس ہونا فطری چیز ہے، مگر جب انسان ایمان کے تقاضوں کو نبھاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ شک و اضطراب کے ہر کانٹے کو اس کے قلب سے نکالتے چلے جاتے ہیں۔ پھر یقین کی گھٹا قلبِ مومن پر برستی ہے اور معرفت کا وہ سبزہ زار وجود میں آتا ہے جو خود بندہ مومن کو بھی زندگی بخشتا ہے اور اس کے ارد گرد موجود لوگوں کو بھی شاداب کر دیتا ہے۔

اس ایمان کی اصل اساس خدا کی وہ ہستی ہوتی ہے جس کی ہمہ گیر نگرانی، قرب، معیت اور علم کا یقین انسان کو خلوت و جلوت میں پاکیزہ اور تنگی و آسانی میں ثابت قدم رکھتا ہے۔ اس ایمان کی دوسری اساس خدا کے وعدوں کا وہ یقین ہوتا ہے جو اس نے آنے والی دنیا اور اس کی سزا و جزا کے حوالے سے کر رکھے ہوتے ہیں۔ تاہم یہ ایمان محض طفل تسلی کی نوعیت کی چیز نہیں ہوتی۔ یہ ایک زندہ مشاہدے کا لازمی نتیجہ ہے۔ وہ خدا جس نے دہکتے سورج، سرد و تاریک خلا اور چٹیل اجرام فلکی میں ہر سمت بکھری موت کے درمیان زندگی سے بھرپور ایک جنت کرہ ارض پر بنا دی ہے، وہ کیوں آنے والی دنیا کو نہیں بنا سکتا ہے۔ وہ رب جس نے اس دنیا میں زندگی کی بقا اور تسلسل کا بھرپور انتظام کر رکھا ہے، اسے اگلی دنیا میں عیش جاودانی فراہم کرنے سے کیا چیز مانع ہوسکتی ہے۔ اسی طرح بندہ مومن کا یہ یقین ہوتا ہے کہ جس رب نے سورج کو دہکا رکھا ہے، اس کے لیے جہنم کی بھٹی کو دہکانا کیا مشکل ہے۔

اس ایمان کی تیسری اساس یہ یقین ہوتا ہے کہ خدائے دو جہاں آج بھی اس دنیا کا نظام اپنے فرشتوں کے ذریعے سے چلا رہا ہے۔ پھر جس طرح خدا کے فرشتے خدا کے حکم سے مادی دنیا کا نظم چلا رہے ہیں، اسی طرح اخلاقی دنیا میں ہدایت و رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کو بھیجا ہے جو اس کی مرضی سے ہمیں آگاہ کرتے ہیں اور اپنے بعد اپنی تعلیم کو مقدس کتابوں اور ختم نبوت کے بعد قرآن مجید کی شکل میں چھوڑ جاتے ہیں۔

ایمان و یقین کی یہ دنیا انسان کو آمادہ کرتی ہے کہ وہ اپنے وجود کو اپنے رب کے حوالے کر دے۔ اس کی اطاعت کی قبا اوڑھ لے اور اسلام کے بندھن سے خود کو باندھ کر اپنی رسی اپنے رب کے حوالے کر دے۔ ہر سرکشی کو چھوڑ دے۔ ہر نافرمانی سے باز آجائے۔ ہر حکم کی تعمیل کرے۔ ہر امر کو بجا لائے اور ہر منکر سے دور ہوجائے۔ چنانچہ ایمان کا سفر یقین کی وادی سے ہوتا ہوا اسلام کی مشکل گھاٹی کو پار کرنے کا حوصلہ پیدا کرلیتا ہے۔ چنانچہ ایمان لانا صرف ایک دفعہ مان لینے کا نام نہیں بلکہ زندگی کے ہر دوراہے پر انسان جب غیر اللہ کے مقابلے میں اللہ کی بات سنتا، باطل کے مقابلے میں حق کو اختیار کرتا اور سچائی کے انکار کے بجائے اس کے اعتراف کا راستہ اختیار کرتا ہے تو وہ اپنے ایمان کی تجدید کرتا، اپنے یقین کو محکم کرتا اور اپنے اسلام کا اظہار کرتا ہے۔

