Take a fresh look at your lifestyle.

احیائے اسلام اور قرآن مجید ۔ ابویحییٰ

ایک زمانہ تھا کہ قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنا ایک ناقابل تصور بات تھی۔ عوام تو کجا خواص کی ایک بڑی تعداد بھی یہ نہیں جانتی تھی کہ قرآن میں کیا لکھا ہوا ہے۔ تاہم الحمد للہ اب صورتحال یہ ہے کہ بہت بڑے پیمانے پر لوگ قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھتے ہیں۔ تاہم وہ قرآن جو قوموں کو سرفراز کرتا رہا ہے، ہمارے ہاں اس کے فہم کا ذوق عام ہونے کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ایک ہمہ گیر زوال کا شکار ہے۔ آج کی گفتگو میں اس مسئلے کا جائزہ تاریخی تناظر میں لے کر اس صورتحال کے اسباب اور حل پر گفتگو کی جائے گی۔

برصغیر اور مسلمانوں کی فکری امامت
مسلمانوں کی تاریخ کے دو بڑے حصے ہیں۔ ایک حصہ وہ ہے جس میں مسلمانوں کی قیادت عرب یا بنی اسماعیل کر رہے تھے۔ کہیں کوئی اور حکمران ہوتا تو وہاں بھی خلیفہ کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا۔ اس دور میں مسلمانوں کی فکری اور علمی امامت بھی انھی خطوں کے باسی کر رہے تھے جو عربوں کے ماتحت تھے۔ ایک وقت آیا کہ عربوں کا یہ اقتدار ختم ہوا۔ پہلے تاتاریوں کے ہاتھوں خلافت عباسیہ کا خاتمہ ہوا اور پھر ان کے دوسرے بڑے مرکز اسپین سے بھی رفتہ رفتہ عرب اور مسلمان بے دخل کر دیے گئے۔ اس کے ساتھ ہی ان علاقوں میں علم و فکر کا دور ختم ہوگیا اور امت کی سیاسی قیادت کے ساتھ فکری رہنمائی بھی ان خطوں سے رخصت ہوگئی۔

اس کے بعد مسلمانوں کی تاریخ کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے۔ اس دور میں بھی مسلمان پہلے دور کی طرح دنیا کی امامت کے منصب پر فائز تھے۔ مگر اس دفعہ مسلمانوں کی قیادت بنی اسماعیل یا عربوں کے ہاتھ سے لے لی گئی۔ جس کے بعد ہندوستان اور ایران کی مقامی سلطنتوں کے علاوہ دنیا کے تین براعظموں یعنی ایشیا، یورپ اور افریقہ میں پھیلی ہوئی یہ ترکی کی خلافت عثمانیہ تھی جسے مسلمانوں کی سیاسی قیادت حاصل تھی۔ یہ سب کے سب عجمی تھے۔ سیاسی قیادت کی اس تبدیلی کے ساتھ امت کی فکری امامت بھی تبدیل ہوگئی۔ امت کی تاریخ کے اس دوسرے حصے میں یہ سعادت برصغیر کو نصیب ہوئی کہ مسلمانوں کی فکری امامت کا ظہور اس خطے سے ہوا۔

برصغیر میں اسلام کا فروغ
پچھلی کئی صدیوں سے پہلے فکر اسلامی اور پھر احیائے اسلام کا اصل مرکز یہی خطہ رہا ہے۔ اس عمل کا اولین آغاز اس وقت ہوا جب تاتاریوں کی تباہ کاریوں سے پناہ کی تلاش میں وسط ایشیا اور بلاد عرب کے لوگ ہندوستان آنا شروع ہوئے۔ چین سے لے کر روس اور وسط ایشیا سے لے کر یورپ تک تاتاری جہاں جاتے یلغار کرتے اور کوئی ان کا مقابلہ کرنے والا نہیں تھا۔ ایسے میں جائے پناہ صرف ہندوستان تھا جہاں سلاطین دہلی حکمران تھے۔ ان سلاطین نے عشروں تک تاتاریوں کو پے در پے شکستیں دے کر اس وقت انھیں اس خطے پر قابض ہونے سے باز رکھا جب پوری دنیا تاتاریوں کی رزم گاہ بنی ہوئی تھی۔ چنانچہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اپنی جان اور آبرو بچا کر اس خطے میں آگئی۔

