اقامت صلوٰۃ کا مفہوم ۔ ابویحییٰ
سوال: قرآن کی سورہ حج آیت 41 کے معنی، سیاق و سباق اور نتائج کے بارے میں مجھے ہمیشہ مسئلہ درپیش رہا ہے۔ بالخصوص اس آیت میں اقامت صلوٰۃ کے معنی و مفہوم کے حوالے سے۔ ایک مسلمان خواہ دنیا کے کسی ملک میں ہی کیوں نہ ہو، مسلم یا غیر مسلم، یہاں تک کہ Guantanabay ہی میں کیوں نہ ہو وہ اپنی نماز بہر حال ادا کرسکتا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب ﷲ تعالیٰ یہ فرماتے ہیں کہ جب ہم انہیں زمین میں اقتدار بخشتے ہیں تو وہ اقامت صلوٰۃ کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں….. وغیرہ تو یہاں اقامت صلوٰۃ سے مراد صرف سادہ نماز ادا کرنا نہیں ہوسکتا۔ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اس سے مراد یہاں صرف نماز ادا کرنے سے بڑھ کر ایک پورا خدائی نظام قائم کرنا ہوسکتا ہے۔ نماز کی ادائیگی وغیرہ بھی اس نظام کا حصہ ہوں گے لیکن اس سے مراد یہاں اسلامی معاشرے کا ایک مکمل نظام معلوم ہوتا ہے۔ برائے مہربانی اپنی رائے سے آگاہ کیجئے۔ شکریہ۔ (صابر چوہدری)
جواب: آپ نے اپنے سوال میں جس آیت کا حوالہ دیا ہے اس کا ترجمہ درج ذیل ہے:
’’یہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو سرزمین میں اقتدار بخشیں گے تو وہ نماز کا اہتمام کریں گے، زکوۃ ادا کریں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے۔ اور انجام کار کا معاملہ اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔‘‘(حج41:22)
آپ کے سوال سے ظاہر ہے کہ آپ کے نزدیک اس آیت میں اقامت صلوٰۃ کا مفہوم سادہ معنوں میں نماز پڑھ لینا ہی نہیں، بلکہ اس کی معنویت اس سے کچھ زیادہ ہے۔ ہم آپ کی اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں۔ تاہم آپ کی اگلی بات کہ اس سے مراد ایک مکمل الوہی نظام یا نظام ربوبیت (complete divine system) کا قیام ہے، ہمارے نزدیک محل نظر ہے۔ آیت کے الفاظ کی رو سے اقامتِ صلوٰۃ کے مفہوم میں یہ اضافہ تو ہوسکتا ہے کہ ’’اقامت صلوٰۃ‘‘ کا عمل اجتماعی نوعیت کا ہوجائے، مگر اس سے آگے بڑھ کر اس سے ایک مکمل نظام کی بات اخذ کرنا درست نہیں۔ ہمارے نزدیک اس حوالے سے وہی بات درست ہے جسے امام امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر تدبر قران میں بیان کیا ہے۔ سورہ بقرہ 2 کی آیت 3 کے تحت انہوں نے وہ تمام مفاہیم بیان کیے ہیں جو اقامت صلوٰۃ کے تحت آتے ہیں۔ آخر میں انہوں نے سورہ حج کی زیر بحث آیت کے حوالے سے لکھا ہے:
’’چھٹی چیز جمعہ و جماعت کا قیام و اہتمام ہے۔ خصوصیت کے ساتھ جب امت یا امام کی طرف اس کی نسبت کی جاتی ہے تب تو واضح طور پر جمعہ و جماعت کا قیام و اہتمام ہی مدنظر ہوتا ہے۔ مثلاً ملاحظہ ہو، الَّذِیْنَ إِن مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنکَرِ (اگر ان کو زمین میں اقتدار بخشیں گے تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے، (41۔حج) حضرت ابراہیم علیہ سلام کی دعا جس میں انہوں نے اپنی ذریت کا مشن بتایا ہے، ان الفاظ میں نقل ہوئی ہے۔ رَّبَّنَا إِنِّیْ أَسْکَنتُ مِن ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِندَ بَیْْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُواْ الصَّلاَۃَ (37۔ابراھیم)(اے ہمارے رب میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو اس بن کھیتی کی زمین میں تیرے محترم گھر کے پاس بسایا ہے، اے ہمارے رب، تاکہ یہ نماز قائم کرسکیں)‘‘ تدبر:92/1
یہی وہ مفہوم ہے جو ہمارے نزدیک یہاں مراد ہے۔ خیال رہے کہ نزول قرآن کے وقت نماز کا لفظ جب قرآن پاک میں آیا تو ایسا نہیں تھا کہ لوگوں کو اچانک معلوم ہوا کہ نماز بھی ایک چیز ہوتی ہے۔ نماز قرآن کریم کے نزول سے ہزاروں برس پہلے سے پڑھی جارہی تھی۔ جیسا کہ اوپر کے اقتباس میں سورہ ابراہیم کی آیت کے حوالے سے ثابت ہے کہ یہ عبادت حضرت ابراہیم کے زمانے سے موجود تھی۔ البتہ قریش نے اس میں بہت کچھ بدعات داخل کر دی تھیں جن کی اصلاح کر دی گئی۔ قرآن نے جب اقامت صلوٰۃ کا لفظ استعمال کیا تو سب کو معلوم تھا کہ اس کا مصداق کیا چیز ہے۔ قرآن نے نماز کا تعارف نہیں کرایا اس کی تاکید کی ہے۔
اس پورے پس منظر میں آپ دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ اقامت صلوٰۃ سے نماز کے علاوہ کسی قسم کا نظام مراد لینا اس کے سوا ممکن نہیں کہ الفاظ کا رشتہ معنی سے کاٹ دیا جائے۔ یہ مان لیا جائے کہ حضرت ابراہیم سے لے کر نزول قرآن تک اور اس وقت سے لے کر آج تک نماز کے اسم کا مسمیٰ کسی کو معلوم نہیں تھا۔ یہ کام اگر کیا جائے گا تو پھر قرآن تو کیا دنیا کی ہر کتاب کے ایسے معنی وجود میں آجائیں گے جو کتاب کے مصنف کے سان و گمان میں بھی نہیں گزرے ہوں گے۔