Take a fresh look at your lifestyle.

مضامین قرآن (18) دلائل آخرت: آل ابراہیم کی سزا و جزا ۔ ابو یحییٰ

دلائل آخرت: آل ابراہیم کی سزا و جزا

حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد کا منصب

رسولوں کی اقوام کے ضمن میں ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ جن اقوام کے درمیان اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی بعثت ہوجائے، وہ اسی دنیا ہی میں اس اخروی سزا وجزا کا نمونہ بن جاتی ہیں جو اللہ تعالیٰ ہر فرد کو قیامت کے دن اس کے اعمال کے بدلے میں دیں گے ۔ وہ رسولوں کی بات مان کر ان کے احکام پر عمل پیرا ہوں تو دنیا پر غلبہ و اقتدار پاتی ہیں اور کفر و سرکشی کا راستہ اختیار کریں تو اس دنیا ہی میں ہلاکت اور تباہی ان کا مقدر ہوتی ہے ۔ تاہم یہ معاملہ رسولوں کے براہ راست مخاطبین کے ساتھ ہی کیا جاتا ہے ۔ رسولوں کے بعد ان کی امتو ں کا معاملہ اس اصول پر نہیں کیا جاتا۔ وہ اسی طرح پھلتے پھولتے ہیں جس طرح عام اقوام کا معاملہ ہوتا ہے ۔ قطع نظر اس کے کہ ان اقوام میں شرک پھیل جائے ، فسق عام ہوجائے یا پھر ان کے افراد توحید اور بندگی کے راستے پر گامزن رہیں ، ان کا معاملہ یوم آخرت تک ہی موخر کیا جاتا ہے ۔ یہی وہ سبب رہا ہے کہ بار بار رسولوں کی سزا و جزا اپنی آنکھوں سے دیکھنے والی اقوام پر جب صدیاں گزر جاتی ہیں اور واقعات تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہوجاتے ہیں تو انھی اقوام میں پوری طرح شرک پھیل گیا اور ان پر کوئی عذاب نازل نہ ہوا۔ یہاں تک کہ اس قوم میں ایک نئے رسول کی بعثت ہوجائے اور وہ ان کو دعوت حق دینے کے ساتھ تاریخ کے بھولے ہوئے اسباق یاد کرائے ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے وہ لوگ جن کو ان کے ساتھ نجات دی گئی ، زمین کے سینے پر بسا دیے گئے اور وہ مال و اسباب ہر پہلو سے پھلے پھولے ۔ مگر ایک مدت کے بعد ان میں شرک کی گمراہی عام ہوگئی تب آل نوح کے ایک حصے میں جو قوم عاد کے طور پر عرب کے جنوبی حصے میں مقیم تھے حضرت ہود علیہ السلام اٹھے ۔ قوم عاد پر جب اس کے کفر و سرکشی کی پاداش میں عذاب آیا توصرف حضرت ہود پر ایمان لانے والے بچائے گئے ۔ صدیوں بعد یہی معاملہ ان کے ساتھ بھی ہوا تو اس کے ایک گروہ میں جس کانام قوم ثمود تھا حضرت صالح علیہ السلام اٹھے ۔

آل ابراہیم کی سزا و جزا

یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بعثت ہوئی۔ یہاں سے ہدایت کے باب میں سنت الٰہی کے ایک نئے پہلو کا ظہور ہوتا ہے ۔ وہ یہ کہ حضرات ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد کے صالحین کو یہ منصب سونپا جاتا ہے کہ ان کے ذریعے سے تا قیامت دنیا میں ایک امت باقی رہے گی۔ انبیاء رسل اور کتاب اسی امت میں اتریں گے اور پھر ان کے ذریعے سے دنیا کو اللہ کا پیغام ملتا رہے گا۔ البتہ اس کے ساتھ ساتھ ایک دوسرا واقعہ بھی ظہور پذیر ہو گا۔ وہ یہ کہ ذریت ابراہیم علیہ السلام کو اسی دنیا میں ان کے خیر و شر کی سزا بحیثیت مجموعی ملتی رہے گی۔ وہ خیر پر قائم ہوں گے تو دنیا ہی میں غلبہ و اقتدار ان کا مقدر ہو گا اور اگر نافرمانی اور معصیت کی راہ اختیار کریں گے تو دنیا ہی میں ذلت، محکومی اور عذاب ان کا مقدر ہو گا۔ یوں ان کو ملنے والی سزا و جزا معاصرین کے لیے آخرت کا ایک زندہ ثبوت بن کر ہمیشہ سامنے رہے گی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بعثت کم و بیش دو ہزار برس قبل مسیح میں ہوئی۔ وہ ایک رسول بھی تھے چنانچہ ان کی قوم کو ان کے کفر کی پاداش میں سزا دی گئی۔ پھر ان کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے بڑے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو مکہ میں آباد کریں ۔ جبکہ چھوٹے بیٹے اسحاق علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام کو فلسطین میں بسایا گیا۔ حضرت یعقوب کا لقب اسرائیل تھا اور ان کے بارہ بیٹے تھے ۔ چنانچہ اس مناسبت سے وہ بنی اسرائیل کہلائے ۔ حضرت یعقوب کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام بھی نبی تھے اور ان کے زمانے میں بنی اسرائیل مصر منتقل ہوئے ۔ کئی صدیوں مصر میں رہنے کے بعد یہ لوگ ایک قوم بن گئے ۔ان کے ساتھ مقامی لوگ بھی ایمان لا کر ان کا ہی حصہ بن گئے ۔ ان کو پردیسی کہا جاتا تھا۔ مگر مجموعی طور پر یہ بنی اسرائیل ہی کہلائے ۔

