Take a fresh look at your lifestyle.

مضامین قرآن (14) دلائل آخرت : مقصدیت کی دلیل ۔ ابو یحییٰ

دلائل آخرت : مقصدیت کی دلیل

انسانوں کے یہ تین فطری سوالا ت ہیں جن کا تسلی بخش جواب کسی مذہب، کسی فلسفے ، کسی مصلح اورکسی دانشورکے پاس نہیں ۔ یعنی انسان جیسی بامعنی مخلوق کیوں صفحہ ہستی سے ہمیشہ کے لیے مٹ جاتی ہے ۔ کیوں زندگی کا کمال اورجمال ، زندگی کا لطف اور سکون حوادث زمانہ اور انسانی عجز کی نذر ہوجاتا ہے ۔ کیوں زندگی عدل، انصاف اور اعتدال سے محروم ہے ۔ جب ان سوالات کا جواب نہیں ملتا تو انسان مادیت ، رہبانیت یا ٖغفلت و بے حسی جیسے راستوں پر قدم رکھ دیتا ہے ۔

رحمن کا جواب

اللہ الرحمن جو دلوں کے بھید اور ماضی ، حال ، مستقبل کی ہر چیز سے واقف ہے، اپنی کتاب مبین میں ان سوالوں کے جواب دیتا ہے ۔ اور جب وہ جواب دیتا ہے تو مقصدیت کی وہ دلیل وجود میں آ جاتی ہے جو واضح نہ کی جائے تو لوگ اللہ کو مانیں نہ روز آخرت پر ایمان رکھیں ۔ یہ دلیل انسانی سینے کی ہر خلش کو مٹاتی، مصائب دنیا کو جھیلنا آسان بناتی اور موت جیسی ناگوار حقیقت کو خوشی خوشی گلے لگانے پر تیار کر دیتی ہے ۔

اس دلیل کے کئی پہلو ہیں ۔ اس دلیل کا اولین پہلو اس دنیا میں انسانی زندگی کی اصل نوعیت کو واضح کرنا ہے ۔ اس سچائی کو بیان کرنا ہے کہ یہ دنیا بے فائدہ اور بے مقصد نہیں بنی ، نہ انسان کو بے کار و عبث پیدا کر دیا گیا ہے ۔ حیات ہو یا کائنات دونوں ایک باقاعدہ مقصد اور منصوبے کے تحت وجود میں آئے ہیں ۔ موجودہ دنیا اور موجودہ دنیا میں رائج قوانین ابدی نہیں بلکہ ایک خاص مدت تک (الی اجل مسمی ، روم8:30، احقاف 3:46) ہی کارفرما رہیں گے ۔اس دنیا میں انسان کو ہمیشہ جینے کے اصول پر پیدا ہی نہیں کیا گیا بلکہ ہر ذی روح کو صفحہ ہستی سے مٹ جانا ہے (رحمن 26:55)۔ لیکن اپنے مٹنے سے پہلے اسے یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیے کہ یہ دنیا عیش جہاں کا دوام ڈھونڈنے کی جگہ نہیں بلکہ آئندہ آنے والی زندگی کے لیے اچھے اعمال سمیٹنے کی جگہ ہے، (جاثیہ 22:45-21)۔ یوں یہ دنیا دار العمل ہے ، دارالجزا نہیں ۔ دار الجزا تو اس وقت قائم ہو گا جب موجودہ زمین و آسمان بدل کر کچھ سے کچھ کر دیے جائیں گے ، (ابراہیم 48:14)۔

