Take a fresh look at your lifestyle.

مضامین قرآن (11) دلائل آخرت : قدرت کی دلیل ۔ ابو یحییٰ

دلائل آخرت : قدرت کی دلیل

قرآن کی دعوت ، اعتراض اور دلیل قدرت

حیات بعد از ممات قرآن مجید کا بنیادی مقدمہ ہے ۔ اس کا دعویٰ یہی ہے کہ یہ دنیا عارضی ہے اور ایک روز آئے گا جب تمام انسانوں کو زندہ کیا جائے گا اور پھر ان کے عمال کی بنیاد پر ان کے ابدی انجام کا فیصلہ ہو گا۔ صالحین جنت کی بادشاہی میں اور بدکار جہنم کے قیدخانے میں جائیں گے۔ اس دعویٰ کی بنیاد پر قرآن مجید انسانوں سے پوری زندگی بدلنے کا مطالبہ کرتا ہے ۔ اعتقاد، اعمال، اخلاق، مراسم عبودیت، طرز زندگی، معیشت، معاشرت غرض اس دعوت کو مان لینے کے بعد ہر شعبہ زندگی میں زبردست انقلاب آجانا چاہیے ۔

جو لوگ اپنی زندگی کو بدلنا نہیں چاہتے اور اخلاق کے بجائے خواہش اور مفاد کے اصول پر زندگی گزارنا چاہتے ہیں وہ چھوٹتے ہی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ زندگی کے بعد موت ممکن نہیں ۔ انسان زندگی کو جانتے ہیں ۔ موت سے بھی واقف ہیں ۔ لیکن مرنے کے بعد کسی کو زندہ ہوتے آج تک کسی نے نہیں دیکھا۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ وہ مرتے ہیں اور خاک میں رل مل جاتے ہیں ۔ جو بچتا ہے وہ بوسیدہ ہڈیاں ہوتی ہیں ۔ قدیم زمانے کے لوگ صدیوں تک ایک ہی جگہ رہتے تھے ۔ قرنوں سے موجود ان کے آباد و اجداد کی قبریں ان کے سامنے ہوتی تھیں ۔کبھی کوئی زندہ ہوا نہ کسی ہڈی نے گوشت کا لبادہ اوڑھ کر انسانی قالب کو اختیار کیا۔ ایسے میں یہ دعویٰ کس طرح عقلی بنیادوں پر مان لیا جائے اور اس کی بنیاد پر پوری زندگی کا نقشہ ہی بدل دیا جائے کہ ایک روز اگلے پچھلے سارے انسانوں کو زندہ کیا جائے گا اور پھر ایک نئی زندگی شروع ہو گی۔

یہی وہ مقام ہے جہاں سے آخرت کی یہ دلیل قرآن مجید میں بیان ہوتی ہے اور اتنے گوناگوں پہلوؤں سے بیان ہوتی ہے کہ اس اعتراض کی کمزوری نہ صرف پوری طرح کھل کر سامنے آ جاتی ہے بلکہ معلوم ہوجاتا ہے کہ موت کے بعد زندگی ہر ہر پہلو سے انسانوں کے شب و روز کا مشاہدہ ہے اور اس کا انکار کوئی شخص کبھی نہیں کرسکتا۔

یوں تو قرآن مجید نے متعدد پہلوؤ ں سے اس دلیل کو پیش کیا ہے ، مگر جب تدبر کی نگاہ سے قرآن مجید کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو اندازہ ہوتا کہ قدرت کے استدلال کو تین پہلوؤں سے نمایاں کیا گیا ہے جو کہ درج ذیل ہیں ۔

۱) ان انسانی مشاہدات کو سامنے رکھ کر جن میں انسان ہر روز مردہ چیزوں کو زندہ ہوتے دیکھتے ہیں ۔

