Take a fresh look at your lifestyle.

دیبل کا قلعہ اور نمل یونیورسٹی ۔ وجاہت مسعود

ملتان اور راجن پور سے کچھ نوجوان گزشتہ ہفتے لاہور آئے۔ بہت سے اصحاب علم نے ثقیل موضوعات پر گفتگو کی۔ درویش نے ایک سادہ طریقہ اختیار کیا۔ آٹھ رضا کار چن لیے اور انہیں دعوت دی کہ سارک میں شامل ملکوں کی فہرست تیار کر دیں۔ اس آؤٹ آف کورس سوال پر خاصی ہڑبڑاہٹ پھیلی۔ بالآخر ہاتھ میں پکڑے موبائل سے مدد لے کر اور طویل باہم مشاورت کے بعد آٹھ ملکوں کے نام چارٹ پر نمودار ہوگئے۔ عرض کیا کہ اب ان ملکوں کی آبادی بھی لکھ دیں۔ ان خواتین و حضرات میں سے سات افراد ایم اے اور ایک بی ایس آنرز تھا۔ بھوٹان کی آبادی چار کروڑ اور سری لنکا کی آبادی آٹھ سے دس کروڑ بتائی گئی۔ معلوم ہوا کہ جغرافیہ وغیرہ تو ’سخن فہمی عالم بالا‘ کا مضمون ہے البتہ یہ خواتین و حضرات سیاست پر بات کرنے کا شوق رکھتے ہیں۔ پوچھا گیا کہ راولپنڈی سازش کیس کا انکشاف کس برس میں ہوا تھا اور شیخ مجیب الرحمن نے اپنے چھ نکات کس برس پیش کیے تھے۔ جواب نہیں مل سکا۔ نتیجہ یہ نکالا گیا کہ جس ملک میں روزانہ دو سو سے زائد کالم لکھے جاتے ہیں اور ٹیلی وژن پر درجنوں ٹاک شوز پیش کیے جاتے ہیں وہاں تجزیے کے تین بنیادی زاویوں سے ہم قریب قریب ناآشنا ہیں۔ ہم اعداد و شمار کی صحت کو زیادہ وزن نہیں دیتے۔ ملی جذبے کی آنچ پر تجزیے کی ہانڈی چڑھا دیتے ہیں۔ سوئٹزر لینڈ کے بینکوں سے دو سو ارب ڈالر کی رقم واپس لانا چاہتے ہیں۔ ایک نہایت کرپٹ شخص کے بارے میں ایک دن اعلان کرتے ہیں کہ وہ ہر روز دو ارب روپے رشوت لیتا تھا۔ پھر پتہ لگتا ہے کہ نہیں یہ رقم دو کروڑ روپے تھی۔ ہماری تجزیاتی صلاحیت کا دوسرا روشن پہلو یہ ہے کہ ہم تقویم کی ترتیب میں غیر محتاط ہی نہیں، بے خبر بھی ہیں۔ ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انقلاب فرانس پہلے واقع ہوا تھا یا انقلاب ایران۔ تیسرے یہ کہ ہم مختلف واقعات میں مکانی ترتیب یعنی جغرافیائی فاصلے سے بھی قطعی بے نیاز ہیں۔ ہمارے خیال میں درہ خیبر سے رکشہ لیں تو آدھے گھنٹے میں دیبل کے قلعے تک پہنچا جاسکتا ہے۔ ان حالات میں کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ ہم علت و معلول کی جو کڑیاں تیار کرتے ہیں وہ ہمارے گلے کا طوق اور پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہیں۔ ہم ایک خیراتی اسپتال کو صحت کے شعبے میں ترقی کا نسخہ سمجھتے ہیں اور اس نکتے پر بالکل غور نہیں کرتے کہ علاج معالجے پر تحقیق کا شعبہ ہمارے ہاں کس حالت میں ہے اور کیا ہم ایسی تحقیق کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ پھر ایک دن خبر آتی ہے کہ فلاں دولت مند شخص نے ایک یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔ یہ ایسے ہنر مند صاحب سرمایہ ہیں کہ موقع محل کی مناسبت سے یونیورسٹی اور مسجد کی تعمیر کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ٹیکس بہر حال نہیں دیتے۔ ہم انصاف کے نام پر پارلیمنٹ کے درپے ہوجاتے ہیں۔ تعلیم کے نام پر قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہیں۔ مذہب کے نام پر تفرقہ پھیلاتے ہیں۔ قومی مفاد کے نام پر ریاست کی لٹیا ڈبوتے ہیں۔ وفاق کے نام پر صوبوں کو روندتے ہیں اور صوبائی حقوق کا نام لے کر مقامی قانون شکنی کرتے ہیں۔ عام طور سے درویش تنقید کرنے کی بجائے امید کے پہلوؤں کو واضح کرتا ہے۔ تاہم کبھی کبھی حقیقت پر بھی آنکھ رکھنی چاہیے۔ دنیا کو بہتر بنانے کے لیے دنیا کو سمجھنا بہت ضروری ہے اور اس میں دوسروں کو بدلنا اتنا اہم نہیں جتنا اس امر پہ غور کرنا کہ ہمارے اندر کن تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ یہیں پر پانی مرتا ہے۔ ہمارا جہادی ہو یا نوجوان تعلیم یافتہ عبقری، ہمیں دنیا کو بدلنے کی بہت فکر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شاید ہم آج کی دنیا کو پورے طور سے سمجھتے بھی نہیں اور سمجھنا محض اعداد و شمار سے واقفیت کا نام نہیں۔ یہ محض مشین چلانے کا ہنر بھی نہیں۔ سمجھنے کا تقاضا تو یہ جاننا ہے کہ کسی شعبے میں اب تک کیا پیش رفت ہوئی ہے۔ گزشتہ کل میں کیا صورت حال تھی۔ کون سے نئے عوامل تصویر کا حصہ بنے ہیں اور اگر معاملہ اسی طرح آگے بڑھتا ہے تو کل کی تصویر کیا ہوگی اور اگر ہم آنے والے کل کو اپنے لیے مفید خد و خال دینا چاہتے ہیں تو ہمیں کن عوامل میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ کیا ہمیں محض دوسروں کی بنائی ہوئی ٹیکنالوجی خریدنا ہے یا ٹیکنالوجی کی پیداوار میں شریک ہونا ہے۔ ہمیں دوسروں کی لکھی ہوئی کتاب کا ترجمہ کرنا ہے یا خود بھی ایک کتاب لکھنا ہے۔ ہمیں دوسروں کی تحقیق سے فائدہ اٹھانا ہے یا تحقیق کے عمل میں شریک ہونا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ’خدائی فوج دار‘ اور ’مامور من اللہ‘ ہونے کا وہم ختم کر دیں۔ جنگ کی بجائے امن کا خواب دیکھیں۔ انقلاب کی بجائے استحکام کی صورتوں پر توجہ دیں۔ ’کیا ہونا چاہیے‘ کا نتیجہ نکالنے سے پہلے یہ معلوم کرلیں کہ کیا ہو رہا ہے اور کیسے ہو رہا ہے۔