Take a fresh look at your lifestyle.

مضامین قرآن (51) حقوق باری تعالیٰ : انفاق ۔ ابویحییٰ

حقوق باری تعالیٰ:انفاق

قرآن مجید کے عبادات کے قانون میں نماز کے ساتھ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنے کو بنیادی دینی مطالبہ قرار دیا گیا ہے۔ نماز کی طرح انفاق بھی انسان کے جذبہ پرستش کا عملی اظہار ہے۔نماز میں انسان اپنے جذبہ پرستش کا جسمانی طور پر اظہار کرتا ہے تو انفاق میں وہ اپنا مال رب کی نذر کرکے اس جذبہ پرستش کا اظہار کرتا ہے۔وہاں اگر مالک کے لیے اپنا وقت قربان کیا تھا تو یہاں مال کو اس کے حکم پر نچھاور کیاجاتا ہے۔ وہاںاگر اپنی ہستی کو اس کے سامنے ڈال دیا تھا تو یہاں اپنے سامان ہستی کو اس کی راہ میں خرچ کردیا جاتا ہے۔

قرآن مجید اس عظیم عبادت کے ذکر سے بھرا ہوا ہے۔اس کے لیے متعدد اسالیب اختیار کرکے لوگوں کو اس پر ابھارا گیا ہے۔زکوٰۃ، صدقات، خیرات ، انفاق اور ایتاء (دینے) کے الفاظ استعمال کرکے لوگوں کو اس پر آمادہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔ اس اصرار اور تفصیل کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ مال ہر دور میں دنیا کے قائم مقام رہا ہے۔مال خرچ کرنا گویا اپنی دنیا کو قربان کرنے کے مترادف ہے اور اس کا حوصلہ ہردور میں انسانوں میں کم ہی رہا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ نزول قرآن کے وقت مسلسل ایسے حالات رہے تھے جب ضعفا کی مدد اور نصرت دین کے پہلو سے ہمہ وقت انفاق کی ضرورت تھی۔ یوں دین کی اس عظیم عبادت اور خدا کے اس غیر معمولی حق پر قرآن مجید میں بہت تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔

اس عبادت کا ایک پہلو تو اس کی شریعت ہے جو قرآن مجید میں کم ہی زیر بحث آئی ہے۔ عام طور پر اس شریعت کو قانونِ زکوٰۃ کہا جاتا ہے۔نماز کی طرح زکوٰۃ کی شریعت کا ماخذ قرآن مجید نہیں بلکہ سنت ہے۔ اس شریعت پر انشاء اللہ شرعی مطالبات کے ضمن میں ہم تفصیل سے گفتگو کریں گے۔ البتہ ذیل میں ہم اس کی حکمت و فضیلت کے وہ بعض پہلو بیان کردیتے ہیں جو قرآن مجید میں بہت تفصیل کے ساتھ زیر بحث آئے ہیں۔

تاریخ، اہمیت اور اجر

نماز کی طرح زکوٰۃ بھی ایک قدیم عبادت ہے۔قدیم صحف سماوی میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے اور خود قرآن مجید نے یہ صراحت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء اور سابقہ امت مسلمہ یعنی یہود کو اس عظیم عبادت کے اہتمام کا حکم دیا تھا۔خود اس امت میں اس عبادت کی حیثیت بڑی غیر معمولی ہے۔ یہ ایک اخلاقی تقاضا بھی ہے، ایک شرعی فریضہ بھی ہے اور نماز کی طرح وہ بنیادی دینی مطالبہ بھی ہے جس کے قیام و انصرام کا مکلف حکمرانوں کو بنایا گیا ہے۔ مسلمانوں پر یہ لازمی کیا گیا ہے کہ جب ان کے حکمران ان سے ان کا مال بطور زکوٰۃ مانگیں تو وہ اسے ادا کریں ۔ اسلامی ریاست میں ان کی قانونی شہریت اور حقوق اس فریضے کی ادائیگی پر ہی موقوف ہیں۔ اس کی عدم ادائیگی پر حکمران ان سے جنگ کرکے یہ حق ان سے وصول کرسکتے ہیں اور وہ مسلمان ہیں تو انھیں یہ حق حکمرانوں کو دینا ہوگا۔دوسری طرف قرآن مجید نے حکمرانوں کو بھی کہا ہے کہ وہ اس مالی حق کی وصولی کے بعد مسلمانوں کا راستہ چھوڑدیں اور ان سے کوئی اور مالی مطالبہ نہ کریں۔