ان لوگوں کے آنے کے ساتھ ہی ان علاقوں میں اسلام کا فروغ تیزی سے ہوا جو اب موجودہ پاکستان میں شامل ہیں اور اُس وقت بدھ مت کے زیر اثر ہونے کی بنا پر ہندووانہ ذات پات کے نظام کے اثرات سے محفوظ تھے۔ اُس دور میں مسلمانوں کا مذہبی فکر چونکہ تصوف اور فقہ کے خانوں میں بٹا ہوا تھا، اس لیے اولاً یہاں فکر اسلام کی عملی شکل کا ظہور تصوف کے مختلف سلاسل اور فقہ حنفی کی صورت میں ہوا۔ تاہم اس کے بعد پہلے شیخ عبدالحق محدث دہلوی اور پھر شاہ ولی اللہ کے اثر سے علم حدیث کے اثرات آنا شروع ہوئے۔ شاہ ولی اللہ اور ان کے دو بیٹوں یعنی شاہ عبدالقادر اور شاہ رفیع الدین نے ترجمہ قرآن کا وہ سلسلہ شروع کیا جس کی بنا پر لوگوں کی قرآن مجید تک رسائی ہونے لگی۔ جبکہ علماء کے لیے اصول تفسیر پر شاہ صاحب نے الفوز الکبیر فی اصول التفسیر لکھ کر غور و فکر کی ایک نئی راہ کھولی۔

تفسیر قرآن کے مختلف دھارے
شاہ صاحب اور ان کے خانوادے کے ذریعے سے اٹھارہویں صدی میں شروع ہونے والا فہم قرآن کا یہ سفر انیسویں صدی میں جاری رہا۔ مسلمانوں کے مختلف اہل علم و دانش نے اپنے اپنے پس منظر میں قرآن مجید کو اپنی توجہات کا مرکز بنایا۔ انیسویں صدی کے سائنسی فکر اور عقلیت کے زیر اثر اسلام پر جو فکری حملہ ہوا تھا، اس کا جواب دینے کے لیے سرسید نے اپنے رسالے تہذیب الاخلاق میں قرآن مجید کی تفسیر کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ اسلام پر تعلیم یافتہ طبقات کا اعتماد بحال رکھنے کی ایک کوشش تھی، مگر اس میں انیسویں صدی کی سائنس کو معیار مان کر اسلامی معتقدات کی تشریح کی جو کوشش کی گئی تھی، اس پر سخت تنقیدیں ہوئیں۔

اس سلسلے کا سب سے منظم تفسیری جواب مولانا عبدالحق حقانی دہلوی کی تفسیر حقانی کی شکل میں سامنے آیا جواسی زمانے میں لکھی گئی روایتی دینی حلقے کی ایک اہم تفسیر بھی ہے۔ اس کے بعد آنے والی تفاسیر میں سے جو تفاسیر روایتی طرز کی نمائندہ کہی جاسکتی ہیں، ان میں مولانا اشرف علی تھانوی کی بیان القرآن اور مولانا محمود الحسن کا ترجمہ جس پر حواشی لکھنے کا بیشتر کام مولانا شبیر احمد عثمانی نے کیا، نمایاں ہیں۔ یہ گویا کہ تفسیر کا دوسرا دھارا تھا جو اس زمانے میں برصغیر میں نمایاں ہوا۔ بیسویں صدی کے اسی ابتدائی زمانے میں تفسیر قرآن کے تیسرے دھارے پر امام فراہی خاموشی سے کام کر رہے تھے۔ مگر اس وقت تک ان کا کام صرف علما اور ان کے شاگردوں تک محدود تھا۔
احیائے اسلام کی فکر اور قرآن فہمی کا عمومی ذوق اٹھارہویں صدی سے بیسویں صدی کے آغاز تک کا یہ زمانہ مسلمانوں کے عالمگیر زوال کا زمانہ تھا۔ دوسری طرف یورپی قوتیں بتدریج غلبہ حاصل کر رہی تھیں۔ ہندوستان میں یہ سیاسی زوال بدرجہ اولیٰ جاری تھا۔ شاہ صاحب کی وفات (1762ء) کے بعد ایک صدی کے اندر اندر 1857 میں ہندوستان سے مسلمانوں کا اقتدار ختم ہوگیا۔ 1914 میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی اور سلطنت عثمانیہ کا سورج بھی غروب ہوگیا۔