ان بنی اسرائیل میں ایک جلیل القدر رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت ہوئی۔ آپ کے مشن کا ایک حصہ فرعون کو دعوت رسالت دینا تھا۔ مگر جب اس نے آپ کا کفر کیا تو اس کو ہلاک کر دیا گیا۔ جس کے بعد آپ کی سر کردگی میں بنی اسرائیل کو مصریوں سے نجات مل گئی۔ اور پھر کوہ طور پر شریعت اور کتاب جیسی عظیم نعمتیں عطا کر کے ان کو وہ منصب دیا گیا جسے قرآن کریم نے ’’سارے جہانوں پر فضیلت دینے ‘‘  سے تعبیر کیا ہے ۔ یہیں سے بنی اسرائیل کی تاریخ کا وہ حصہ شروع ہوتا ہے جس میں ایک طرف ان کو دعوت حق کا امین بنایا گیا، ان میں انبیا بھیجے گئے ، کتابیں اتاری گئیں اور دوسری طرف ان کو اس سزا و جزا کا ایک زندہ نمونہ بنادیا گیا جو اس سے قبل رسولوں کی اقوام کے ذریعے سے دنیا کو دکھائی جاتی تھی۔ چنانچہ یہود کی تاریخ میں بار بار ایسا ہوا کہ جب ایمان و اخلاق کی دعوت کو انھوں نے رد کیا تو ان پر محکومی، ذلت اور ہلاکت مسلط کر دی گئی اور جب انھوں نے اطاعت و وفاداری کا رویہ اختیار کیا تو دنیا میں عروج و غلبہ ان کا مقدر بن گیا۔ یہاں تک کہ جب یہود نے حضرت عیسیٰ کے زمانے میں فیصلہ کن طور پر سرکشی کی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کی سازش کرڈالی تو کوہ زیتون کے مقام سے حضرت عیسیٰ کو آسمانوں کی طرف اٹھالیا گیا اور یہود پر تاقیامت ذلت اور محکومی کا فیصلہ کر دیا گیا۔ جبکہ حضرت عیسیٰ نے اسی موقع پر یہود کو یہ بتلا دیا کہ اب امامت عالم کا منصب یہود سے لے لیا جائے گا اور بنی اسماعیل کو دے دیا جائے گا(متی  21: 46-43)۔

قرآن اورتاریخ کی روشنی میں بنی اسرائیل کی سزا و جزا

قرآن کریم کے نزول ساتھ ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس پیش گوئی کا ظہور شروع ہو گیا۔ قرآن مجید کی سورہ بقرہ اس آسمانی فیصلے کا تفصیلی بیان ہے ۔ اس کے شروع میں بنی اسرائیل کی تاریخ کے اہم واقعات بیان کر کے یہ واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جو فضیلت عطا کی ہے وہ دائمی نہیں بلکہ مشروط ہے ۔ انھوں نے جب نیکی کی راہ اختیار کی تو ان کو عزت دی گئی اور جب کبھی نافرمانی کی راہ اختیار کی تو دنیا ہی میں سزا دے کر عبرت کا نشان بنادیا گیا۔اس کے بعد یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا میں انسانیت کی رہنمائی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ا ن کی اولاد میں سے صالحین کو دی گئی ہے۔ اس کے بعد یہ اعلان کر دیا گیا ہے کہ یہود کو اس منصب سے معزول کرنے کے بعد صحابہ کرام جن کا تعلق بنی اسماعیل سے تھا ان کو یہ منصب عطا کر دیا گیا ہے کہ رسول ان پر گواہ ہوں گے اور وہ انسانیت پر اللہ کے گواہ بن کر کھڑے ہوں گے اور قبلہ کی بیت المقدس سے مسجد الحرام کی طرف تبدیلی کو اس کی علامت بنا دیا گیا۔