تاہم یہ معاملہ اس زکوٰۃ کا ہے جو ایک شرعی فریضے کے طور پر مسلمانوں کواپنی بچتوں یا پیداوار پر ادا کرنا ہوتی ہے۔ رہا معاملہ اللہ کی راہ میں عمومی خرچ کا تو اس انفاق کا حکم ہر اس موقع پر ہے جب والدین، رشتہ داروں،یتیموں، مسکینوں اور دوسرے ضرورت مندوں کی مدد کا موقع آئے۔ قرآن مجید میں اس معاملے میں اس حد تک توجہ دلائی گئی ہے کہ اپنی ضروریات سے بڑھ کر مال کو لوگوں کو معاشرے کی امانت سمجھنا چاہیے اور جب ضرورت ہو بے دریغ اسے خرچ کردینا چاہیے۔

قرآن مجید یہ بھی واضح کرتا ہے کہ جنت کی راہ کے متلاشیوں کو خرچ کے لیے فراخی کا انتظار نہیں کرنا چاہیے بلکہ فراخی کے ساتھ تنگی کے موقع پر بھی ان کا ہاتھ نہیں رکنا چاہیے۔ اوراگر کسی موقع پر خرچ کرنے کی گنجائش نہ پائیں تو مانگنے والے سے بھلی بات کہہ کر رخصت کریں۔انھیں چاہیے کہ وہ دوسرے کے سامنے بھی خرچ کریں تاکہ اور لوگوں میں بھی انھیں دیکھ کر انفاق کا جذبہ پیدا ہو اور لوگوں کو بتائے بغیر خاموشی سے بھی خرچ کریں کہ بعض اوقات اس طرح کا اخفا اپنے نفس کی پاکیزگی اور لینے والے کی عزت نفس دونوں کے لحاظ سے بہتر ہوتا ہے۔جو لوگ اس طرح اپنا مال خرچ کرتے ہیں قرآن مجید ان کو یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کا بدلہ سات سو گنا تک بڑھادیا جاتا ہے۔ جبکہ عام نیکیوں کا بدلہ دس گنا تک بڑھایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ انفاق گناہوں کی معافی کا بھی ایک بڑا ذریعہ ہے۔ مگر سب سے بڑھ کر خدا کے قرب اور اس کی رضا کے دروازے بھی یہ انفاق کھول دیتا ہے۔

تاہم یہ معاملہ اس انفاق کا ہے جو انسان اللہ کی رضا کے لیے اس کے بندوں پر کرتا ہے۔ ایک انفاق وہ ہے جو اللہ کے دین کی مدد و نصرت کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس خاص قسم کے انفاق کے لیے قرآن مجید نے ایک دوسری اصطلاح استعمال کی۔ یعنی یہ وہ قرض حسنہ ہے جو بندے اپنے رب کو دیتے ہیں۔ قرآن مجید نے اس تعبیر کو اختیار کرکے اس طرح کے انفاق کی شان اتنی بلند کردی کہ اس کا کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ ظاہر ہے جو قرض مالک دوجہاں کو دیا جائے گا وہ جب ادا کیا جائے گا تو پھر اس میں مالک اپنی حیثیت کا لحاظ کرکے ہی اس قرض کو ادا کرے گا۔

قرآنی بیانات

”اور میں (عیسیٰ ابن مریم)جہاں کہیں بھی ہوں اس نے مجھے سرچشمہئ خیر و برکت ٹھہرایا ہے۔ اور جب تک جیوں اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کی ہدایت فرمائی ہے۔”،(مریم 31:19)