بیسویں صدی کے آغاز پر مسلمانوں کا سیاسی زوال اپنے نقطہ عروج پر پہنچ چکا تھا۔ اس سیاسی زوال کے زیر اثر مسلمانوں میں احیائے اسلام کی فکر پیدا ہوئی جس کا مطمع نظر ایک دفعہ پھر دنیا پر اسلام کی عظمت کو غالب کرنا تھا۔ اس فکر کے حاملین وہ اہل علم تھے جنھوں نے پچھلے تینوں تفسیری دھاروں کی طرح قرآن کے ترجمہ و تفسیر کا کام کرنے کے علاوہ عوام الناس میں قرآن فہمی کا ذوق بھی پیدا کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے صحافت کے نئے نئے عام ہونے والے انتہائی موثر ذریعہ ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے خیالات کو وسیع پیمانے پر عوام میں پھیلانا شروع کر دیا۔ احیائے اسلام اور دعوت الی القرآن کا نعرہ لگانے اور صحافت کے ذریعے سے بہت وسیع پیمانے پر اپنے خیالات کا ابلاغ کرنے والے یہ اہل علم مولانا آزاد اور مولانا مودودی ہیں۔ مولانا آزاد نے احیائے اسلام کی صدا بلند کی اور ساتھ میں ترجمہ و تفسیر کا کام بھی کیا۔ مگر عملی سیاست میں ان کی دلچسپی ان کے تفسیری اور فکری کام میں رکاوٹ بنی رہی اور ان کی تفسیر ’’ترجمان القرآن‘‘ مکمل نہ ہوسکی۔ مولانا مودودی نے عملی سیاست سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے صرف فکری محاذ پر خود کو وقف کیا اور اپنے رسالے ترجمان القرآن سے احیائے اسلام کو ایک پوری فکر کی شکل میں منظم کر کے پیش کیا جس کی اساس قرآن مجید پر رکھی گئی تھی۔

قرآن مجید کا یہی وہ پس منظر تھا جس کی بنا پر مولانا مودودی نے مولانا آزاد کی طرح جنھوں نے الہلال اور البلاغ کے ذریعے سے دعوت الی القرآن کی صدا بلند کی تھی، عوام الناس خاص کر پڑھے لکھے لوگوں کو قرآن مجید کی طرف متوجہ کیا۔ اس سلسلے میں ان کی تفسیر تفہیم القرآن نے جس کا ترجمہ سلیس و آسان اور تفسیر معلوماتی تھی، بہت اہم کردار ادا کیا۔ اسی سلسلے کو ڈاکٹر اسرار مرحوم نے مزید آگے بڑھایا۔ وہ فکری طورپر اسی احیائے اسلام کو خلافت کے عنوان سے پیش کرتے رہے اور ساتھ میں آزاد کی دعوت الی القرآن کو رجوع الی القرآن کی اپنی ایک تحریک کی شکل میں عملی قالب دینے میں کامیاب رہے۔ ڈاکٹر صاحب چونکہ ایک زبردست مقرر تھے اس لیے انھوں نے زبانی طور پر تفسیر قرآن کرکے ٹیلی ویژن، آڈیو کیسٹس اور پھر زندگی کے آخری زمانے میں انٹرنیٹ کے ذریعے سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو قرآن مجید کی طرف متوجہ کیا۔

تفسیر کے تمام فکری دھاروں کے برعکس یہ اس دھارے کے بزرگوں کا بڑا کام ہے کہ انھوں نے عوامی ذرائع اختیار کرکے قرآن مجید کا ذوق بہت بڑے پیمانے پر عوام اور خاص کر پڑھے لکھے لوگوں میں پیدا کر دیا ہے۔ بیسویں صدی میں قرآن مجید کے حوالے سے عملی طور پر کی جانے والی یہ وہ بے مثال خدمت ہے جس کی کوئی نظیر کہیں اور نہیں ملتی۔

اصل مسئلہ اور اس کے اسباب
ان بزرگوں کی یہ خدمت اپنی جگہ بہت اہم ہے، مگر ایک صدی کی اس مساعی جلیلہ اور جان و مال کی تمام تر قربانیوں کے باوجود ایک طرف احیائے اسلام کا خواب ہنوز تشنہ تعبیر ہے اور دوسری طرف انسانیت وہ سیرتیں دیکھنے کو ترس رہی ہے جو صحابہ کرام کی شکل میں قرآن مجید کی دعوت نے پیدا کی تھیں۔