۲) انفس و آفاق میں جو کچھ موجود ہے اس صناعی و کاریگری کی عظمت کو سامنے رکھ کر یہ بتایا گیا ہے کہ تخلیق کا اتنا مشکل اور اتنا نازک معاملہ پہلی دفعہ کیا جا سکتا ہے تو دوبارہ بھی کیا جا سکتا ہے ۔

۳) اللہ کے علم و قدرت کے ان پہلوؤں کو سامنے رکھنا جو یہ بتاتے ہیں کہ مرنے والے انسانوں کے لیے فنا ہوتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کے علم و قدرت سے وہ کسی طور باہر نہیں نکلتے ، اس لیے وہ جب چاہے گا انھیں دوبارہ اٹھا کھڑا کرے گا۔

ذیل میں ہم قرآنی بیانات کی روشنی میں ان تینوں پہلوؤں کی تفصیل کریں گے ۔

مردہ مخلوقات کا زندہ ہونا

قرآن مجید کئی پہلوؤں سے اس حقیقت کو لوگوں کے سامنے بالکل نمایاں کر کے رکھ دیتا ہے کہ موت کے بعد جس زندگی کے وہ منکر ہیں ، وہ اس دنیا کا ایک روزمرہ کا مشاہدہ ہے ۔ اس سلسلے کی سب سے نمایاں نشانی وہ مردہ زمین کی پیش کرتا ہے ۔ انسانوں کا عام مشاہدہ ہے کہ زمین خشک اور بنجر پڑی ہوتی ہے۔ ہر طرف خاک اور دھول اڑتی ہے ۔ سبزے کا ایک نشان تک نہیں ہوتا۔ صبح و شام گزرتے ہیں ۔ شب و روز بیت جاتے ہیں ۔ موسم اور مہینے بدل جاتے ہیں ۔ مگر مردہ زمین کی قسمت نہیں بدلتی۔ یہاں تک کہ ایک روز یک بیک ٹھنڈی ہوا چلتی ہے ۔ کچھ ہی دیر میں ہوا کے لطیف شانوں پر براجمان جھومتے اور ڈولتے بادل نمودار ہوتے ہیں ۔ تپتا آسمان رنگ بدلتا ہے ۔ ابرکرم کی برسات شروع ہوتی ہے ۔ ہر چیز جل تھل ہوجاتی ہے ۔ برسات کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ ایک روز کوئی مسافر اس سرزمین سے گزرتا ہے ۔ وہ حیران رہ جاتا ہے کہ جاتے وقت وہ جس زمین کو سنگلاخ چھوڑ گیا تھا وہ سرسبز و شاداب ہوگئی ہے ۔ ہر طرف نباتات کی بہار ہے ۔ درخت شاداب ہو چکے ہیں ۔ پھول و پودوں کی بہار آئی ہوئی ہے ۔ مردہ زمین زندہ ہو چکی ہے ۔ قرآن مجید یہ مشاہدہ سامنے رکھ کر کہتا ہے کہ ایسے ہی ایک روز مردہ انسان زندہ کر دیے جائیں گے ۔

دوسری نشانی خود انسان کا اپنا وجود ہے ۔ اللہ نے رات کو دھرتی کا لباس اورنیند کو دافع کلفت بنایا ہے ۔ دن بھر کی معاش کی جدوجہد کے بعد انسان کی یہ ضرورت بن جاتی ہے کہ وہ رات کے وقت نیند کے دامن میں پناہ ڈھونڈے ۔ رات بھر وہ سوتا رہتا ہے اور صبح تازہ دم  ہوکر نئے دن کا آغاز کرتا ہے ۔ قرآن مجید اس نیند کو موت اور اس بیداری کو روز حشر کی بیداری کی تمثیل کی شکل میں پیش کر کے کہتا ہے کہ اس عارضی موت اور پھر اس کے بعد بیداری کا تجربہ تم ہر روز کرتے ہو۔ اس کے بعد تم موت کی نیند کے بعد صبح ازل بیداری کے منکر کیسے ہو سکتے ہو۔