”اور ہم نے ان(انبیائ) کو پیشوا بنایا جو ہماری ہدایت کے مطابق لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے، اور ہم نے ان کو بھلائی کے کام، نماز کے اہتمام اور زکوٰۃ کے ادا کرنے کی ہدایت کی۔ اور وہ ہماری ہی بندگی کرنے والے تھے۔” (الانبیا73:21)

”سو جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو ان مشرکین کو جہاں کہیں پاؤ قتل کرو، ان کو پکڑو، ان کو گھیرو، اور ہر گھات کی جگہ ان کی تاک لگاؤ۔ پس اگر یہ توبہ کر لیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تب ان کی جان چھوڑو۔ بے شک اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔”،(التوبہ5:9)

”یہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو سرزمین میں اقتدار بخشیں گے تو وہ نماز کا اہتمام کریں گے، زکوٰۃ ادا کریں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے۔ اور انجام کار کا معاملہ اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔”(الحج41:22)

”وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں؟ کہہ دو جو مال بھی تم خرچ کرتے ہو تو وہ والدین، قرابت مندوں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح باخبر ہے۔”،(البقرہ 215:2)

”اور وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں کہہ دو کہ جو ضروریات سے بچ رہے۔ اسی طرح اللہ تمھارے لیے اپنی آیتوں کی وضاحت کرتا ہے تاکہ تم غور کرو، دنیا اور آخرت دونوں کے معاملات میں۔”،(البقرہ 219:2)

”اور اگر تمھیں اپنے رب کے فضل کے انتظار میں، جس کے تم متوقع ہو، ان سے اعراض کرنا پڑ جائے تو تم ان سے نرمی کی بات کہہ دو۔”(بنی اسرائیل 28:17)

”۔۔۔۔جو کشادگی اور تنگی ہر حال میں خرچ کرتے رہتے ہیں۔”، (آل عمران134:3)

”اور اگر تم اپنے صدقات ظاہر کر کے دو تو وہ بھی اچھا ہے اور اگر تم ان کو چھپاؤ اور چپکے سے غریبوں کو دے دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اور اللہ تمہارے گناہوں کو جھاڑ دے گا اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو اس کی خبر رکھنے والا ہے۔”،(البقرہ271:2)

”میرے ان بندوں کو جو ایمان لائے ہیں کہہ دو کہ نماز کا اہتمام رکھیں اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا کیا ہے اس میں سے پوشیدہ و علانیہ خرچ کریں پیشتر اس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خرید و فروخت ہو گی اور نہ دوستی کام آئے گی۔”، (ابراہیم31:14)

”اور ان میں وہ بھی ہیں جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کو اور رسول کی دعاؤں کو حصول قرب الٰہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ سو بے شک یہ ان کے لیے واسطہئ قربت ہی ہے۔ اللہ ان کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ بے شک اللہ غفور رحیم ہے۔”، (التوبہ99:9)

”تم اللہ کو قرض دو، اچھا قرض تو وہ اُس کو تمھارے لیے کئی گنا بڑھا دے گا اور تمھاری مغفرت فرمائے گا۔ اللہ بڑا قدردان اور بڑا بردبار ہے۔”،(التغابن17:64)

”ان لوگوں کے مال کی تمثیل جو اپنے مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانے کے مانند ہے جس سے سات بالیاں پیدا ہوں اور اس کی ہر بالی میں سو دانے ہوں۔ اللہ برکت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے، اللہ بڑی گنجائش والا اور علم والا ہے۔”،(261:2)

”اور کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے کہ اللہ اس کو اس کے لیے کئی گنا بڑھائے۔ اللہ ہی ہے جو تنگ دستی بھی دیتا ہے اور کشادگی بھی دیتا ہے اور اسی کی طرف تم کو لوٹنا بھی ہے۔”، (البقرہ245:2)