ہمارے نزدیک پہلے المیے کا بنیادی سبب اس حقیقت کو نہ جاننا اور نہ ماننا ہے کہ خدا کی دنیا میں قوموں کو غلبہ اور عروج دو بنیادی اوصاف کی بنا پر ملتا ہے۔ ایک مروجہ علم اور ٹیکنالوجی میں مہارت اور توانائی کے ذخائر پر کنٹرول سے۔ دوسرے اخلاق میں برتر مقام حاصل کرنے سے۔ گویا علم و اخلاق دنیا میں غلبے اور اقتدار کی کنجی ہیں۔ اس میں سے علم ( مادی علوم) تو مذہبی فکر کا براہ راست نہ تو موضوع تھا نہ انھوں نے اس حوالے سے معاشرے کو حساس بنایا۔ البتہ اخلاقی تربیت مذہبی فکر کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہوتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے یہاں ایک ایسی علمی غلطی ہوئی جس نے معاشرے کے اخلاقی زوال کا راستہ ہموار کر دیا۔

وہ غلطی یہ تھی کہ قرآن مجید جس کی اصل دعوت ایمان و اخلاق کی دعوت ہے اور جس کی دعوت کو قبول کرنے کے بعد دنیا نے صحابہ کرام کی شکل میں اعلیٰ ترین انسانوں کی سیرتیں دیکھی تھیں، اس قرآن عظیم کو احیائے اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والے کارکن پیدا کرنے والی کتاب بنا دیا گیا۔ یہ اس وجہ سے ہوا کہ احیائے اسلام کی فکر جس چیز کو نصب العین یا ہدف بنا کر ایک فرد کے سامنے رکھتی ہے وہ اسلام کا سیاسی غلبہ ہے۔ یہ ایک خارجی ہدف ہے۔ جب کسی شخص کا اصل ہدف خارج میں تبدیلی بن جائے تو نفسیاتی طور پر یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ اپنے داخل کو اصل نشانہ بنائے۔ ایسے شخص کی توجہ ہمیشہ خارج کی طرف رہے گی۔ اس کا باطن بدترین خرابیوں کی آماجگاہ بن جائے گا اور اسے خبر تک نہ ہوگی۔

تاہم ایسا نہیں ہوگا کہ دینی احکام کی فہرست سے یہ شخص ایمان و اخلاق کو نکال دے گا۔ مگر یہ کبھی اس کا اصل مسئلہ نہیں بنیں گے۔ جبکہ انسانوں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کا پورا فکر و عمل اسی چیز کے ارد گرد گھومتا ہے جسے ان کے نزدیک مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ قرآن مجید اسی وجہ سے ایمان و اخلاق کو انسان کے اصل ہدف کے طور پرسامنے رکھتا ہے۔ وہ صاف بتاتا ہے کہ آخرت کی نجات انھی پر موقوف ہے۔ وہ اس بات کو اختصار سے بھی دہراتا رہتا ہے اور جگہ جگہ اس کی تفصیل بھی بیان کرتا ہے۔ دہرانے کا یہ عمل اس لیے کیا جاتا ہے کہ انسانی نفسیات ایک دفعہ کی بات کا اثر قبول نہیں کرتی۔ چنانچہ بار بار ایمان و اخلاق کی دعوت کو سامنے لا کر قرآن چاہتا ہے کہ لوگ نفسیاتی طور پر خدا سے متعلق ہوجائیں اور عملی طور پر اعلیٰ ترین اخلاقی معیارات کے حامل بن جائیں۔