دنیا دار الامتحان ہے

مگر اس دن کے آنے سے پہلے یہ دنیا مقام آزمائش ہے ۔ یہی اس دلیل کا دوسرا پہلو ہے ۔ یعنی یہ عارضی دنیا اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک امتحان گاہ ہے جہاں زندگی اور اس کی تمام نعمتوں سے لے کر موت اور محرومی تک خیر و شر کی ہر شکل دراصل امتحان کی غرض سے پیدا کی گئی ہیں ۔ یہاں زندگی جو سب سے بڑی نعمت ہے اور موت جو سب سے بڑی مصیبت ہے ان دونوں کے بیچ اچھے برے حالات آتے رہیں گے اور اسی درمیانی عرصے میں انسان کو حسن عمل کی کمائی کرنی ہے (ملک 2:67، الانبیا 35:21) ۔ انسان کو نیکی کرنا ہے چاہے اس کا نتیجہ برا نکلے اور برائی سے بچنا ہے چاہے اس کا نتیجہ اچھا نہ نکلے ۔ برے حالات میں بھی راہ حق پر گامزن رہنا ہے اور اچھے حالات پا کر بھی سرکش نہیں ہونا یہی اصل امتحان ہے ۔ یہ امتحان ہو نہیں سکتا جب تک کہ اس دنیا میں محرومی کی وہ ساری شکلیں نہ تخلیق کی جائیں جو نظر آتی ہیں ،۔ چنانچہ پروبلم آف ایول یا شر کا مسئلہ جس کی وجہ سے دنیامیں سارے شر، دکھ اور آفات موجود ہیں ، خدائی منصوبے کا نقص نہیں بلکہ اس کا لازمی حصہ ہے ۔ محرومی کی ہر شکل، ظلم کی ہر آزادی اور دھرتی پر ہر فساد پر خدا کی بظاہر خاموشی امتحان کا حصہ ہے ۔ انھی اچھے برے حالات میں دیکھا جاتا ہے کہ کون حق پر قائم رہتا اور سرکش نہیں ہوتا ہے ۔ جب یہ واضح ہو گیا کہ امتحان ہورہا ہے تو پھر لازمی نتیجے کے طور پر یہ ماننا ہو گا کہ سزا و جزا ہو گی۔ یہ امتحان اور اس کا نتیجہ ، عمل اور اس کی جزا دونوں لازم و ملزوم ہیں ۔

اس دلیل کا تیسراپہلو وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ حیات و کائنات کے بارے میں لوگوں کا زاویہ نظر درست کر کے یہ بتاتے ہیں کہ امتحان کے دوران میں بھی ایسا نہیں کہ یہ دنیا مکمل طور پر دکھ اورمحرومی کے اصول پر بنی ہو بلکہ یہ دنیا اصلاً نعمت کے اصول پر بنائی گئی ہے ۔ قرآن مجید کی سورہ رحمن خاص طور پر اسی حوالے سے لوگوں کا زاویہ نظر درست کرتی ہے اور اس میں ہر قدم پر موجود اللہ کی نعمتوں اور عنایتوں پر توجہ دلا کر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ تم اس کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے ۔ اس سورت کے مطالعے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہاں محرومی کا نہیں بلکہ عطا و بخشش کا قانون رائج ہے ۔ یہاں ہر درد سے پہلے آرام ہوتا ہے ، ہر دکھ سے پہلے سکھ ہوتا ہے ۔ ہر بیماری سے پہلے صحت ہوتی ہے ۔ درد، دکھ، بیماری وغیرہ تو صحت و سکون کی مستقل حالت کے بیچ میں آنے والے معمولی وقفے ہیں ، مگر انسان ان کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے کہ زندگی میں ملی ہزار نعمتوں کو بھول کر کسی ایک آدھ وقتی محرومی کو لے کر بیٹھ جاتا ہے ۔ جن لوگوں کی زندگی میں مستقل دکھ آجائیں ، مثلاً معذوری وغیرہ ایسے پریشان حال لوگوں کی تعداد بڑی محدود ہوتی ہے ۔ اور اس لیے ہوتی ہے کہ ان کی محرومی کے آئینے میں باقی لوگ اپنی نعمتوں کو پہنچانیں ۔ باقی جو بیشتر دکھ اس دنیا میں ہیں ، اس کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ پر نہیں ۔اس نے تو اپنی دنیا نعمت کے اصول پر بنائی خود توازن رکھا ہے اور تمھیں بھی اسی کی تلقین کی۔ مگر جب یہ نہیں ہوتا تو فساد برپا ہوتا ہے ۔ مگر ایک دن آئے گا جب اہل باطل کا سر کچل دیا جائے گا اور زمین کا اقتدار ہمیشہ کے لیے اللہ کے نیک بندوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا، (الانبیا 18:21، 105)۔

چنانچہ اس پہلو سے جب قرآن مجید کی تعلیمات کو دیکھا جاتا ہے تو انسان کبھی مایوسی اور ناشکری میں مبتلا نہیں ہوتا۔ جبکہ اثبات آخرت کے پہلو سے یہ دلیل ثابت کرتی ہے کہ ایک دار الجزاء ضرور آئے گا۔ کیونکہ جب دنیا کا دارالعمل ہونا واضح ہو گیا تو لازمی ہے کہ ایک دار الجزاء کو مانا جائے ۔