آداب و تنبیہات

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے تفصیلاً انفاق کے آداب بیان کیے ہیں اور اس ضمن میں ملحوظ رکھی جانے والی احتیاط پر بھی متنبہ کیا ہے۔اس حوالے سے بیان کی گئی غالباً سب سے اہم بات یہ ہے کہ بندہ مومن کو یہ بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جو کچھ وہ خرچ کررہا ہے، وہ اصلاً کل کاکل اس کے رب کا ہی دیا ہوا ہے۔ انسان تو اس دیے ہوئے میں سے بہت تھوڑا حصہ لوٹاتا ہے۔جب یہ حقیقت ہے تو پھر بند ہ مومن کی نفسیات یہ ہونی چاہیے کہ بجائے اس کے کہ انسان مال خرچ کرکے فخر کی نفسیات میں مبتلا ہو، اسے ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں اس کی کسی کوتاہی کی بنا پر یہ انفاق الٹا جواب دہی کا سبب نہ بن جائے۔ یہ کوتاہیاں کیا ہوسکتی ہیں جو اس انفاق کو باعث گرفت بنادیں، قرآن نے ان کو بھی واضح طور پر بیا ن ہے۔یہ کہ انسان مال خرچ کرے اور کرنے کے بعد لوگوں پر احسان جتائے اور انھیں ایذاء دے۔یہ کہ انسان لوگوں کو دکھانے کو مال خرچ کرے اور اس کا اصل مقصد یہ ہوکہ اس ریاکارانہ عمل سے وہ لوگوں سے داد وصول کرے اور معاشرے میں مقام ومرتبہ حاصل کرے۔ قرآن واضح کرتا ہے کہ انفا ق کا جذبہ محرکہ صرف اور صرف رب کی رضا ہونا چاہیے اور بدلے میں اگر اس دنیا میں کچھ مقصود ہو تو وہ یہ کہ انسان اپنے نفس کو پاکیزہ کرکے راہ حق پر ثابت قدم رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اخلاص کے ساتھ انفاق کرنا نفس کی پاکیزگی کے لیے انتہائی مفید ہے کہ یہ دل سے دنیا کی محبت نکالتا اور آخرت کی محبت پیدا کرتا ہے۔ کیونکہ جو مال یہاں خرچ کیا وہ دراصل آخرت میں کہیں زیادہ بڑھاکر لوٹایا جائے گا۔

اس کے ساتھ قرآن مجیدیہ بھی واضح کرتا ہے کہ انسان کا یہ اخلاص اس د رجہ میں ہونا چاہیے کہ جن پر خرچ کیا جارہا ہوان کی طرف سے کبھی کوئی منفی ردعمل سامنے آئے تو انسان انھیں یکطرفہ طور پر معاف کردے۔ کیونکہ اگر انسان کو دیا تھا تو ان سے بدلہ لینے کا حق ہے اور اگر رب کے حضور اپنا مال نذر کیا تو بندے کو اس سے کیا غرض کہ جوا ب میں کوئی احسان فراموشی کرتا ہے یا تعریف و توصیف سے کام لیتا ہے۔اسی طرح قرآن مجید اس بات کی مناہی کرتاہے کہ لوگ راہ خدا میں چن چن کر اپنے ناکارہ مال خرچ کریں۔ بلکہ وہ یہ سمجھاتا ہے کہ خدا کی وفاداری اور نیکی کی راہ کا یہ تقاضاہے کہ انفاق کے موقع پر انسان اپنی محبوب ترین چیز کو خرچ کرے۔اس کے بغیر خدا سے وفاداری کا شرف حاصل کرنا آسان نہیں۔ہاں اگر کسی موقع پر کسی کے پاس کچھ نہیں اور انفاق کا کوئی مطالبہ سامنے آجائے تو پھر انسان کا اخلاص اور انفاق کی سچی خواہش ہی اسے خدا کی عنایت کا مستحق بنانے کے لیے کافی ہے۔