احیائے اسلام کی فکر کا سیاسی پس منظر
تاہم بدقسمتی سے احیائے اسلام کی فکر جس نے قرآن کو سب سے بڑھ کر عام کیا وہ اصلاً مسلمانوں کے ہمہ گیر سیاسی زوال کے پس منظر سے اٹھی تھی جو انیسویں اور بیسویں صدی کے آغاز کے وقت پھیلا ہوا تھا۔ احیائے اسلام کی فکر کے ظہور کے وقت حالات یہ تھے کہ بیسویں صدی کے آغاز پر بارہ سو برس تک دنیا کی سول سپر پاور رہنے والے مسلمانوں کی حکومت دنیا کے صرف تین فی صد حصے پر باقی بچی تھی اور دنیا کے چوراسی فی صد حصے پر یورپی طاقتوں کا قبضہ تھا۔ یہی نہیں بلکہ اس سیاسی زوال کو روکنے کی ہر تدبیر پے در پے ناکامی سے دوچار ہو رہی تھی۔ 1757 کی پلاسی کی شکست، 1799 میں ٹیپو سلطان کی شکست، 1841 میں سید احمد شہید کی تحریک مجاہدین کی شکست اور 1857 کی جنگ آزادی کی شکست کے علاوہ برصغیر سے باہر سنیاسی تحریک، عمر مختار، امام شامل، مھدی سوڈانی، عبدالکریم الخطابی اور سب سے بڑھ کر پہلی جنگ عظیم میں خلافت عثمانی کی شکست سمیت ناکامیوں کی ایک طویل قطار نے مسلم ذہن کو زبردست صدمے سے دوچار کر دیا تھا۔

ایسے میں نہ احیائے اسلام کی صدا کا بلند ہونا غیر متوقع تھا نہ اس صداا کو پذیرائی ملنا کوئی عجیب بات تھی۔ یہ ایک تاریخی جبر تھا۔ بدقسمتی سے اس تاریخی جبر کے ساتھ جب قرآن مجید کی دعوت اٹھی تو خالص بے آمیز طریقے پر قرآن مجید پر غور و فکر اس کے ساتھ نہ تھا۔چنانچہ اس نے سیاسی غلبہ کو مذہبی فریضہ بنا کر عام لوگوں کو اس کام کے لیے اٹھا دیا۔ مسلم اشرافیہ اور غیر مسلموں کے خلاف ختم نہ ہونے والی ایک جنگ شروع ہوگئی۔ اس کے نتیجے میں جو تباہی ہوچکی ہے وہ سر کی آنکھوں سے دیکھی جاسکتی ہے۔ مگر اب تباہی کو ہی گلیمیرائز کر دیا گیا ہے۔ زوال پذیر امتوں کی تاریخ میں یہ مکمل تباہی سے پہلے کا مرحلہ ہوتا ہے۔ اور اس مکمل تباہی کی وجہ وہ اخلاقی زوال بنے گا جو قرآن کی اصل دعوت کو چھوڑنے کے نتیجے میں پیدا ہوچکا ہے۔

تباہی سے بچنے کا راستہ
اس آنے والی مکمل تباہی سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ قرآن مجید کی ایمان و اخلاق کی دعوت کو تحریک بنا دیا جائے۔ اس کے لیے بہت زیادہ محنت کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اصل دعوت بیان کرنے میں قرآن مجید بالکل واضح ہے۔ یہ حقائق قرآن کے ہر صفحے پر بکھرے ہوئے ہیں۔ قرآن نے جگہ جگہ ایمان و عمل صالح پر جنت کی بشارت دی ہے۔ درجنوں مقامات پر ان اعمال صالح کی تفصیل کرکے بتا دیا ہے کہ یہی اصل مطلوب ہے۔ ان مقامات میں سے اہم ترین کو ہم نے اپنی کتاب ’’قرآن کا مطلوب انسان ‘‘ میں جمع کر دیا ہے۔

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگ اپنے ہر تعصب اور خواہش سے اوپر اٹھ کر قرآن کے اصل پیغام کو سمجھیں۔ اس کی دعوت کو اپنی زندگی بنائیں۔ اس کے پیغام کو اپنی سیرت بنائیں۔ جب اس طرح کے لوگ معاشرے میں بتدریج بڑھنا شروع ہوتے ہیں تو ہر طرف خیر پھیلنے لگتی ہے۔
ایک ایک خاندان، ایک ایک محلہ اور ایک ایک بستی میں ہدایت کا نور پھیلنا شروع ہو جاتا ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ پورا معاشرہ اسلامی اخلاق کا نمونہ بن جاتا ہے۔ کوئی جبر نہیں ہوتا۔ کوئی دھونس اور دھمکی نہیں دی جاتی۔ کوئی حکم ٹھونسا نہیں جاتا۔ لوگوں کے قلوب قرآن کی دعوت سے مسخر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ دنیا اور آخرت کی ساری بھلائیاں اس معاشرے کا مقدر ہوتی ہیں۔ یہ نہ ہو اور بالجبر اقتدار پر قبضہ کرکے زبردستی اسلام کا نعرہ لگا دیا جائے تو سوائے منافقت اور جبر کے کچھ سامنے نہیں آتا۔ یہی وہ چیز ہے جس کو پچھلے کئی عشروں سے دنیا نے دیکھا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اسلام کی اصل دعوت دنیا تک پہنچے۔ یہ انشاء اللہ العزیز اب ہو کر رہے گا۔ لوگ بدلیں یا نہ بدلیں۔ اصل دعوت انشاء اللہ ہر ہر شخص تک ضرور پہنچ کر رہے گی۔