خدا اور اس کے وعدوں کو مان کر ان کا یقین کرنا، پھر دل کی دنیا آباد کرنے کے بعد اپنے ظاہر کو خدا کے سامنے جھکا کر اس کے ہر حکم کو بجا لانا خدا کے ساتھ ہمارے تعلق کی وہ پہلی اساس ہے جس کا مطالبہ قرآن مجید شدت کے ساتھ کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پھر وہ باقی سارے مطالبات پورے ہوتے ہیں جن کا تقاضا کیا جاتا ہے اور وہ سارے رویے اختیار کرلیے جاتے ہیں جن کا حکم دیا جاتا ہے۔ ایمان کا یہی وہ مقام ہے جسے قرآن مجید نے اس درخت سے تشبیہ دی جس کی جڑیں زمین میں اورشاخیں آسمان تک بلند ہوتی ہیں۔ یہ ایمان انفس و آفاق کی نشانیوں سے جلا پاتا اور آیات الٰہی کی تلاوت سے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہ اللہ کی یاد سے اطمینان پاتا اور اس دنیا میں رہ کر جنت کی بشارت اور اچھے انجام کی خوشخبری پاتا ہے۔

قرآنی بیانات
’’جو بن دیکھے مان رہے ہیں اور نماز کا اہتمام کر رہے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیں دیا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کر رہے ہیں‘‘، (البقرہ 3:2)

’’(یہ عقل کے اندھے ہیں، اِس لیے پیغمبر پر ایمان کے لیے نشانی مانگتے ہیں، ورنہ) حقیقت یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں کے بنانے میں اور دن اور رات کے باری باری آنے میں اُن لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو بصیرت والے ہیں۔ اُن کے لیے جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر لیٹے ہوئے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے اور زمین اور آسمانوں کی خِلقت میں غور کرتے رہتے ہیں۔ (اُن کی دعا یہ ہوتی ہے کہ) پروردگار، تو نے یہ سب بے مقصد نہیں بنایا ہے۔ تو اِس سے پاک ہے کہ مقصد کے بغیر کوئی کام کرے۔ سو ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔‘‘، (آل عمران190-191: 3)

’’اور جو اسے بھی مان رہے ہیں جو تم پر نازل کیا گیا اور اسے بھی جو تم سے پہلے نازل کیا گیا اور آخرت پر فی الواقع یقین رکھتے ہیں۔‘‘،(البقرہ 4:2)

’’زمین اور آسمانوں کی ہر چیز نے اللہ کی تسبیح کی ہے اور وہ زبردست ہے، بڑی حکمت والا ہے۔ زمین اور آسمانوں کی بادشاہی اُسی کی ہے۔ وہی زندہ کرتا اور وہی مارتا ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ وہی اول بھی ہے اور آخر بھی، اور ظاہر بھی ہے اور باطن بھی، اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ وہی ہے جس نے زمین اور آسمانوں کو چھ دن میں پیدا کیا اور پھر (اُن کی تدبیر امور کے لیے) عرش پر جلوہ فرما ہوا۔ وہ جانتا ہے جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اُس سے نکلتا ہے، اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اُس میں چڑھتا ہے، اور جہاں تم ہوتے ہو، وہ تمھارے ساتھ ہوتا ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُسے دیکھتا ہے۔ زمین اور آسمانوں کی بادشاہی اُسی کی ہے اور تمام معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع کیے جاتے ہیں۔ وہی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور وہ سینوں کے بھید تک جانتا ہے۔ (اِس لیے تم بھی اللہ کی تسبیح کرو اور) اللہ اور اُس کے رسول پر فی الواقع ایمان لاؤ اور جن چیزوں کا اللہ نے تمھیں امین بنایا ہے، اُن میں سے خرچ کرو۔ چنانچہ تم میں سے جو (اِس طرح) ایمان لائے اور اُنھوں نے (اللہ کی راہ میں) خرچ کیا ہے، اُن کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔‘‘، (الحدید1-7: 57)