قرآن مجید یہ حقیقت بھی آشکار کرتا ہے کہ جو لوگ مال ہوتے ہوئے اس عظیم عبادت کے ادا کرنے سے دور رہتے ہیں وہ خود اپنے ہاتھوں اپنی ہلاکت کا سامان کررہے ہیں۔وہ یہ بھی سمجھاتا ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کی راہ سے روکنا شیطان کا طریقہ ہے۔جو لوگ ہوسِ دنیا کا شکار ہوکر مال کو ایک خزانہ کی طرح سینت سینت کررکھتے ہیں، ان کے لیے جہنم کی سزا ہے۔ یہی سزا ان لوگوں کے لیے ہے جو بخل سے کام لیتے اور دوسروں کو بھی بخل کی تلقین کرتے ہیں۔ اسی طرح جو لوگ انفاق سے بچنے کے لیے ہر وقت اپنی تنگ دستی کا رونا روتے رہتے ہیں وہ بھی ذلت آمیز عذاب کا شکار ہوں گے۔

اس ضمن کی آخری اہم بات یہ ہے کہ کوئی انفاق ان لوگوں کی طرف سے قبول نہیں کیا جائے گا جو کفر اور سرکشی کی روش پر قائم ہوں۔بظاہر نیکی اور خیر کے کاموں کے لیے کیا گیا وہ انفاق بھی خدا کی بارگاہ میں مردود ہے جس کے پیچھے حق کے انکار کی نفسیات کھڑی ہو۔یہ ایمان ہے جو ہر عمل کو زندگی بخشتا ہے۔ کفر انفاق جیسی اعلیٰ عبادت کو بھی کھاجاتا ہے۔

قرآنی بیانات

”اے ایمان والو، جو کچھ ہم نے تم کو بخشا ہے اس میں سے خرچ کرو اس دن کے آنے سے پہلے جس میں نہ تو خرید و فروخت ہو گی، نہ دوستی کام آئے گی اور نہ کسی کی سفارش نفع پہنچائے گی اور جو لوگ انکار کرنے والے ہیں اپنے اوپر اصلی ظلم ڈھانے والے وہی ہیں۔”، (البقرہ 254:2)

”ان لوگوں کے لیے جو غیب میں رہتے ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو بخشا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔”،    (البقرہ 3:2)

” اور وہ لوگ جو دیتے ہیں تو جو کچھ دیتے ہیں اس طرح دیتے ہیں کہ ان کے دل ڈرتے ہوئے ہوتے ہیں کہ انھیں خدا کی طرف پلٹنا ہے۔”،(المومنون60: 23)

”جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر اس کے پیچھے نہ احسان جتاتے نہ دل آزاری کرتے، ان کے لیے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے۔ اور نہ تو ان کے لیے کوئی خوف ہو گا اور نہ و ہ غمگین ہوں گے۔”،(البقرہ 262:2)

”اے ایمان والو، احسان جتا کر اور دل آزاری کر کے اپنی خیرات کو اکارت مت کرو۔ اس شخص کے مانند جو اپنا مال دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور روز آخرت پر وہ ایمان نہیں رکھتا۔ ایسے شخص کی تمثیل یوں ہے کہ ایک چٹان ہو جس پر کچھ مٹی ہو، پھر اس پر زور کا مینہ پڑے اور وہ اس کو بالکل سپاٹ پتھر چھوڑ جائے۔ ان کی کمائی میں سے کچھ بھی ان کے پلے نہیں پڑے گا اور اللہ ناشکروں کو بامراد نہیں کرے گا۔”،(البقرہ 264:2)

”اور جو تم میں صاحب فضل اور کشادہ حال ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں کہ وہ قرابت مندوں، مسکینوں اور راہ خدا میں ہجرت کرنے والوں پر خرچ نہ کریں گے بلکہ عفو و درگذر سے کام لیں۔ کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں بخشے! اور اللہ غفور رحیم ہے۔”،(النور 24:22)