دلیل مقصدیت اور فطرت کا تعلق

یہاں یہ بات واضح رہے کہ یہ دلیل اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک وضاحت اور انداز فکر کی تصحیح ہے ۔ اس پہلو سے بظاہر یہ کوئی دلیل نہیں ۔ تاہم اس کو جو چیز ایک دلیل بناتی ہے ، وہ انسانی فطرت میں دبی ہوئی ایک بے عیب اور اطمینانِ کامل سے بھرپور دنیا کی وہ خواہش ہے جس پر ’’فطرت کی دلیل ‘‘ کے عنوان سے ہم نے دلائل آخرت کے ضمن میں سب سے پہلے گفتگو کی تھی۔ دلیل مقصدیت کے آغاز پر ہم نے جو تین سوالات اٹھائے تھے وہ انسان کی اسی فطرت سے پھوٹے تھے ۔ جبکہ دلیل فطرت کے بیان میں ہم نے یہ واضح کیا تھا کہ انسان اپنی فطرت کے لحاظ سے ہمیشہ ایک بے عیب دنیا کا خواہش مند رہا ہے اور ہمیشہ اسی کی تعمیر کی کوشش کرتا رہتا ہے ۔ جبکہ اس کا ضمیر یہ چاہتا ہے کہ دنیا ہمیشہ عدل کامل ہو۔ وہ اپنی حد تک سزا وجزا کا ایک نظام بنا کر یہ کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے ، مگر کچھ بھی کر لیا جائے اس دنیا میں عدلِ کامل ممکن نہیں ۔اسی طرح انسانی عجز اور اس دنیا کے مسائل یہاں کبھی اس کی مطلوب دنیا قائم نہیں ہونے دیتے ۔ چنانچہ اس فطری سوال کے جواب میں  قرآن مجید ایک طرف قیامت کے بعد قائم ہونے والی جنت و جہنم کی دنیا کا نقشہ اس کے سامنے رکھ دیتا ہے تو دوسری طرف اس دن کا بھرپور تعارف کراتا ہے جب عدل کامل کیا جائے گا۔

تاہم اس کے بعد یہ سوال بہرحال رہ جاتا تھا کہ پھر اِس دنیا کے مسائل کی حقیقت کیا ہے ۔ دلیل مقصدیت اسی دوسرے سوال کا جواب ہے کہ اس دنیا کے سارے مسائل صرف اس لیے ہیں کہ یہ دنیا دارالامتحان ہے ۔امتحان ہی وہ غایت اور مقصد ہے جس کی بنا پر یہاں کے ہر شر اور مسئلے کو گوارا کیا جا رہا ہے ۔چنانچہ اس دنیا میں جوکچھ انسان کرے گا اسی کی بنیاد پر اخروی دنیا کی سزا و جزا کا فیصلہ ہو گا۔ چنانچہ انسانی عقل اس توجیہ کو جیسے ہی سنتی ہے ، وہ فطرت کی اساس پر اس کو فوراً قبول کر لیتی ہیے ۔ تاہم ایک ڈھیٹ آدمی پلٹ کر یہ سوال کرسکتا ہے کہ اس دنیا کا دارالعمل ہونا چلو مان لیا ، مگر اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ آگے کوئی دار الجزاء ہے جس میں سزا جزا ہو گی۔ ہم لاکھ کہیں کہ یہ فطرت کی پکار ہے مگر وہ نہ مانے اور یہ کہے کہ یہ تو محض دعوے ہیں ، دلیل نہیں ۔ چنانچہ آخرت کے لحاظ سے قرآن مجید کے اگلے دلائل اسی اعتراض کے جواب میں ہیں ۔ تاہم ان پر تفصیلی گفتگو انشاء اللہ آگے ہو گی۔

قرآنی بیانات

قرآن مجید نے متعدد جگہوں پر مختلف طریقوں سے یہ واضح کیا ہے کہ یہ دنیا بامقصد طریقے پر تخلیق کی گئی ہے ۔ چند بیانات درج ذیل ہیں ۔

اور ہم نے آسمان و زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کھیل تماشہ کے طور پر نہیں بنایا ہے ۔ اگر ہم کوئی کھیل ہی بنانا چاہتے تو خاص اپنے پاس ہی بنا لیتے ۔ اگر ہم یہ کرنے والے ہی ہوتے ! بلکہ ہم حق کو باطل پر دے ماریں گے تو اس کا بھیجا نکال دے گا تو دیکھو گے کہ وہ نابود ہو کر رہے گا اور تمہارے لیے اس چیز کے سبب سے ، جو تم بیان کرتے ہو، بڑ ی خرابی ہے ! (الانبیا 18:21-16)