ٖٖحضور کے غلبے کی نوعیت
اس گفتگو کے آخر میں مناسب ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنی قوم پر غلبہ کی درست نوعیت کو بھی واضح کر دیا جائے۔ کیونکہ اسے نہ سمجھنے کی بنا پر ان اہل علم کو یہ غلط فہمی ہوئی تھی کہ یہ کوئی سیاسی جدوجہد کے ذریعے سے حاصل کی گئی کامیابی تھی۔
حضور کا اپنی قوم پر غلبہ دراصل خدا کی اس سزا و جزا کا ظہور تھا جو ہر رسول کی آمد کے موقع پر اس کی قوم کے لیے برپا کی جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کے لیے خدا کا فیصلہ اسی طرح لے کر آئے تھے جس طرح حضرات نوح، ہود، صالح، شعیب، موسیٰ اور اللہ تعالیٰ کے دیگر رسول علیھم السلام لے کر آئے تھے۔ صرف اس فرق کے ساتھ کہ ان رسولوں کے معاملے میں تکذیب کے بعد عذاب الٰہی فطرت کی طاقتوں کے ذریعے سے آیا تھا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قوم کی ایک بڑی تعداد ایمان لے آئی تھی، اس لیے اس دفعہ یہ فیصلہ ہوا کہ ان صحابہ کے ہاتھوں منکرین کو سزا دی جائے گی (التوبہ14:9)۔ تاہم سوائے قریش کی لیڈرشپ کے پوری قوم ایمان لے آئی۔ ان کو انعام کے طور پر زمین کا اقتدار دے دیا گیا،(النور55:24)۔ کیونکہ رسولوں کے باب میں یہی قانون خداوندی ہے کہ ان کے منکرین دنیا میں ہلاک کردیے جاتے ہیں اور ماننے والوں کو زمین کا وارث بنایا جاتا ہے۔

قرآن مجید اس پورے معاملے کی نہ صرف تفصیل کرتا ہے بلکہ ہر مقام پر صاف بتاتا ہے کہ جو ہو رہا ہے وہ خالص خدائی فیصلے کا ظہور ہے۔ مثال کے طور پر ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ (اس سرزمین کے) تمام ادیان پر اسے غالب کر دے، خواہ مشرکین اسے کتنا ہی ناپسند کریں۔‘‘

دیکھ لیجیے کہ کس طرح یہ آیت حضورکے غلبہ دین کو خدا کا اٹل فیصلہ قرار دے رہی ہے۔ قرآن میں یہ بات تین جگہ دہرائی گئی اور دنیا نے بچشم سر یہ دیکھا کہ کس طرح خدا نے اپنے وعدے کو پورا کر دکھایا۔ اس آیت کے نزول کے تھوڑے ہی عرصے بعد سرزمین عرب پر دین حق کا غلبہ ہوگیا۔ یہ ایک سچے نبی کی پیش گوئی تھی جو حضور کی زندگی ہی میں اور مشرکین عرب کی تمام تر مخالفت کے باوجود بعینہٖ پوری ہوگئی۔ اور اب یہ قرآن میں حضور کی سچائی کا ابدی ثبوت بن کر ہمیشہ کے لیے درج ہے۔

یہ بات اگر سمجھ لی جائے تو اسلام کی حقانیت کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا ایک بے مثال ذریعہ ہے۔ نہ سمجھی جائے تو نہ پہلے تباہی کے سوا کسی اور چیز کا اضافہ ہوا نہ آئندہ ہونے کا کوئی امکان ہی موجود ہے۔ ہم اللہ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ہر تباہی اور بربادی سے محفوظ رکھے اور بجائے کسی سزا کے ہمیں ہدایت سے نوازے۔

جہاں رہیے بندگان خدا کے لیے باعث رحمت بن کر رہیے، باعث آزار بن کر نہ رہیں۔