تیسری نشانی اجرام فلکی ہیں ۔ سورج دن میں طلوع ہوتا اور رات میں غروب ہوجاتا ہے ۔ جبکہ چاند اور تارے رات میں نکلتے اور دن میں ڈوب جاتے ہیں ۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ سورج کا ہر غروب ایک نئی طلوع کی نوید ہے اور ہمیں اس پر کوئی شک نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ جو خدا ڈوبے سورج کو دوبارہ نکال سکتا ہے وہ موت کی غروب کو زندگی کا طلوع دینے سے کیسے عاجز رہ سکتا ہے ۔

پھر قرآن مجید انفس و آفاق کی انھی نشانیوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ انسانی تاریخ کے بعض ایسے واقعات سامنے رکھتا ہے جن کی شہادت ایک زمانے نے دی ہے ۔ مثال کے طور پر اصحاب کہف کے واقعے کو وہ تفصیل سے بیان کر کے یہ بتاتا ہے کہ انسانوں نے اپنی آنکھوں سے بھی مردوں کو زندہ ہوتے دیکھا ہے کہ کس طرح صدیوں تک سوئے ہوئے لوگ معجزانہ طریقے پر نہ صرف زندہ ہوگئے بلکہ حیات بعد از ممات پر جب لوگوں کو شک ہونے لگا تو اس کی ایک جیتی جاگتی مثال بن کر لوگوں کے سامنے آ گئے ۔ یہی معاملہ سیدنا مسیح کا تھا جو اللہ کے اذن سے مردوں کو زندہ کر کے دکھاتے تھے ، (آل عمران 110:3)۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تو ان کی فرمائش پر مردہ پرندوں کو زندہ کر کے دکھایا تھا، (البقرہ 260:2)۔

یوں انسانی مشاہدات ہی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ جو اللہ ان مخلوقات کو تمھاری آنکھوں کے سامنے مردہ کر رہا ہے ، اس کے لیے کیا مشکل ہے کہ وہ انسان کے مردہ ہوجانے کے بعد انھیں زندہ نہ کرسکے ۔

قرآنی بیانات

قرآن مجید میں حیات بعد ازممات کے تصور پرکفار کے رویے کو اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔

بلکہ ان لوگوں کو تعجب ہوا کہ ان کے پاس انہی کے اندر سے ایک آگاہ کرنے والا آیا تو کافروں نے کہا کہ یہ تو ایک نہایت عجیب بات ہے ۔ کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی ہوجائیں گے (تو دوبارہ لوٹائے جائیں گے ؟) یہ لوٹایا جانا تو بہت بعید ہے ۔ (ق 50: 3-2)

کیا لوگوں کو اس بات پر حیرانی ہے کہ ہم نے انہی میں سے ایک شخص پر وحی کی کہ لوگوں کو ہوشیار کر دو اور اہل ایمان کو بشارت پہنچادو کہ ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑا مرتبہ ہے ؟ کافروں نے کہا: بے شک یہ ایک کھلا ہوا جادوگر ہے ۔ (یونس 2:10)

اور یہ کہتے ہیں کہ کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو ہم ازسرنو اٹھائے جائیں گے ؟ کہہ دو کہ تم پتھر یا لوہا بن جاؤ یا کوئی اور شے جو تمھارے خیال میں ان سے بھی سخت ہو۔ پھر وہ کہیں گے کہ ہمیں کون دوبارہ زندہ کرے گا؟ کہہ دو کہ وہی جس نے تم کو پہلی بار پیدا کیا۔ (اسراء 17: 51-49)

اور کہتے تھے کہ کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں بن جائیں گے تو کیا ازسر نو زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے ؟ اور کیا ہمارے اگلے آباؤ اجداد بھی؟ (واقعہ 56: 48-47)

اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ وہ نشانیاں بیان کرتے ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا۔ مثلاً مردہ زمین کی زندگی کے حوالے سے قرآن کریم اس طرح توجہ دلاتا ہے ۔