’’ اور اسی طرح (یعنی جس طرح ہم نے بنی اسرائیل کو اس منصب پر فائز کیا تھا) ہم نے تمھیں ایک بیچ کی امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہی دینے والے بنو اور رسول تم پر گواہی دینے والابنے ۔‘‘

(البقرہ 2: 143)

سورہ بقرہ کے علاوہ قرآن مجید میں دیگر مقامات پر بھی یہود کی اس سزا کا تذکرہ ہے جو ان کو تاریخ میں ملتی رہی ہے ۔ سورہ اعراف ایسا ہی ایک مقام ہے جہاں ان کی تاریخ میں ملنے والی سزا و جزا کی تفصیل بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے کا اعلان ہے جو تاقیامت ان کے بارے میں کیا گیا ہے ۔

’’اوریاد کرو جب تیرے رب نے فیصلہ کیا کہ وہ روز قیامت تک ان پر ایسے لوگوں کو مسلط کرتا رہے گا جو ان کو نہایت برے عذاب چکھاتے رہیں گے ۔ بے شک تیرا رب جلد پاداش دینے والا اور بے شک وہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور ہم نے ان کو زمین میں منتشر کر دیا گروہ گروہ کر کے ۔ ان میں کچھ نیک بھی ہیں اور کچھ اس سے مختلف بھی۔ اور ہم نے ان کو خوشحالیوں اور بدحالیوں سے آزمایا تاکہ وہ رجوع کریں ۔‘‘   (سورہ اعراف 7: 168-167)

جبکہ ان کی تاریخ کے آغاز پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے ذریعے سے ان پر یہ بڑی تفصیل سے واضح کر دیا تھا کہ انھوں نے فرمانبرداری اختیار کی تو ان کو دنیا میں غلبہ و اقتدار ملے گا اور نافرمانی کی صورت میں ذلت اور رسوائی ان کا مقدر بنے گی۔ تورات میں یہ قانون ب ی تفصیل سے بیان ہوا ہے (استثنا :باب 28)۔ قرآن مجید میں اس کا خلاصہ دو جملوں میں اس طرح کیا گیا ہے ۔

اور یاد کرو جب تمہارے رب نے آگاہ کر دیا کہ اگر تم شکر گزار رہے تو میں تمہیں بڑھاؤں گا اور اگر تم نے ناشکری کی تو میرا عذاب بھی بڑا سخت ہو گا۔ اور موسیٰ نے کہا کہ اگر تم اور وہ سارے لوگ جو روئے زمین پر ہیں ناشکری کرو گے تو خدا کا کچھ نہیں بگاڑو گے اور وہ بے نیاز اور ستودہ صفات ہے ۔        (ابراہیم14: 8-7)

جبکہ سورہ بنی اسرائیل میں یہود کی تاریخ کے دو اہم ترین واقعات یعنی ان کی سرکشی پر عراق کے بادشاہ بخت نصر اور رومی جرنل ٹائٹس کے ہاتھوں آنے والے اس عذاب کی تفصیل ہے جس میں لاکھوں یہودی تہہ تیغ ہوئے اور صدیوں کی جلاوطنی ان کا نصیب بنی۔

’’ اور ہم نے بنی اسرائیل کو اپنے اس فیصلہ سے کتاب میں آگاہ کر دیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فساد مچاؤگے اور بہت سراٹھاؤگے ۔ پس جب ان میں سے پہلی بار کی میعاد آئی تو ہم نے تم پر اپنے زورآور بندے مسلط کر دیے تو وہ گھروں میں گھس پڑے اور شدنی وعدہ پورا ہوکر رہا۔ پھرہم نے تمھاری باری ان پر لوٹائی اور تمھاری مال و اولاد سے مدد کی اور تمھیں ایک کثیر التعداد جماعت بنا دیا۔ اگر تم بھلے کام کرو گے تو اپنے لیے اور اگر برے کام کرو گے تو بھی اپنے لیے ۔ پھر جب دوسرے وعدہ کا وقت آیا (تو ہم نے تم پر اپنے زور آور بندے مسلط کر دیے) تاکہ تمھارے چہرے بگاڑ دیں اور تاکہ وہ مسجد میں گھس پڑیں جس طرح پہلی بار گھس پڑے تھے اور تاکہ جس چیز پر ان کا زور چلے اسے تہس نہس کر ڈالیں ۔ کیا عجب کہ تمھارا رب تم پر رحم فرمائے ۔ اور اگر تم پھر وہی کرو گے تو ہم بھی وہی کریں گے ۔ ‘‘ (بنی اسرائیل 17: 8-4)