”اور ان لوگوں کے عمل کی تمثیل جو اپنے مال اللہ کی رضا جوئی اور اپنے دلوں کو جمائے رکھنے کے لیے خرچ کرتے ہیں اس باغ کے مانند ہے جو بلندی پر واقع ہو۔ اس پر بارش ہو گئی تو دوچند پھل لایا، بارش نہ ہوئی تو پھوار بھی کافی ہو گئی اور اللہ، جو کچھ بھی تم کر رہے ہو، اس کو دیکھ رہا ہے۔”،(البقرہ 265:2)

”اے ایمان والو، اپنے کمائے ہوئے پاکیزہ مال میں سے خرچ کرو اور ان چیزوں میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کی ہیں اور اس میں سے وہ مال تو خرچ کرنے کا خیال بھی نہ کرو، جس کو خدا کی راہ میں تو خرچ کرنے پر آمادہ ہو جاؤ لیکن اگر وہی مال تمہیں لینا پڑ جائے تو بغیر آنکھیں میچے اس کو نہ لے سکو اور اس بات کو خوب یاد رکھو کہ اللہ بے نیاز اور ستودہ صفات ہے۔”،(البقرہ 267:2)

”تم خدا کی وفاداری کا درجہ ہرگز نہیں حاصل کر سکتے جب تک ان چیزوں میں سے نہ خرچ کرو جن کو تم محبوب رکھتے ہو اور جو کوئی چیز بھی تم خرچ کرو گے تو اللہ اس سے باخبر ہے۔”،(آل عمران 92:3)

”اور نہ ان لوگوں پر کوئی الزام ہے جن کا حال یہ ہے کہ جب وہ تمہارے پاس آتے ہیں کہ ان کے لیے کسی سواری کا انتظام کر دو، تم کہتے ہو میرے پاس تمہاری سواری کا کوئی بندوبست نہیں تو وہ اس حال میں واپس ہوتے ہیں کہ ان کی آنکھوں سے اس غم میں آنسو رواں ہوتے ہیں کہ افسوس کہ وہ خرچ کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔”،(التوبہ 92:9)

”اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو تباہی میں نہ جھونکو۔ اور انفاق خوبی کے ساتھ کرو۔ بے شک اللہ خوبی کے ساتھ کام کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔”،(البقرہ 195:2)

”شیطان تمہیں تنگ دستی سے ڈراتا اور بے حیائی کی راہ سجھاتا ہے اور اللہ اپنی طرف سے مغفرت اور فضل کا وعدہ کرتا ہے اور اللہ بڑی سمائی اور بڑا علم رکھنے والا ہے۔”،(البقرہ 268:2)

”اے ایمان والو، ان فقیہوں اور راہبوں میں بہتیرے ایسے ہیں جو لوگوں کا مال باطل طریقوں سے ہڑپ کرتے اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور جو لوگ سونا اور چاندی ڈھیر کر رہے ہیں اور اسے خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ہیں ان کو ایک دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دو۔”، (التوبہ 34:9)

”جو خود بھی بخل کرتے اور دوسروں کو بھی بخالت کا مشورہ دیتے ہیں اور اللہ نے اپنے فضل میں سے جو کچھ انھیں دے رکھا ہے اس کو چھپاتے ہیں، ہم نے ایسے ناشکروں کے لیے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے۔”،(النسا37:4)

”بے شک جن لوگوں نے کفر کیا ان کے مال اور ان کی اولاد خدا کے مقابل میں کام آنے والے نہیں۔ یہ لوگ دوزخی ہوں گے اور وہ اسی دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔

یہ جو کچھ اس دنیا میں خرچ کرتے ہیں اس کی تمثیل ایسی ہے کہ کسی ایسی قوم کی کھیتی پر جس نے اپنے اوپر ظلم کیا ہو، پالے والی ہوا چل جائے اور وہ اس کو تباہ کر کے رکھ دے۔ اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا۔ بلکہ یہ خود اپنی جانوں پر ظلم ڈھاتے رہے ہیں۔”،(آل عمران116-117:3)