’’(تم نہیں مانتے تو اِس کا نتیجہ بھی تمھیں ہی دیکھنا ہے)۔ ہمارے پیغمبر نے تو اُس چیز کو مان لیا جو اُس کے پروردگار کی طرف سے اُس پر نازل کی گئی ہے، اور اُس کے ماننے والوں نے بھی۔ یہ سب اللہ پر ایمان لائے، اور اُس کے فرشتوں اور اُس کی کتابوں اور اُس کے پیغمبروں پر ایمان لائے۔ (اِن کا اقرار ہے کہ) ہم اللہ کے پیغمبروں میں سے کسی کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے اور اِنھوں نے کہہ دیا ہے کہ ہم نے سنا اور سرِاطاعت جھکا دیا۔ پروردگار، ہم تیری مغفرت چاہتے ہیں اور (جانتے ہیں کہ) ہمیں لوٹ کر تیرے ہی حضور میں پہنچنا ہے۔‘‘،(البقرہ 285:2)

’’(تاہم اُس کا تمام فضل و رحمت صرف اِسی گھر کے ساتھ خاص نہیں ہے)۔ حقیقت یہ ہے کہ جو مرد اور جو عورتیں مسلمان ہیں، مومن ہیں، بندگی کرنے والے ہیں، سچے ہیں، صبر کرنے والے ہیں، اللہ کے آگے جھک کر رہنے والے ہیں، خیرات کرنے والے ہیں، روزہ رکھنے والے ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرنے والے ہیں، اللہ نے اُن کے لیے بھی مغفرت اور بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔‘‘،(الاحزاب35:33)

’’(پھر یہی نہیں، اپنی نجات کے یہ مدعی اِس قدر پستی میں گر چکے ہیں کہ) اِنھوں نے کہا ہے کہ اللہ کی اولاد ہے۔ (لاریب)، وہ پاک ہے اِن باتوں سے، بلکہ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اُسی کا ہے، سب اُس کا حکم مانتے ہیں۔‘‘، (البقرہ 116:2)

’’(یاد رکھو)، اہل ایمان تو وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو اُن کے دل دہل جاتے ہیں اور جب اُس کی آیتیں اُنھیں سنائی جاتی ہیں تو اُن کا ایمان بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر بھروسا رکھتے ہیں۔‘‘، (الانفال2:8)

’’(یہ اِس لیے کہ اُن کے علم و عمل کی بنیاد ایک کلمۂ طیبہ ہے)۔ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے کلمۂ طیبہ کی مثال کس طرح بیان فرمائی ہے؟ وہ ایک شجرۂ طیبہ کے مانند ہے جس کی جڑیں زمین میں اتری ہوئی اور جس کی شاخیں فضا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ وہ اپنے پروردگار کے اذن سے اپنا پھل ہر فصل میں دیتا رہتا ہے۔ (یہ کلمۂ طیبہ کی مثال ہے) اور اللہ لوگوں کے لیے تمثیلیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ یاد دہانی حاصل کریں۔‘‘، (ابراہیم 24-25: 14)

’’جو ایمان لائے اور جن کے دل اللہ کی اِس یاددہانی سے مطمئن ہوتے ہیں۔ سنو، اللہ کی اِس یاد دہانی ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ جو ایمان لائے اور جنھوں نے اچھے عمل کیے، اُن کے لیے خوش خبری ہے اور اچھا ٹھکانا ہے۔‘‘، (الرعد28-29: 13)