تو کیا تم نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ہم نے تم کو بس یوں ہی بے مقصد پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے ! (مومنون 115:23)

بے شک آسمانوں اور زمین کی خلقت اور رات اور دن کی آمد و شد میں اہلِ عقل کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں ۔ ان کے لیے جو کھڑے ، بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر خدا کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی خلقت پر غور کرتے رہتے ہیں ۔ ان کی دعا یہ ہوتی ہے کہ اے ہمارے پروردگار، تو نے یہ کارخانہ بے مقصد نہیں پیدا کیا ہے ۔ تو اس بات سے پاک ہے کہ کوئی عبث کام کرے ، سو تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ (ال عمران 191:3-190 )

اور ہم نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی چیزیں کھیل کے طور پر نہیں بنائیں ۔ ہم نے ان کو نہیں پیدا کیا ہے مگر ایک مقصد کے ساتھ لیکن ان کے اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں جانتے ۔ بے شک فیصلہ کا دن ان سب کا وقت موعود ہے ۔ (دخان 40:44-38)

کیا انہوں نے اپنے دلوں میں غور نہیں کیا! اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے نہیں پیدا کیا ہے مگر غایت و حکمت اور ایک مدتِ مقرر کے ساتھ۔ اور لوگوں میں سے بہت سے ایسے ہیں جو اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں ۔ (الروم 8:30)

اور ہم نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو نہیں پیدا کیا مگر ایک غایت اور معین مدت کے لیے ۔ اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا، اس چیز سے اعراض کیے ہوئے ہیں جس سے ان کو آگاہ کیا گیا ہے ۔ (احقاف 3:46)

یہ بات کہ موجودہ دنیا نیکی اور بدی کے ارتکاب کی جگہ ہے اور یہی اس کا مقصد ہے اور یہ کہ آنے والی دنیا میں سزا و جزا اسی بنیاد پر برپا ہو گی اس طرح بیان ہوئی ہے ۔

کیا وہ لوگ جنہوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا ہے ، سمجھتے ہیں کہ ہم ان کو ان لوگوں کی مانند کر دیں گے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے ، ان کی زندگی اور موت یکساں ہو جائے گی؟ بہت ہی برا فیصلہ ہے جو وہ کر رہے ہیں ! اور اللہ نے آسمانوں اور زمین کو غایت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور تاکہ بدلہ دیا جائے ہر جان کو اس کے کیے کا اور ان کے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں ہو گی۔(جاثیہ 22:45-21)

اور ہم نے آسمان اور زمین اور ان کے درمیان کی چیزیں عبث نہیں پیدا کی ہیں ۔ یہ ان لوگوں کا گمان ہے جنہوں نے کفر کیا تو ان لوگوں کے لیے جنہوں نے کفر کیا دوزخ کی ہلاکت ہے ۔ کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیے زمین میں فساد مچانے والوں کی طرح کر د یں گے ، یا ہم متقیوں کو فاجروں کی طرح بنا دیں گے ! (ص 28:38-27)

یہ بات کہ روز قیامت نئے آسمان و زمین بنائے جائیں گے اور زمین اللہ کے نیک بندوں کو دے دی جائے گی اس طرح بیان ہوئی ہے ۔

اس دن کو یاد رکھو جس دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی اور سب اللہ واحد و قہار کے حضور پیش ہوں گے ۔ (ابراہیم48:14)

اور ہم نے زبور میں موعظت کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہی ہوں گے ۔ (الانبیا 105:21)

جب کہ موجودہ دنیا کے امتحان گاہ ہونے کو ایسے واضح کیا گیا ہے ۔

اس نے پیدا کیا ہے موت اور زندگی کو تاکہ تمہارا امتحان کرے کہ تم میں کون سب سے اچھے عمل والا بنتا ہے ۔ اور وہ غالب بھی ہے اور مغفرت فرمانے والا بھی، (ملک 2:67)

ہر جان کو موت کا مزہ لازماً چکھنا ہے ۔ اور ہم تم لوگوں کو دکھ اور سکھ دونوں سے آزما رہے ہیں پرکھنے کے لیے اور ہماری ہی طرف تمہاری واپسی ہونی ہے۔ ( الانبیا 35:21)

[جاری ہے ]