اور وہی ہے جو ابر رحمت سے پہلے ہواؤں کو بشارت بنا کر بھیجتا ہے ، یہاں تک کہ جب وہ بوجھل بادل کو اٹھالیتی ہیں ، ہم اس کو ہانکتے ہیں کسی بے آب و گیاہ زمین کی طرف اور وہاں پانی برساتے ہیں اور پھر ہم اس سے پیدا کرتے ہیں ہر قسم کے پھل۔ اسی طرح ہم مردوں کو اٹھا کھڑا کریں گے تاکہ تم یاددہانی حاصل کرو۔

(اعراف 57:7)

اور تم زمین کو بالکل خشک دیکھتے ہو تو جب ہم اس پر پانی برسا دیتے ہیں تو وہ لہریں لینے لگتی اوراپچتی ہے اور طرح طرح کی خوشنما چیزیں اگاتی ہے ۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ اللہ ہی پرودگارِ حقیقی ہے اور وہی مردوں کو ایک دن زندہ کر کے اٹھائے گا جو قبروں میں ہیں ۔ (حج 22: 6-5 )

اور ہم نے آسمان سے بابرکت پانی برسایا جس سے ہم نے باغ بھی اگائے اور کاٹی جانے والی فصلیں بھی۔ اور کھجوروں کے بلند و بالا درخت بھی جن میں تہ بہ تہ خوشے لگتے ہیں ۔ بندوں کی روزی کے لیے ۔ اور ہم نے اس سے مردہ زمین کو زندہ کر دیا۔ اسی طرح (مرنے کے بعد زمین سے ) نکلنا بھی ہو گا۔ (ق  50: 11-9)

انسانی نیند کو بطور نشانی اس طرح پیش کیا جاتا ہے :

اللہ ہی وفات دیتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت، اور جن کی موت نہیں آئی ہوئی ہوتی ہے ان کو بھی ان کی نیند کی حالت میں ۔ تو جن کی موت کا فیصلہ کر چکا ہوتا ہے ان کو تو روک لیتا ہے اور دوسروں کو ایک وقت مقرر تک کے لیے رہائی دیتا ہے ۔ بے شک اس کے اندر نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور کرتے ہیں ۔ (زمر 42:39)

اجرام فلکی کے طلوع و غروب سے وہ حیات بعد از ممات پر اس طرح استدلال کرتا ہے ۔

’’(یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اِنھیں دوبارہ پیدا نہ کر سکیں گے )؟ نہیں ، میں قسم کھاتا ہوں اُس کی جو تمام مشرقوں اور مغربوں کا مالک ہے ۔ ہم اِس پر قادر ہیں کہ اِن کو (دوبارہ) اِن سے بہتر پیدا کر دیں اور ہم اِس سے عاجز نہ رہیں گے ۔‘‘(معارج  70:41-40)

خیال رہے کہ یہاں مشارق ومغارب کی قسم کھائی گئی ہے ۔ اجرام فلکی مشرق و مغرب ہی میں ڈوبتے اور نکلتے ہیں ۔ نیز مشرق یا مغرب کی کوئی ایک جگہ متعین نہیں ہوتی بلکہ مشرق اور مغرب کے تمام اطراف میں یہ طلوع غروب ہوتا ہے اس لیے مشرق و مغرب کے لیے جمع کے صیغے لائے گئے ہیں ۔ پھر ان سے یہ استدلا ل کیا گیا ہے کہ ہم ان انسانوں کو نہ صرف ان جیسا بلکہ ان سے بہتر بنا کر زندہ کرنے کی قدرت رکھتے ہیں ۔