سورہ تین قرآن کریم کی وہ سورت ہے جس میں جبل طور جبل زیتون اور اس پر واقع گاؤں تین اور مکہ کو اس بات کے ثبوت کے طور پر پیش گیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ذریت ابراہیم کو ان کے ایمان اور کفر کی بنیاد پر جو سزا و جزا دیتے رہے ہیں وہ قیامت کے دن کی سزا کا ایک ثبوت ہے ۔ جبل طور وہ مقام ہے جہاں بنی اسرائیل کو کتاب و شریعت دے کر ایک امت بنایا گیا اور امامت عالم کا منصب دیا گیا۔ جبکہ زیتون وہ مقام ہے جہاں رفع مسیح ہوا۔ تین اسی پر واقع ایک گاؤں ہے ۔ جبکہ مکہ وہ شہر ہے جس میں یہود کے بعد بنی اسماعیل کی شکل میں ایک نئی امت کی تاسیس کی گئی۔ اس قانون کی تفصیل اور سورہ تین کی تفصیلی شرح کے لیے ملاحظہ ہو میزان(ص 546) از جاوید احمد غامدی۔

’’تین اور زیتون کے پہاڑ گواہی دیتے ہیں ، اور طورِ سینین اور(تمہارا) یہ شہرِ امین بھی کہ انسان کو( اس کی غایت کے لحاظ سے ) ہم نے بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے ۔ پھر ہم نے اسے پستی میں ڈال دیا، اِس طرح کہ وہ خود ہی پست ہوا۔ سوائے ان کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے ۔ سو اُن کے لیے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم نہ ہو گا۔‘‘ (سورہ تین 95)

جہاں تک بعد از قرآن تاریخ کا تعلق ہے توظاہر ہے کہ اس حوالے سے وحی کا کوئی تبصرہ تو اس میں موجود نہیں جس طرح تاریخ بنی اسرائیل پر قرآن میں تبصرہ کر کے ان کی سزا و جزا کا بیان کیا گیا ہے ۔ لیکن تاریخ کا واضح سبق یہی ہے کہ بنی اسرائیل یعنی یہود اور بنی اسماعیل یعنی عربوں پر سزا وجزا کا یہ قانون آج بھی پوری طرح روبہ عمل ہے ۔اس کے ساتھ جس طرح یہود کے ساتھ بحیثیت امت شامل ہونے والے پردیسی یعنی بنی اسرائیل سے باہر کے یہودی اس سزا و جزا کے قانون کی زد میں آتے رہے ہیں ، اس طرح بنی اسماعیل کے ساتھ امت مسلمہ کا حصہ بننے والے بعض دیگر عرب قبائل اور عجمی گروہ بھی اپنی وابستگی کی بنیاد پر اس قانون کی زد میں آئے ہیں ۔ چنانچہ یہود کو عہد رسالت سے لے کر آج تک مغلوبیت، جلاوطنی اور قتل عالم کا بار بار سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ امت مسلمہ کو وسط ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں تاتاریوں کے ہاتھوں ، پھر اسپین میں مسیحیوں کے ہاتھوں اور موجودہ دور میں مغربی اقوام کے مقابلے میں محکومی، تباہی اور مستقل ذلت کا سامنا ہے ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ یہود ہوں یا عرب دونوں گروہ ہی اپنے جرائم کی پاداش میں مغربی طاقتوں کی محکومی اور باہمی جنگ اور تباہی کے مستقل خوف میں جینے پر مجبور ہیں ۔ورنہ پچھلے چار ہزار برسوں میں یہی گروہ تھے جو مشرق وسطیٰ اور ارد گرد کی متمدن دنیا پر سپر پاور کی طرح حکومت کرتے رہے تھے ۔

یہاں ہمارے پیش نظر یہی بات واضح کرنی تھی کہ ان اقوام کہ سزا و جزا قیامت کے دن کی سزا و جزا کا ایک زندہ ثبوت بن کر دنیا کے سامنے موجود ہے ۔ دلائل قران کے ضمن میں اس سے زیادہ تفصیل کا موقع نہیں ہے ۔ تاہم یہ ایک تفصیلی موضوع ہے ۔ ہم نے آل ابراہیم کی اس سزا و جزا اور ان کے بارے میں قانون الٰہی نیز ان کی تاریخ پر بہت تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب ’’عروج و زوال کا قانون اور پاکستان‘‘ میں گفتگو کی ہے ۔ تفصیل کے طالب اس پوری بحث کو اپنے تمام تر پس منظر کے ساتھ وہاں ملاحظہ کرسکتے ہیں ۔

[جاری ہے ]