Take a fresh look at your lifestyle.

جنگل کا بادشاہ ۔ ابویحییٰ

انسانوں میں شیر جنگل کا بادشاہ مانا جاتا ہے۔ شیر کو بہادری کی علامت سمجھا جاتا ہے اور اس حوالے سے کئی محاورے ہمارے ہاں عام ہیں۔ دور جدید میں مغربی اہل علم نے جہاں اور بہت سی چیزوں کو اپنی تحقیقات کا موضوع بنایا ہے وہیں جنگل اور اس میں پائے جانے والے جانداروں پر بھی بڑی تحقیقات ہوئی ہیں۔ ان کے حالات، رویوں اور معاملات کا مطالعہ کرنے کے لیے لوگوں نے اپنی زندگیاں وقف کر دی ہیں۔اس موضوع پر کتابیں لکھی گئیں اور آج کل ڈاکومنٹری فلموں کے ذریعے سے بھی ان معلومات کو عام کیا جا رہا ہے۔

جنگل کے دیگر باسیوں کی طرح شیر کے بارے میں بھی تحقیقات ہوئی ہیں۔ ان سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ شیر کی بہادری کے بارے میں جو باتیں مشہور تھیں وہ محض ایک افسانہ تھیں۔ شیر کی درست تصویر جنگل کے بادشاہ کی نہیں بلکہ جنگل کے ایک درندے کی ہے۔ شیر اتنا ہی بہادر ہوتا ہے جتنا اس کا حریف کمزور ہوتا ہے۔ وہ ہرن پر حملہ کرتا ہے تو بڑی ’بہادری‘ سے کرتا ہے، مگر جب اس کا واسطہ زرافے جیسے معصوم مگر بلند قامت جانور سے پڑتا ہے تو وہ اتنا ’بہادر‘ نہیں رہتا۔ کئی شیر عیاری اور خاموشی کے ساتھ مل کر اسے قابو کرتے ہیں۔ وہ اس کے سامنے آنے کی جرات نہیں کرتے اور پیچھے سے حملہ آور ہوتے ہیں۔ جب وہ زخموں سے چور ہوکر گر جاتا ہے تب اس کی گردن پکڑ لیتے ہیں۔

جس طرح شیر کے بارے میں درست رائے تحقیق کے بعد ہی قائم ہوسکی اسی طرح انسانوں کے بارے میں بھی رائے ہمیشہ تحقیق کے بعد قائم ہونی چاہیے۔ سنی سنائی باتوں سے کسی کی عظمت کے قصے تراشنا یا کسی فرد کے متعلق غلط رائے قائم کرنا درست رویے نہیں۔ اس رویے کے بعد انسان جب کسی کے متعلق بڑائی کا تصور قائم کرتا ہے تو اسے ہر طرح کی تنقید سے بالاتر قرار دے کر اکابر پرستی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ جب وہ کسی کے متعلق منفی رائے قائم کرتا ہے تو اس کی طرف ایسے عیب منسوب کر دیتا ہے جو اس میں نہیں ہوتے۔ یہ دونوں رویے دین و اخلاق کے اعتبار سے جرم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک مومن پر فرض ہے کہ وہ ہمیشہ تحقیق کے بعد کسی کے بارے میں اظہار رائے کرے یا پھر خاموشی اختیار کرے۔