اصحاب کہف کا واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے ۔

’’کیا تم نے کہف و رقیم والوں کو ہماری نشانیوں میں سے کچھ بہت عجیب خیال کیا! جب کہ کچھ نوجوانوں نے غار میں پناہ لی اور دعا کی کہ اے ہمارے رب ہمیں اپنے پاس سے رحمت بخش اور ہمارے اس معاملے میں ہمارے لیے رہنمائی کا سامان فرما۔ تو ہم نے غار میں ان کے کانوں پر کئی برس کے لیے تھپک دیا۔پھر ہم نے ان کو بیدار کیا کہ دیکھیں دونوں گروہوں میں سے کون مدت قیام کو زیادہ صحیح شمار میں رکھنے والا نکلتا ہے ۔ ہم تمہیں ان کی سرگزشت ٹھیک ٹھیک سناتے ہیں ۔ یہ کچھ نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کی ہدایت میں مزید افزونی عطا فرمائی۔ اور ہم نے ان کے دلوں کو مضبوط کیا جب کہ وہ اٹھے اور کہا کہ ہمارا رب وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے ۔ ہم اس کے سوا کسی اور معبود کو ہرگز نہیں پکاریں گے ۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو ہم یہ حق سے نہایت ہی ہٹی ہوئی بات کہیں گے ۔ یہ ہماری قوم کے لوگوں نے اس کے سوا کچھ دوسرے معبود بنا رکھے ہیں ۔ یہ ان کے حق میں واضح دلیل کیوں نہیں پیش کرتے ! تو ان سے بڑا ظالم کون ہو گا جو خدا پر جھوٹ باندھیں ۔ اور اب کہ تم ان کو اور ان کے معبودوں کو، جن کو وہ خدا کے سوا پوجتے ہیں ، چھوڑ کر الگ ہو گئے ہو تو غار میں پناہ لو، تمہارا رب تمہارے لیے اپنا دامن رحمت پھیلائے گا اور تمہارے اس مرحلہ میں تمہاری ضروریات کا سامان مہیا فرمائے گا۔ اور تم دیکھتے سورج کو کہ جب طلوع ہوتا ہے تو ان کے غار سے دائیں جانب کو بچا رہتا ہے اور جب ڈوبتا ہے تو ان سے بائیں طرف کو کترا جاتا ہے اور وہ اس کے صحن میں ہیں ۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے ۔ جس کو اللہ ہدایت دے وہی راہ یاب ہوتا ہے اور جس کو وہ گمراہ کر دے تو تم اس کے لیے کوئی دستگیری کرنے والا اور رہنمائی کرنے والا نہیں پا سکتے ۔

اور تم ان کو جاگتا گمان کرتے حالانکہ وہ سو رہے ہوتے اور ہم ان کو داہنے بائیں کروٹیں بھی بدلواتے اور ان کا کتا دونوں ہاتھ پھیلائے دہلیز پر ہوتا، اگر تمہاری نظر ان پر پڑ جاتی تو تم وہاں سے الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے اور تمہارے اندر ان کی دہشت سماجاتی۔

اور اسی طرح ہم نے ان کو جگایا کہ وہ آپس میں پوچھ گچھ کریں ۔ ان میں سے ایک پوچھنے والے نے پوچھا، تم یہاں کتنا ٹھہرے ہو گے ؟ وہ بولے ہم ایک دن یا ایک دن سے بھی کم ٹھہرے ہوں گے ۔ بولے تمہاری مدت قیام کو تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے ۔ پس اپنے میں سے کسی کو اپنی یہ رقم دے کر شہر بھیجو تو وہ اچھی طرح دیکھ لے کہ شہر کے کس حصہ میں پاکیزہ کھانا ملتا ہے اور وہاں سے تمہارے لیے کچھ کھانا لائے اور چاہیے کہ وہ دبے پاؤں جائے اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے ۔ اگر وہ تمہاری خبر پا جائیں گے تو تمہیں سنگسار کر دیں گے یا تمہیں اپنی ملت میں لوٹا لیں گے اور پھر تم کبھی فلاح نہ پا سکو گے ۔اور اسی طرح ہم نے ان لوگوں کو مطلع کر دیا تاکہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ شدنی ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شبہ نہیں ہے ۔

(کہف  18 : 21-9)

[جاری ہے ]